EPAPER
Updated: January 21, 2024, 4:36 PM IST | Farzana Shahid | Mumbai
اللہ رب العزت نے انسانی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ بچپن جوانی اور بڑھاپا۔ بچپن جو سب سے خوبصورت ہوتا ہے۔ اس دور میں زندگی شہزادی, شہزادے۔ پریوں, راجاؤں اور رانیوں کی طرح ہوتی ہے۔
اللہ رب العزت نے انسانی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ بچپن جوانی اور بڑھاپا۔ بچپن جو سب سے خوبصورت ہوتا ہے۔ اس دور میں زندگی شہزادی, شہزادے۔ پریوں, راجاؤں اور رانیوں کی طرح ہوتی ہے۔ ہر وقت آپ کے پاس دو سے تین خدمت گار موجود ہوتے ہیں۔ کوئی دل بہلانے کے لیے، تو کوئی کھانا کھلانے کے لیے، بہر حال ہر وقت ہر لمحہ آپ کی دل جوئی کے لیے تیار رہتے ہیں آپ کے چہرے کی مسکراہٹ ہر اس فرد کے چہرے پہ مسکراہٹ کی وجہ بن جاتی ہے جو آپ سے جڑا ہے یا آپ سے وابستہ ہے آپ کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے کبھی کبھی ہمارے بڑے بھی بچہ بن جاتے ہیں۔ ہمیں ہنسانے کے لیے وہ جو کر بن جاتے ہی۔ ہر حال میں وہ ہمارے چہرے پہ مسکراہٹ لانا چاہتے ہیں۔ آپ کی مسکراہٹ پر سارا گھر خوش ہو رہا ہے اور آپ کی اداسی پر سارا گھر آپ کو خوش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ کوئی آپ کی خوشی کے لیے ڈھول بجا رہا ہے۔ تو کوئی تالی بجا رہا ہے۔ اچھی خاصی صاف ستھری زبان والاشخص بھی توتلا بن جاتا ہے یہ وہ عمر ہے جس میں ہماری ہر چھوٹی بڑی غلطی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا معاف کر دیا جاتا ہے یہ وہ دور ہے جو تمام فکروں اور پریشانیوں سے عاری ہے۔
اب زندگی کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے یہ لڑکپن کا وہ دور ہے جو بہت خوشگوار وحسین ہوتا ہے اس میں آپ نے بڑوں کی فرمانبرداری تابعداری، خدمت گزاری کی تو زندگی اپ کے لیے بڑی خوشگوار اور حسین ہو جاتی ہے۔ اتنی بڑی بات لکھنے میں صداقت ہے منطق بھی ہے۔ صداقت یہ ہے کہ یہ عمر کا وہ حصہ ہے جو سن بلوغت کہلاتا یے۔ جس میں بچوں میں جسمانی تبدیلیوں کے ساتھ ذہنی نشونما بھی ہوتی ہے۔ اس میں اکثر ساتھیوں اور دوستوں کی وجہ سے ذہنی نشونما ہوتی ہے اور دوست کی صحبت کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔
اس میں بچے فلمی ہیرو ہیروئنوں کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے ہیں اور ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں پھر ان کا یہ حال ہوتا ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھولا۔ ان کی اپنی شخصیت اس نقالی میں کہیں کھو جاتی ہے جس کا سماج پر بہت برا اثر پڑتا ہے لڑکپن کے بعد جوانی کا دور آتا ہے اگر لڑکپن میں آپ نے اپنے آپ کو سنبھال لیا تو جوانی آپ کے لیے اسان ہو جاتی ہے ورنہ جس نے جوانی میں غلطیاں کیں اس کے لیے بڑھاپا اور آگے کی تمام زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے کہتے ہیں جوانی کی محنت اور عبادت آنے والی زندگی کو اسان بنا دیتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ انسان غلطیوں کا پتلا ہے لیکن اگر غلطی کرنے کے بعد وہ اس پر پشیمان ہو جائے اور وہ غلطی نہ کرنے کا اپنے آپ سے وعدہ کرلے تو پھر اس کے لیے زندگی میں بہت آسانیاں پیدا ہوتی ہیں اکثر جوانی کے دور میں انسان اپنے آپ پر بہت گھمنڈ کرنے لگتا ہے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جس طرح بچپن گزر گیا لڑکپن گزر گیا اسی طرح جوانی بھی گزر جائے گی کہتے ہیں کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے جوانی کا دور ایک ایسا دور ہے جس میں آپ محنت مشقت کر کے اپنے آپ کو اور اپنے اطراف میں رہنے والے لوگوں کو فیض پہنچا سکتے ہیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے خاص کر ہماری قوم میں کہ جوانی میں انسان بہت اکڑ کر چلتا ہے وہ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے عظیم ترین انسان سمجھتا ہے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وقت کبھی رکتا نہیں ہے وقت چلتا رہتا ہے۔ جب وہی شخص بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تب اسے احساس ہوتا ہے کہ میں نے کیا کیا؟ بڑھاپا یعنی ہم نے انسانی زندگی میں جو کام کیے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے یہاں یہ کہاوت صادق اتی ہے کہ پیڑ بوئے ببول کے تو آم کہاں سے آئے۔ جو ہم نے ہماری جوانی میں کیا ہے وہی ہمارے بڑھاپے میں ہمارے سامنے آتا ہے خیر یا شر جو بھی ہم جوانی میں کرتے ہیں اس کا انعام ہمیں بڑھاپے میں یقینا ملتا ہے بڑھاپا ہماری ہوئی فصلوں کو کاٹنے کا وقت ہوتا ہے اکثر ہم نے بزرگوں کو دیکھا ہے کہ جب وہ بڑھاپے کی دہلیز پرپہنچتے ہیں تو بچہ بن جاتے ہیں بچہ اور بوڑھا ایک جیسا ہوتا ہے بزرگوں سے اونچی آواز میں بات کرنے کی ممانعت ہے ان سے بہترین سلوک کا حکم دیا گیا ہے لیکن ایک سروے کے مطابق ہم نے یہ دیکھا کہ زیادہ تر بزرگوں کے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا جاتا ہے۔ گھر کے تمام افراد چھوٹے ہوں یا بڑے سبھی ان پرحکم چلاتے ہیں بزرگ انہیں بوجھ لگتے ہیں اسی سروے میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جس گھر میں بزرگوں کی عزت و احترام کیا جاتا ہے اس گھر میں برکتوں کا نزول ہوتا ہے اس گھر کے بچے ادب و تہذیب کے دائرے میں ہیں جس گھر میں بزرگوں کے ساتھ برا سلوک ہو رہا ہے اس گھر کے بچے بدتمیز اور بے حیا ہوگئے ہیں۔ اب وقت ہے بزرگوں کی عزت و احترام کرنے کا,ان کی خدمت کرنے کا۔ ان سے خلوص و محبت و عزت سے بات کرنے کا۔ ضرورت ہے ہمیں اپنے بزرگوں سے اونچی آواز میں بات نہ کرنے کی۔ ضرورت ہے ہمیں اس بات کی کہ ہم بزرگوں کو اپنے گھر کا اپنے خاندان کا سرمایہ سمجھیں ان کی عزت کریں ان کے وقار کو ٹھیس نہ پہنچنے دیں ان سے جھڑک کر ان کو ذلیل کر کے بات نہ کریں۔
اللہ ہم سب کو اپنے بزرگوں سے محبت و احترام سے بات کرنے والا بنا دے۔