Inquilab Logo

اردو اور عربی کی نفاست ہمیں خطاطی کے قریب لائی ہے

Updated: October 11, 2021, 11:56 AM IST | Kazim Shaikh | Mumbai

منگیش نائیک ، سنسکرتی ڈھولے، دھنیہ نائراور گجیندرسریش دلارے وہ طلبہ ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے لیکن یہ بغیر کسی پریشانی کے خطاطی سیکھ رہے ہیں

Gajinder Suresh Dalare.Picture:INN
گجیندر سریش دلارے۔ تصویر: آئی این این

  دنیا کی ہرزبان میں خطاطی (کیلی گرافی ) کی اہمیت  رہی ہے۔ آج کمپیوٹر کے زمانے میں یہ فن دن بہ دن زوال پذیر ہوتا جارہا ہےاور اس فن کے ماہرین کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے لیکن اب بھی کچھ متوالے ایسے ہیں جو خطاطی کو کے فن کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کی آبیاری بھی کررہے ہیں۔گزشتہ ہفتے ان کالموں میں نے ہم نے فن خطاطی سکھانے والے کاتب محمود احمد عبدالحق شیخ اور ان کی کلاس الفاظ کیلی گرافی سینٹر کا ذکر کیا تھا ۔ اس ہفتے ہم ان کی کلاس میں تربیت حاصل کرنے والے ایسےچند طلبہ  سے آپ کا تعارف کراتے ہیں جو نہ صرف اس فن میں ماہر ہوتے جارہے ہیں بلکہ خطاطی کو ہر قیمت پر زندہ رکھنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ ان طلبہ کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی طالب علم کی مادری زبان اردو یا عربی نہیں ہےلیکن یہ اس فن اور زبان کی کشش ہے جو انہیں خطاطی کے قریب لارہی ہے۔منگیش نائیک ، سنسکرتی ڈھولے، دھنیہ نائراور گجیندرسریش دلارے، کاتب محمود احمد کے ان شاگردوں میں سےہیں جو اس فن کو بہت تیزی کے ساتھ سیکھ رہے ہیں اور نہایت ایمانداری سے اسے برت رہے ہیں  ۔ ان  طلبہ کا تعلق الگ الگ شعبوں سے ہے اور ان میں کچھ تو  ایسے ہیںجن کا پورا خاندان مصور ہے اور وہ خود بھی بہت اچھے  آرٹسٹ ہیں۔   فن خطاطی کے بارے میںمنگیش نائیک (۴۵) جو پیشے سے سول انجینئر اور اپنا   بزنس چلاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ملک اور  بیرون ملک میں  ہونے والی  نمائش میںشرکت کرتے رہنے کی وجہ سے  اس فن کے تعلق سے انہیں معلومات ملی اور پھرہم یہ سیکھنے کی جانب راغب ہوئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہخطاطی کی ایک نمائش میں کاتب محمود احمد شیخ سے  ملاقات  اور ان کےعربی رسم الخط اور نہایت خوبصورت انداز میں لکھے طغرے  دیکھ کر   دل باغ باغ ہوگیا  اوریہیں سے ہم  عربی رسم الخط کی خطاطی کی جانب  متوجہ ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ   ۵؍ زبانوں میں خطاطی کرسکتے ہیںجن  میں اردو انگریزی ، دیوناگری   ،گجراتی اور پنجابی شامل ہے۔   ممبئی میں رہائش پذیر سنسکرتی ڈھولے جن کی عمر ابھی صرف ۲۰؍ سال ہے اور وہ فونٹ ڈیزائنر بن گئی ہیں ۔ اس وقت  وہ  دیگر زبانوں  کے فونٹ ڈیزائن کرلیتی  ہیں۔سنسکرتی ڈھولے  کیلی گرافی کی پوری کلاس میں سب سے خوشخط لکھنے والی طالبہ  ہیں اور  بہت دلجمعی سے سیکھ رہی  ہیں۔ چونکہ سنسکرتی کا بیک گرائونڈ مصوری کا ہے اس لئے انہیں نفاست کے ساتھ لکھنا پسند ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بہت تیزی کے ساتھ نہ صرف سیکھ رہی ہیں بلکہ اس میں تجربات بھی کرنے کی کوشش کررہی  ہیں۔سنسکرتی بتاتی ہیں کہ وہ اردو اور عربی کا فونٹ بنانے کیلئےیہ فن سیکھ رہی  ہیں اور ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ اگر انہوں نے عربی میں نسخ اور ثلث کا فونٹ سیکھ لیا تو وہ طغرے وغیرہ لکھ کربہت بڑے پیمانے پر اس فن کو دنیا میں پیش کریںگی۔ وہ کہتی ہیں کہ’’ اگر مجھے کبھی قرآن پاک لکھنے کا موقع ملا تو اس کی بھی کتابت کروں گی ۔‘‘ سنسکرتی کے مطابق   میں خطاطی سیکھنے کے بعد اردو وعربی کا فونٹ بھی بناؤں گی کیوں کی میں   سافٹ ویئر  ڈیولپ کرنا جانتی ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ اردو اور عربی کی نفاست ہی انہیں خطاطی  کے قریب لائی ہے۔   اسی کلاس کی ایک اور طالبہ دھنیہ نائر جو  انٹیریئر ڈیزائننگ  کے شعبے سے وابستہ ہیں،کے مطابق میں عربی طغروں کی نمائش کا ارادہ رکھتی ہوں اور اس کی  خطاطی بہت محنت سے سیکھ رہی ہوں ۔میری ملاقات محمود سر سے خطاطی کی  ایک نمائش میں ہوئی تھی اور اس میں  میں نے   عربی  رسم الخط سیکھنے کی خو اہش کا اظہار کیا تھا  لیکن  ان پر یہ واضح کردیا تھا کہ میں اردو نہیں جانتی ۔ اس کے باوجود محمود سر نے ہمت دلائی اور کہا کہ میں خطاطی کے ساتھ ساتھ  اردو زبان بھی   سکھائوںگا اورمحمود سر نے اپنا وعدہ پورا کیا۔آج مجھے اردو بھی آتی ہے اور خطاطی بھی۔ میں بہت محنت سے دونوں ہی چیزیںسیکھ رہی ہوں۔ 
  اسی کلاس کے ایک اور طالب علم گجیندرسریش دلارے جو پیشے سے آرکیٹیکٹ ہیں، اپنے آرٹ ورک میں دیوناگری کے ساتھ اردو کو بھی شامل کر نے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ نمونے کے طور پر انہوں نے فن خطاطی کا ایک نمونہ بھی چھتری کے طور پر پیش کیا  ۔ انہوں نے کہا کہ  اردو  اورعربی کی خطاطی کا مستقبل روشن ہے۔ ہمیں صرف اپنا طریقۂ کار بدلنا ہوگااور صرف روایتی خطاطی نہیں بلکہ جدید تقاضوں کو بھی ملحوظ  رکھنا ہوگا۔   فن خطاطی میں استادکی حیثیت رکھنے والے کاتب محمود عبدالحق شیخ  نے ان تمام طلبہ کےمستقبل کو نہایت روشن قرار دیا اور کہا کہ ایسے طلبہ اور ان کے جوش و جذبے کی وجہ سے ہی  اردو وعربی خطاطی کا مستقبل روشن ہےلیکن ہمیں اپنے اندر بھی کچھ تبدیلیاں لانی ہوںگی۔مثلاً ہمارے یہاں ایک سوچ ہے کہ کاتب کا کام صرف قلم سے لکھنا ہے۔میں نے  خلیجمیں ملازمت کے دوران فن خطاطی کے مصری اساتذہ   سے دریافت کیا تھا کہ آپ کے ملک میں خطاطی کیسے سیکھائی جاتی ہے؟ انہوں نے کہا تھا کہ قلم کے علاوہ برش اورپنسل  سے بھی اس آرٹ کی بھر پور معلومات دی جاتی ہےاور آج کل اس کا ہی چلن ہے ۔ اسی طرح کے بہت سارے  طلبہ بھی ہماری کلاس میں  ہیں  جو اردو عربی کی فن خطاطی سیکھ کر زبان کی خدمت کررہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا مقصد اس فن کے ذریعہ اپنی معاشی حالت کو سدھارنا بھلے ہی ہے لیکن ان کی وجہ سے یہ فن دوبارہ  عروج پر پہنچنے کی سبیل بھی پیدا ہو رہی ہے۔  انہوں نے مزید کہا کہ کتابت سکھانے کا  ہمارے یہاں  روایتی طریقہ یہ ہے کہ ایک گھٹنا اٹھا کراس پر رکھ کرکتابت کی مشق کرائی جاتی ہے ہر چند کہ یہ  یہ طریقہ بہت اچھا ہے لیکن لڑکیوں  کے لئے مناسب نہیں ہے  اس لئے اب ٹیبل کرسی پر لکھنے کا نیا طریقہ شروع کیا گیا  جو کافی کارگر ثابت ہو رہا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ خطاطی کو آرٹ اور کمپیوٹر  سے جوڑدیں ۔ بیرونی ممالک میں فن خطاطی کو آرٹسٹوں نے اسی طرح کمپیوٹر سے مربوط کیا ہے ۔عربی  رسم الخط میں خطاطی کے طغرے لاکھوں روپے میں فروخت ہورہے ہیں ۔ نوجوانوں کے  ساتھ ساتھ اساتذہ کرام کے لئے بھی  انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ خطاطی ضرور سیکھیںکیونکہ طلبہ اپنے استاد کی تحریر کی نقل کرتے ہیں۔ اگر اساتذہ کا املاء اور رسم الخط کی معلومات درست ہوگی تو نئی نسل کو بہت فائدہ  پہنچے گا ۔اس کے علاوہ بچوں میں خطاطی کا شوق پیدا کرنا ہوگا۔ یہ کام اساتذہ  بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ہمارا تعاون بھی رہے گا کہ اسکول جب چاہیں ہم  وہاں آکر ان کو خطاطی کے اہم نکات سکھائیں گے۔ خواہ وہ ممبئی کے کسی بھی اسکول اور کالج  میں ہوں۔ کتابت سینٹر میں فن خطاطی سیکھنے والوں میں شمع شیخ، مدیحہ شیخ، حبیبہ خان اور ندا صدیقی یہ سبھی لڑکیاں بہترین طغرے نویسی کر رہی ہیں جبکہ رخسار شیخ،شفا شیخ اورحمیرہ شیخ قرآن مجید کی خطاطی سیکھ رہی ہیں۔ ان کے علاوہ مبارک شیخ بھی دلجمعی سے اردو خطاطی سیکھ رہے ہیں اور شبیر صاحب  جن کی عمر ۵۶؍ سال ہے وہ نہایت  دلچسپی کے ساتھ کوشش کررہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK