EPAPER
Updated: October 05, 2023, 7:09 PM IST | Ziyaurrehmaan Ansari | Mumbai
مزدور مہینوں یا برسوں تک ایک عمارت کی تعمیر میں بے پناہ مشقت کرتا ہے، گارا مٹی ڈھوتا ہے، اینٹ پتھر پھوڑتا ہے اور خون پسینہ ایک کردیتا ہے۔ لیکن عمارت کی تعمیر کے بارے میں اس کے ذہن میں کوئی تصویر، کوئی نقشہ نہیں ہوتا۔ اِس کے برخلاف انجینئر اگر کاغذ پر پینسل سے ایک لکیر بھی کھینچتا ہے تو اس کے ذہن میں ایک مکمل عمارت کا تصور اپنی پوری تفصیل اور باریکیوں کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔
مزدور مہینوں یا برسوں تک ایک عمارت کی تعمیر میں بے پناہ مشقت کرتا ہے، گارا مٹی ڈھوتا ہے، اینٹ پتھر پھوڑتا ہے اور خون پسینہ ایک کردیتا ہے۔ لیکن عمارت کی تعمیر کے بارے میں اس کے ذہن میں کوئی تصویر، کوئی نقشہ نہیں ہوتا۔ اِس کے برخلاف انجینئر اگر کاغذ پر پینسل سے ایک لکیر بھی کھینچتا ہے تو اس کے ذہن میں ایک مکمل عمارت کا تصور اپنی پوری تفصیل اور باریکیوں کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ انجینئر کا بنایا ہوا نقشہ عمارت کی تعمیر میں روزِ اول سے اس کی تکمیل تک سب سے زیادہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
بس تعلیم و تدریس کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ایک مشن کے مکمل تصور اور بلند تر مقاصد کے بغیر ایک معلّم کی حیثیت مزدور کی سی ہے جو محض نصاب کا بوجھ ڈھوتا ہے اور اپنی اجرت حاصل کرتا ہے۔ لیکن جب معلّم ایک خاص فکر کے ساتھ اپنی ذمے داری انجام دیتا ہے تو وہ حقیقی معنوں میں معمارِ قوم ہوتا ہے۔
اپنے مضمون پر عُبور، فنِ تدریس پر قدرت، طلبہ کی نفسیات سے آگاہی، دل چسپ اندازِ تدریس، ٹکنالوجی کا مناسب استعمال وغیرہ یہ وہ اُمور ہیں جو ایک معلّم کے درس کو موثر بنانے کے لیے لازم ہیں ۔ لیکن یہ امور درس کو اس وقت تک کامیاب نہیں بنا سکتے جب تک اُس میں معلم کی فکر و نظر شامل نہ ہوجائے۔ جن امور کا ذکر کیا گیا ہے وہ درس کے تکنیکی لوازم ہیں اور درس کے ڈھانچے کو پختہ کرتے ہیں ۔ لیکن درس کی روح تو وہ فکر و نظر ہوتی ہے جس کے سائے میں تعلیم کا عمل انجام دیا جاتا ہے۔ تکنیکی اعتبار سے مکمل درس طلبہ کے لیے کاغذ اور قلم کے امتحان میں کامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔ لیکن استاد کی بلند خیالی اور فکر طالبِ علم کو زندگی کے ہر امتحان سے نبرد آزما ہو کر سرخ رُو ہونے کا ہنر سکھاتی ہے۔ صاحبِ فن معلم طالبِ علم کو کامیاب پروفیشنل بناسکتا ہے، لیکن کامیاب انسان اور ایک مکمل شخصیت کی تعمیر صرف ایک صاحبِ فکر و نظر معلم ہی کر سکتا ہے۔
ہم نے اپنے بچپن سے اب تک جن عظیم اساتذہ کا تذکرہ سن رکھا ہے، خواہ وہ مدارس کے علما ہوں ، اسکول کے ٹیچر یا کالج کے پروفیسر، جن کا تذکرہ کتابوں اور علم و فضل کی محفلوں میں بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ کیا جاتا ہے، وہ تمام یقیناً صاحبِ علم و فضل اور تدریس کے فن میں یکتائے روزگار رہے ہیں ۔ لیکن ان کی عظمت و بزرگی کا اصل سبب ان کی وہ فکر و نظر تھی جس نے ان کے ہی جیسے عظیم شاگردوں کو جنم دیا۔ ان کی فکر و نظر کی مثال اُس سورج کی سی ہے جو ڈوبنے سے پہلے روشن ستاروں کو جنم دیتا ہے۔
زمانے کی ترقی کے ساتھ ہی ایسے صاحبِ نظر اساتذہ بھی دنیائے تعلیم کے آسمان سے مفقود ہوتے چلے گئے ہیں ۔ لیکن تقاضا تو یہ ہے کہ ہر معلم کو کسی نہ کسی درجے میں صاحبِ فکر و نظر ہونا چاہیے۔ ہمارے سامنے حنان الحروب، ڈاکٹر رادھا کرشنن، ڈاکٹر ذاکر حسین، رابندر ناتھ ٹیگور، ہیلن کیلر، افلاطون، سلمان خان (امریکہ)، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام جیسے صاحبِ فکر اساتذہ کی روشن مثالیں موجود ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ ان جیسا بننا دشوار ضرور ہو سکتا ہے البتہ ان میں سے کسی ایک کی فکر سے تحریک پا کر اپنی فکر و نظر کی تشکیل کرنا ہرگز دشوار نہیں ہے۔ ’’خواب وہ نہیں جو نیند میں دیکھے جاتے ہیں ، خواب وہ ہوتے ہیں جو نیندیں اڑا دیتے ہیں ۔ ‘‘ یہ قول سائنس داں ڈاکٹر عبدالکلام کا نہیں بلکہ صاحبِ فکر و نظر معلم ڈاکٹر عبدالکلام کا ہے اور ان کی عظیم فکر کی ترجمانی کرتا ہے۔ اعصاب شکن جنگی ماحول میں ہر محاذ پر حوصلوں کی بازی ہارجانے والے معصوم بچوں کو زندگی کا حوصلہ دینے والی فلسطینی معلمہ حنان الحروب اپنے طریقۂ تدریس کے سبب نہیں بلکہ زندگی بدل دینے والی پرعزم سوچ کی بنا پر ہماری چہیتی ٹیچر ہیں ۔ یہ وہ سوچ ہے جو بالآخر طالبِ علم کی زندگی میں وہ تبدیلی پیدا کرتی ہے جو اسے مستقبل میں ایک پراعتماد اور پختہ کردار کی شخصیت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ معلم چاہے زبان کا ہو، سائنس، ریاضی یا کسی اور مضمون کا، اس کی فکر سارے درس میں اس کے الفاظ، برتاؤ اور تلقین کے حوالے سے مسلسل اس کی ذات سے روشنی بن کر پھوٹتی اور بالآخر طالبِ علم کے سینے میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ اور پھر زندگی کی اندھیری راہوں میں اس کی اس طرح رہنمائی کرتی ہے کہ ایک دن وہ خود دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتا ہے۔ حقیقی معنوں معلم کا یہی کردار تعمیرِ قوم ہے اور ایسا معلم ہی معمارِ قوم کہلانے کا حق دار ہوتا ہے۔
وہ کون سے عناصر ہیں جو معلم کو صاحبِ فکر و نظر اور صاحب بصیرت بناتے ہیں؟
★ عصرِ حاضر کے تناظر میں سب سے پہلی اور آسانی سے سمجھ میں آنے والی بات تو یہ ہے کہ وہ شخص جو اپنے انتخاب (چوائس) سے معلم ہے، اس شخص پر برتری رکھتا ہے جسے اس میدان میں ڈھکیلا گیا ہو۔ گویا آمد کو آورد پر فضیلت ہے۔ اساتذہ کا یہ طبقہ تعلیم کی فکری اور نظریاتی اساس سے کسی نہ کسی درجے میں ضرور واقف ہوتا ہے۔ اگر ان کی فکر کی تربیت کی جائے اور انھیں مناسب مواقع میسر آئیں تو یہ اساتذہ تعلیمی معاشرے کے لیے بلاشبہ ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔
★ ایک طبقہ ان اساتذہ کا ہے جن کی فکر کا محور بیل (bell) اور بِل (bill) تک محدود ہوتا ہے۔ اس کا عکس ان کی اسٹاف روم کی گفتگو سے لے کر کلاس روم کی تدریس اور ذاتی زندگی میں صاف نظر آتا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ اس طبقے کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسکول انتظامیہ اور صدر مدرسین کو ان کے شعور کی اصلاح کی جانب فوری توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔ ہمارے چند دردمند بزرگ اس طبقۂ اساتذہ سے مایوس ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے لیے بس دعا ہی کی جا سکتی ہے، حالاں کہ انھیں اپنے حال پر چھوڑنا غلطی ہے۔ تلقین، وعظ و نصیحت رائیگاں نہیں جاتے اس لیے تذکیر و نصائح کے سلسلے کو ہرگز موقوف نہ کیا جانا چاہیے۔ قرآن مجید میں ﷲ تعالیٰ نے معلمِ انسانیت محمد الرسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے (ترجمانی) اے نبی! مومنوں کو نصیحت کرتے رہو، یقیناً نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے۔ چنانچہ مایوسی کی بجائے بار بار نصیحت کی سنت پر عمل ایک مجرب نسخہ ثابت ہو سکتا ہے۔
★ اساتذہ کا ایک بڑا طبقہ وہ ہے جنھیں محض معمولی تحریک و ترغیب کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے بیش تر ادارے ایسے صحت مند ماحول اور ترغیبی نظام سے محروم ہیں جو ایسے اساتذہ کی فکر کو مہمیز کر سکیں ۔ اگر مناسب ترغیب و تحریک کا انتظام کیا جائے تو یہی اساتذہ ہمارے عظیم اساتذہ کی روایتوں کے امین بن سکتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں اکثریت ایسے اساتذہ کی ہوتی ہے جو اخلاص کے ساتھ خدمات انجام دینا چاہتے ہیں لیکن اسٹاف روم کی سیاست، انتظامیہ کی عدم توجہ اور مناسب تحریک کی کمی ان کے حوصلوں کو پست کر دیتی ہے۔
★ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صاحبِ فکر و نظر اساتذہ بنائے جا سکتے ہیں ۔ تو اس کا جواب ہے ہاں ۔ بیزار کو بیدار کرنا، بیدار کو نصیحت کرنا، پھر ترغیب دینا، انھیں تحریک دینا، حوصلہ افزائی کرنا پھر تربیت کرنا، یہ وہ پروسیس ہے جو افراد سازی کا صراطِ مستقیم کہلاتا ہے۔
★ مطالعہ: معلمین کو مطالعے کی جانب راغب کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسی اور سالانہ منصوبہ بندی میں اِسے اولین ترجیحات میں شامل کریں ۔ شخصیت کے ارتقا، فکر و نظر کی بالیدگی اور بصیرت کی تعمیر میں مطالعے کا رول محتاجِ بحث نہیں ہے۔
ہمیں آج بھی دنیا میں کوئی کامیاب ٹیچر ایسا نظر نہیں آتا جو کتابیں نہ پڑھتا ہو۔ آپ قدیم و جدید دَور کے کسی بھی کامیاب معلّم کی زندگی کی سب سے اہم پانچ عادتیں معلوم کیجیے، ان میں سے ایک عادت یقیناً کتابیں پڑھنے کی ہوگی۔ یہ لوگ انتہائی مصروف ہوتے ہیں اور ان کے پاس انتہائی ضروری کاموں کے لیے بھی بہت کم وقت میسر ہوتا ہے لیکن وہ ہر روز، پابندی کے ساتھ کتابیں پڑھنے کے لیے موقع ضرور نکالتے ہیں ۔ جو معلّم کتابیں پڑھتا ہے اور جو نہیں پڑھتا، دونوں کی گفتگو، برتاؤ اور فکر کی وسعت میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ پڑھنے والے کی تدریس میں گہرائی اور وسعت، برتاؤ میں اعتماد اور طبیعت میں ٹھہراؤ ہوگا۔ وہ صاحبِ بصیرت ہوگا، اس کی نصیحت میں اثر اور تلقین میں تاثیر ہوگی۔ یاد رکھیں ، جب ہم مطالعے کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد انٹرنیٹ پر سرفِنگ یا سوشل میڈیا پر بکھرے مضامین یا اقتباسات پڑھنا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد بالخصوص کتابوں کا مطالعہ ہے جس کا کوئی خاص موضوع ہو یا وہ رسائل و جرائد جو بلند خیالات کی تدوین میں معاون ہو سکیں ۔
★ صحبت: معلم کی نشست و برخاست کے ساتھی کون ہیں یہ بات اس کی شخصیت کے لیے فکری بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ بہت سے تعمیری فکر و کردار کے اساتذہ محض اس لیے اپنی ذمے داری کا حق ادا نہیں کرپاتے کہ ان کی صحبت دانستہ یا نادانستہ اس میں مزاحم ہوتی ہے۔ ایک صالح فکر و دانش اس عطر کی مانند ہوتی ہے جو عطر کی دوکان پر ہی میسر آتے ہیں ۔ ہم جس طرح کی فکر کے لوگوں کے درمیان ہوں گے ہماری فکر کی تعمیر بھی اُنھی خطوط پر ہوگی۔ اکثر اساتذہ گروپ اور سرکل کی شکل میں اپنا ایک حلقۂ احباب رکھتے ہیں ۔ معلم کو بیدار شعور کے ساتھ اپنے لیے حلقۂ احباب کا انتخاب کرنا چاہیے، بلکہ تشکیل دینا چاہیے۔ فکر و نظر ایک متعدی عنصر ہے۔ ابو موسیٰ رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے اور برے ساتھی کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مشک لیے ہوئے ہے اور بھٹی دھونکنے والا ہے۔ مشک والا یا تو تمھیں کچھ دے دے گا یا تم اس سے خرید لوگے یا اس کی خوش بو تم سونگھ لوگے (یعنی ہر صورت فائدہ ہی فائدہ ہے)۔ اور بھٹی والا یا تو تمھارے کپڑے جلادے گا یا تمھیں اس کی بدبو پہنچے گی (یعنی ہر صورت میں نقصان ہی نقصان ہے)۔
طبقۂ اساتذہ میں فکر کی سطحیت اور اتھلے پن کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی صحبتوں کے لیے کوئی معیار مقرر نہیں کیا۔ اگر کیا بھی ہے تو اس کی بنیاد دنیوی مفادات اور وقت گزاری ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ معلم خواہ اپنے فن میں یدِ طولیٰ رکھتا ہو، اسے ان خطوط پر اپنی فکر کی تعمیر کی شعوری کوشش کرنی چاہیے جو اس کا منصب اس سے تقاضا کرتا ہے۔ بلند فکر کے بغیر عظیم استاد نہیں اور عظیم استاد کے بغیر صالح معاشرہ نہیں ۔ تعلیمی پالیسی۱۹۸۶ء میں درج ہے: کوئی قوم اپنے اساتذہ کی قدوقامت سے زیادہ بلند نہیں ہو سکتی۔