EPAPER
Updated: September 07, 2023, 8:58 PM IST | Farha Haider | Lucknow
ماں لفظ سنتے ہی ہردل محبّت، عزت اور احترام سے بھر جاتا ہے اور ماں کا تصور آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔ ویسے تو سبھی ماؤں کی ڈانٹ، سیکھ، محبّت کم و بیش ایک ہی سی ہوتی ہے۔ مگر آج مَیں جس ماں کا ذکر کر رہی ہوں وہ میرے شوہر کی ماں ہیں۔ ان کے ساتھ رہنا تو دور میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں۔ جب میرے شوہر دسویں میں تھے تبھی ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
ماں لفظ سنتے ہی ہردل محبّت، عزت اور احترام سے بھر جاتا ہے اور ماں کا تصور آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔ ویسے تو سبھی ماؤں کی ڈانٹ، سیکھ، محبّت کم و بیش ایک ہی سی ہوتی ہے۔ مگر آج مَیں جس ماں کا ذکر کر رہی ہوں وہ میرے شوہر کی ماں ہیں۔ ان کے ساتھ رہنا تو دور میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں۔ جب میرے شوہر دسویں میں تھے تبھی ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ میں نے اپنی بڑی نندوں سے ان کا ذکر سنا ہے۔ جب بھی ان کا کوئی قصہ سنتی ہوں تو ان کیلئے دل میں احترام بڑھ جاتا ہے۔ ان کے سب بچے انہیں ’’اپیا‘‘ کہتے تھے۔ میرے شوہر کے ۹؍ بہن بھائی تھے۔ بڑے جیٹھ کا کووڈ میں انتقال ہو گیا۔ میرے شوہر چھٹے نمبر پر آتے ہیں۔
میری نند بتاتی ہیں کہ اتنے بچّوں کی پرورش میں کبھی کسی نے انہیں پریشان یا ہلکان ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ صبر کا پیکر تھیں۔ ایک تو ماشاء اللہ خود کا کنبه بڑا اور ساتھ ہی ان کےدیور جیٹھ سب ساتھ ہی رہتے تھے۔ سب کا کھانا پینا ساتھ ہی تھا لیکن ان کا کبھی کسی سے جی موٹانہیں ہوا۔ میرے سسر بھی ماشاء اللہ ۷؍ بھائی تھے، جو لوگ ساتھ نہیں بھی رہتے تھے، سب کا آنا جانا ایسا لگا رہتا تھا کہ سب اسی گھر کے فرد معلوم ہوتے تھے۔ ویسی ہی مہمانداری بھی تھی۔ ایک وقت میں۳۰؍ سے ۳۵؍ لوگوں کا کھانا پکتا تھا۔ ۳؍ بار میں ایک وقت کا کھانا لگتا تھا۔ اتنے سارے کام ہوتے تھے لیکن اپیا نے کبھی کام سے جی نہیں چرایا۔ ہر کام دل سے کرتی تھیں۔ وہ بہت زندہ دل خاتون تھیں۔ فلمیں تو نہیں دیکھتی تھیں مگر اخبار کے ذریعے پوری معلومات رکھتی تھیں۔ انہیں مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ ہر اخبار، ناول، ڈائجسٹ سب پڑھتی تھیں یہی شوق تقریباً ان کے سبھی بچوں میں آیا ہے۔ ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ان کے بہنوئی اکثر مذاق میں کہتے تھے کہ تم دسویں کا امتحان دے ہی ڈالو۔ وہ اپنے بچوں کو بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی تھیں مگر وقت نے انہیں مہلت نہیں دی۔ اتنی مصروفیت کے باوجود وہ کبھی کسی کے یہاں کا کوئی موقع نہیں چھوڑتی تھیں۔ دور پاس، ادنیٰ اعلیٰ ہر ایک کی مدد کیلئے ہر وقت تیار رہتی تھیں۔ یہاں تک کہ جو عورتیں گھروں میں ہماری مدد کے لئے آتی ہیں ان کے بیمار ہونے پر دوا علاج تو الگ بات، ان کا کام تک خود کر لیتی تھیں کہ انہیں پورا آرام ملے۔ اپیا کی یہی خوبی میرے شوہر میں بھی ہے۔ جاننے والوں میں اگر کسی کے یہاں ولادت ہوئی تو آنے والے بچے کے کپڑے سے لے کر بستر تک خود ہی تیار کرتی تھیں، اسپتال بھی ساتھ جاتی تھیں اور زچہ کے لئے میوے نچوانی سب خود بناتی تھیں۔
کبھی ان کے بچے کسی کی شکایت لے کر آئے تو بچوں ہی کو سمجھا تی تھیں کہ تمہاری بات ہی اگلے کو بری لگی ہوگی تبھی ڈانٹ پڑی۔ سمجھانے کا انداز ایسا ہوتا کہ بچے مان بھی جاتے تھے۔ کفایت شعاری، صبر، اور ایمانداری کی تعلیم کو اُنہوں نے اپنے بچّوں میں اولیت دی۔ نہ ہی کبھی خود سے کسی کا موازنہ یا مقابلہ کیا اور نہ ہی بچّوں کو کرنے دیا۔ بچے تو پھر بچے ہی ہوتے ہیں اگر کبھی کسی نے کوئی شکوہ کیا بھی تو جو نعمتیں ہیں ان کا شکر ادا کرنے کو کہتیں۔ جو ایک ساتھ محبت سے رہنے کا بیج اُنہوں نے اپنے بچوں کے دلوں میں بویا تھا، آج الحمدللہ پروان چڑھ گیا ہے۔ قریب ہی قریب، سب کے گھر الگ ہیں مگر دل ایک ہے۔ ماں باپ کے انتقال کے اتنے سال بعد بھی محبتیں قائم ہیں۔ یہ اپیا کی نیکیوں کا صلہ ہے۔ جب ہم سب کہیں جاتے ہیں تو اپیا کی بہوؤں سے پہچان ہوتی ہے تو بڑا فخر محسوس ہوتا ہے۔ اپیا اپنی شخصیت سے آج بھی سب دلوں میں آباد ہیں۔