• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نئی نسل کے آن لائن مسائل، خطرات اور ان کے اسمارٹ حل

Updated: October 05, 2023, 7:19 PM IST | Md Shabbir Faruqi | Mumbai

دور ِ حاضر سائنس، ٹیکنالوجی اور انٹر نیٹ کے انتہائی عروج کا دور کہا جاسکتا ہے۔ جو زندگی ہم جی رہے ہیں ، اس میں ہمیں یہ فیصلہ کرنا کبھی کبھی مشکل ہوجاتا ہے کہ آیا دور حاضر کی یہ ترقی ہمارے لئے نعمت ہے یا زحمت-

Photo: INN
تصویر: آئی این این

دور ِ حاضر سائنس، ٹیکنالوجی اور انٹر نیٹ کے انتہائی عروج کا دور کہا جاسکتا ہے۔ جو زندگی ہم جی رہے ہیں ، اس میں ہمیں یہ فیصلہ کرنا کبھی کبھی مشکل ہوجاتا ہے کہ آیا دور حاضر کی یہ ترقی ہمارے لئے نعمت ہے یا زحمت … !! یہ سچ ہے کہ سائنس کی نت نئی ایجادات کا یہ سفر انسانی زندگی کی سہولت کے لئے شروع ہوا تھا۔ تیز رفتار سواریاں ، گھریلو استعمال کی چیزیں جیسے واشنگ مشین، مکسر، ریفریجریٹر، ٹی وی، ٹیلی فون وغیرہ ہماری آسانی کے لئے بنائی گئی تھیں مگر ہم ان کے غلام بن گئے ہیں ۔ سائنس کی ترقی کی وجہ سے ماضیٔ قریب میں ہم بٹن کے دور میں جی رہے تھے اور اب ٹچ اسکرین کے دور میں پہنچ گئے ہیں ۔ اگر غور کیا جائے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس ترقی نے دنیا کو جوکچھ دیا ہے، اس سے بہت کچھ زیادہ واپس بھی لے لیا ہے۔ ایپل کمپنی کے بانی اسٹیو جابس نے انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کے عروج کے متعلق بیس برس قبل چند اہم پیشن گوئیاں کی تھیں ، جنھیں اس دور میں اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کیوں کہ ان میں سے اکثران کی موت کے بعدآج بالکل صحیح ثابت ہورہی ہیں ۔ جابس نے میں کہا تھا کہ انٹرنیٹ اس قدر ترقی کرے گا کہ ’’ ویب ڈائل ٹون‘‘ ہر وقت اورہر جگہ دستیاب ہوگا۔ جابس نے یہ بھی کہا تھا کہ انٹرنیٹ تجارت کا اہم ذریعہ بن جائے گا اور اس کی وجہ سے روایتی تجارتی طریقے متاثر ہوں گے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ موبائل فون صرف بات کرنے کا ذریعہ نہیں رہا، بل کہ بے شمار قسم کے کاموں کو پورا کرنے کا نہایت اہم اور آسان ذریعہ بن گیا ہے۔ اس آلہ میں روزانہ کچھ نہ کچھ ’ اپ گریڈ ‘ کیا جارہا ہے۔ اِسمارٹ فون کی مدد سے بڑی تجارتی کمپنیاں اپنے ملازمین اور اپنے متوقع گاہکوں سے ہر وقت رابطہ میں ہیں ۔ ہم اپنے ملک میں بیٹھے بیٹھے دوسرے ملک کی کمپنیوں کے ساتھ ڈیل کرسکتے ہیں ۔ ویڈیوکال کے ذریعہ پوری کمپنی کی میٹنگ آن لائن طریقہ سے لے سکتے ہیں ۔ موجودہ دور میں اِنسانی ترقی کے ساتھ ساتھ جرائم میں بھی سنگین حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ہر شخص اپنے متعلقین کے تحفظ کے بارے میں فکر مند ہے، مگر اس جیبی جادو کی ڈبیا کی مدد سے یہ فکر بھی کم ہوگئی ہے۔ اسمارٹ فون کے جی پی ایس نظام کی مدد سے کسی کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا یا ان کا پتہ لگانا بآسانی ممکن ہے۔ فون پر گفتگو کے ریکارڈ کی حصولیابی سے پولس کو بھی بہت سی غیر قانونی سرگرمیوں پر قابو میں مدد ملی ہے۔ طبی ہنگامی حالات میں ، کسی کی طبیعت اچانک خراب ہونے کی صورت میں یہ فون ڈاکٹر سے رابطہ میں جو مدد کررہا ہے، وہ یقیناً بے مثال ہے۔ اسمارٹ میں آپ بات کرنے کے ساتھ ساتھ تصاویر لے سکتے ہیں ، فلم بناسکتے ہیں ، ای میل بھیج سکتے ہیں ، گیمس سے لطف اٹھا سکتے ہیں اور انٹرنیٹ کی مدد سے ہر وقت دنیا سے جرے رہ سکتے ہیں ۔ گویا ’ کرلو دنیا مٹھی میں … ‘ میں کا نعرہ آج حقیقی شکل میں بچہ سے لے کر بوڑھوں تک ہر ایک کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ لیکن ان سب فوائد کے باوجود یہی اسمارٹ فون، جو سہولت کا دوسرا نام ہے، آج فیشن کا اولین نام بن چکا ہے۔ سنجیدہ مزاج اور سکون پسندافرادنے اسے بار بار ڈسٹرب کرنے والی چیز اور ہر جگہ پریشان کرکے سکون غارت کرنے والے آلہ کا نام دیا ہے۔ یعنی ہر جگہ انسان کی دستیابی کے معاملہ کا فائدہ ہی اس کا نقصان بھی بن رہا ہے۔ خصوصاً نوجوانوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون ضرورت سے زیادہ فیشن کا حصہ ہے۔ بائیک یا کار چلاتے وقت فون کے استعمال سے ہونے والے حادثات اور جانوں کی تلافی شائد ہی کبھی ممکن ہو۔ نئی نسل میں اخلاقی خرابیوں ، بے راہ روی اور فحاشی کے بڑھنے میں سب سے اہم کردار ان اسمارٹ فونس نے ہی ادا کیا ہے۔ یہ بات اب ثابت بھی ہوتی جارہی ہے کہ انسانی صحت کے لئے موبائل فون کی حد سے زیادہ قربت کس قدر بھیانک ہے۔ ایک اسٹڈی کے مطابق اِسمارٹ فون کی رَوشنی کے اثرات ہماری آنکھوں کے لئے اور خصوصاً بچوں اور نوعمروں کے لئے بے حد ضرر رساں ہیں ۔ جدید ٹیکنالوجی، کمپیوٹر، اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ دور حاضر کی نعمتوں میں سے ہیں ، جن سے نئی نسل کو تیز رفتار نتائج حاصل ہوجاتے ہیں ۔ دورِ حاضر کے نوجوان ان تیز رفتار گیجیٹ کو استعمال کرتے کرتے ان کے عادی ہوگئے ہیں یا بہ الفاظ دیگر ان کی لت میں مبتلا ہیں ۔ اس تیز رفتار ترقی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ دورِ حاضر کے نوجوان ان تیز رفتار گیجیٹ کو استعمال کرتے کرتے اپنی زندگی کے نتائج بھی بغیر صبر و تحمل کے، اسی تیز رفتاری سے حاصل کرلینا چاہتے ہیں ، یہ اِس دور کا بڑا المیہ ہے ! بڑے دکھ کی بات ہے کہ جس چیز کو وقت کی بچت کرنے والی ایجاد کے طور پر متعارف کروایا گیا تھا، اس کی وجہ سے آج سب سے زیادہ وقت ضائع ہورہا ہے۔ 
 یہ بات اہم ہے کہ اولاد کی شخصیت کو نکھارنے اور اس کو چار چاند لگانے میں والدین اور گھر کے افراد کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ چونکہ بچہ اپنے ابتدائی اوقات اپنے گھر میں صرف کرتا ہے، لہٰذا والدین کے لئے ضروری ہے کہ درست اور موزوں روش اختیار کریں ۔ ان کے افعال و کردار بچے کی تربیت میں بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ جن چیزوں سے بچوں کو روکیں ، ان سے پہلے خود ان پر عمل کریں ۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ اولاد کا حق باپ پر یہ ہے کہ اس کا اچھا سا نام تجویز کریں اور اسے بہترین آداب سکھائے اور قرآن کی تعلیم دے۔ موجودہ حالات میں والدین و اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جدید آلات خصوصاً اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے نقصانات اور خطرات سے بھی واقف کروائیں ۔ والدین اپنے بچوں کی جسمانی تربیت کریں تاکہ ان میں ورزش گاہ یا جم جانے کے رجحان میں اضافہ ہو، انہیں صاف ستھرا اور پاک و صاف رہنے کی تاکید کریں ساتھ ہی ان کی اخلاقی و روحانی تربیت کریں ۔ جب تک بچے انتہائی شعور کی حد تک نہ پہنچیں ، اس وقت تک بچوں کو اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی براہ ِ راست رسائی سے دور رکھیں ۔ یہ بات ہمارے مشاہدہ میں آئی ہے کہ آج بہت سارے سمجھدار والدین دسویں جماعت تک تو اپنے بچوں کو اسمارٹ فون سے دور رکھتے ہیں مگر ان کے ایس ایس سی امتحان میں کامیاب ہوتے ہی ان کوجدید قسم کا فون خرید کر دیتے ہیں ، جب کہ اس کام کے لئے یہ موزوں وقت نہیں ہے۔
 عنفوان شباب میں داخل یہ بچے اس وقت عمر کی زیادہ نازک اسٹیج پرہیں ، جن پر زیادہ نظر رکھنے اور نہایت مستعدی سے ان کی رہنمائی و تربیت کی ضرورت ہے۔ ہم بہت سارے ایسے لوگوں کے بارے میں جانتے ہیں جو اس نئے زمانے کے سوشل میڈیا یوزر ہیں ۔ واٹس ایپ سے لے کر واٹس ایپ تک اور ٹویٹر سے لے کرلنکڈ اِن اوریوٹیوب تک ہر جگہ موجود ہیں ا ور سرگرم بھی ہیں ۔ لیکن ان کی سوشل میڈیا پر ان کی سرگرمیاں محدود ہیں ، تعمیری ہیں ، اصلاحی اورتربیتی ہیں ۔ سوشل میڈیا ایک غیر روایتی میڈیا ہے جو انٹرنیٹ کی مدد سے ایک ورچوئل ورلڈ بناتا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ ایک ایسا ذریعہ بن کر ابھرا ہے جو سائبر جرائم اور اس کے اِستعمال کرنے والوں میں منفی رجحانات پیدا کرنے کا باعث بنا ہے۔ اس کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے نوعمروں اور نوجوانوں میں تنہائی پسندی کے رجحانات میں بے انتہا اضافہ ہواہے۔ اجنبیوں سے قربت اور اپنوں سے دوری پیدا کرنا اس میڈیا کا اہم مشغلہ ہے۔ نوجوانوں کو نفسیاتی مریض بنانے والا یہ میڈیا آج انھیں بڑے پیمانے پر ایک انجانے خوف میں بھی مبتلا کررہاہے۔ اگرہماری نئی نسل کو ان خطرات سے آگاہ کیا جاتا ہے اور انہیں اِسمارٹ فونس اور سوشل میڈیا کے صحتمند اور تخلیقی استعمال کی طرف راغب کیاجاتا ہے تو یہ ایک بہترین عمل ہوگا۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم اَپنے بچوں کو خوابوں کی اس دنیا میں گم ہونے سے روکیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ انہیں دُوست بناکر ان کے مسائل سمجھنے اور ان کے مناسب حل تلاش کرنے کا سب سے صحیح وقت یہی ہے۔ اگر بہت ضروری ہو تو صرف اپنے بچوں سے رابطہ کے مقصد سے بارہویں جماعت پاس کرنے کے بعد انہیں اسمارٹ فون کے بجائے سادہ فون دیا جائے۔ مختصراً ان تمام نکات کو دیکھتے ہوئے یہ اَندازہ ہوتا ہے کہ فوائد کے مقابلے میں نقصانات زیادہ ہیں ، یا ہورہے ہیں ۔ بہرحال، اِحتیاط علاج سے بہتر ہے۔ ماضی بدل نہیں سکتا مگر حال اور مستقبل تو بہر حال ہمارے قبضے میں ہے۔ کسی بھی چیز کا زیادہ استعمال ہمیں اس کا عادی بنادیتا ہے۔ کسی نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے کہ دلچسپی کو شوق نہ بننے دو، کیوں شوق جب بڑھ جاتا ہے توطلب میں تبدیل ہوجاتا ہے، اور طلب کی انتہا جنون ہے۔ تکنیک و ترقی کا موزوں اِستعمال ایک نعمت ہے جب کہ جنون کی حد تک اس کا استعمال زحمتوں اور نقصانات کو دعوت دیتا ہے۔ سوشل میڈیا کی اس خوبصورت دنیا میں خود بھی مھتاط رہیں ، اپنے قریبی افراد کو بھی احتیاط سے بڑھنے کا مشورہ دیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK