• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سیماب اکبرآبادی کا سفر ان کے پوتے افتخار امام صدیقی کی زبانی

Updated: November 16, 2023, 3:01 AM IST | Mumbai

 دادا جان (حضرت سیماب اکبرآبادی) کے انتقال کے وقت میری عمر ۵؍ یا ۶؍ سال کی تھی لہٰذا اُن کے بارے میں بہت سی باتیں آنکھوں دیکھی نہیں ہیں بلکہ کانوں سنی ہیں۔ اکثر باتیں والد صاحب (مرحوم اعجاز صدیقی) کی زبانی سنی ہیں۔

Seemab Akbarabadi (right) and Iftikhar Imam Siddiqui. Photo: INN
سیماب اکبر آبادی (دائیں) اور افتخار امام صدیقی۔ تصویر: آئی این این

 دادا جان (حضرت سیماب اکبرآبادی) کے انتقال کے وقت میری عمر ۵؍ یا ۶؍ سال کی تھی لہٰذا اُن کے بارے میں بہت سی باتیں آنکھوں دیکھی نہیں ہیں بلکہ کانوں سنی ہیں۔ اکثر باتیں والد صاحب (مرحوم اعجاز صدیقی) کی زبانی سنی ہیں۔ سیماب صاحب کا انتقال کراچی میں ہوا جہاں وہ حضرت آرزو لکھنوی کے ہمراہ ایک انڈوپاک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔ میں اُس وقت بمبئی (اب ممبئی) میں تھا اور میونسپل اسکول میں زیر تعلیم تھا۔ دادا کو فالج کا اثر ہوا تھا۔ بہت علاج کروایا گیا لیکن کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ چونکہ ہمارے خاندان کے بیشتر افراد ہجرت کرکے پاکستان جاچکے تھے اس لئے، جس وقت دادا جان کا انتقال ہوا، وہاں ہمارے خاندان کے کافی لوگ موجود تھے بالخصوص میرے بڑے ابا منظر صدیقی اور چچا سجاد صدیقی۔ اس کے علاوہ ہمارے ایک چچا اور تھے مظہر صدیقی جنہوں نے والد صاحب کے ساتھ ممبئی آنے کے بجائے آگرہ ہی میں رہنے کو ترجیح دی۔ بہرکیف، دادا جان کراچی ہی میں مدفون ہیں۔ اُن کے تعلق سے سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ذہن میں ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ وہ چوڑی موری (پائنچے) کے پجامے کے ساتھ شیروانی زیب تن کیا کرتے تھے جبکہ سیاہ ٹوپی بھی اُن کی شناخت تھی۔ وہ کبھی شیروانی اور ٹوپی کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلے۔ بوٹا سا قد تھا، فربہ جسم تھے جبکہ سر میں بال کم تھے۔ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ جب میں پیدا ہوا تھا تو کوتوال کے ذریعہ آگرہ میں اعلان کروایا تھا کہ سیماب صدیقی کے خاندان میں فرشتہ پیدا ہوا ہے۔ لوگ باگ دیکھنے آتے تو مذاقاً کہتے کہ دور سے دیکھو کہیں نظر نہ لگ جائے۔ اُن کی محبت و شفقت اس واقعہ سے بھی جھلکتی ہے کہ جب میں تھوڑا بڑا ہوا اور گھٹنوں کے بل چلنے لگا تو گھر میں (جو بڑی سی حویلی کی شکل میں تھا) قالین بچھوا دیا تھا تاکہ میرے گھٹنوں پر خراش نہ آئے۔ سفر پر جاتے تو میرا تکیہ ساتھ لے جاتے تھے تاکہ اپنائیت کا احساس کم یا ختم نہ ہو۔ اسی طرح مشاعرہ کیلئے روانہ ہونے سے قبل کہتے تھے کہ افتخار کو میرے پاس دے دو۔ روانگی سے قبل تھوڑی دیر مجھے کھِلاتے۔
دادا جان، جیسا کہ والد صاحب سے سنا ہے، شاگردوں کی تربیت بڑی شفقت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ چونکہ شاگردوں کی بڑی تعداد تھی جو ملک بھر میں پھیلی ہوئی تھی اس لئے کلام پر اصلاح خط و کتابت کے ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ اُن کا طرۂ امتیاز یہ تھا کہ کسی مصرعہ میں سقم ہو تو پورا کا پورا مصرعہ کبھی نہیں بدلتے تھے بلکہ ایک آدھ لفظ کو اِدھر اُدھر کرکے اُس سقم کو دور کردیا کرتے تھے۔ جو شعر اچھا ہوتا اُس کے آگے ’’ص‘‘ لکھ دیتے تھے۔ شاگردوں کو بتاتے تھے کہ قافیہ کس طرح خیال دیتا ہے۔ اُنہیں علم قوافی سے بھی روشناس کرتے اور یہ بھی بتاتے کہ حرف روی کیا ہوتا ہے۔ شاگردو ں میں جو خصوصیات پاتے وہ اُن پر اُجاگر کردیا کرتے تھے۔ اُنہیں یہ بھی سمجھاتے تھے کہ کاغذ کیسا ہو اور روشنائی کیسی، کس طرح لکھنا چاہئے اور حاشیہ کتنا چھوڑنا چاہئے۔ اُن کے شاگردوں کی تعداد ویسے تو ہزاروں میں تھی لیکن باقاعدہ تلامذہ کی تعداد لگ بھگ ۳؍ سو تھی۔ وہ اپنے تمام شاگردوں کو معنوی اولاد کہتے تھے۔ اگر ان میں سے کوئی اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر آگیا تو خوب ضیافتیں ہوتی تھیں۔ اُن کے تلامذہ میں شاعرات بھی تھیں۔ کوئی شاگرد یا شاگردہ گھر آتی تو دادی اُن کی تواضع میں گویا بچھی جاتی تھیں اور جب وہ واپس جاتے تو اُنہیں تحائف دیئے جاتے تھے۔ اب اُن کا صرف ایک شاگرد بی ایس این جوہر بقید حیات ہیں جن کی عمر ۸۰؍ سال ہے اور میرٹھ میں مقیم ہیں۔ جہاں تک شاگردوں کے شاگرد کا تعلق ہے تو وہ بہت سے ہیں۔ مثلاً شہ زور کاشمیری (جن کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری ہوا تھا)، اُن کے شاگر حامدی کاشمیری ہیں۔ 
تخلیق شعر کے وقت اُن کی عجب کیفیت ہوتی تھی۔ اکثر اوقات یہ صبح کاذب کا وقت ہوتا۔ اُس وقت اشعار قلمبند کرنا مشکل ہوتا تھا اس لئے ایزار بند میں گانٹھیں لگا تے تھے۔ جب صبح ہوجاتی تو ایک ایک گانٹھ کھولتے جاتے اور شعر لکھتے جاتے تھے۔ بہت زود گو تھے۔ داغ کے شاگردوں میں جس شاعر کے سب سے زیادہ شاگرد ہوئے اُن میں دادا جان کا نام سرفہرست ہے۔ جب والد صاحب نے شعر کہنا شروع کیا تو ہدایت دی کہ اساتذہ کے پانچ ہزار اشعار یاد کریں تب ہی شعر کہنے کی اجازت ملے گی۔ بابو جی (والد صاحب) کیلئے یہ کام مشکل نہ تھا کیونکہ اُنہیں دیوان غالب تقریباً ازبر تھا۔ تربیت کا یہ اسلوب تھا دادا جان کا۔ یہی اسلوب والد صاحب نے میری تربیت کیلئے بھی اپنایا۔ جب میں شعر کہنے لگا تو والد صاحب نے تاکید کی تھی کہ اس سے پہلے اساتذہ کے پانچ سو اشعار یاد کریں۔ مجھے یاد ہے، میں نے اُنہیں ۱۰۰؍ شعر سنائے تھے۔ 
مشاعروں میں دادا جان شروع میں ترنم سے کلام سناتے تھے لیکن پھر تحت اللفظ میں سنانے لگے۔ ایچ ایم وی نے ایک ریکارڈ بنایا تھا جس میں اُنہیں ترنم اور تحت اللفظ، دونوں میں شعر پڑھتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔ دادا جان کی بہت سی غزلیں کے ایل سہگل نے گائی تھیں جن میں مثال کے طور پر یہ غزلیں شامل تھیں :
اب کیا بتاؤں میں ترے ملنے سے کیا ملا
عرفان غم ہوا مجھے اپنا پتا ملا
دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں 
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں 
بابو جی بتاتے تھے کہ جب یہ ریکارڈ بجتا تو دادا جان مجھے گود میں بٹھالیتے اور کہتے تھے کہ یہ غزل سنو، یہ تمہارے دادا کی ہے۔ 
دادا جان بہت کشادہ دل تھے۔ اپنے معاصرین کا بڑا ادب کرتے تھے۔ ان میں لبھو رام جوش ملسیانی اور احسن مارہروی کا نام خاص طور پر لیا جاسکتا ہے۔ مشاعروں میں جانے سے پہلے دیکھ لیتے کہ صدارت کون کررہا ہے۔ اگر کوئی تاجر، صاحب ثروت یا کوئی سرکاری عہدیدار صدر ہے لیکن شاعر نہیں ہے تو نہیں جاتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ صدر کا شاعر ہونا ضروری ہے۔ مشاعروں میں خطبۂ صدارت کی روایت اُنہوں نے ہی شروع کی تھی۔ اُن کے خطبات ’’کلیم عجم‘‘ میں شامل ہیں اور چند ایک خطبات ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ میں بھی ہیں۔ پہلا خطبہ اُنہوں نے الہ آباد کے ایک مشاعرہ میں دیا تھا جس کی صدارت تیج بہادر سپرو کو کرنی تھی لیکن وہ نہیں آئے تو صدارت دادا جان کو دی گئی تھی۔ 
 سیماب صاحب نے ماہنامہ ’’شاعر‘‘ ۱۵؍ فروری ۱۹۳۰ء کو آگرہ سے جاری کیا تھا جو ۱۹۵۰ء تک اُنہی کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ جب پاکستان ہجرت کی تو وہاں سے ’’پرچم‘‘ جاری کیا جس کی ادارت چچا مظہر صدیقی نے سنبھال لی تھی۔ 
شاہدلطیف سے گفتگو پر مبنی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK