• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

وقت رہتے اپنے آپ کو سنبھال لیجئے

Updated: November 12, 2023, 3:39 AM IST | Farzana Shahid | Mumbai

اللہ رب العزت نے اپنی تخلیق یعنی اشرف المخلوقات کیلئے دنیا میں جینے کیلئے زندگی کو بہت ہی آسان کر دیا ہے۔ اس کی بنیادی ضرورتیں روٹی کپڑا اور مکان اسے بہ آسانی مل رہی ہیں۔ لیکن آدم کی اولاد نے اپنے لئے آسانی سے زیادہ مشکلات کو ترجیح دی ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

اللہ رب العزت نے اپنی تخلیق یعنی اشرف المخلوقات کیلئے دنیا میں جینے کیلئے زندگی کو بہت ہی آسان کر دیا ہے۔ اس کی بنیادی ضرورتیں روٹی کپڑا اور مکان اسے بہ آسانی مل رہی ہیں۔ لیکن آدم کی اولاد نے اپنے لئے آسانی سے زیادہ مشکلات کو ترجیح دی ہے۔ سکون کے دو آسان نوالوں کو حلق کا جنجال بنایا ہے۔ قابلیت کے بجائے دکھاوے کو ترجیح دی۔ محنت و مشقت پر نمائش کو فوقیت دی۔ غرض بنی نوع نے اپنے ہاتھ سے اپنا بیڑہ غرق کیا۔ اگر آپ پانچ یا چھ دہائی پہلےماضی پر نظر ڈالیں تو آپ کو لوگوں کی زندگی سادہ، ریاکاری سے پاک، خلوص و محبت کی چاشنی میں ڈوبی نظر آئے گی۔ کوئی دھوکہ و فریب نہیں، سچائی ایمانداری کی فراوانی نظر آئےگی۔ پڑوسیوں سے حسن سلوک کی بہترین اور بے شمار مثالیں ملیں گی۔ اگر ہم آج کے دور سے ان باتوں کا موازنہ کریں تو آپ ششدر رہ جائیں گے کہ آج آپ کو اپنے پڑوسی کا نام بھی معلوم نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ پہلے نام تو کیا پڑوسیوں کا پورا حسب نسب یاد ہوتا تھا۔ پڑوسی کے گھر کیا بن رہا ہے۔ ان کے گھر میں کتنے لوگ ہیں، ان کی مصروفیات، مشغولیت، ان کا اٹھنابیٹھنا غرض ساری خبر ہوتی تھی۔ یہاں تک جو مہمان آتے تھے وہ بھی پڑوسیوں سے اس طرح گھل مل جاتے تھے جیسے وہ ان ہی کے خاص مہمان ہو۔ حدیث مبارکہ ہے۔ پہلے پڑوسی پھر گھر۔ 
آج معاملہ بالکل بر عکس ہے۔ پڑوسی کے مہمان تو دور کی بات ہے، پڑوس میں رہتا کون ہے؟ لوگ اس سے بھی واقف نہیں ہیں۔ پڑوسیوں کے حقوق تو دور پڑوسی کے نام سے بھی ناواقف ہیں۔ سب نے اپنی زندگی اس قدر مشکل بنا لی ہے کہ وہ خوشیاں جو ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر نصیب ہوتی تھیں، وہ چھوٹی چھوٹی پریشانیاں جو منٹوں میں حل ہوجاتی تھیں، اس کیلئے اب تھیراپی اور بڑے بڑے ڈاکٹر اور کاؤنسلر کی مرہون منت ہوگئی ہیں۔ پہلے ہماری ہر خوشی اور غم میں پڑوسی شریک ہوتا تھا۔ اب پڑوسی کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ پڑوس میں کون گزر گیا ہے یا کس کی شادی ہے۔ 
مجھے آج بھی یاد ہے۔ ہم چھوٹے تھے تب پڑوس میں رہنے والی میری سہیلی کے والد کا اچانک انتقال ہوگیا۔ ان کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ اس وقت گھر میں کمانے والے صرف وہی چاچا تھے جو گزر گئے۔ ہم حیران تھے کہ اب کیا ہوگا؟ ننھے سے ذہن میں کئی سوال تھے۔ میری سہیلی بھی اپنے والد کو یاد کر کے بہت روتی تھی۔ اس کی امی بہت ہی سادہ مزاج گھریلو خاتون تھیں۔ باہر کی دنیا کے حسین نظاروں سے ناواقف۔ اس وقت ہم نے ان کے ساتھ تمام پڑوسیوں کا جو سلوک دیکھا تھا، اب ویسی مثال ملنا مشکل ہے۔ تمام پڑوسیوں نے خاموشی سے ایک ایک ذمہ داری آپس میں بانٹ لی۔ آج کی طرح پہلے اسکولوں میں فیس اور دوسرے تماشے نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے سب کے اصرار پر چچی نے چاروں بیٹیوں کو اور بیٹوں کو بھی علم کے زیور سے آراستہ کیا اور اب الحمدللہ سب سکون و اطمینان کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 
آج کے ماحول کا اس ماحول سے کوئی مقابلہ نہیں۔ آج کا حال بالکل برعکس ہے۔ موت مٹی ہوجائے تو لوگوں کے آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پہلے گھر میں جگہ کم پڑتی تھی اب یہ حال ہےکہ گھر خالی رہتا ہے چند افراد رسم نبھانے آجاتے ہیں باقی سب کے سب وہاٹس اپ پر اسٹیکر کاپی پیسٹ کر کے اپنا فرض تعزیت ادا کر دیتے ہیں۔ باقی فیس بک، ایکس پر تعزیت کرنے والے پیش پیش رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا سوگوار ہوگئی ہے جبکہ معاملہ بالکل برعکس ہوتا ہے۔ یہاں تعزیت کا اسٹیکر کاپی پیسٹ کیا اور وہیں دوسرے ریل اور ویڈیو دیکھنے میں مشغول ہوگئے۔ اپنی زندگی کو ہم نے اپنے لئے کس قدر مشکل بنا لیا ہے ہمیں احساس ہی نہیں ہورہا ہے کہ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے پیر پر کلہاڑی مار دی ہے۔ 
وقت ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ اگر اس کا ہم نے صحیح وقت پر صحیح استعمال نہیں کیا تو ہم صرف کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ 
زندگی کو اس قدر مشکل بنانے کا ذمہ دار کون ہے۔ اگر تحقیق کی جائے تو زیادہ سفر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بالکل قریب ہمارے اپنوں نے ہی دیوار چین کھڑی کر دی ہے۔ اپنی اچھی خبر کسی سے بھی مت بتائیے۔ نظر لگ جائے گی۔ لوگ حسد کرنا شروع کر دیں گے،اچھی خبروں میں پڑوسیوں کو شامل مت کیجیے۔ وہ لوگ ہم سے کم تر ہیں۔ وہ ہمارے معیار کے مطابق نہیں ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ 
اس طرح کے بیج ہمارے کچھ بڑوں نے بو دئیے تھے ا ب وہ تناور درخت بن گئے ہیں۔ جس کی چھاؤں میں حسد،جلن، تکبر، گھمنڈ آرام کرتے ہیں اور اس کی چھاؤں سے محروم خوشی، سکون و اطمینان دھوپ میں کھڑے رہ کر اپنے آپ میں شرمندہ ہیں کہ ہم کہاں تھے اور اب ہم کہاں آگئے ہیں۔ 
اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ اگر ہماری قوم کے سبھی لوگ مل کر طے کر لیں کہ آج جو ہماری نسل ہے ان کی آبیاری کاوقت آگیا ہے۔ گر ہم ان کی جڑوں میں اچھی قدروں کے بیج بوئیں گے تو ہماری اگلی نسل کا درخت شاندار اور عظمت والا ہوگا۔ بے شک ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر لی ہے۔ ہم نے چاند پر کمند ڈال دی ہے لیکن ہماری تہذیب، ہمارے اخلاق ہم نے پاتال میں کہیں دفنا دئیے ہیں۔ اب بھی وقت ہے، اپنے آپ کو بدلنے کا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK