EPAPER
Updated: November 14, 2023, 3:20 AM IST | Abdullah Usmani | Mumbai
پہلی صدی ہجری خاتمہ پرہے آفتابِ نبوت ﷺکو نظرو ں سے غروب ہوئے زیادہ عرصہ نہیں بیتا اس کی روشن کرنیں دور دور تک پھیل کر انسانیت کوسچی راہ دکھارہی ہیں بعض آنکھیں اب بھی موجود ہیں۔
پہلی صدی ہجری خاتمہ پرہے آفتابِ نبوت ﷺکو نظرو ں سے غروب ہوئے زیادہ عرصہ نہیں بیتا اس کی روشن کرنیں دور دور تک پھیل کر انسانیت کوسچی راہ دکھارہی ہیں بعض آنکھیں اب بھی موجود ہیں جن میں رحمۃ اللعالمین ﷺ کے اسوئہ مبارک کا پورا نقشہ تازہ ہے مسلمانوں میں دیانت وایمان بھی آب وتاب سے چمک رہا ہے ساتھ ہی، شجاعت اور صداقت کے جذبات بھی موجزن ہیں، شمع اسلام عرب کے سنگلاخ پہاڑوں اور تپتے صحرائوں کو جگمگا کر، ایران، عراق، مصر، افریقہ، شام اور ہندوستان میں داخل ہورہی ہے، اہل اسلام اپنے سینوں میں دولتِ ایمانی کو سمائے اس کی اشاعت وفروغ کے لیے دوردراز ممالک پہنچ رہے ہیں، پیغمبر آخر الزماں ﷺ کے یہ وہ جاں نثار تھے جنھوں نے اس دور کی ہر طاغوتی قوت سے مردانہ وار مقابلہ کیا باوجود محدود ذرائع، قلیل تعداد، اور معمولی اسلحہ ان کی تلواریں دین وایمان کے آب سے چمک رہی ہیں اور ان کی گھن وگرج کے مقابل بڑے بڑے ہتھیار اور سورما فیل ہوچکے تھے، فدایان اسلام کی شمشیریں کسی کا ناحق خون بہانے یا کسی پر جبر وظلم کے لیے نیامو ں سے باہر نہیں نکلیں تھیں یہ تواس باطل اور فتنہ کی سرکوبی کے لیے تھیں (یازیادہ سے زیادہ ذاتی دفاع) جس کے جبروسائے تلے انسان اوراس کی عزت سسک رہی تھی، اشاعت ِ اسلام کاایک بھی واقعہ تاریخ میں ایسا نہیں جس میں محسن انسانیتﷺ کی تعلیم وتلقین کی نفی ہوتی ہے، جس سرعت اور دیانت داری سے اسلام کی شعائیں کرئہ ارض پر پھیلیں وہ بھی انسانی دنیا کی لازوال مثال ہے۔
عالم اسلام کی قابل قدر ہستی موسیٰ بن نصیر نہ صرف افریقہ کے گورنر ہیں بلکہ وہ ممتاز سپہ سالار بھی ہیں اپنے عدل وانصاف اور شجاعت کے لیے یورپ تک مشہور ہیں ان کی کوششوں سے ان کے سپہ سالار طارق بن زیادہ نے اندلس میں حق وانصاف کا پرچم لہرایا۔
اندلس کا جغرافیہ اور تمدن:
افریقہ سے قریب بارہ میل کا سمندر بحر ظلمات کو بحر متوسط سے ملاتا ہے اسی جزیرہ نما ملک کو اندلس، ہسپانہ(Spain)کہتے ہیں اس کے شمال میں جبل امرتات جو فرانس کوسرحد اندلس سے جدا کرتا ہے اور بے آف بکسے واقع ہے غرب کی جانب پرتگال اور بحر ظلمات جنوب کی طرف آبنائے طارق اور ملک افریقہ اس کی حدودسے ملتے ہیں،یہاں کے قدیم باشندے سیلٹ کہلاتے تھے یہ فرانس سے اس ملک میں وارد ہوئے تھے، اس کے بعد دیگر اقوام آئی بیری، فینقی اور قرطاجنی اس پر مسلط ہوتی رہیں۔
عربوں کی اندلس میں آمد:
۹۲ھ میں یہاں عیسائی حکمراں راڈرک تخت نشیں تھا جس کو عربی تاریخوں میں لزریق کہتے ہیں یہ نہایت بے رحم اور عیاش تھا اس کا ایک خاص شوق یہ تھا کہ وہ اپنی رعایا کے نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کو شاہی تربیت کے بہانے اپنے زیر اثر رکھتا تھا اور اپنی ہوس کا شکار بناتاتھا، چناں چہ اس کے ایک گورنر کونٹ جولین کی بیٹی فلورنڈا، بھی اس کے فعل قبیحہ سے نہ بچ سکی نتیجتاً نوعمر لڑکی نے اپنے باپ جولین کو اس حرکت سے باخبر کیا جس کی وجہ سے جولین کے دل میں راڈرک اور اس کی حکومت کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اہل اسلام موسیٰ بن نصیر کی قیادت میں شمالی افریقہ کے پیشتر حصوں کو اپنا وطن بناچکے تھے چناں چہ جولین ایک وفد لے کر موسیٰ بن نصیر کی چوکھٹ پر حاضر ہوا اور موسیٰ کو راڈرک کی تمام کرتوت سے آگاہ کیا اوردرخواست کی کہ وہ اسپین کو راڈرک جیسے سفاک، بدکردار، حاکم سے نجات دلائیں۔ جولین کی گزارش پر موسیٰ بن نصیر نے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے اندلس پر حملے کی اجازت طلب کی خلیفہ نے احتیاط کی تاکید کے ساتھ منظوری دے دی، موسیٰ نے ابتداء میں چند چھوٹی چھوٹی مہمات طنجہ سے اندلس روانہ کیں تاکہ حالات کا صحیح اندازہ ہوجائے یہ مہمات بہتر ثابت ہوئیں تو موسیٰ نے طارق بن زیاد کی زیر کمان ایک بڑا لشکر اندلس پر حملہ کے لیے روانہ کیا طارق کی فوج سات ہزار جاں باز مسلمانوں پرمشتمل تھی انہیں طنجہ سے اندلس پہنچانے کے لیے چار بڑی کشتیاں استعمال کی گئیں جوکئی دن تک مسلسل فوجی نقل وحرکت پر نظر لگائے تھیں، بالآخر پورا لشکر اندلس کے اس ساحل پر پہنچ گیا جو اب بھی جبل الطارق کے نام سے موسوم ہے، اندلس کے ممتاز مؤرخ مقری نے’’نفح الطیب‘‘ میں فتح اندلس کا واقعہ نہایت تفصیل سے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں طارق جب کشتی پرسوار ہوئے تو کچھ دیر بعداس کی آنکھ لگ گئی توانھیں خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت ہوئی انھوں نے دیکھا کہ آں حضرتﷺ خلفائے راشدین اور بعض دیگر صحابہ تلواروں اور تیروں سے مسلح سمندر پر چلتے ہوئے تشریف لارہے ہیں جب آپﷺ طارق بن زیادکے پاس سے گزرے تو آپﷺ نے فرمایا’’طارق بڑھتے چلے جائو‘‘ اس کے بعد طارق نے دیکھا کہ آں حضرت ﷺ اور آپﷺ کے مقدس رفقاء اس سے آگے نکل کر اندلس میں داخل ہوگئے، طارق کی آنکھ کھلی تو وہ بے حد مسرور تھے انہیں فتح اندلس کی خوش خبری مل چکی تھی انھوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ بشارت سنائی اوراس مژدہ نے مجاہدین کے حوصلوں کو کہیں سے کہیں پہنچادیا، علاوہ ازیں ایک دیگر واقعہ بھی تاریخ اندلس میں درج ہے کہ طارق اپنی جمعیت کے ہمراہ سرحد اندلس میں داخل ہوا اور لب ِ دریا جو شہر واقع تھے انھیں فتح کرتا ہوا آگے بڑھا اثنائے راہ میں ایک بڑھیا نے اس سے کہا کہ اس ملک کا توہی فاتح معلوم ہوتا ہے میرا شوہر بہت بڑا کاہن تھا وہ مجھ سے کہا کرتا کہ غیر قوم اندلس پر قابض ہوگی اس کے سپہ سالار کی پیشانی بلند اور اس کے بائیں شانے پر تل ہوگا اوراس تل کے گرد بال ہوں گے، میں جہاں تک غور کرتی ہوں تیری ہی پیشانی بلند پاتی ہوں، اگر تیرے وہ تل بھی تیرے جسم پر ہے تو بیشک تو و ہی شخص ہے جس کے متعلق میرے شوہر نے پیشین گوئی کی ہے طارق نے اپنے بائیں شانے کا تل اس بڑھیا کو دکھایا۔
ایک مشہور روایت ہے کہ جب جزیرہ نما اندلس کے کنارے پر طارق کا لشکر اترا تو اس نے اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ جیت یا موت کے سوا لشکر کے سامنے کوئی تیسرا راستہ نہ رہے اگر چہ یہ واقعہ نئی تاریخوں میں تو بہت عام ہے مگر فتح اندلس کی قدیم مستند تاریخیں اس کے ذکر سے خالی ہیں، اندلس کے نامور مؤرخ مقری نے اندلس کی ضخیم تاریخ ’’نفح الطیب‘‘ لکھی ہے جس میں یہ واقہ موجود نہیں ہے، علاوہ ازیں ابن خلدون اور طبری وغیرہ نے بھی کشتیاں جلانے کاتذکرہ نہیں کیا اس واقعہ کو علامہ اقبال نے بھی اپنے جذبات کا لباس پہنایا ہے؎
طارق جوبرکنارہ اندلس سفینہ سوخت٭گفتند کار توبہ نگاہ خرد خطاست
دویم از سوادِ وطن، بازچوں رسم؟٭ترک سبب زروئے شریعت کجارواست؟
بہر کیف طارق بن زیاد اوراس کے اولوالعزم فوجیوں کی ہمت اور شجاعت کی نظیریں بھی کم ملتی ہیں، چناں چہ طارق بن زیاد اپنے لشکر کے ساتھ جبل الفتح یا جبل الطارق کے ساحل پر خیمہ زن ہوا اور وہ وہاں سے ’’الجزیرۃ الخضر‘‘ تک ساحلی پٹی کو کسی خاص مزاحمت کے بغیر فتح کرلیا،لیکن تبھی راڈراک نے اپنے مشہور جنرل تدمیر(Theodomir)کو ایک بھاری لشکر دے کر طارق بن زیاد کے خلاف روانہ کردیا، مسلمانوں کے لشکرکے ساتھ پے درپے کئی لڑائیاں ہوئیں تدمیرکو ان میں شکست کامنھ دیکھنا پڑا حتی کہ اس کی فوج ایمانی جذبات سے سرشار سپاہ کے سامنے بالکل منتشر ہوگئی، تدمیر نے اپنے حاکم راڈراک کو خبر دی کہ جس قوم سے میرا واسطہ پڑا ہے وہ خداجا نے آسمان سے ٹپکی ہے یا زمین سے ابلی ہے اب اس کامقابلہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ آپ ازخود ایک بڑا لشکر جرار لے کر اس سے مقابلہ کریں، راڈراک نے اپنے سپہ سالار کا پیغام ملتے ہی سترہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک عظیم الشان محاذ تیار کیا اور طارق کی جانب کوچ کیا۔
ادھر موسیٰ بن نصیر نے بھی طارق بن زیادہ کی مدد کے لیے پانچ ہزار فوجیوں کی کمک روانہ کی جس کے پہنچنے کے بعد طارق بن زیاد کا لشکر بارہ ہزار پر مشتمل ہوگیا۔ حیرت انگیز بات ہے کہ کہاں ستر ہزار کاتربیت یافتہ جرار لشکر اور کہاں بارہ ہزار عربی سپاہی جو نہ صرف اس ملک کے لیے اجنبی تھے بلکہ اندلس کے جدید ہتھیاروں کے سامنے بھی بظاہر کچھ نہ تھے، مگر اسلامی فوج کے خون میں جو جذبات اور انقلابات برپا تھے ان کے سامنے چاہے آہنی دیوار یں ہوں یا سنگین پہاڑ سب بے وجود تھے، انھوں نے جس دین کا پرچم تھا ما تھا وہ نہ صرف دنیا میں تاریکی کو مٹانے کے لیے تھا بلکہ ایک ایسا روشن نظام حیات کا بھی ضامن تھا جس میں مادّی وروحانی دونوں کی فلاح کا رازمضمر ہے۔
چنانچہ وادی لکہ کے مقام پر دونوں لشکر روبرو ہوئے تو طارق نے اپنے لشکر قلیل کو جوخطبہ دیا تھا اب بھی عربی ادب وتاریخ میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے اس کے الفاظ کیا ہیں دلوں کی تمازت وتموج ہیں جن سے اسلامی لشکرمیں ایسا جوش ابھرا کہ وہ اپنی جانیں راہ خدا پر نچھاور کرنے پرفوراً تیار ہوگئے اس تقریر کے ایک ایک لفظ سے طارق کے عزم، ہمت اور اور سرفروشی کے جذبات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، خطبہ کے چند جملوں کا اردو ترجمہ یہ ہے:
’’لوگو! تمہارے لیے بھاگنے کی جگہ ہی کہاں ہے؟ تمہارے پیچھے سمندر ہے، اور آگے دشمن، لہٰذا خدا کی قسم تمہارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ تم خدا کے ساتھ کئے ہوئے عہد میں سچے اترو اور صبر سے کام لو، یادرکھو کہ اس جزیرے میں تم ان یتیموں سے زیادہ بے آسرا ہو جو کسی کنجوس کے دسترخوان پر بیٹھے ہوں، دشمن تمہارے مقابلے کے لیے اپنا پورا لائولشکر اوراسلحہ لے کر آیا ہے،اس کے پاس وافر مقدار میں غذائی سامان بھی ہے اورتمہارے لیے تمہاری تلواروں کے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں، تمہارے پاس کوئی غذائی سامان اس کے سوا نہیں جو تم اپنے دشمن سے چھین کر حاصل کرسکو، اگر زیادہ وقت اس حالت میں گزرگیا کہ تم فقر وفاقہ کی حالت میں رہے اورکوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکے توتمہاری ہوا اکھڑجائے گی، اور ابھی تک تمہارا جو رعب دلوں پر چھایا ہوا ہے،اس کے بدلے دشمن کے دل میں تمہارے خلاف جرأت وجسارت پیدا ہوجائے گی،لہٰذا اس برے انجام کو اپنے آپ سے دور کرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم پوری ثابت قدمی سے اس سرکش بادشاہ کا مقابلہ کرو، جو اس کے محفوظ شہر نے تمہارے سامنے لاکر ڈال دیا ہے، اگر تم اپنے آپ کو موت کے لیے تیار کرلو تو اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے۔ اور میں نے تمھیں کسی ایسے انجام سے نہیں ڈرایا جس سے میں خود بچا ہوں نہ میں تمھیں کسی ایسے کام پر آمادہ کررہا ہوں جس میں سب سے سستی پونجی انسان کی جان ہوتی ہے، اورجس کاآغازمیں خود اپنے آپ سے نہ کررہا ہوں یا درکھو ! اگر آج کی مشقت پر تم نے صبر کرلیا، تو طویل مدت تک لذت وراحت سے لطف اندوز ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کی نصرت وحمایت تمہارے ساتھ ہے، تمہارا یہ عمل دنیا وآخرت دونوں میں تمہاری یادگار بنے گا اور یادرکھو جس بات کی دعوت میں تمھیں دے رہا ہوں اس پر پہلا لبیک کہنے والا میں خود ہوں، جب دونوں لشکر ٹکرائیں گے تو میرا عزم یہ ہے کہ میرا حملہ اس قوم کے سرکش ترین فرد راڈرک پر ہوگا اور انشاء اللہ میں اپنے ہاتھ سے اسے قتل کروں گا، تم میرے ساتھ حملہ کرو، اگر میں راڈرک کی ہلاکت کے بعد ہلاک ہوا تو راڈرک کے فرض سے تمھیں سبک دوش کرچکاہوں گا اور تم میں ایسے بہادر اور ذی عقل افراد کی کمی نہیں جن کو تم اپنی سربراہی سونپ سکو، اور اگر میں راڈرک تک پہنچنے سے پہلے ہی کام آگیا تومیرے اس عزم کی تکمل میں میری نیابت کرنا تمہارا فرض ہوگا، تم سب مل کر اس پر حملہ جاری رکھنا اورپورے جزیرے کی فتح کاغم کھانے کے بجائے اس ایک شخص کے قتل کی ذمہ داری قبول کرلینا تمہارے لیے کافی ہوگا کیوں کہ دشمن اس کے بعد ہمت ہار بیٹھے گا۔‘‘
طارق بن زیادہ کے سرفروش رفقاء پہلے ہی ولولۂ جنگ اور شوق شہادت سے مست تھے طارق کے اس خطاب نے ان کے دل ودماغوں میں نیا جوش وامنگ جگادی نتیجتاً ان کے جذبات میں وہ طوفان اٹھاکہ بحر ظلمات کی گہرائی اور جبل الطارق کی بلندی بھی ان کے لیے بے معنی لگ رہی تھی اسلامی لشکر اپنے جسم وجان کو بھلا کر مردانہ وار لشکر عظیم سے نبرد آزما ہوا یہ معرکہ متواتر آٹھ دن جاری رہا، وادی لکہ کی زمین شہیدان ِ اسلام کے خون سے سرخ ہوگئی مجاہدین ملت کے اس نثار سے مستقبل کی ایک نئی تاریخ مرتب ہونے جارہی تھی بالآخر پیغمبر اسلام ﷺ کی پیشین گوئی حقیقت میں بدل گئی چناں چہ فتح ونصرت نے ان دلیر شجاع مسلمانوں کے قدم چومے، راڈرک کا لشکر بری طرح پسپا ہوا اور راڈرک بھی اسی جنگ میں مارا گیا بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے خود طارق بن زیاد نے قتل کیا اور بعض میں ہے کہ اس کا خالی گھوڑا دریاکے کنارے پایاگیا جس سے قیاس ہوتا ہے کہ وہ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوا، فتح لکہ کے بعد مسلمان اندلس کے دیگر شہروں پر بھی اپناقبضہ جماتے چلے گئے ان فتوحات نے واضح کردیا کہ یورپ کے وسیع سمندر اور بحری بیڑے مسلمانوں کے بلند حوصلوں اور جذبات کو نہیں روک سکتے اندلس کی فتح گوکہ یورپ کے داخلے کا سنگ ِ میل تھا۔چناں چہ مسلمانوں کی پیش قدمی جاری رہی یہاں تک کہ وہ فرانس میں داخل ہوئے اور کوہ نیری نیز کے دامن تک اپنے پرچم لہرانے میں کامیاب رہے۔
اندلس میں مسلمان حکمرانوں کا اقتدار اور زوال:
اندلس کے اکثر بڑے شہروں آرکادینا، قرطبہ، ملاغہ، ایلودہرا، اور طلیطلہ کی فتح کے بعد قریب دودرجن حاکموں کے زیر اثر اندلس نے بے نظیر ترقی کی، ان حکمرانوں میں چند معروف نام یہ ہیں : طارق بن زیادہ شوال ۹۲ھ تا جمادی الاوّل ۹۳ھ، موسیٰ بن نصیر ۹۳ھ تا ۹۵ھ، عبدالعزیز بن موسیٰ ۹۵ھ تا ۹۷ھ، ایوب بن حبیب اللحمی ۹۷ھ تا ۹۸ھ، عبدالرحمن النقی ۹۸ھ تا ۱۰۰ھ، مسلمان دورِ اقتدار کے ساتھ جہاں ایک طرف عیسائی اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف رہے وہیں مسلم ارباب ِحکومت بھی اقتدار کی خاطر آپسی رسہ کشی کا شکار تھے خلیفہ منصور (۳۹۳ھ )کے انتقال کے بعد اندلس میں ایک انتشار کا دور شروع ہوگیا بربری امراء غلاموں اور خواجہ سرائوں نے سر اٹھانا شروع کردیا،سلطان ہشام کو محل سے باہر لانا چاہا مگر وہ رضامند نہ ہوا ہشام آرام طلب اورکاہل بن گیا تھا، منصور کے بیٹے کو حاجب مقرر کیا اس نے ثابت قدمی سے سلطنت کو سنبھالے رکھا، اس کے بعد ۳۹۹ھ میں محمد ثانی مہدی کو تخت نشیں بنایاگیا غرض اہل قرطبہ کی اس سرکشی اور بدحیالی کااثریہ ہوا کہ گیارہویں صدی عیسوی کے نصف اوّل تک قریب تیس خود سر خاندان اتنے ہی شہروں یا اضلاع میں صاحب ِ اقتدار بن گئے جن میں اشبیلہ میں عبادیں ملاغہ والجسرہ میں جمود کا خاندان غرناطہ میں زہیر کا سرقسط میں بنی ہود کا طلیطلہ میں ذوالنونی کا اور بلنسہ مرسیہ والمربیہ کے حکمراں اور وں سے زیادہ سربرآوردہ تھے، اس طوائف الملوکی کا اثر سرحدی عیسائیوں پربھی پڑا اور وہ بھی خود سر ہوگئے۔ (خلافت بنی امیہ:ص/۱۲۶-۱۲۷)
نصاری الفانسو ششم نے اس بکھرائو کا فائدہ اٹھا یا اس نے الجوریا، لیون اورقشتالیہ کی سلطنتوں کو باہم ملاکر اپنے تحت کرلیا اور اپنے اقتدار کو آگے بڑھانے لگا تب اشبیلہ کے بادشاہ ’’معتمد‘‘ نے شمالی افریقہ کے بڑے بڑے حاکم کو امداد کے لیے طلب کیا یہ مردانی بادشاہ یوسف بن تاشقین تھا اس نے پہلے الجسرہ پر قبضہ کیاپھر زلافہ پہنچا اور ۴۷۹ھ کو الفانسو حکومت کا خاتمہ کردیا۔ یوسف بن تاشقین بانی خاندان المرابطہ حکمرانِ مراکش ۴۴۹ھ میں حسب وعدہ مراکش لوٹ گیا اور کچھ فوج یہاں حفاظت کے لیے چھوڑ گیا ۵۰۱ھ میں یوسف نے انتقال کیا اس کے بعد اس کا بیٹا علی جانشین ہوا غرض یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں چلتا رہا۔ جب اندلس کے بڑے بڑے صوبے اور شہر عیسائیوں کے تسلط کا شکار ہوگئے اور صرف غرناطہ مسلمانوں کے پاس باقی رہ گیا تو اس وقت بھی مالقہ غرناطہ حکومت کے ماتحت تھا مگر آخری دور میں جب سلطان ابوالحسن غرناطہ کا تخت نشیں ہوا تواس نے اس اپنے اختیار میں آئی ہوئی مالقہ کی حکومت اپنے بھائی الزغل کے حوالے کردی اور اسے ایک خود مختار ریاست قرار دے دیا دونوں بھائیوں نے مل کر عیسائی کے سیلاب کو روکے رکھا اور ان کے خلاف متعدد بار کامیابی بھی حاصل کیں۔
ممکن تھا کہ پھر سے پورا اندلس عیسائی حکومت سے آزاد ہوجاتا مگر اسی دوران ابوالحسن کے بیٹے ابوعبداللہ نے محلاتی سازشوں کے ذریعہ اپنے باپ کے خلاف بغاوت کرکے اسے بے دخل کردیا۔ اور غرناطہ پر قبضہ کرلیا ابوالحسن نے جان کی امان کے لیے اپنے بھائی الزغل کے پاس آگیا اس واقعہ سے غرناطہ اور مالقہ کے درمیان آپسی تعلقات کا خاتمہ کردیا، جس کا فائدہ عیسائیوں نے اٹھایا، ابوالحسن اور الزغل دونوں بھائی ۸۸۸ھ سے ۸۹۱ھ تک عیسائیوں سے لڑتے رہے بالآخر ۸۹۱ھ میں دونوں بھائی نصاریٰ سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے یہ شہادتیں گوکہ اندلس میں مسلم حکومت وسطوت کا خاتمہ تھا، قشتالہ کے عیسائی حاکم فرڈی ننڈ او رملکہ ازبیلا نے اس شہر پر قبضہ کرلیا مالقہ پر تسلط کے بعد غرناطہ میں ابوعبداللہ کی سرکار بھی سات سال سے زائد نہ ٹک سکی اور ۸۹۸ھ میں ابوعبداللہ نے غرناطہ بھی فرڈی ننڈ اور ازبیلا کے حوالہ کردیا اندلس میں مسلمان ۹۲ھ-۷۲۱ء میں جس شان وتزک سے داخل ہوئے اسی لاچاری اور بے کسی سے ان کو یہاں سے نکال دیاگیا اس آٹھ سو سالہ دورِ حکومت کی بے دخلی کی متعدد وجوہات ہیں جن میں نفاق سب پر بھاری ہے اسی لیے قرآن وحدیث نے سب سے زیادہ زور مسلمانوں کے اتحاد پر دیا، دوسرے ان میں عیش پرستی اور بے عملی بھی عود کر آگئی تھی جس نے ان کے دلوں پر مہر بے حسی لگادی تھی، مسلمانوں کے ان آٹھ سو سالہ دورِ اقتدار میں انھوں نے اس سرزمین پر علم ودانش اور تہذیب وتمدن کے وہ چراغ روشن کئے کہ جس کی روشنی سے اب تک یورپ مستفید ہورہاہے او رپوری دنیا میں اس خطہ کو سب سے زیادہ ترقی یافتہ بنایا تھا اسپین کے المناک اور عبرت ناک مختصر حالات کے بعد ہم یہاں کی علمی ادبی، سائنسی تہذیبی اور تصنیفی خدمت پر ایک اجمالی نظر ڈالیں گے۔
چند بے نظیر تاریخی عمارتیں:
مسجد قرطبہ، عالم اسلام کی ممتاز ترین جامع قرطبہ اپنی وسعت اور حسن کے لحاظ سے یگانہ ہے تمام مسجد صف درصف بنے ہوئے خوبصورت دالانوں پر مشتمل ہے جن کی چھتیں گنبدیں اور دونوں طرف سنگ ِ مرمر کے خوبصورت ستونوں کی قطاریں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں مسلمانوں کے عہد حکومت میں اس مسجد کے کل ستونوں کی تعداد چودہ سو سترہ تھی مسجد کاکل رقبہ تینتیس ہزار ایک سو پچاس مربع ذراغ (ہاتھ) تھا علامہ اقبال نے اپنی طویل نظم مسجد قرطبہ لکھا تھا:
رنگ ہو یاخشت وسنگ، جنگ ہو یا حرف وصوت٭ معجزہ فن کی ہے خون ِ جگر سے نمود
مدینۃ الزہرا کا قصر شاہی اپنے حسن وجمال شان وشوکت او ر شکوہ وجلال کے اعتبارسے دنیا بھر میں اپنی مثال آپ تھا اس محل کا ایک ایوان قصر الخلفاء کہلاتا تھا،اس کی چھت اور دیوار یں سونے اور شفاف مرمری تھیں عرض فن تعمیر کا بے نظیر نمونہ ہے۔
وادی الکبیر کا پل بھی اپنی مثال آپ تھا، یہ مسلمانوں کے عہد میں جنوب کی سمت سے شہر میں داخل ہونے کے لیے استعمال ہوتا تھا، اس وقت خاص انجینئروں نے اس کی تعمیر کرائی تھی اس وقت دنیا بھر میں اتنا پختہ وسیع اور لمبا پل کہیں نہیں بنا تھا اس لیے دنیاکے عجائبات میں شمار ہوتا تھا، ۱۰۱ھ میں ماہر تعمیرات عبدالرحمن بن عبید اللہ الغافقی کی نگرانی میں یہ عالی شان پل تعمیرکیاگیا،اس کا طول آٹھ سو ہاتھ اور چوڑائی چالیس سے زیادہ تھی اور دریاکی سطح سے ساٹھ ہاتھ بلند تھا۔
قصر الحمراء یہ ممتاز ترین تاریخی قلعہ چوتھی صدی ہجری کی یادگار ہے اس کے بعد غرناطہ کے مختلف حکمران اس میں جدت کرتے رہے ۶۳۰ھ میں محمد بن الاحمرالنصری نے اس میں جدید اضافے کرکے مرکز سلطنت کی شکل دی تھی،اس قلعہ نما عمارت میں شاہی محل اور باغات وغیرہ سب داخل ہیں طول ۷۳۶ میٹر اور عرض قریب دو سو میٹر ہے، یہ قصر الحمراء شاہانِ غرناطہ نے بصرفِ کثیر شہر کے قریب نہایت بلند ٹیلہ پر جبل شہر کی برف سے چھی ہوئی چوٹیوں کے سائے میں تیار کرایا،اس محل کی ہر ایک چیز قابل دید اوراس قدر حیرت انگیز ہے کہ جس کو دنیا کے نامور صناع اور مہندس دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ فن تعمیر میں سلاطین غرناطہ اور یہاں کے کاریگروں کا یہ سب سے بڑا شاہکار ہے اس کے باغ جو جنت العارف کے نام سے مشہور ہے یہ اندلسی مسلمانوں کی فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہے جو حیثیت ہندوستان میں تاج محل حاصل ہے اس سے کہیں زیادہ آج بھی اندلس میں الحمراء کو حاصل ہے اس کو دیکھنے کے لیے اب دنیا بھر کے سیاح غرناطہ آتے ہیں اوراس کے معماروں، فن کاروں کے کمال پر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں مسلمانوں نے اس آرٹ میں جس جدت طرازی اورحسن ِ ہنر کامظاہرہ کیا وہ دنیا بھر کے لیے مثال بن گیا علاوہ ازیں سیکڑوں قلعے، عجائب گھر اور عبادت گاہیں وہ بھی ہیں جن کے آثار اب مٹ چکے ہیں۔
اندلس میں مسلمانوں کے علمی، سائنسی اور ادبی کارنامے:
شاہان اندلس انواع علوم، عقلیہ ونقلیہ سائنس اور فلسفہ میں دنیا بھر میں ممتاز ومختار تھے یہاں علم وتکنیک کے سیکڑوں ادارے اور یونیورسٹیاں تھیں جن میں دور دراز ممالک کے طلباء بھی تحصیل علم کرتے تھے، قرطبہ کی یونیورسٹی نے بڑے بڑے صاحب ِ کمال پیدا کئے، ابن خطیب یہیں کا فاضل تھا اس نے علم مابعد الطبیعیہ، تاریخ، طب وغیرہ موضوعات پر گیارہ سو کتابیں لکھیں، ابن حسن نے فلسفہ اور فقہ پر چار سو کتابیں یادگار چھوڑی ہیں ان جیسے علماء وفضلاء نے اس دارالعلوم سے فراغت پائی تھی، عبدالرحمن الداخل، علم نجوم کا ماہر اور بلند پایہ شاعر تھا، ہشام اور الحکم جید عالم اور نقاد تھے ریاضی اورہیئت میں بھی وہ دور ترقی یافتہ تھا، تاریخ،فقہ، ادب وغیرہ پر لاتعداد کتابیں لکھی گئیں، اشبیلہ،قرطبہ، غرناطہ، سرسیہ طلیطہ میں عظیم الشان کتب خانے اور مدرسے تھے ان میں اسلامی تعلیمات کے علاوہ فنون وریاضیہ کی تعلیم بھی ہوتی تھی، سیتہ، طنجہ میں بھی مدرسے موجود تھے لڑکیوں کی تعلیم کا بھی نظم تھا ان میں بڑی تعداد میں خواتین پڑھتی تھیں اور علمی،ادبی کاموں میں حصہ لیتی تھیں ان میں شہزادہ احمد کی بیٹی عائشہ نہایت فصیح وبلیغ خطبہ اور شہزادی ولیدہ شعروادب علم وبیان میں معروف تھیں۔
اندلس کا معروف فاضل وریاضی داں ابوالحسن نے مختلف شہروں، اندلس اور شمالی افریقہ کے بڑے حصہ کا سفر کیا علم جغرافیہ پر’’البدایات والنہایات ‘‘، تالیف کی اس کے علاوہ شہرستیہ میں بھی اس کے علوم جدیدہ کا خوب شہرہ تھا، حکمائے اندلس نے نباتات کے خواص پر بھی تحقیقات کیں عبدالرحمن الدخل نے قصر خلافت کے قریب نباتات کی ریسرچ کے لیے ایک باغ لگایا تھا شام اورمشرقی ممالک کے محققین کو یہاں جمع کیا اور نادر الوجود درجنوں پیڑ پودوں کے تخم تیار کئے اور باغ میں کاشت کی علم حیوانات پربھی ان کی ریسرچ نے دنیا کو چونکادیا تھا،اسپین کے دارالعلوم میں سرجری کا نامی طبیب ابوالقاسم ابن عباس موجود تھا ’’التصریف لمن عجز عن التکالیف‘‘ اس کے مجربات وعلم کی شاہد ہے، حکیم ابومردان نے مفرد دوائوں پر نئے تجربات کرنئی ادویات تیار کیں رقاص سے چلنے والی گھڑی اور میزان کا اختراع بھی یہیں ہوا تھا، دھوپ گھڑی، علم ہیئت میں بڑی ایجادات آرضی وسماوی کرہ تانبے کے بنائے، علم فلکیات کے نامور عالم مسلمہ مخبر یطی نے تیس سال کے عرصہ میں کئی مشہور اور صحیح ایجاد کئے، الزرقال نے بلندیٔ آفتاب کی حد مقرر کرنے کے لیے چار سو دو صدئیں لکھیں اورحقیقی تقویم مبادرت اعتدالیں کی حرکت معلوم کرنے کے لیے آلات ایجادکیے اس کی ایجاد کردہ گھڑیاں یوروپ میں بہت پسند کی جاتی تھیں، ہوائی جہاز تخلیق کی سب سے پہلی کوشش بھی اسی سرزمین پر مسلمانوں نے کی تھی علاوہ ازیں، قطب نما، کاغذ سازی توپ وبارود، بری وبحری قوت، ڈاک خانہ، عہدئہ قضاۃ، صناع،اصول سیاست، جہاز رانی، جنگی فنون،مذہبیت وغیرہ ایسے عنوانات وشعبے ہیں جن کو مسلمانوں نے معراج ِ کمال تک پہنچایا اہل اندلس کے علم دوست ہونیکا یہ حال تھا کہ ہر گھر میں لائبریر ی ہوتی تھی اور ان میں کتابیں جمع کرنے کا ذوق تھا چناں چہ اس سلسلے میں احمد بن محمد مقلب بہ المقری التلمسانی کی اندلس پر مشہور ومقبول تصنیف’’نفح الطیب‘‘ میں مقری نے ایک باذوق شخص حضرمی کا دلچسپ واقعہ لکھاہے وہ لکھتے ہیں:
’’مجھے ایک نادر کتاب کی ضرورت تھی میں اس کی تلاش میں قرطبہ گیا اور کتابوں کے سارے بازار چھان لیے بالآخر ایک جگہ کتابوں کا نیلام ہورہاتھا وہاں مجھے وہ کتاب مل گئی جس کی مجھے ضرورت تھی میں اسے دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑا اور اسے حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ بولی لگانے لگا، لیکن جوں ہی کوئی بولی لگاتا اس پر دوسرا خریدار اس سے بڑھ کر بولی لگادیتا ہوتے ہوتے اس شخص نے اتنی قیمت کی بولی لگادی کہ وہ حد سے زیادہ تھی میں نے نیلام کرنے والے سے کہا ذرا مجھے اس شخص سے ملا دیجئے جو یہ حد سے زیادہ بولی لگارہا ہے اس نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا جو اپنے لباس سے کوئی رئیس معلوم ہوتا تھا میں نے اس سے کہا کہ آپ کوئی بڑے فقیہ معلوم ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کی عزت میں اضافہ کرے کیا واقعتا آپ کو اس کتاب کی ضرورت ہے تو میں آپ کے حق میں دستبردار ہوجاتا ہوں، اس شخص نے جواب دیا میں کوئی فقیہ نہیں ہوں بلکہ مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ اس کتاب میں کیا ہے؟ لیکن میں نے بڑی محنت سے اپنے گھر میں ایک کتب خانہ بنایا ہے جو شہر کے شرفاء کوئی مقام پاسکے ایک الماری میں کچھ جگہ خالی ہے جس میں یہ کتاب سماسکتی ہے اس کتاب کی جلد بھی بہت خوبصورت ہے اور تحریر بھی بہت حسین ہے، اس لیے میں اس جگہ کو پرُکرنے کے لیے یہ کتاب خریدنا چاہتاہوں اس پر میں نے ان سے کہا بادام اس شخص کو مل رہا ہے جس کے منھ میں دانت نہیں۔‘‘
ایک بار قرطبہ کے مشہور عالم علامہ ابن رشدؒ اور اشبیلہ کے رئیس ابوبکر بن زہر کے درمیان یہ بحث چھڑ گئی کہ قرطیبہ بہتر ہے یا اشبیلہ، ابوبکر ابن ازہر نے اشبیلہ کی بہت سی خوبیاں بیان کیں تو علامہ ابن رشد نے جواب دیا:
’’آپ جو خوبیاں بتارہے ہیں ان کا تو مجھے علم نہیں، البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ جب اشبیلہ میں کسی عالم کا انتقال ہوتا ہے تواس کا کتب خانہ بکنے کے لیے قرطبہ آتا ہے اورجب قرطبہ میں کسی گوئیے کا انتقال ہوتا ہے تواس کا سازوسامان بکنے کے لیے اشبیلہ جاتا ہے۔‘‘
بالآخر علم وآگہی کی فضائوں میں اندلس نے آٹھ سو سالہ سفر طے کیا جن میں اس قدر کتابیں مختلف علوم وفنون پر لکھی گئی کہ جن کی اب نہ نظیر ہے اورنہ اکثر کا وجود،اب ہم یہاں کے چند معروف علماء، حکماء، کی مخصوص کتابوں پر اجمالی نظر ڈالیں گے۔
چند علماء وحکماء اندلس اور ان کی معروف کتب:
ابن عبدربہ (م ۳۲۸ھ) عقد الفرید، المحصات عربی شعروادب میں لاجواب تصنیف، یحییٰ بن یحییٰ بن کثیر اللیثی (م ۲۳۶ھ) امام مالک کے فیض یافتہ تھے امام صاحب نے ان کو دانش مند اندلس کا لقب دیاتھا،احمد بن خالد کا قول ہیکہ جب اس کا قد اندلس میں آیا یحییٰ بن کثیر کے برابر کوئی جلیل قدر عالم پیدانہیں ہوا ابن دراج القسطلی (م ۴۲۱ھ) اندلس کے نامور عالم مگر شعروادب میں زیادہ شہرت پائی مورخین نے لکھاہے کہ فن شاعری میں جو شہرت شام میں متنبی کو حاصل تھی وہ اندلس میں ان کو حاصل تھی۔ ابن الفرضی ( ۴۰۳ھ) علم فقہ میں بے نظیر اور نامور محدث تھا المختلف والمؤتلف، مشتبہ النسبۃ کتابیں یادگار ہیں ابن زیدون (م ۴۶۳ھ) قرطبہ شہر کے بہترین ادیب ونثر نگار تھا، ابوعمریوسف ابن عبدالبر (م ۴۶۳ھ) میں فن حدیث میں یگانۂ عصر شہر قرطبہ کو ان سے خاص شہرت ملی، کتاب التمہید لمعافی الموطا من المعانی والاسانید،کتاب الاستعیاب وغیرہ ضخیم کتابیں یادگار ہیں، ابن حیّان (م۴۶۹ھ) قرطبہ کے بنی اُمیہ گھرانے سے تھے کتاب المقتبس فی تاریخ الاندلس دس جلدیں، کتاب المبین ساٹھ ضخیم جلدیں آپ کے علمی آثار ہیں۔ ابن حزم الظاہری (م ۴۵۶ھ) قرطبہ میں پیدا ہوئے کتاب الفصل فی الملل والاہواء والنحل، نقطہ العروس الاجماع، وغیرہ تصانیف بہت مشہور ہیں ابن شہید الاسجعی (م ۴۲۶ھ)ابن جلجل (م ۴۰۰ھ) ابوغالب الشیبانی (م۴۳۶ھ) ابوولید الباجی، ابوعلی الغسالی الجیانی (م ۴۹۸ھ) ابن بطلیوسی (م ۵۲۰ھ) ابن باجّہ (م۵۳۳ھ) امیہ ابن ابی القلت (م ۵۲۹ھ) الرشاطی (م ۵۴۴ھ) ابن العریف (م ۵۲۶) ابوبکر محمدبن یحییٰ المعروف بہ ابن الصائغ، ابن باجہ عربی زبان وادب کا ماہر حافظ قرآن اور حاذق الطبائے زمانہ تھا، فن موسیقی میں بھی قدرت رکھتا تھا اس فن میں وہ کمال حاصل تھا کہ نے نوازی میں بے مثل سمجھا جاتا تھا، شرح کتاب السماع الطبعی لارسطا طالیس، قول علی بعض کتاب الآثار، الکون والفساد، کتاب الحیوان، وغیرہ متعدد کتابیں ا نکی یادگار ہیں فلسفۂ وحکمت کے استاذ ارسطوکی کتابوں کی تشریح وتسہیل ان کا اصل موضوع ہے، ابوبکر ابن زہر(م ۵۹۶ھ) نامور طبیب اور وزیر وقت تھا حافظ القرآن والحدیث ہونے کے ساتھ عربی ادب اور فن شاعری میں لاثانی تھا، ابن رشد (م ۵۹۵ھ) عرب کے معروف گھرانے کا چشم وچراغ اپنے علم وفن میں قرطبہ کی صف اوّل میں شامل تھا اس کی عالمانہ تصنیف جو ارسطو وجالینوس کے قائم کردہ اصولوں پر لکھی گئیں ہیں ان کو نہ صرف یورپ نے اہتمام سے شائع کیا بلکہ بے حد فائدہ بھی اٹھایا ہے اسپین کے عیسائیوں کی غارت گری کے بعد ابن رشد کی جو قابل یادگار تصانیف بچ گئی ہیں ان میں انتیس جلدیں ہیں ان میں کتاب التحصیل، کتاب الکلیات، تلخیص کتاب المزاج لجالینوس، تلخیص کتاب البرہان لارسطاطالیس، سلطنت جمہوری مصنف،افلاطون کی ترتیب وتشریح نے بھی ابن رشد کو خاص شہرت دی ابن خلدون (م۸۰۹ھ) پورا نام ابوزید محمد ابن خلدون ہے علم وفضل میں یگانۂ روزگار فن تاریخ کا بانی،اس کی تحقیق علم نے اس کو منفرد پہچان دی، کتاب العبر،جس کا مکمل نام ’’کتاب العبرودیوان المبتداء والخبرفی ایام العرب البربر‘‘ہے اس میں اہل عرب وقوم بربر کے حالات تفصیل سے لکھے ہیں اس کتاب کو تاریخ ابن خلدون بھی کہتے ہیں، یہ تاریخ نویسی میں نئے اصولوں کا موجد ہے عرب وعجم میں اس سے پہلے اس انداز پر کسی نے تاریخ نویسی نہیں کی، المقری التلمسانی (م ۱۰۴۱ھ) اندلس کا نامور تاریخ نگار، ممتاز عالم اس نے نہایت شرح وبسط کے ساتھ اندلس میں عربوں کی آٹھ سوسالہ حکمرانی کے حالات اپنی مشہور عربی کتاب ’’نفح الطیب‘‘ میں قلم بند کئے ہیں جو اندلس کی تاریخ کا سب سے بڑا ماخذ مانا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عرف النشق فی اخبار دمشق، ازہار الریاض فی اخبار القاضی عیاض، کتاب البداۃ والنشاۃ وغیرہ بارہ کتابیں اس نابغۂ عالم کی یادگار ہیں۔
اندلس میں مسلمانوں کے طویل عہد حکومت میں علوم وفنون کا زبردست عروج ہوا جہاں یہ تاریخ قابل ِ رشک ہے تو وہیں ان علوم کا خاتمہ اور مسلمانوں کا وہاں سے چن چن کر خروج وقتل بھی قابل اشک ہے یہ تاریخ ایک عبرت بھی ہے اورحسرت بھی،یہاں ان کی فتوحات کے آثار بھی ظاہر ہیں اور شکست کے اسباب بھی اس سلسلے میں اقبال نے خوب کہا ہے؎
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں ٭ خاموش اذانیں ہیں تری بادسحر میں