Inquilab Logo

انٹرویو کی ایک تکنیک ایکس کیو

Updated: May 30, 2021, 5:06 PM IST | Professor Sayed Iqbal

اس تکنیک کے تحت امیدوار سے مختلف قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں اور جوابات کا تجزیہ کرکے ایسے امیدوار کا انتخاب کیاجاتا ہے جو اس ادارے کیلئے مفید ثابت ہوسکے۔یہ ایک ایسا بے نام اور اَن دیکھا امتحان ہے کہ اس کی تیاری کیلئےکوئی طریقہ طے نہیں کیا جاسکا ہے

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

اپنےعشق کی طرح ’ہراُمید وار‘ اپنا پہلا انٹرویو بھی کبھی نہیں بھولتا۔ اس دن اس نے کون سے کپڑے پہنتے تھے، اپنی  باری کا کتنی دیر انتظارکیاتھا، پینل پر کتنے صاحبان موجودتھے، اس سے کیا کیا پوچھاگیا تھا، کس سوال کا اس نے اطمینان بخش جواب دیا تھا اورکس سوال پر وہ گڑبڑا گیا تھا، ایسی ساری کیفیات زندگی بھر یاد رہ جاتی ہیں۔ وہ زمانہ تو نہیں رہا کہ کسی عزیز نے آپ کی سفارش کردی اور فوراً آپ کا تقرر ہوگیا۔ اب تو درخواستیں دینی پڑتی ہیں ، سوالنامے پُرکرنے ہوتے ہیں، گروپ ڈسکشن میں حصہ لینا پڑتا ہے، پھر ایک سے زائد انٹرویو کے بعد آپ کا انتخاب عمل میں آتا ہے ۔ اور انٹرویو بھی ایسے کہ دانتوں لگے پسینہ آجائے۔ یار لوگ ایسے سوالات کرتے ہیں کہ کبھی کبھار جی چاہتا ہے انٹرویو لینے والوںکو گالیاں دیتے ہوئے باہر نکل جائیں لیکن ملازمت کا متلاشی خواہ کتنی ہی اعلیٰ ڈگریاں رکھتا ہوں اورکتنا ہی تجربہ کارہو، انٹرویو کی چکّی میں پِسے بغیر منتخب نہیں ہوسکتا۔ ایسا نہیں ہے کہ انٹرویو کے بغیر کسی معقول آدمی کو نہیں چُنا جاسکتا بلکہ بعض اوقات جو صاحب کسی انٹرویو کے بغیر رکھ لئے جاتے ہیں، نہایت مفید ثابت ہوتے ہیں اور کبھی انٹرویو کا سب سے کامیاب امیدوار نہایت بودا اور فضول نکلتا ہے، اسلئے انٹرویو کے مخالفین کا کہنا ہے کہ چند منٹوں یا گھنٹے آدھ گھنٹے میں آپ کسی کو مکمل طورپر نہیں جانچ سکتے۔ ہوسکتا ہے کوئی نااہل امیدوار چالاکی سے آپ  کے سوالوں کے جواب دے دے اوراپنی ذہانت کی نمائش کرکے ملازمت حاصل کرلے۔اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک قابل امیدوارکسی سبب آپ کو تشفی بخش جواب نہ دے پائے، اپنی چرب زبانی سے پینل کو بیوقوف نہ بناسکے اور اپنی ملازمت کھوبیٹھے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے، ایک مسلم ادارے کے سربراہ کیلئے ایک ایسے امیدوار کا انتخاب کیا گیا جس نے طویل انٹرویو کے دوران نماز کیلئے اجازت مانگی تھی۔ موصوف کی یہ ادا پینل پربیٹھے مومنین کواتنی پسندآئی کہ انہیں فوراً چن لیا گیا جبکہ ان سے بہتر اوراہل امیدوار پینل کو بیوقوف بنانے میں ناکام رہے۔ اس امیدوار نے مستقبل میں اس ادارے کو کس قدر نقصان پہنچایا، یہ کہانی پھر سہی۔ یہ حقیقت ہے کہ اکثر امیدوار اس مختصر سی ملاقات کو اس عیاری سے استعمال کرتے ہیں کہ ان کی ساری خامیاں پس منظر میں چلی جاتی ہیں اور جب پردہ اٹھتا ہے تو بڑی دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
 یہ تو ہم میں سے بیشتر حضرات جانتے ہیں کہ اکثر اداروں میں پہلے ہی طے کرلیاجاتا ہے کہ کس کا تقرر کرنا ہے۔ ادارے کے منتظمین اس بددیانتی کیلئے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ جب ادارے کیلئے فنڈز ہم مہیا کرتے ہیں اور برسوں سے کامیابی  سے چلا بھی رہے ہیں تو کوئی ناپسندیدہ شخص  ہمارے ادارے میں کیوں داخل ہو؟ اس طرح تو ہماری برسوں کی محنت خاک میں مل جائے گی۔ بالفاظ دیگر ، ایک وفادار اور فرماںبردار غلام کا تقرر کرکے ہم اپنا اقتدار باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ اب اس تقرری کیلئےلازمی پابندیوں کو اس خوبصورتی سے پورا کیاجاتا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ اس کار خیر میں سرکاری نمائندے اور ایکسپرٹ بھی پہلے سے رام کرلئے جاتے ہیں اور اشتہار کے جواب میں آنے والے امیدواروں سے یہ ڈراما اس سنجیدگی سے کھیلا جاتا ہے کہ ان بیچاروں کو احساس تک نہیں ہوپا تاکہ وہ کسی دوسرے شخص کی کامیابی کیلئے خانہ پری کررہے ہیں۔ اس کا روبار میں چاہے فرقہ واریت کا رول آج بڑھ گیا ہو لیکن علاقائیت ، نظریاتی وابستگی اور مذہب و زبانِ ہمیشہ سے ’فعال‘ رہے ہیں۔ اسلئے یہ کہنا کہ انٹرویو کی مشق سے ہمیں لائق وفائق امیدوار مل جائیں گے ، صرف خود فریبی ہے۔
 امریکہ  میں لوگوں کو تقرر کرنے میں انٹرویو ایک طویل عرصے سے مقبول طریقہ  ٔ کار رہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران یہ جاننے کیلئے کہ کون سے فوجی گولیوں اور بموں کے دھماکوں سے خوف زدہ رہتے ہیں، کمانڈرس نےکچھ سوالات ترتیب دے کر فوجیوں کے انٹرویو لینا شروع کئے تھے اور اس سے خاطر خواہ نتیجے بھی برآمد ہوئے۔ جنگ کے خاتمے پر  بڑی بڑی کمپنیوں اور فیکٹریوں کے مالکان کو جب مزدوروں کی یونین ستانے لگیں تو یونین کے حامیوں کو نکالنے کیلئے انہوں نے انٹرویو کی تکنیک ہی اپنائی۔ پھر وقت کے ساتھ یہ تکنیک اس قدر مقبول ہوتی گئی کہ شخصی خوبیوں کی باقاعدہ درجہ بندی ہونے لگی۔ ہر ادارے نے اپنی ضرورت کے مطابق سوالنامے بنانے شروع کردیئے ۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انٹرویو کے پینل پر ماہرینِ نفسیات کو بھی بٹھایاجانےلگا۔ امیدواروں کو پوری طرح کھنگالنے کیلئے ایسے ایسے سوالات مرتب کئے گئے کہ ایک طبقے نے اس کواپنی ذاتی زندگی پر حملہ جانا اور باقاعدہ احتجاج کیا ۔ اس کے باوجود انٹرویو  ایک کامیاب طریقہ  ٔ کار کی حیثیت  سے باقی رہا۔ آج  بھی دنیا کے ہر ملک میں جب کہیں کوئی اسامی نکلتی ہے توامیدواروں کا انٹرویو لے کر ہی وہ اسامیاں بھری جاتی ہیں۔
  کبھی انٹرویو کے توسط سے صرف ذہانت کی جانچ کی جاتی تھی اوراس کیلئے Intelligence Quotientبنایا گیا تھا۔ پھر۹۰ء کی دہائی میں یہ خیال جڑ پکڑنے لگا کہ صرف ذہانت ہی کسی کو کامیاب نہیں بناتی بلکہ امیدوار کے جذبات اور احساسات بھی اس کی کامیابی میں اتنا ہی اہم رول ادا کرتے ہیں اس لئے Emotional Quotient ترتیب دیا گیا۔ EQ کے ذریعہ یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کون صاحب کس وجہ سے غصہ ہوتے ہیں؟کچھ کا موڈ اکثر کیوں خراب  رہتا ہے؟ کچھ حضرات محبت اور نفرت کرنے میں انتہا پسند کیوں ہوتے ہیں؟ کچھ کو مل جل کر کام کرنا کیوں پسند ہے اور کچھ اس کے کام کرنے پر کیوں اصرار کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ ۔ اب IQ اور EQ کو بھلاکر کسی امیدوار کے متعلق  ہر طرح کی معلومات اکٹھا کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے اوراس ڈاٹا کو اکٹھا کرکے اس کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کا چلن شروع  ہوچکا ہے۔ لہٰذا اب ایک امیدوار سے مختلف قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں اور جوابات کا تجزیہ کرکے ایسے امیدوار کا انتخاب کیاجاتا ہے جو اس ادارے کیلئے مفید ثابت ہوسکے۔ چونکہ اس تکنیک کو ابھی تک کوئی نام نہیں دیا گیا ہے اس لئے لوگ باگ اسے X Quotientکہتے  ہیں۔ کیوں کہ یہ ایسا بے نام اور ان دیکھا امتحان ہے کہ اس کی تیاری بھی نہیں ہوسکتی۔ اولاً تو غیر متعلق اور گنجلک سوالات سن کر ہی اچھا خاصا امیدوار یہ سمجھ نہیں پاتا کہ وہ کس عہدہ کیلئے انٹرویو دینے آیا ہے۔ اس پر پینل پر بیٹھے حضرات کے متواتر حملے اورآپ کے صبر واعتماد کی آزمائش۔ غرـض سوالات کے تیر برستے رہتے ہیں اورآپ اپنے بچاؤ میں پوری طاقت صرف کردیتے ہیں۔ اس پر بھی یقین نہیں ہوتا کہ آپ بہ سلامت لوٹ  پائیں گے یا نہیں۔ مثلاً آپ سے پوچھا گیا کہ پچھلے سال آپ نے کتنی کتابیں پڑھی تھیں؟ جس کے جواب  میں آپ  نے کہہ دیا کہ تقریباً ۹،۱۰؍ کتابیں پڑھی  ہیں تو دوسرا سوال ہوگا کہ پورے سال میں صرف دس کتابیں ہی کیوں پڑھیں؟ ارے جناب!  اس دوران میں نے ایک کورس بھی مکمل کیا، اپنے بیٹے سے متعلق کچھ اور مصروفیات بھی تھیں لیکن وہ یہی کہیں گے کہ آپ چاہتے تو مزید کتابیں پڑھ سکتے تھے۔ پھر اچانک دوسری جانب سے ایک سوال آئے گا کہ کیا آپ نے کبھی مشہور ہونے کے خواب دیکھے ہیں؟ اب آپ نے مسکرا کر  جیسا تیسا جواب دے بھی دیا تو تیسرا سوال ہوگا کہ آپ کو کن کن باتوں پر غصہ آتا ہے؟ اس کا بھی جواب دے دیا تو پہلے صاحب دوبارہ آپ سے مخاطب ہوں گے کہ کیا کسی نے آپ کو مخبوط الحواس یا پاگل کے لقب سے نوازا ہے؟ اس پرآپ  بھنّا اٹھتے ہیں مگراس دوران ایک اور سوال آپ پر بجلی بن کر گرتا ہے کہ آپ کبھی آرٹ اور مصوری کی نمائش دیکھنے گئے ہیں؟
 غرض آپ کے جوابات کے اسکور سے ایک ایسی شخصیت ابھرنے لگتی ہے، جو ہوسکتا ہے اس ادارے کیلئے مفید ثابت ہو۔ اور خدانخواستہ اس انٹرویو کا ایک جواب آپ کو ناکام بنادے توآپ پر کیا گزرے گی، یہ بھی صرف آپ ہی جان سکتے ہیں۔ اب XQ کے حمایتی لاکھ کہیں کہ اس تکنیک کے  توسط سے صرف اہل اور قابل افراد ہی لئے جاتے ہیں، اقربا پروری اور سفارشات پر دھیان نہیں دیاجاتا تو ہم صرف اتنا کہیں گے کہ اس ناکام امیدوار کے دل سے پوچھئے کہ ایک غلط تجزیے سے اس کے کریئر کا کیا حشر ہوا؟ ویسے کوئی امیدوار وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ انٹرویو کے دن اس کا موڈ بالکل ٹھیک ہوگا، راستے میں کسی سے’ تو تو میں میں‘ نہیں ہوگی، وہ ٹھیک وقت پر پہنچ جائے گا، اس کے کپڑے مناسب ہوں گے اور وہ دن اس کا ’ اچھا دن‘ ہوگا۔ پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سوالات پریشان کرنے لگتے ہیں؟ خوداعتمادی متزلزل ہونے لگی ہے ، زبان گنگ  ہوجاتی ہے اور ایک لغزش  اس کی نااہلی کا ثبوت بن جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ سے نہایت آسان سوال پوچھے جائیں، آپ کا اندازگفتگو، مدلّل اور منطقی اندازبیان پینل کو مسحوکردے  آپ کی وجیہہ اور جاذب نظر شخصیت، آپ کی ڈگریاں اور تجربہ آپ کو کامیابی سے ہمکنار کردے۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہر امیدوار اپنے انٹرویو سے کامیاب وکامران لوٹے گا۔ جب لوگ IQ کی کھائیوں میں گرتے رہے ہوں، EQ کی دلدل میں  پھنستے رہے ہوں توضروری نہیں کہ وہ XQ  کی خاردار جھاڑیوں سے صحیح سلامت باہر نکل آئیں۔ بہرحال سوال کرنے اورانٹرویو لینے کی تکنیک ابھی عبوری مراحل میںہے اور ہرشخص اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔ ہوسکتا ہے آنے والے پانچ دس برسوں میںہم کسی تکنیک کو حتمی طورپر قبول کرنے کے قابل ہوسکیں۔ جب تک یہ نہیں ہوتا، ہرادارہ اپنے انداز میں انٹرویو لیتا رہے گا اورکسی کے نصیب کی بارش کسی دوسرے کی چھت پر ہوتی رہے گی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK