• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نوآبادیاتی فکر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ

Updated: December 24, 2023, 9:59 AM IST | Sarwarul Huda | Mumbai

۲۹؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے قیام کے سو سال مکمل کرلیے۔ اکتوبر ۱۹۲۰ء میں جامعہ علی گڑھ میں قائم ہوئی تھی۔ ۲۹؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو گزرے تو محض پانچ ماہ اور چند روز ہوئے ہیں۔

Jamia Millia Islamia. Photo: INN
جامعہ ملیہ اسلامیہ۔ تصویر : آئی این این

۲۹؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے قیام کے سو سال مکمل کرلیے۔ اکتوبر ۱۹۲۰ء میں جامعہ علی گڑھ میں قائم ہوئی تھی۔ ۲۹؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو گزرے تو محض پانچ ماہ اور چند روز ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے یہ تاریخ قریب آرہی تھی جامعہ کی تحریک، تاریخ اور روایت نئے سرے سے غور و فکر کی دعوت دے رہی تھی۔ یہ تین الفاظ کس قدر مانوس ہیں اور ہمیں انھیں استعمال کرتے ہوئے یہ خیال بھی نہیں گزرتا کہ ان کا مفہوم اشخاص اور ادارے کے ساتھ کچھ مختلف بھی ہوتا ہے اور گہرا بھی۔ جن لوگوں کی نگاہ میں جامعہ کی تاریخ ہے وہ جامعہ کی صدی تقریبات کو جشن کے ساتھ ساتھ خود اپنے محاسبے اور آئندہ کے لائحہ عمل کا وسیلہ سمجھتے ہیں ۔ محاسبہ تاریخ اور روایت کابھی ہوسکتا ہے بلکہ وقت خود ہی بہت کچھ ثابت کرتا جاتا ہے۔ وقت کو کوئی اپنے مطابق نہ تو استعمال کرسکتا ہے او رنہ ہی بہت دیر تک اسے اپنی کوتاہی کو چھپانے کا وسیلہ بنا سکتا ہے۔ لہٰذا روایت اور تاریخ کا مطالعہ ایک معنی میں خود اپنی ذات کو آزائش میں ڈالنا ہے مگر یہ آزمائش ان کے لیے ہے جو نہایت حساس ہیں۔ علم اور ذہانت کے باوجود احساس کی دولت نصیب نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جشن کی تقربات میں کچھ لوگ افسردہ نظر آتے ہیں۔ ان کی مسکراہٹ میں ذمہ داری کا احساس ہے۔ جامعہ کا سو سالہ سفر حوصلہ افزا ہے لیکن حوصلہ افزا کیوں ہے۔اس سوال پر غور کیے بغیر ہم کسی ادارے کی تاریخ تو لکھ سکتے ہیں لیکن خود کو نئی ذمہ داریوں اور نئے مسائل کے لیے تیار نہیں کرسکتے۔ جامعہ کے بانیان اور بنیاد گزاروں کے تعلق سے جو تحریریں موجود ہیں انھیں پڑھ کر یہ احساس تیز ہوجاتا ہے کہ آج ہم صرف اپنی ذات تک محدود ہیں اور اپنے لیے جی رہے ہیں ، اور جو زندگی گزار رہے ہیں وہ بے سمتی کی شکا رہے۔ ان بانیان اور بنیاد گزاروں نے جامعہ کے تعلق سے جو قربانیاں دی ہیں انھیں پڑھ کر اور سن کر کہانی کا گمان ہوتا ہے۔ اب یہ باتیں بھی کچھ اس طرح بیان کی جاتی ہیں کہ جیسے جو کرنا تھا وہ تو ان شخصیات کے وسیلے سے ہوچکا۔ ہمیں تو قصہ گوئی کی طرح اسے بیان کرتا ہے۔ یہ قصہ گوئی زبانی روایت میں تبدیل ہوجاتی ہے مگر ان حضرات کے لیے جنھیں پڑھنا نہیں بلکہ گفتگو کے کلچر کو آگے بڑھانا ہے۔ جامعہ کے سلسلے میں دو تین کتابیں جو لکھی گئی ہیں ان کی طرف بھی توجہ نہیں کی جاتی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کی ایک صدی ہندوستان کی سیاسی اور تہذیبی زندگی کی ایک صدی بھی ہے۔ سچ پوچھیے تواس کی پیدائش ہی سیاست سے ہوئی ہے۔ اگر علی گڑھ تحریک وجود میں نہ آتی تو جامعہ کی ضرورت ہی کہاں محسوس ہوتی۔ سرسید سے کہیں زیادہ سرسید کے جانشینوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کی راہیں استوار کیں۔ ۱۹۱۹ء میں ترک موالات کا جب اعلان کیا گیا تو فطری طور پر اس کے پیچھے ایک خواہش پوشیدہ تھی کہ انگریزوں کے زیر اثر تعلیمی نظام کے سلسلے کو ختم کرنا چاہے۔ اس طرح تعلیمی سطح پر انگریزوں کی مخالفت شروع ہوئی۔ مولانا محمد علی جوہر جب جیل سے باہر آئے تو علی گڑھ کا رخ کیا۔ ایم اے او کالج کو مولانا محمد علی جوہر کا انتظار تھا یا نہیں اس سے کہیں زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ چند نوجوانوں کو علی جوہر کی فکر اور ادا پسند آئی۔ ان نوجوانوں نے نئے سرے سے اس مسئلے پر غور کرنا، شروع کیا کہ انگریزوں کے اثر سے تعلیم کو کس طرح بچایا جائے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ لوگ سرکاری نوکری سے استعفا دیں۔ سرکار ی دربار سے وابستگی ہو اور اپنا نظام تعلیم بھی یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ نہیں چل سکتی تھیں ، گو کہ علی گڑھ میں دونوں چیزیں ایم اے یو کالج کی شکل میں موجود تھیں ۔ خلافت تحریک اور ترک موالات دونوں کی یکجائی نے فکر و خیال کی دنیا کو کچھ زیادہ متحرک اور پرقوت بنا دیا تھا۔ یہ تاریخ کا بہت ہی نازک موڑ تھا۔ سرسید عملی اور نظریاتی طو رپر جو کچھ کرسکتے تھے وہ سب کیا اور رخصت ہوگئے۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد جن لوگوں نے تحریک کی قیادت کی وہ سرسید کی بنیادی فکر سے کس قدر نزدیک یا دور ہوگئے اس کی تفصیل ایک کتاب کی متقاضی ہے۔ 
جامعہ نظریاتی طور پر علی گڑھ تحریک سے قریب ہے یا اسے ایک نوآبادیاتی جبر کے خلاف تہذیبی ایجنڈے کے طور پر دیکھا جائے۔ اس سلسلے میں اختلافات کا ہونا فطری ہے، لیکن بغیر سوچے سمجھے بعض لوگ اپنی تحریر اور تقریر میں جامعہ کو سرسید کی فکر کا لازمی نتیجہ قرار دیتے ہیں بلکہ ایسے لوگوں کو سرسید کے ساتھ جامعہ کا خیال آتا ہے۔ یہاں اس حقیقت کی جانب اشارہ ضروری ہے کہ جامعہ کا قیام سرسید کی رحلت کے بعد عمل میں آیا۔ اس وقت کی علی گڑھ تحریک جامعہ کے قیام کے وقت کی علی گڑھ تحریک سے مختلف تھی۔ سرسید کو کلی طور پر انگریزی حکومت کا مخالف ثابت کرنا دشوار ہے مگر مفاہمت کی جو مثالیں سرسید کے یہاں ملتی ہیں انھیں بھی تاریخی سیاق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تاریخی سیاق میں تاریخ کو دیکھنے کا مطلب وقتی تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔ یہ وقتی تقاضے کچھ لوگوں کی نگاہ میں مفاہمت بھی ہوسکتی ہے۔ مفاہمت کیوں اور کس کے لیے اگر اس سوال پر غور کریں تو تاریخ کو سمجھنے کا ایک دوسرا زاویہ سامنے آجائے گا۔ اس زاویے میں ہمددری کے عناصر تو ہوں گے لیکن انھیں تاریخ سے الگ کرکے دیکھنا دشوا رہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ انگریزی حکومت سے مفاہمت کے ردعمل میں جامعہ کا قیام عمل میں آیا۔ لہٰذا سرسید کے تعلیمی، تہذیبی اور سیاسی نظریات کی روشنی میں جامعہ کود یکھنا بڑی دشواری کو قبول کرتا ہے۔ علی گڑھ اور جامعہ کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے عموماً ایک فکری اور نظریاتی ہم آہنگی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ سرسیدکے فکری اور عملی حوالے ہیں جن کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ سرسید کی فکر سے اختلاف کے باوجود سرسید کی فکر کے ثمرات سے کون انکار کرسکتا ہے۔ یہ ثمرات تجریدی طور پر نہیں بلکہ ٹھوس اشیا کی صورت میں موجود ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سرسید سے نظریاتی اختلاف کے نتیجے میں جو عملی کوششیں سامنے آئیں ان میں بھی سرسید کی موجودگی دیکھی جاسکتی ہے۔ اختلاف اور اتفاق کے یہ سارے معاملات بڑی حد تک تعلیمی نظریات سے وابستہ ہیں ۔ تعلیم کا نظام کس حد تک ہمارا اپنا ہوگا یا اسے کس حد تک حکومت کے زیراثر ہونا چاہیے یا اسے مطلق آزاد ہونا چاہیے۔ یہ سوالات تو بہت سامنے کے ہیں ۔ لیکن ان ہی سے اس عہد کے سیاسی، تہذیبی، لسانی مسائل وابستہ ہیں ۔ کیا جامعہ سرسید تحریک کا نتیجہ ہے؟ اس سوال کا جواب نفی یا اثبات میں اس طرح ممکن نہیں کہ جناب ایسا ہے اور ایسا نہیں ہے۔ لیکن اب وقت اس کا آگیا ہے کہ غیرجذباتی ہوکر اس سوال پر غور کیا جائے۔ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ علی گڑھ تحریک کی اگر انگریزی حکومت کے سامنے خودسپردگی نہیں ہوتی تو جامعہ کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ اس ضرورت کا احساس وقارالملک کو ہوا ۔شیخ محمد اکرام نے’موجِ کوثر‘ میں لکھا ہے:
’’مطمحِ نظر کو محدود اور سرکاری ملازمت کو علی گڑھ کا اہم ترین عملی مقصد بنانے سے وہاں کئی ایسی روحانی، ذہنی اور مادی خرابیاں پیدا ہوگئیں اور کالج اپنے چند اہم مقاصد پورا کرنے سے اس حد تک قاصر رہا کہ خود علی گڑھ میں یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ یہ کالج ہی قوم کے تمام امراض کا علاج نہیں اور قومی اصلاح و ترقی کے لیے ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم ہونا چاہیے، جس کا بنیادی مقصد اور دستورالعمل علی گڑھ کالج سے مختلف ہو۔ چنانچہ خود علی گڑھ کالج کے سیکرٹری اور سرسید کے خلیفۂ ثانی نواب وقارالملک نے ۱۹۱۲ء میں ان مسلمانوں کے واسطے جو سرکاری ملازمتوں کے خواستگار نہیں ۔‘‘ ایک جداگانہ جامعہ اسلامیہ قائم کرنے کی سکیم پیش کی۔ نواب صاحب کی خواہش تھی کہ یہ نئی یونیورسٹی گورنمنٹ کے اثرات سے آزاد ہو۔ اس میں ذریعہ تعلیم اردو ہو، لیکن انگریزی ایک لازمی مضمون کے طور پر شاملِ درس رہے اور طلبہ کی تعلیم میں مذہبی تربیت اور کفایت شعاری کی تعلیم کو خاص اہمیت ہو۔ نواب وقارالملک اپنے خیالات کو عملی جامہ نہ پہنا سکے، لیکن جامعہ اسلامیہ کے متعلق انھوں نے جو مفصل مضمون لکھا تھا ، اسے پڑھ کر اس بات کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان کی سکیم اور جامعہ ملیہ کی عملی صورت میں کوئی خاص فرق نہیں۔‘‘
(موجِ کوثر: شیخ محمد اکرام، کلاسیکل پرنٹرز، دہلی، ادبی دنیا مٹیامحل، ص 152-53)
شیخ محمد اکرام نے ’موجِ کوثر‘ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ پر ایک باب قائم کرکے جامعہ کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی ہے۔ علی گڑھ تحریک کا وہ ذکر جس طرح سے کرتے ہیں اس سے ایک ایسے ناقد کی شبیہ ابھرتی ہے جسے علی گڑھ سے شدید محبت بھی ہے اور وہ اس کا ناقد بھی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ علی گڑھ تحریک نے سرسید کے بعد سرسید کے مقاصد کو بہتر طور پر سمجھنے اور انھیں پورا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے کہ ان کی نگاہ میں سرکاری ملازمت کی حصولیابی سرسید کی فکر سے گریز کا پتہ دیتی ہے۔ گویا وہ چاہتے تھے کہ طلبا تعلیم کو حصول معاش کا وسیلہ نہ سمجھیں اور ظاہر ہے کہ اس وقت انگریزی حکومت سے مفاہمت کے بغیر یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی تھی۔ شیخ محمد اکرام نے وقارالملک کے جس مضمون کا حوالہ دیا ہے اس کی اہمیت اس لیے دوچند ہوجاتی ہے کہ ۱۹۱۲ء میں علی گڑھ کی سرزمین پر ایک ایسی جامعہ کا تصور پیدا ہورہا ہے جو سرکاری امداد سے آزاد ہوکر اپنا نظام تعلیم وضع کرے۔ وقارالملک کو سرسید کا جانشین ہونے کا شرف حاصل ہے۔ شیخ اکرام یہ بھی لکھتے ہیں کہ وقارالملک نے سرسید کی بعض خواہشات کو عملی جامعہ پہنایا۔ مگر بعدکو وہ کالج سرسید کی بنیادی تعلیمات سے دور ہوتا گیا۔ ۱۹۱۲ء سے ۱۹۲۰ء کے درمیان آٹھ برسوں کا فاصلہ ہے۔ جامعہ ملیہ علی گڑھ ہی قائم کردی گئی۔ شیخ محمد اکرام نے ابتدائی حصے میں سرسید اور علی گڑھ کے تعلق سے جو کچھ لکھا ہے اسے جامعہ کی طرف آنے کی تمہید کہا جانا چاہیے، وہ موجودہ علی گڑھ کو سرسید کے خوابوں کی معمولی سی تعبیر بتاتے ہیں ۔ شیخ محمد اکرام نے سرسید کے اصل منصوبے کی جانب اشارے کیے ہیں اور ساتھ ہی ان منصوبوں کے برخلاف حاصل ہونے والے نتائج کا ذکر کیا ہے۔ وہ سرسید کی فکر کو کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اگر سرسید کے منصوبے کا بعد والوں نے احترام کیا ہوتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ شیخ اکرام اس اس واقعہ کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں کہ سید محمود جب ہائی کورٹ کے جج بنائے گئے توسرسید خوش نہیں تھے۔ ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ سید محمود جج کے عہدے پر فائز ہوجائیں ۔ قوم کی توقعات تو بہرحال ان سے پوری نہیں ہوں گی، شیخ اکرام اس ضمن میں سرسید کی گرفت کرتے ہیں :
’’لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اس احساس کے باوجود سرسید نے نہ صرف محمود کو ملازمت قبول کرنے سے روکا بلکہ کالج کے طلبہ کی تربیت بھی ان اصولوں پر گوارا کی جن کی پیروی وہ بیشتر ملازمت یا زیادہ سے زیادہ عام قومی رہنمائی ہی کے اہل ہوسکتے تھے۔ نواب محسن الملک کے زمانے میں یہ رجحان اور بھی قوی ہوگیا۔ نواب صاحب میں بڑی خوبیاں تھیں وہ بڑے ذہین اور عملی جزویات کے مرد میدان تھے۔ جو کام وہ اپنے ہاتھ میں لیتے، اسے بخیر و خوبی سرانجام دیتے، لیکن ان کی نظر بلندنہ تھی اور کالج کو سرکاری ملازمت کے لیے وقف کرنے کا جو عمل (سرسید کی مایوسیوں کے باوجود) سرسید کی زندگی میں شروع ہوگیا تھا، اسے انھوں نے بڑی ترقی دی اور ابتدائی بلند مقاصد نظر سے اوجھل ہوگئے۔ سرکاری ملازمت کو علی گڑھ کا اہم ترین عملی مقصد بنانے کا برا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں ایک پست درجے کی مادیت اور شیئیت پسندی پیدا ہوگئی۔‘‘ (ایضاً ص 147)
مندرجہ بالا اقتباس پر غور کریں تو سرسید کی کسی ایسی مجبوری کا سراغ مل سکتا ہے جو وقت کے کسی خاص موڑ پر بڑی شخصیات کا مقدر ہوا کرتی ہے۔ اس مجبوری کو نوآبادیاتی فکرکا جبر بھی کہا جاسکتا ہے۔ وہ سید محمود کو سرکاری نوکری کو قبو ل کرنے سے روک سکتے تھے۔ اور اپنی زندگی میں ان منصوبوں کا سختی سے جائزہ لے سکتے تھے جو ان ہی کے رفقا کے ذریعہ متاثر ہورہے تھے۔ شیخ محمد اکرام ان حقائق کی نشاندہی کے باوجود جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کو سرسید تحریک کا ردعمل قرار نہیں دیتے:’’ان اسباب کی بنا پر ہم جامعہ ملیہ کو سرسید کی دلی خواہش کی تکمیل سمجھتے ہیں ۔ ان کی کوششوں کے خلاف ردعمل نہیں سمجھتے، جامعہ اس بنیادی الجھن (سرکاری ملازمت کی تلاش) سے آزاد ہے۔ جس کی وجہ سے علی گڑھ کے کئی مقاصد پورے نہ ہوسکے اور امید ہے کہ جامعہ میں ان مقاصد کی تکمیل احسن طریقے سے ہوگی، لیکن اس عملی فرق کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سرسید کو یہ مقاصد عزیز نہ تھے ، یا ان کے مقاصد کی تکمیل سرسید کے مقاصد کی مخالفت ہے۔‘‘ (ایضاً ص 153)گویا جامعہ ملیہ اسلامیہ علی گڑھ تحریک کا ردعمل تو ہوسکتی ہے، سرسید کے مقاصد کی نہیں اور ہمیں اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
جامعہ کے قیام کا زمانہ دراصل انگریزی حکومت کے زیر اثر تعلیمی نظام کی مخالفت یا تائید کا زمانہ ہے۔ علی گڑھ تحریک سرسید کی رحلت کے بعد جن منزلوں سے گزری ہے اسے کسی بھی قوم کی تعلیمی و تہذیبی زندگی کے لیے حوصلہ افزا ہی کہا جائے گا۔ زندگی کا کون سا ایسا شعبہ ہے جس پر سرسید کی فکر کا اثر نہ ہوا ہو۔ ظاہر ہے کہ جامعہ کے قیام کا مقصد تعلیمی نظام کو غیرملکی مداخلت کے بغیر جاری رکھنا تھا مگر اس کے دائرہ کار میں وہ وسعت تو نہیں تھی جو سرسید کی فکر میں دکھائی دیتی ہے۔ سرسید بھی لندن گئے اور علمی، و تہذیبی اعتبار سے جوکچھ وہ وہاں سے لے کر آئے اس میں صرف اسکول اور کالج سے وابستہ علوم کا مسئلہ نہیں تھا، جامعہ کے بنیاد گزاروں میں محمدعلی جوہر بھی علی گڑھ کے پرانے طالب تھے۔ بعد کو ذاکر حسین، محمد مجیب اور عابد حسن وغیرہ نے مغربی ملکوں سے تعلیم حاصل کرکے جامعہ آنے کا فیصلہ کیا تو اس میں جذبہ تو خدمت کا ہی تھا۔ علی گڑھ کو مغرب سے جو فکری اور نظریاتی طور پر قربت حاصل تھی وہ ایک واقعہ ہے۔ لیکن جامعہ کی طرف ذاکر حسین، محمد مجیب اور سید عابد حسین کا راغب ہونا یہ اس سے بھی بڑا واقعہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جامعہ حکیم اجمل خا ں کی رحلت کے بعد مختلف دشواریوں سے گزرہی تھی۔ اس کو بند کردینے کا فیصلہ بھی زیر غور تھا۔ شیخ محمد اکرام نے وقارالملک کے جس مضمون کا حوالہ دیا ہے اس کی تاریخی اہمیت ہے مگر عام طور پر یہ مضمون نگاہوں سے اوجھل ہے۔ اس مقام پر مولانا محمود حسن کے خطبے کا ایک کا اقتباس ملاحظہ کیجیے جو جامعہ کی تاسیس کے موقعے پر پیش کیا گیا:
’’ہماری قوم کے سربرآوردہ لیڈروں نے سچ تو یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کی ایک بڑی اہم ضرورت کا احساس کیا، بلاشبہ مسلمانو ں کی درس گاہوں میں جہاں علوم عصریہ کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے، اگر طلبہ اپنے مذہب کے اصول و فروغ سے بے خبر ہوں اور اپنے قومی محسوسات اور اسلامی فرائض فراموش کردیں اور ان میں اپنی ملت اور اپنے ہم قومو ں کی حمیت ادنیٰ درجے پر رہ جائے تویوں سمجھو کہ وہ درس گاہ مسلمانوں کی قوت کو ضعیف بنانے کا ایک آلہ ہے۔ اس لیے اعلان کیا گیا ہے کہ ایسی آزاد یونیورسٹی کا افتتاح کیا جائے گاجو گورنمنٹ کی اعانت اور اس کے اثر سے بالکل علاحدہ اور جس کا تمام تر نظام عمل اسلامی خصائل اور قومی محسوسات پر مبنی ہو۔‘‘ (جامعہ ملیہ اسلامیہ، تہریک، تاریخ، روایت جلد اول مرتبین شمیم حنفی، شہاب الدین انصاری، شمس الحق عثمانی، ناشر ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، 29؍ اکتوبر 2003، ص 52)
مولانا محمود حسن کے اس اقتباس کا آخری جملہ بہت اہم ہے جس میں اسلامی خصائل اور قومی محسوسات کی یکجائی پر زور دیا گیا ہے۔ ان دونوں باتوں کی اہمیت وقت کے ساتھ بڑھتی رہی ہے مگر ان دونو ں کا الگ الگ اور کبھی ایک ساتھ تجزیہ کرتے ہوئے کچھ مسائل بھی پیدا ہوئے۔ مولانا محمود حسن کے ذہن میں نوآبادیاتی ہندوستان کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی صورت حال تو تھی ہی ان کا یقین اس بات پر تھا کہ وقت چاہے جیسی بھی سیاسی چال چلے اسلامی خصائل کو قومی محسوسات کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔ جامعہ کی تاریخ اور تہذیب جس کی بنا انھوں نے ڈالی تھی اس کی سمت کا بھی انھوں نے اس طرح تعین کردیا تھا۔ لہٰذا جامعہ کا قیام سرسید تحریک کا کس حد تک ردعمل ہے اس بارے میں اختلاف کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک ایسے ادارے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی جو اسلامی خصائل اور قومی محسوسات کا نمائندہ ہو، قومی محسوسات کو مستحکم کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ ملک کا تعلیمی نظام انگریزوں کے ہاتھ میں نہ ہو، قومی محسوسات کو اسی صورت میں فروغ بخشا جاسکتا تھا جب انگریزوں کی اعانت اور مہربانی کی طرف سے آنکھیں بند کرلی جاتیں۔
سرسید کے ذہن میں تعلیم اور تربیت کا جو تصور تھا جامعہ ملیہ اس کی تعبیر ہے۔ ایسا کہنے اور سمجھنے والو ں کی تعداد بہت کم ہے۔ اول تو سرسید کے ذہن کو نوآبادیاتی جبر سے آزاد ثابت کرنا مشکل ہے، سرسید کی جدیدیت کو نوآبادیاتی صورت حالکی روشنی میں بہترطور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ سرسید کے منصوبے اگر سرسید کی نظر کے سامنے پامال ہورہے تھے تو سرسید نے اس تعلق سے کسی برہمی کا اظہار کیوں نہیں کیا، جو شئے ان کے سامنے بہت ابتدائی صورت میں تھی اسے رفتہ رفتہ ترقی کرنا ہی تھا۔ اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات تعلیم کے ذریعے نوکری کی حصولیابی تھی۔ اگر اس مسئلے پر غور کیا جائے تو اس کا ذمہ دار سرسید سے کہیں زیادہ حالات کو قرار دینا چاہیے۔ حالات تبدیل ہوسکتے ہیں حالات تبدیل کیے جاسکتے ہیں لیکن یہ عمل دیر طلب بھی ہے اور صبر آزما بھی۔ جامعہ میں تعلیم کا مقصد حصول معاش نہیں تھا۔ اس جانب مختلف لوگوں نے اشارے کیے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ جامعہ کی تعلیمی نظام میں حصول معاش کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔
(مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے وابستہ ہے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK