• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ملک کے سیاسی و سماجی حالات اور مسلمانوں کی ذہنی صحت

Updated: November 20, 2023, 7:07 AM IST | Mumbai

’’بے باک کلیکٹیو‘‘ مشہور سماجی ادارہ ہے جس نے بڑی جانفشانی کے ساتھ یہ جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ مسلم مخالف سیاسی و سماجی ماحول کس طرح مسلمانوں کو ہراساں کرتا ہے اور اس کے کیا اثرات اُن کی ذہنی صحت پر مرتب ہوتے ہیں ۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

 یہ ایک طویل رپورٹ ہے جو انقلاب کے سنڈے میگزین میں قسط وار شائع ہوچکی ہے۔ 

رپورٹ کا پیش لفظ 
کیتکی راناڈے (فیکلٹی سینٹر فار ہیلتھ اینڈ مینٹل ہیلتھ، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسیز، ممبئی) نے رپورٹ کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ دماغی صحت اور اسے سماجی و سیاسی تناظر میں سمجھنے کی کوشش طویل اور گہری خاموشی کے بعد اب شروع ہوئی ہے جس کے بہت سے اسباب میں سے ایک اور شاید سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وبائی دور میں سماج کے کمزور طبقات کو کافی کچھ سہنا پڑا مگر وبائی دور سے پہلے بھی سماجی طور پر حاشئے میں رہنے اور عوام کی دماغی صحت کے متاثر ہونے کا جائزہ آبادی کے مختلف طبقات میں لیا گیا مثلاً خواتین کی دماغی صحت، بے گھر ہوجانے والے افراد کی دماغی صحت، دلتوں ، بہوجن سماج کے لوگوں اور ادیباسیوں کی دماغی صحت وغیرہ، لیکن مختلف مسائل کے پیش نظر ہندوستانی مسلمانوں کی ذہنی صحت کے بارے میں کوئی خاطرخواہ مطالعہ نہیں ہوسکا چنانچہ دماغی صحت کے باب میں یا ملک کی ترقیاتی ادبیات میں اس موضوع پر نہ تو کوئی خاص تحقیق ہوئی نہ ہی ضروری مواد ملتا ہے۔ گپتا او کوفی رپوٹ مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر آبادی کے طبقات کی ذہنی صحت کو سمجھنے کی اچھی کوشش تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والے افراد اور خاندانوں نیز مسلمان افراد اور خاندانوں میں اپنی بے چینی، اضطراب اور غم و اندوہ کی کیفیت کے اظہار سے گریز اتنا نہیں ہے جتنا کہ اَپر کاسٹ ہندوؤں میں ہے۔ ایسی ہی ایک اور تحقیق میں ، جس کا مقصد ذہنی صحت پر فرقہ وارانہ فسادات کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش تھا، فساد سے متاثرہ مسلم خاندانوں میں ذہنی صدمے کی کیفیت پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ چند مطالعات کے ذریعہ وادیٔ کشمیر میں ذہنی صحت کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ ایسے مطالعات، تحقیق یا جائزے مسلمانوں کی ذہنی صحت پر توجہ مبذول کرواتے ہیں مگر ان جائزوں کے دوران تحقیق تکنیکی طریقۂ کار پر ہوئی ہے۔ ہمارا مقصد اس طریقہ کار کی تحقیر کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ ایسی تحقیق یا جائزے ’’سماجی نقصانات (اذیت ناکی)‘‘ پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں لہٰذا ان میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ زخم، درد، سماجی، سیاسی اور محکمہ جاتی جبر کا انسانی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے مگر اس رپورٹ میں روزمرہ کی سرگرمیوں کے دوران عوامی مقامات پر پیش آنے والی دشواریوں ، تعلیمی سہولتوں تک رسائی اور مالی استحکام وغیرہ کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ زیر نظر رپورٹ نفسیاتی ماہرین نے نہیں بنائی ہے بلکہ یہ اُن سماجی کارکنان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جو خواتین کے حقوق اور سماجی بہتری کیلئے زمینی سطح پر کام کرتے ہیں ۔ اس رپورٹ کی طاقت وہ اٹوٹ رشتہ اور گہرا تعلق ہے جو متذکرہ سماجی کارکنان اور اُن لوگوں کے درمیان پایا جاتا ہے جن کیلئے یہ کارکنان سرگرم عمل رہتے ہیں ۔ 

جائزہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اس لئے کہ حالات بدلے ہیں ، بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے قانون کی غلط تشریح اور غلط نفاذ کی وجہ سے ہندوستانی مسلمان خود کو الگ تھلگ محسوس کرنے لگے، اُن میں سراسیمگی پائی جانے لگی۔ اگر ایک طرف یہ ہوا تو دوسری طرف ہندو اکثریت نوازی سماج پر حاوی ہوگئی، جو قانون تمام شہریوں کو یکساں حقوق اور مواقع، پُروقار زندگی جینے کی آزادی اور انصاف کی نظر میں سب برابر ہیں کے کلیہ پر مبنی ہے، اس کے اطلاق میں جانبداری آگئی۔ کئی نہایت خوفناک قوانین جن کا اطلاق عوامی زندگی کوسنگین خطرہ لاحق کرنے کے سلسلے میں ہوتا ہے، وہ بے دریغ ہونے لگا۔ ایسے قوانین بھی وضع ہوگئے اور نافذ ہونے لگے جن سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے ملک میں مسلمانوں کا وجود اکثریتی ہندو آبادی یا قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہو۔ ایسا ہی ایک قانون یو اے پی اے ہے جس کے تحت ہونے والی گرفتاریوں کی تعداد ۲۰۱۶ء میں اتنی نہیں تھی جتنی کہ ۲۰۱۹ء میں ہوگئی۔ اس قانون کا اطلاع غیر قانونی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خلاف ہونا چاہئے تھامگر اس کے تحت اُن لوگوں کو ماخوذ کیا گیا جو مسائل کے خلاف آواز اُٹھا رہے تھے۔بہت سے ملزمین کو بغیر مقدمہ چلائے طویل عرصے تک حراست میں رکھا گیا۔ اس قانون کا اطلاق کس طرح ہوا اس کی ایک مثال یہ ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والے سماجی رضاکاروں پر یواے پی اے کا لگایا جانا ۔ اس سلسلے کے تحت جن اٹھارہ سماجی کارکنان کو گرفتار کیا گیا اُن میں سے تیرہ اب بھی جیل میں ہیں جنہیں ضمانت ملنے کی اُمید ہے نہ ہی مقدمہ کی سماعت جلد شروع ہونے کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔حکومت کی نظر میں وہ مسلم صحافی بھی ہیں جنہوں نے مسلم آبادیوں کے خلاف ہونے والے تشدد پر سوال اُٹھا رہے تھے ۔ متعدد مسلم مخالف قوانین کی وجہ سے مسلم فرقہ کے آئینی حقوق پر کتنی زد پڑرہی ہے او راس کی وجہ سے اس فرقے کے لوگوں کی ذہنی صحت پر کیا اثر پڑا ہے یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ ان قوانین میں آپ دیکھیں گے کہ گئو کشی سے متعلق قانون جس کے تحت مسلمان ہی ہدف بنتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بڑے کے گوشت کے بیشتر برآمد کار ہندو ہیں ۔ ان قوانین میں استغاثہ کسی کو مجرم ثابت کرے ایسا نہیں ہوتا بلکہ ملزم پر ذمہ داری ہوتی ہے کہ خود کو بے گناہ ثابت کرے۔ ۲۰۱۹ء کا سی اے اے اور این آر سی کے قانون کو بھی بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے جس کا ہدف بڑی تعداد میں مسلمان ہی بننے والے تھے۔ اس کا مقصد بھی مسلمانوں کو ملک کی شہریت کے اپنے جائز اور قانونی حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے کئی قوانین کی مثال دی جاسکتی ہے۔ اِس طرح اکثریت پرستی کی آئیڈیالوجی قانون کے ذریعہ مستحکم ہورہی ہے ۔ محسن عالم بھٹ نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ اکثریت پرستی کے رجحان کو فروغ دینے کیلئے موجودہ قوانین کی خلاف ورزی کی گئی جیسا کہ جہانگیر پوری (دہلی) میں ہونے والی انہدامی کارروائی کیلئے دہلی میونسپل حکام نے میونسپل ایکٹس کی خلاف ورزی کی۔ اس قسم کی کارروائیوں کا نتیجہ ہے کہ اقلیتی فرقے کے لوگوں میں دوسرے درجے کے شہری کا احساس پیدا ہورہا ہے کیونکہ وہ ایک طرف قانون کی زد میں لائے جاتے ہیں اور دوسری طرف ہندوتوا وادیوں کی فوج اُن کے خلاف سرگرم رہتی ہے۔ حقوق کی پامالی کے اس عمل میں مسلمانوں کو نہ تو کوئی بامعنی راحت ملتی ہے نہ ہی قانون کی پناہ ملتی ہے۔ 

روزمرہ کی زندگی میں تضحیک و تحقیر
نسلی تطہیر کے مقصد سے ہونے والے تشدد کے ایک ماہر گریگری اسٹینٹن نے جنوری ۲۰۲۲ء میں ہندوستانی مسلمانوں کی نسلی تطہیر (جینوسائڈ) کے خلاف متنبہ کیا تھا۔ یہ انتباہ فرقہ وارانہ تشدد کے آئے دن کے واقعات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ ’’جہاد‘‘ (لوَ جہاد، زمین جہاد، کورونا جہاد، یوپی ایس سی جہاد وغیرہ) کا بار بار ہو ّا کھڑا کرنے کا حربہ مسلمانوں کے حاوی ہونے کے مفروضے کے پیش نظر ہے۔ مسلمانوں کے ذریعہ گوشت کی فروخت کا معاملہ ہو یا یوپی ایس سی میں کامیابی کا، کھلی جگہوں پر نماز ادا کرنے کا ہو یا اسٹیٹس رکھنے کا، یہ ہوا ّنہایت آسانی سے کھڑا کردیا جاتا ہے۔ ہریانہ میں گئورکشکوں کے ذریعہ مسلمانوں پر تشدد کی بابت کرسٹوف جیفرلوٹ نے یہ تصویر واضح کی ہے کہ مبینہ تشدد مقامی پولیس، سیاستدانوں اور گئورکشکوں کی ساز باز کا نتیجہ تھا۔ گئو رکشکوں کی تنظیموں مثلاً گئو رکشا دَل، ہندو یووا واہنی اور ہندو سینا کی سرگرمیاں حکومت کی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں ۔ ان کا دائرۂ اثر کافی بڑھ گیا ہے۔ افراد کے خلاف اُن کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے پس پشت یہی تنظیمیں ہیں ۔ بہت سے معاملات میں اگر تشدد نہیں ہوا تو مخصوص مذہبی شناخت رکھنے والے شہری کو ایک خاص نعرہ لگانے پر مجبور کرکے اُس کی انفرادی آزادی کو یرغمال بنالیا گیا۔ یہ تحقیر اور تضحیک ایک قسم کی روزمرہ کی ڈھانچہ جاتی فرقہ پرستی (انسٹی ٹیوشنلائزڈ ایوری ڈے کمیونلزم) ہے جس کے تحت بعض علاقوں میں ہونے والا تشدد فساد نہیں کہلاتا بلکہ گئو رکشا کے مقصد سے ہونے والی روک ٹوک میں بدل جاتا ہے۔ 
مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد کی ایک قسم وہ بھی ہے جو سوشل میڈیا پر جاری رہتی ہے اور جس کے تحت اسلحہ اُٹھانے کی دعوت دی جاتی ہے تاکہ مسلمانوں کی نسلی تطہیر (جینوسائڈ) ممکن ہوسکے یا پھر ایسے ویڈیو اور پیغامات جاری کئے جاتے ہیں جن میں مسلمانوں کو تشدد پسند باور کرایا جاتا ہے کہ اُن کے مردوں میں اشتعال پایا جاتا ہے اور اُن کی عورتیں مزاحمت سے عاری مخلوق ہیں ، ایسے ایپ بنائے جاتے ہیں جن کے ذریعہ مسلم خواتین کی نیلامی کا گویا اشتہار دیا جاتا ہے او رمسلم صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو لعن طعن کی جاتی ہے۔ ۲۰۲۰ء میں دہلی فسادات کے دنوں میں اس طرح کی نفرتی مہم منظر عام پر آئی تھی۔ وہاٹس ایپ اور فیس بُک گروپس مسلم مخالف جذبات پیدا کرنے میں سرگرم تھے۔

فرقہ پرستی کا ہدف
فرقہ پرستی نے حالیہ برسو ں میں مسلمانوں کے ساتھ مذہبی بنیاد پر تعصب کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ اُن کی تعلیم اور روزگار متاثر ہو۔ اب تک جو مباحثے ہوئے ہیں اُن میں یہی موضوع زیر بحث رہا، مثال کے طور پر حجاب پہننے والی خواتین کو ہدف بنانا جس سے اُن کی تعلیم اور روزگار متاثر ہو۔ اسی طرح مسلم دُکانداروں کا بائیکاٹ تاکہ اُنہیں منظم طریقے سے معاشی طور پر حاشئے پر لایا جائے۔ ان مباحث میں بھی ذہنی صحت کا احاطہ کیا گیا۔ جو دانشورانہ مضامین منظر عام پر آئے اُن میں کسی سانحے کے بعد کی ذہنی کا صحت کا جائزہ لیتے ہوئے اُن علامات کا تجزیہ کیا گیا جو بے خوابی، مایوسی اور توجہ بٹنے کی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں ۔ دیگر مضامین میں ۲۰۰۲ء کی گجرات فسادات کی متاثرہ خواتین کے سماجی، نفسیاتی اور جسمانی مسائل کو سمجھنے کی کوشش ہوئی۔ اس کیلئے جو طریقہ اختیار کیا گیا اُسے اصطلاحاً پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کہا جاتا ہے یعنی کوئی سانحہ ہونے کے بعد ذہنی دباؤ کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ کس نوعیت کی ہے۔ 
بعض قابل قدر کوششیں دستاویزی فلموں کے ذریعہ بھی ہوئی ہیں جن سے ناظرین یہ سمجھ پاتے ہیں کہ متاثرین کیا کہہ رہے ہیں اور جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اُس کے پس پشت کس طرح کا کرب اُن میں پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک دستاویزی فلم تھی ’’دی فائٹل سالیوشن‘‘ جو ۲۰۰۴ء میں بنائی گئی تھی۔ ایسی فلموں کے ذریعہ گجرات فساد متاثرین کے مسائل کی نوعیت کی شناخت کرنے کی کوشش کی گئی مثلاً جو نقصان ہوا اُس کا احساس کتنا شدید ہے اور آپسی رشتوں میں کس قسم کی دراڑیں پڑیں ۔ ان فلموں سے مسلمانوں کے مصائب منظر عام پر آئے اور اُن لوگوں کو، جنہوں نے گجرات فسادات کو ٹھیک طریقے سے نہیں سمجھا تھا، بہت سی باتیں سمجھائی جاسکیں ۔ 
بے باک کلیکٹیو کی یہ رپورٹ مذکورہ تمام جائزوں اور مطالعات یا دستاویزی فلموں سے آگے بڑھتے ہوئے ’’مسائل پر مبنی گفتگو‘‘ کو دماغی صحت پر مرکوز کرنے کی کوشش ہے، اس لئے بھی کہ بہت سے مسائل انسان کی ذہنی صحت پر الگ الگ طریقے سے اثرانداز ہوتے ہیں ۔ بنگلور کی مینٹل ہیلتھ پریکٹیشنر (ذہنی صحت کے اُمور کو سمجھنے والی ماہر) شمیمہ اصغر نے بے باک کلیکٹیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ طبی نقطۂ نظر سے ذہنی صحت کا جائزہ لیتے وقت کافی انفرادی پن پیدا ہوجاتا ہے چنانچہ اس میں تشدد کے بنیادی محرکات کا جائزہ نہیں لیا جاتا بلکہ متاثرین پر جو اثرات مرتب ہوئے اُن کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، بہ الفاظ دیگر، متاثرین کو یہ سمجھایا جاتا ہے کہ جو تشدد ہوا وہ ہوچکا ، اب اُس کے ساتھ نباہ کیسے کیا جائے۔ بے باک کلیکٹیو کی یہ رپورٹ سماجی اذیت ناکی کے نقطۂ نظر پر مبنی ہے جس میں فرقہ پرستی کے پیش نظر ذہنی صحت کو آنکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سماجی اذیت ناکی انسانی مسائل کے اُس مجموعے سے عبارت ہے جن کی اپنی بنیادیں ہوتی ہیں ۔ یہ رپورٹ فرقہ پرستی کے اُن اثرات کا جائزہ لیتی ہے جو بے چینی، پریشانی اور انتشار ِ زندگی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ اس نقطۂ نظر سے یہ جائزہ لینا مقصود تھا کہ متاثرین کو جو پریشانی لاحق ہوئی وہ کس حد تک اثر انداز ہوئی اور متاثرین نے اُس سے نباہ کرنا کیسے سیکھا۔ اسے، اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ متاثرین کی ذہنی صحت بھی ایک اہم کسوٹی ہوتی ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کے ساتھ سماجی منافرت اور سرکاری بے عملی کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کئی متاثرین سے بات چیت اور اُن کے انٹرویو کے ذریعہ ہم یہ سمجھ پائے کہ متاثرین کے جذبات، احساسات اور تاثرات سے ذہنی صحت کی جو تصویر بنتی ہے اس سے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح فرقہ پرستی نے ہندوستانی مسلمانوں کی روزمرہ کی زندگی کو بدل دیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ذہنی صحت وہ تصویر پیش کرتی ہے جو عموماً لوگوں کے سامنے نہیں آتی، یہ وہ کہانی ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہوپاتی، کہی نہیں جاتی اور پھر وہ وقت آتا ہے جب فراموش کردی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے ذریعہ کوشش یہ کی گئی ہے کہ فرقہ پرستی کے سبب برپا ہونے والا تشدد متاثرین کےمستقبل، صحت اور مالی استحکام سے متعلق زندگی کے تجربات کو کس حد تک بدل دیتا ہے۔

اس رپورٹ کیلئے اپنایا گیا طریق کار
بے باک کلیکٹیو نے اس رپورٹ کی تیاری کیلئے دہلی، اُترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، آسام اور گجرات کے متاثرین سے انٹرویوز کئے جس کیلئے چھ ماہ درکار ہوئے (فروری تا جولائی ۲۰۲۲ء)۔ جن مسلمانوں سے بات چیت کی گئی وہ تعلیمی اور معاشی اعتبار سے سماج کے الگ الگ طبقات کے لوگ ہیں ۔مختلف ریاستو ں کے اِن مسلمانوں میں جو چیز قدر مشترک کے طور پر موجود ہے وہ اُن کی مذہبی شناخت اور فرقہ وارانہ تشدد سے اُن کی قربت (یعنی وہ کتنی آسانی سے ہدف بن سکتے ہیں ) ہے۔ موضوع پر بہتر تحقیق کے مقصد سے ہم نے اپنا دائرۂ کار وسیع رکھا چنانچہ سماجی کارکنان سے بھی بات چیت کی گئی جنہیں سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا تھا، ہم نے سماجی رضاکاروں کے دوستوں سے بھی گفتگو کی، ہجومی تشدد کا شکار بننے والے افراد کے اہل خانہ سے بھی رابطہ کیا، فرقہ وارانہ فساد کے متاثرین اور اُن کے اہل خانہ سے بھی سوال جواب کئے اور جو لوگ گرفتار کئے گئے اُن کے اہل خانہ کے درد کو بھی سمجھنے کی کوشش کی۔ اس پوری مشق کے دوران ہماری کوشش یہ تھی کہ فرقہ پرستی سے متعلق لوگوں کے تجربات اور اس کے سبب مرتب ہونے والے احساسات کو سنا اور سمجھا جائے۔ لوگوں سے رابطہ کرتے وقت ہمیں کئی لوگ عجب حالت میں ملے، مثلاً ایک شخص اپنے دوست کے والد کی گرفتاری کی خبر سے جوجھ رہا تھا، ایک شخص پولیس سے بچنے کی کوشش میں تھا اور ایک شخص علاقہ کے فساد کے بعد ہونے والی گرفتاریوں سے نمٹ رہا تھا۔ انٹرویوز کے دوران ہم نے لوگوں کو الگ الگ ذہنی کیفیات میں بھی دیکھا مثلاً ایک لمحہ میں اُن کی گفتگو حالات کے تجزیئے یا عملی تجربہ پر مبنی تھی تو دوسرے لمحے اُن کی بات چیت پر مایوسی کا عنصر غالب تھا۔ کبھی اُنہو ں نے ذاتی کیفیات کا اظہار کیا۔ انٹرویوز کے دوران لوگوں نے فسادات کے تعلق سے اپنے تجربات اور مشاہدات بیان کئے، انہدامی کارروائیوں کی بابت بتایا، اپنے ساتھ ہونے والی بے وفائی اور اپنی ناکامی کا ذکر کیا اور اپنے شب و روز میں آنے والے سخت ترین حالات کو بیان کیا۔ 

’’کورٹ کی ویب سائٹ دیکھتا رہتا ہوں پوری رات‘‘
ایسے سیاسی و انتخابی نظام میں جس پر بی جے پی کا تسلط ہے، نفاذِ قانون کا انحصار اس بات پر ہے کہ کس شخص کا مذہب کیا ہے۔ قانون کے ایسے ’بے ترتیب نفاذ‘ کا نتیجہ یہ ہے کہ قانونی وسائل اور جوابدہی کے راستے مسدود سے ہوگئے ہیں ۔ جمہوریت میں توازن برقرار رکھنے والے اداروں کی اثر پزیری جانبدارانہ ہوگئی ہے چنانچہ اس دور میں ہندوستانی مسلمان ’’ڈھانچہ جاتی فریب خوردگی‘‘ کے عالم میں زندگی بسر کررہے ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ قانون سے اُن کی اُمیدیں کم ہوگئی ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قانون آفاقی اخلاقیات کی بنیاد پر کام کرتا اور ’’مسلمان خاطی ہے‘‘ یا ’’جو سُوَرن ہے وہ بے قصور ہے‘‘ کی بنیاد پر نہیں ۔ مسلمان کس اذیت سے دوچار ہیں اس کا اندازہ تب ہوا جب ہم نے شمال مشرقی دہلی کے ۲۱؍ سالہ نوجوان بلال سے گفتگو کی۔ بلال کے بڑے بھائی کو دھوکہ دہی کے ایک کیس میں فروری ۲۰ء کے فساد کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ جب بلال کے بڑےبھائی کی دکان جلائی گئی تو وہ مبہوت رہ گیا، ایسے میں وہ آتشزنی کی ویڈیو بنارہا تھا۔ پولیس نے اسی ویڈیو کو اُس کے خلاف استعمال کیا۔ بعد میں اسے ایک دو نہیں سولہ کیسوں میں ماخوذ کرکے گرفتار کرلیا گیا۔ تب ہی گھر کے سب سے چھوٹے فرد بلال کو گھر کی کفالت کا ذمہ اُٹھانا پڑا اور جیل میں بند اپنے بھائی کی فکر کرنی پڑی نیز قانونی لڑائی کیلئے وسائل فراہم کرنے پڑے۔ بلال کے مکان کی دیواریں اس کے بھائی کے کیس کی تفصیلات سے بھری ہوئی ہیں ، وہ کن کیسیز میں ماخوذ کیا گیا ہے، کن کیسیز میں اُسے ضمانت مل چکی ہے اور کن کیسیز کیلئے اُن کی جدوجہد ہنوز جاری ہے، یہ سب دیواروں پر موجود ہے۔ یہ دیوار نہیں ایک جھروکہ تھا جس سے ہمیں بلال کی ذہنی پریشانی کو سمجھنے میں مدد ملی۔ اسی پریشانی کے سبب وہ رات بھر سکون سے سو بھی نہیں پاتا۔ اس کا یہ کہنا کتنا معنی خیز ہے کہ ’’مجھے رات میں نیند نہیں آتی، کورٹ کی ویب سائٹ ہی دیکھتا رہتا ہوں پوری رات۔‘‘ بھائی کی رہائی کیلئے کم عمری میں صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود بلال کو اُمید ہے کہ اس کا بھائی گھر واپس آئیگا اور اُن کا گھر ایک بار پھر معمول پر آجائیگا۔ بقول بلال: ’’میرے دماغ میں بس یہی ہے کہ بھائی جلدی گھر آجائے، پھر ممی کا اسٹریس بھی چلا جائیگا، وہ (بڑے بھائی) سب سنبھال لیں گے۔‘‘ 

’’کیا ہمارے پیٹ نہیں ہیں ، کیا ہمارے بچے نہیں ہیں ؟‘‘
فساد متاثرین ہی کو فساد کیلئے ذمہ دار قرار دینے کی روش (پیٹرن) سے متاثرین کے گھر کی کیا حالت ہوتی ہے اس کا اندازہ ہمیں کھماریہ (رائے سن ضلع، مدھیہ پردیش) میں بھی ہوا۔ مسلمانوں اور ادیباسیوں کے درمیان ہونے والے فساد میں ایک ایسی صورت حال پیدا ہوئی جس سے مسلم خواتین کی درگت کا اندازہ ہوتا ہے کہ فساد کے بعد اُنہیں کس طرح حالات کو جھیلنا پڑتا ہے۔ یہاں اپریل ۲۲ء میں فساد ہوا تھا۔ ہولی کے موقع پر ایک مسلم خاتون کو ایک گروپ نے پریشان کیا اور پھر باقاعدہ لوٹ مار شروع ہوگئی اور مسلمانوں پر حملے ہونے لگے جس کے بعد ایک ہی خاندان کے ۱۶؍ افراد کو، جو الگ الگ مکانات میں رہتے تھے، گرفتار کیا گیا اور اُن کے خلاف کیس درج کیا گیا۔ ہمارے دورے کے دوران کھماریہ کے مسلمانوں نے شکایت کی کہ اُن کے ساتھ جانبدارانہ سلوک کیا جارہا ہے اور اُن کی سنی نہیں جارہی ہے۔ اپنے گھر کے برآمدہ میں جمع ہوکر متاثرہ خواتین نے بتایا کہ اُن کے باپ، شوہر یا بیٹوں کو پولیس یہ کہہ کر لے گئی کہ اُنہیں طبی امداد فراہم کرنی ہے۔ مرد چلے گئے تو عورتیں تنہا رہ گئیں ۔ ’’بے باک کلیکٹیو‘‘ کے نمائندوں کے سامنے روتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’کیا ہمارے پیٹ نہیں ہیں ، کیا ہمارے بچے نہیں ہیں جنہیں اسکول جانا ہے؟‘‘ شاہین باغ کی طیبہ ایک سماجی کارکن (ایکٹیوسٹ) ہیں اور بتاتی ہیں کہ اگر گھر کے مرد کچھ کہنے کی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہیں یا وہ سیاسی طور پر فعال ہیں ، او راگر علاقے میں کچھ ہوجائے، تو اس کا خمیازہ اُن کے گھر کے لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جب گھر کا کفیل مرد گرفتار کرلیا جاتا ہے تو گھر کے سارے افراد تنہائی اور الگ تھلگ ہوجانے کے احساس تلے دب جاتے ہیں کیونکہ گھر کا محافظ ہی اُن کے ساتھ نہیں رہ جاتا۔ طیبہ نے اپنی داستان غم سنائی کہ جب اُس کے شوہر کو گرفتار کرلیا گیا تھا تو اُسے تنہا پولیس اسٹیشن جانا پڑا۔ اُس کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا۔ 
یاد رہنا چاہئے کہ جب کسی کے خلاف کوئی مجرمانہ معاملہ داخل کیا جاتا ہے تو عدالت میں بار بار حاضر ہونا پڑتا ہے، پولیس سے رابطہ بنائے رکھنا پڑتا ہے حتیٰ کہ اُن لوگوں کے بارے میں بھی جاننا رہنا پڑتا ہے جو فساد کے ذمہ دار تھے۔ ۲۰۱۷ء کی عید سے ایک دن پہلے فرید آباد کے نوعمر رشید احمد کی ہجومی تشدد میں موت واقع ہوگئی تھی۔ تب سے لے کر اب تک اس کے والدین اور بھائی کیس لڑرہے ہیں تاکہ اُس کے قاتلوں کو سزا ملے۔ رشید کے والد عمران نے بے باک کلیکٹیو کو کورٹ میں ملزموں سے ہونے والا آمنا سامنا کے بارے میں بتایا کہ وہ کورٹ آتے ہیں تو جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہیں ۔ اِس وقت وہ پولیس کے روکنے پر بھی نہیں رُکتے۔

’’تم لوگ اِدھر دِکھنا نہیں چاہئے!‘‘
مدھیہ پردیش کے شہر ساگر کے اسلم نامی ایک نوجوان کو بجرنگ دل کے کارکنان نے اس نسلی فقرے کے بعد کہ ’’تم لوگ بسّاتے ہو‘‘ (تمہارے جسم سےبو‘ آتی ہے) ہدف بنایا تھا۔ اُس وقت صرف یہ کارکنان نہیں بلکہ گاؤں کے انتظامیہ کے لوگ اور پولیس بھی انہی کا ساتھ دے رہی تھی۔ یہ خاندان اُس تشدد کو اب بھی بھول نہیں پاتا۔ اسلم پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ مندر سے مورتی نکالنے کی کوشش کررہا تھا۔ تب ہی اُس پر جبر کیا گیا کہ جے شری رام کا نعرہ لگائے۔ اسلم کے والد اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ کس طرح اُنہیں جنگل کی جانب سے پولیس اسٹیشن پہنچنا پڑا تھا تاکہ شکایت درج کراسکیں ۔ وہ پولیس اسٹیشن اس اُمید پر پہنچے تھے کہ اُن کی شکایت سنی جائیگی مگر وہاں بھی اُنہیں جبر ہی سہنا پڑا۔اُن کی داستانِ غم کو اُنہی کی زبانی سنئے: ’’ہم جنگل چلے گئے تھے بچنے کیلئے، دہشت بیٹھ گئی کہ پھر مار (تشدد) ہوجائیگی، بہو بغیر ساڑی کے دوڑی، موٹر سائیکل پر ایف آئی آر لکھوانے، اسٹیشن پر بھی مار پیٹ کی، ہم سے پولس نہیں ملی اور ہماری رپورٹ نہیں لی۔‘‘ رپورٹ درج کرنا تو دور کی بات، پولیس اور سرپنچ دونوں نے اسلم کے گھر والوں سے کہا کہ وہ اپنی جان بچانا چاہتے ہیں تو گاؤں چھوڑ دیں ۔ ’ان کے بقول: ’آئی او صاحب نے ہمیں کہا تم لوگ یہاں دکھنے نہیں چاہئے، اِدھر دکھنا نہیں چاہئے، وہ مار ڈالیں گے۔‘‘ 
اسلم کو اب تک ضمانت نہیں ملی ہے۔ گھر کے لوگوں کو پہلے تو گھر چھوڑنا پڑا، پھر گاؤں ۔ اس کے بعد وہ لوگ ایک مہینے تک ساگر کے اسپتال میں رہے۔ اس کے باوجود پولیس کا جبر جاری رہا۔ اسلم کی ساس گھر کے لوگوں کے ساتھ رہنے لگی تھی تاکہ اسلم کے اہل خانہ کی مدد کرسکیں ۔ اُنہوں نے بے باک کلیکٹیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کا طرز عمل ایسا تھا کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ پولیس کا کام ہماری سننا ہے یا کچھ بیان کرنے کا حق چھین لینا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کیلئے نظام قانون کس طرح رسائی سے باہر ہوگیا ہے۔ ہم اپنا دُکھ نہ اسپتال والوں کو بتا سکے نہ ہی پولیس کو۔

’’آگے جوہونے والا ہے اُس کو بھی برداشت کرنا پڑیگا!‘‘
ذہنی اور دماغی صحت پر ناخوشگوار اثر ڈالنے والا ایک مسئلہ معاشی عدم تحفظ کا احساس بھی ہے۔ متاثرہ افراد اور کنبوں سے ملاقاتوں اور بات چیت کے دوران ہم نے پایا کہ فرقہ وارانہ اُفتاد کے بعد ایسا نہیں کہ جو ہونا تھا ہوگیا اور اب، سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ فرقہ وارانہ تصادم کے بعد متاثرین کو نئے سرے سے اپنے معاش کو بنانے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ زیادہ تر معاملوں میں گھر خاندان کی معاشی حالت جہاں آکر ٹھہرتی ہے وہ اُن کیلئے مادی اور ذہنی دونوں اعتبار سے پریشان کن ہوتی ہے۔ کھماریہ (ایم پی) کے مسلم خاندان کیلئے مار ڈالے جانے کا خوف اور اِس دھمکی کا منفی اثر کہ ’’یہاں دوبارہ آؤگے تو واپس نہیں جاپاؤ گے‘‘ بھی سوہان روح بن گیا ہے۔یہ دھمکی اس لئے دی گئی تھی تاکہ وہ اُس گھر سے، جہاں سے اُنہیں نکلنا پڑا، اپنا اسباب حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ کھماریہ کے فساد کے بعد حکام نے مسلمانوں کی دو دُکانیں اور مکانات منہدم کردیئے تھے۔ یہ ’’بل ڈوزر کی سیاست‘‘ کا نتیجہ تھا۔ متاثرہ خاندانوں کو اپنا مالی مستقبل پریشان کن دکھائی دینے لگتا ہے یہ تو اپنی جگہ حقیقت ہے ہی، ایک دوسری حقیقت گھر کی خواتین کی ہے جو چاہیں بھی تو گاؤں سے باہر جاکر کام تلاش نہیں کرسکتیں ۔کھماریہ کی جن دکانوں کو منہدم کردیا گیا اُن کے ذمہ داروں نے کاروبار کیلئے جو قرض لیا تھا اب اُسے چکانے کے اہل نہیں رہ گئے ہیں ۔ خواتین اس لئے زیادہ پریشان تھیں کہ گھر کے مردوں کو تو گرفتار کرلیا گیا تھا، وہ تنہا کیا کرتیں ؟ رُخسانہ کی زبانی اس درد کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ ’’جو سوچنے والے (گھر کے ذمہ دار) تھے اُن کو لے گئے (پولیس نے گرفتار کرلیا)، جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے (وہ ہم) سہہ رہے ہیں اور جو ہونے والا ہے اُس کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔‘‘ 
اُترپردیش کے عابد کافی ضعیف ہوچکے ہیں ۔ ہجومی تشدد میں اُن کا بیٹا کم و بیش ڈھائی سو افراد کی مار پیٹ کی تاب نہ لاکر چل بسا۔نسیم، عابد کا سب سے بڑا بیٹا تھا، گھر کی کفالت وہی کرتا تھا۔ اُس کی موت کے بعد گھر کی کفالت کا سارا بوجھ عابد کے ناتواں کندھوں پر آگیا۔ ممکن تھا کہ عابد کچھ نہ کچھ کما کر افراد خانہ کی کفالت کے متحمل ہوجاتے مگر آس پاس کے ماحول سے، جو خاصا مسلم مخالف ہوچکا تھا، اُن کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا۔ بقرعید کے موقع پر جب وہ سری نگر، ہماچل پردیش وغیرہ کے سفر پر نکلے تو مخالف ماحول کا خاص طور پر احساس ہوا۔ دوران سفر، نشے میں مست ایک شخص نے اُنہیں روکا اور بُرا بھلا کہنے لگا۔ بقول عابد، ہماری ڈاڑھی اور ٹوپی کو دیکھ کر اس نے وہی بھاشا بولی جو اُس کے آقا بولتے ہیں ۔ حالانکہ وہ صرف ایک شخص تھا اور ہم کئی لوگ تھے مگر کسی نے کچھ نہیں کہا بلکہ وہ (ساتھ والے لوگ) بس میں جاکر بیٹھ گئے کہ بات بڑھ گئی تو مشکل ہوجائیگی۔ عابد نے ایک اور واقعہ کی طرف اشارہ کیا۔ ایک تعمیراتی کام کیلئے اُسے (عابد کو) ۱۵؍ لاکھ روپے ملنے تھےمگر جو شخص بلڈنگ بنا رہا تھا اُس نے رقم دینے سے انکار کردیا۔ بیٹے کی موت کے بعد سے یہ ہوا ہے کہ لوگوں سے اپنا پیسہ طلب کیا جائے تو نظر انداز کردیتے ہیں یا انکار میں جواب دیتے ہیں ۔ ’’مسلمان اور کمزور سمجھ کر ہمارے ساتھ لوگ دھوکہ کرتے ہیں ۔‘‘ یہ ہے عابد جیسے معمر شخص کی داستان المناک جس نے اپنا بیٹا بھی کھویا اور اب پیسہ بھی کھو رہا ہے۔

شوہر کی موت کے بعد بیوہ کے معاشی مسائل
دھل پور آسام میں محمد شمسل کی موت تب ہوئی تھی جب وہ ۲۳؍ ستمبر ۲۲ء کو پولیس کی گولی کا نشانہ بنا تھا۔ ہم نے شمسل کی بیوہ سفینہ ابراہیم سے بات چیت کی تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ شوہر کی موت کے بعد اُسے کن مشکلات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ سفینہ کو یہی غم نہیں تھا کہ اب اُس کا شوہر اس دُنیا میں نہیں ہے بلکہ یہ بھی کہ اُس کا گھر اُجڑ چکا ہے جو کسی اور کا نہیں ریاستی حکام کا کیا دھرا ہے۔ سفینہ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اس کی صحت کیسی ہے، اس کا بچہ کیسا ہے اور اس کے میکے میں کون کون ہے۔ اُس کے دُکھ کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی ہورہا تھا کہ بہت چھوٹے چھوٹے سوالات کے جواب میں بھی وہ بار بار رو پڑتی تھی۔ 
ایسی ہی ایک خاتون وسیم ہے۔ جب انہدامی کارروائی شروع ہوئی اور ایک موقع پر پولیس کو فائرنگ کرنی پڑی تو گولی اس کے پیر میں لگی۔ اُسے حکومت کی جانب سے معاوضہ تک نہیں ملا۔ اُس کے اپنوں نے بھی اُسے فراموش کردیا اور کسی بھی طرح کا تعاون نہیں دیامگر اُسے اُن سے شکایت نہیں ہے کیونکہ جانتی ہے کہ اُن کے وسائل بھی غیر معمولی طور پر محدود ہیں ۔ اُن سے اپنا گزارا ہی مشکل سے ہوتا ہے۔ وسیم چاہے کہ کچھ محنت مزدوری کرکے اپنے شب و روز کو بہتر بنائے مگر یہ بھی ممکن نہیں ہوپاتا کیونکہ اسے تین بچوں کی نگہداشت کرنی ہوتی ہے۔ 
دہلی میں جب فساد ہوا تھا تب بلال کی دکان جلا دی گئی تھی۔ اُس سے ہونے والی بات چیت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اُسے اپنے ہنستے کھیلتے شب و روز کے چھن جانے کا ازحد افسوس ہے۔اس کے کہنے کے مطابق تب گھر میں رونق ہوتی تھی جو اَب نہیں ہے۔ تب وہ اپنی پسند اور مرضی سے جو چاہتے دکان سے لے لیتے تھے مگر اب؟ بقول بلال: ’’اب کرانے کی دکان پر جانے کا من بھی نہیں کرتا، اپنی دکان کی بہت یاد آتی ہے۔‘‘ بات چیت کے دوران بلال کی ماں نے بھی بہت کچھ بتایا۔ اس کے بقول’’پیسے کو اب سینے سے لگا کے رکھنا پڑتا ہے۔ ہماری خوراک پر بھی اثر پڑ گیا ہے۔‘‘ 

نوجوانوں کی آرزوئیں، اُمیدیں بھی بدل جاتی ہیں!
فساد کے بعد کی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ متاثرہ خاندانوں کے معاشی مصائب ہی نہیں بڑھ جاتے، نوجوانوں کی آرزوئیں ، اُمیدیں ، توقعات اور ترقیاتی منصوبے وغیرہ پر بھی کافی اثر پڑتا ہے۔بلال نے سوچا تھا کہ دہلی میں رہتے ہوئے ادویات میں کریئر بنائے گا (کریئر اِن میڈیسن) مگر فساد کی وجہ سے اُسے بارہویں کے بورڈ امتحانات سے غیر حاضر رہنا پڑا۔وہ ۲۲؍ سال کا ہے اور اب چاہتا ہے کہ میڈیسن کے خواب کو بھول جائے اور کمپیوٹر کا کوئی کورس کرلے تاکہ جلدی سے کمانے لائق ہوجائے اور گھر کی آمدنی میں اضافہ کا سبب بنے۔کھماریہ (ایم پی) کے جن متاثرین سے ہم نے بات کی تھی اور جن کا ذکر اوپر آچکا ہے، وہاں کے سب سے بڑے لڑکے نے بھی کچھ ایسے ہی احساسات کا ذکر کیا تھا۔ اُس پر اچانک جو نئی ذمہ داریاں آن پڑی تھیں اُس کی وجہ سے اُسے اپنے سارے منصوبے چوپٹ دکھائی دینے لگے۔ اُس کی بھابھی رُخسار، جس کا شوہر حراست میں ہے، نے بتایا کہ کس طرح گھر کے افراد کی گرفتاریوں کی وجہ سے اُس کی بیٹی کو پولیس افسر بننے کے اپنے منصوبے کو ترک کرنا پڑا۔بقول رُخسانہ: ’’اُس نے دیکھا کہ پولیس والے کیسے ہمیں پکڑ پکڑ کے لے جارہے ہیں تووہ بولی کہ پولیس والی تو نہیں بنوں گی!‘‘ 

جانی اور مالی نقصان کے بعد متاثرہ خاندانوں کے طبی مسائل
ذہنی اور نفسیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ بہت سے خاندانوں کو جسمانی اور طبی مسائل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اس کی تفصیل جاننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگتی کہ فرقہ وارانہ تشدد اور اس سے پیدا شدہ دیگر مسائل کے درمیان جب جسمانی اور طبی مسائل سر اُٹھاتے ہیں تو متاثرین کا معیارِ زندگی بہت بڑی حد تک تبدیل ہوجاتا ہے۔ بے باک کلیکٹیو نے متاثرین سے انٹرویوز کے دوران یہ پایا کہ خطرناک قسم کا ضعف، جسمانی چوٹ، کسی عضو کا معطل ہوجانا یا پھر فوت ہوجانا وغیرہ فرقہ وارانہ تشدد کی زد پر آنے والوں کے لئے ایک بڑا تجربہ بن کر اُن کی زندگی کے ساتھ رہتا ہے۔ بلال نے اپنے والد کی موت کے بارے میں بتایا جو اس کے بھائی کی گرفتاری کے چھ دن بعد ہوئی تھی۔ بلال ہی کے الفاظ میں : ’’بھائی کی گرفتاری کے صدمے کی وجہ سے ابا ختم ہوگئے۔‘‘ اس پر ہی فرقہ واریت کی قہر سامانی تمام نہیں ہوئی بلکہ ماں بستر سے لگ گئی جو اَب گھر سے باہر نکل سکتی ہے نہ اُمور خانہ داری انجام دے پاتی ہے۔ رہ گئے بلال تو وہ جیسے تیسے کچھ کمانے اور گھر کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ 
حمید کو بھی اسی زمرہ میں رکھا جاسکتا ہے۔ گھر میں بچے کی موت کی وجہ سے اُس کے والد پر دل کا دورہ پڑا۔ جب ہم نے اُس کے والد سے بات چیت کرنی چاہی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر وئے جس سے بچے کی موت پر اُن کے گہرے صدمے کا اندازہ کرنا مشکل نہ تھا۔ اُن کے علاج معالجہ کے خرچ کی وجہ سے گھریلو خرچ بڑھا۔ اُنہیں اپنے تین قطعہ ہائے اراضی فروخت کردینے پڑے کیونکہ بیٹے کی رہائی کیلئے جو اخراجات آرہے تھے وہ بھی ادا کرنے تھے۔ حمید کے بھائی شمیم کو فساد کے دوران اتنے زخم آئے کہ اب وہ روزگار حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ ماں فرہاد کا کہنا تھا کہ فساد کی وجہ سے اُنہیں مستقل عارضہ لاحق ہوگیا ہے۔ فرہاد کے بقول: ’’میری دھڑکن ختم ہوگئی ہے، سر اور سینے میں ہمیشہ درد رہتا ہے۔‘‘ ان کیفیات سے ظاہر ہے کہ فرقہ وارانہ فساد میں اگر کوئی شخص فوت ہوجائے تو یہ تنہا واقعہ نہیں ہوتا کہ فوت ہونے والے پر رو کر صبر کرلیا جائے بلکہ ایسا کوئی واقعہ بعد کی زندگی میں واقعات کے ایک سلسلے کو جنم دیتا ہے اور متاثرین کو الگ الگ شکلوں میں پریشان کرتا رہتا ہے۔ 

’’اپنے بیٹے کو کھو دینے کے بعد چھ روز تک اُس پر گویا سکتہ طاری تھا۔‘‘ 
سات سال پہلے جو نسیم کی موت واقع ہوئی تھی تب سے لے کر اب تک اس کی ماں کی زندگی معمول پر نہیں آئی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ پاگل جیسی ہوگئی تھی ۔ نسیم کی بہن نے ہمیں بتایا کہ کس طرح صبح سے شام تک اس کا مزاج بدلتا رہتا ہے ۔ ابتداء میں جب اُسے اپنے بیٹے کے انتقال کی خبر ملی تھی تب وہ گہرے صدمے میں تھی۔ اُس نے چھ روز تک کسی سے بات چیت کی نہ ہی گھر کے کسی کام میں دلچسپی لی۔ ’’وہ بس روتی رہتی تھی نہ کہہ کے روئی نہ بول کے روئی، بس آنسو ٹپکتے ہوئے دِکھے اور کچھ نہیں ۔‘‘ یہ شمیم کی بہن کا بیان ہے۔جب ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اُس کی دماغی صحت کو درست کرنے کیلئے کیا علاج کیا گیا تو گہر کے لوگوں نے وسائل کی کمی کا گلہ کیا۔ عابد میں ، جو کہ خاندان کا کفیل تھا، بیٹے کی موت پر اپنی بیوی کے ردعمل کا سامنا کرنے تاب نہیں تھی۔ جب ہم نے عابد سے گفتگو کی تو اس کا کہنا تھا کہ مجھ پر اچانک بہت بڑی اور بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی۔ اس کے سامنے اخراجات منہ پھاڑے کھڑے ہیں اور وہ ٹھہرا اُجرت پر کام کرنے والا مزدور۔ اُسے گھر بھی چلانا ہے، طبی اخراجات بھی پورے کرنے ہیں اور تیسری بیٹی کی شادی بھی کرنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کی ذہنی صحت پر زیادہ توجہ نہیں دے پاتا بلکہ مان کر چلتا ہے کہ شاید تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ اس سے گئوکشی دستوں کی مار پیٹ کے دور رس اثرات کا اندازہ کیجئے اور یہ بھی محسوس کیجئے کہ سماجی اور معاشی طور پر پچھڑا ہوا ایک خاندان جب فرقہ واریت کی زد پر آتا ہے تو کس طرح منشتر ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس سے متاثرین کی بحیثیت شہری جو طاقت ہوتی ہے وہ بھی گھٹ جاتی ہے۔
اصغر شاہین باغ سے تعلق رکھنے والا سماجی رضاکار ہے۔ گفتگو کے دوران اصغر نے ایک بہت اہم اور انوکھے نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ ایک صحتمند دماغ رکھنے اور احتجاج کرنے کے قابل ہونے میں کیا تعلق ہے۔ بقول اصغر، احتجاج کرنے، اپنی بات لوگوں تک پہنچانے، یہ بتانے کہ بحیثیت شہری کیا قبول کیا جاسکتا ہے اور کیا نہیں اور پھر اپنی آواز بلند کرنے کیلئے دماغی صحت بہت ضروری ہے جو سوچنے سمجھنے کی قوت عطا کرتی ہے۔اصغر کا کہنا ہے کہ مسلمانوں میں کم از کم ۷۰؍ فیصد لوگوں کا ذہنی طور پر مضبوط اور ہر اعتبار سے صحتمند ہونا ضروری ہے تب ہی مسلم قوم کے عوام کو سیاسی طور پر بیدار کیا جاسکتا ہے لیکن مسلمانوں کو حاشئے پر لانے کی کوششوں کے ذریعہ حکومت چاہتی ہے کہ یہ طاقت اور (ذہنی) صلاحیت کمزور ہوجائے۔ 
فرد کی طاقت پوری قوم سے ملنے والے سماجی اور سیاسی تعاون سے متاثر یا مضبوط ہوتی ہے۔ اسلم کے والد (جن کا تعلق ساگر، مدھیہ پردیش سے ہے) کو اُس وقت اسپتال میں داخل کرنا پڑا تھا جب بجرنگ دل کے رضاکاروں کے حملے کے بعد وہ زخمی ہوگئے تھے۔ اُن کے گھر کے پانچ افراد کو اُن کے ساتھ ہی اسپتال میں رہنا پڑا تھا ۔ اسپتال کے انتظامیہ نے اس کی اجازت نہ دی ہوتی تو یہ کنبہ ٹوٹ پھوٹ جاتا مگر اسپتال نے اُنہیں رہنے کی اجازت دی اور کسی قسم کا منفی سلوک نہیں کیا، یہ بڑی بات تھی جو اُن کی طاقت بنی ورنہ گھر سے بے گھر ہوجانے کے بعد فوری طور پر ان کیلئے سر چھپانے کا سنگین مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ 

’’کہہ رہے تھے کہ لیڈیز اور بچوں دونوں کو مت چھوڑنا‘‘
فرقہ وارانہ فسادات یا وارداتوں کے متاثرین کو جو صدمہ پہنچتا ہے وہ اُن کی زندگی کے شب و روز کو یکسر بدل دیتا ہے۔ اس میں لوگوں سے ملنا جلنا بھی شامل ہے۔ تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد اُن کے سوچنے سمجھنے، فیصلہ کرنے، سفر کرنے، کس سے ملنا چاہئے اور کس سے نہیں کی بابت غور کرنے اور کس سے بات کرنی چاہئے کس سے نہیں کے تعلق سے طے کرنے کا انداز بھی بدل جاتا ہے۔ اُن کا طریقہ کار بھی پہلے جیسا نہیں رہ جاتا، وہ پہلے سے زیادہ محتاط ہوجاتے ہیں ، اپنے بے چین جذبات کو سنبھالنا اُن کیلئے مشکل ہوجاتا ہے اور سماج پر اُن کے اعتماد کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ فرقہ وارانہ فساد کے متاثرین ایک طرح کے ’’ہائپر ویجلنس‘‘ سے دوچار رہتے ہیں ، اس کا معنی ہے ایسی کیفیت میں رہنا جس میں مزید تشدد کا خطرہ محسوس ہوتا ہو اور شب و روز کے معمول پر آنے کا اعتماد مجروح ہو۔یہ احساس اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ فساد رُک جانے کے باوجود عموماً سیاسی ماحول ٹھنڈا نہیں ہوتا بلکہ سیاسی لیڈروں اور سوشل میڈیا پر سرگرم رہنے والے دائیں بازو کے کارکنان کی جانب سے مزید فساد کے تیور دکھائی دیتے رہتے ہیں ۔ کھماریہ کے فساد کے بعد جن خواتین کو ایک جگہ لاکر بند کردیا گیا تھا تاکہ وہ محفوظ رہیں خطرہ ٹل جانے کے بعد بھی ان میں ڈر پہلے جیسا ہی رہا جس کی وجہ سے اُن کا سفر کرنا، آنا جانا اور اپنے بچوں نیز رشتہ داروں کی فکر کرنا وغیرہ متاثر رہا۔ 
فرقہ وارانہ فساد میں جنسی تشدد کی تلوار خواتین کے سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ تشدد پر آمادہ بھیڑ کے رحم و کرم پر ہونے کی کیفیت فساد کے بعد بھی اُنہیں ستاتی رہتی ہے۔ ہم نے جن خواتین سے گفتگو کی اُنہوں نے بتایا کہ کس طرح تشدد پر آمادہ ایک بھیڑ سے آوازیں آرہی تھیں کہ ’’لیڈیز اور بچوں دونوں کو مت چھوڑو۔‘‘ بھیڑ کی نفسیات الگ ہی ہوتی ہے۔ حال ہی میں رام نومی کے تہوار پر دیکھا گیا کہ کس طرح بھیڑ اسلام مخالف موسیقی، نعروں اور فقروں کا سہارا لے رہی تھی۔جب بھی ایسا ہوتا ہے خواتین کو اپنا پرانا تجربہ یاد آنے لگتا ہے کہ اُن کے سامنے بھی ایسی ہی بھیڑ تھی، تب وہ کتنی خوفزدہ تھیں ۔ خواتین نے بات چیت کے دوران بتایا کہ دیہاتوں سے آئے ہوئے شرپسند کیا کہہ رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ’’ہمیں کم مت سمجھنا۔‘‘ جس خاتون کے ساتھ کہا سنی کے بعد فساد پھوٹ پڑا تھا، اس کا یہ حال ہے کہ اب وہ گھر سے باہر بھی نکلنا نہیں چاہتی۔ بے باک کلیکٹیو نے جتنے بھی لوگوں سے بات چیت کی، معلوم ہوا کہ فساد کے بعد اُن کا گھر سے نکلنا دشوار ہوگیا۔ نسیم (جن کا ذکر سابقہ قسطوں میں آچکا ہے) کی بہن زیب النساء کو بھائی کی ہلاکت کے بعد اسکول سے زبردستی گھر بھیجا گیا تھا۔ وہ نسیم کی سب سے چھوٹی بہن ہے۔ اُس وقت ساتویں جماعت میں تھی مگر ششماہی امتحان نہیں دے سکی تھی۔ کچھ ایسا ہی حال اس کی بڑی بہن کا تھا جو گھر سے نکلنے کو تیار ہی نہیں تھی۔ ان بہنوں نے گھر پر رہتے ہوئے سینے پرونے کا کام شروع کیا تاکہ دو پیسے کماسکیں ۔ اس علاقے کی دیگر چند لڑکیاں برسرروزگار تھیں مگر اُن کے مسلم ہونے اور اُن کے تحفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے گھر والوں نے منع کردیا کہ اب جاب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

’’پہلے دکان پر ساتوں دن جاتا اور بیشتر وقت وہیں گزارتا تھا مگر چار سال سے بازار نہیں گیا‘‘
رشید کے والد مقامی بازار اکثر جاتے تھے تاکہ دوستوں سے ملاقاتیں ہوجائیں اور لوگوں کی خیر خیریت سے واقفیت ہو مگر تشدد کی وجہ سے بیٹے کی موت کے بعد اُن کا یہ معمول بدل گیا۔ اب وہ گھر سے نکلنا اور بازار جانا پسند نہیں کرتے۔ اُنہوں نے بے باک کلیکٹیو کی ٹیم سے کہا کہ ’’چار سال ہوگئے مجھے بازار گئے ہوئے، وہاں میں پہلے چوبیس گھنٹے اور ساتوں دن رہتا تھا اور بارہ بجے رات کو گھر لوٹتا تھا، اب میری طبیعت وہاں لگتی ہی نہیں ہے۔‘‘ اُنہو ں نے یہ بھی بتایا کہ جب سے پولیس کی سیکوریٹی ملی ہے، وہ بغیر سیکوریٹی کے باہر نکلنے کی جرأت نہیں کرتے۔ ’’ہم اب پولیس کے بنا کہیں نکلتے ہی نہیں ہیں ، ہم کو وکیل نے کہہ دیا ہے کہ اپنے بیٹوں کو نکلنے مت دینا، ایسی دہشت بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘
چونکہ رشید پر لوکل ٹرین میں حملہ ہوا تھا اس لئے وہ اب لوکل سے سفر نہیں کرتا۔ اس کے بھائی نے بتایا کہ اب وہ لوگ میٹرو یا ٹیکسی کے ذریعہ سفر کرتے ہیں ۔ 
لکھنؤ کی سماجی رضاکار زینت نے لاک ڈاؤن کے دور میں اپنے خاندان پر پولیس کی زیادتی دیکھی تھی کیونکہ وہ لوگ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جاری تحریک میں حصہ لے رہے تھے۔ زینت گھنٹہ گھر (لکھنؤ) پر ہونے والے مظاہرے میں پیش پیش تھی مگر اُسے وہ دن نہیں بھولتا جب اُس کے والد اور بھائیوں کو بُری طرح پیٹا گیا اور پھر گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اِس وقت بہنوں کو گھر سے نکال کر سڑک پر کھڑا کردیا گیا تھا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر پڑوسی بھی اپنے گھرو ں سے باہر نکل آئے تھے۔ آج بھی زینت کو کچھ مختلف یا خلاف ِمعمول آواز سنائی دیتی ہے تو وہ چونک پڑتی ہے، اُسے وہ دن یاد آجاتا ہے۔ وہ دن اُسے تب بھی یاد آتا ہے جب گھر کے دروازے پر ایک سے زائد بار دستک ہو یا کوئی فرد زور سے کھڑکی بند کرے۔ بقول زینت: ’’ایک دم سے دل کانپ جاتا ہے کہ کچھ ہوگیا یا کچھ ہونے والا ہے۔‘‘ 
انٹرویوز کے دوران بے باک کلیکٹیو کی ٹیم نے محسوس کیاکہ کس طرح فساد یا تشدد کی کوئی واردات اور واقعہ ذہنوں سے چمٹ جاتا ہے اور پھر آئندہ زندگی میں تسلسل کے ساتھ متاثرین کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ زینت کا کہنا ہے کہ جب یہ سب کچھ ہوا تب بھی اور اس کے بعد بھی نہ تو اُس کی اپنی تنظیم (جس سے وہ وابستہ ہے) نہ ہی کسی اور تنظیم نے اُن سے رابطہ کیا۔ فرقہ واریت جب ایک انسٹی ٹیوشن میں تبدیل ہوجاتی ہے تو فساد متاثرین یا تشدد کے متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے، اُنہیں دلاسہ اور تسلی دینے نیز اُن کا ذہن موڑنے کی جانب بالکل توجہ نہیں دی جاتی بلکہ بے اعتمادی کی کیفیت کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جن لوگوں سے جذباتی روابط ہوتے ہیں ، وہ بھی جب کنی کاٹنے لگتے ہیں تو یہ نہایت افسوسناک صورت حال ہوتی ہے۔شمیمہ نے اس کیفیت کو ’’بے وفائی‘‘ سے تعبیر کیا کہ کس طرح پڑوسیوں اور ملنے جلنے والوں کا انداز بدل جاتا ہے۔متاثرین کے ساتھ جو بے اعتنائی برتی جاتی ہے اُس کا واضح اور صاف مطلب یہ ہے کہ آپ اُن کے ساتھ نہیں بلکہ اُن لوگوں کے ہمنوا بن گئے ہیں جنہوں نے اِنہیں ستایا، پریشان کیا اور اُن پر جبر کیا۔ اس بے اعتنائی نے تنہا جگہ نہیں بنائی بلکہ کسی نہ کسی سطح پر فرقہ وارانہ سیاست کی قبولیت بھی ایک مسئلہ ہے۔ لوگ باگ فرقہ وارانہ طور پر پھیلائی جانے والی باتوں مثلاً ’’مسلم ایسے ہوتے ہیں ‘‘ کو کسی نہ کسی سطح پر قبول کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن دلوں میں اپنائیت اور محبت تھی، اب اُن میں نئے احساسات پیدا کردیئے گئے ہیں۔ 

ہمارے مشاہدات
ہمارےمشاہدات اور انٹرویوز کےدوران مختلف قسم کے سوالات قائم کرکے بے باک کلیکٹیو کی ٹیم نے متاثرین کی ذہنی صحت کے بارے میں جو معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی اُس کا لب لباب یہ ہے کہ ہر وہ فرد یا خاندان جو فرقہ وارانہ فساد یا تشدد سے متاثر ہوتا ہے اُس کی زندگی اور معیارِ زندگی بدل جاتا ہے۔ متاثرہ شخص اگر خود تعلیم حاصل کررہا تھا تو وہ دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور اگر اپنے بچوں کی تعلیم کا آرزو مند تھا تو اُسے اپنی آرزو کے ساتھ بھی سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ تشدد اور فسادات کی وجہ سے بھی اور عدالتی نظام کی جانب سے بروقت انصاف نہ ملنے کی وجہ سے بھی اُن میں ایک طرح کی بے بسی پیدا ہوگئی ہے۔ یہی نہیں ہوا بلکہ اپنے بارے میں سوچنے، منصوبہ بندی کرنے اور اپنے مستقبل کے تانے بانے بننے کا جو اُن کا حق ہے وہ اُن سے چھن جاتا ہے۔ حکومت کے طرز عمل اور انصاف سے محرومی یا تاخیر سے انصاف کی وجہ سے اُن میں نااُمیدی بھی در آرہی ہے۔ عدلیہ کو حکومت کے جبر آمیز طرز عمل کے پیش نظر ایک طرح کا توازن پیدا کرنا چاہئے تھا مگر وہ توازن دکھائی نہیں دیتا۔ اسے بہ الفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک طرف حکومت اُن کی پروا نہیں کرتی، دوسری طرف عدلیہ سے اُنہیں اُن کا حق دلانے میں یا تو تاخیر ہورہی ہے یا انصاف مل ہی نہیں رہا ہے۔ 
ہم نے کئی انٹرویوز میں مالی طور پر تباہ ہوجانے اور مسلم مخالف نفرتی ماحول کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی صحت کے متاثر ہونے کی کیفیت کو اتنی آسانی سے پڑھا جیسے آسان زبان میں لکھی ہوئی کوئی تحریر پڑھی جاتی ہے۔فساد اور تشدد سے اعتماد بھی مجروح ہوتا ہے اور کورٹ کچہری کے چکر لگانے کی وجہ سے زندگی کے شب و روز پہلے جیسے نہیں رہ جاتے۔انٹرویوز کے دوران ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ بہت سے مسلم سماجی رضاکاروں کے ذہنو ں میں یہ نکتہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کیلئے قابل عمل سیاسی متبادل پیدا کرنا ازحد ضروری ہے تاکہ وہ حکومتی اداروں تک رسائی حاصل کریں اور یہ کام کسی خوف کے بغیر کریں ۔ 
سیاسی طور پر بہت طاقتور موجودہ حکومت کے سامنے مسلمانوں کا خود کو بے بس تصور کرنا ایسا نکتہ ہے جو اِس تحقیقی پروجیکٹ کا لب لباب ہے۔ اس بے بسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو جسمانی صحت کے خراب ہونے اور مالی و مادی وسائل حاصل نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ دماغی صحت کے جو مسائل تشدد یا فسادات سے پیدا ہوتے ہیں اُن کا حل کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ متاثرین کے نقصانات کی بھرپائی ہو۔ موجودہ فرقہ وارانہ سماجی، سیاسی اور معاشی ماحول میں ایسی کسی کرم فرمائی کی اُمید بھی گراں گزرتی ہے مگر یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعہ متاثرہ افراد اور خاندانوں کی ذہنی بازآبادکاری ممکن ہے۔ نفرتی جرائم سے متاثرہ لوگوں کو انصاف دلانے میں بہت اہم اور کلیدی کردار سول سوسائٹی ادا کرسکتی ہے جسے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ نفرتی جرائم سے متاثرہ افراد کے حق میں عدلیہ سے رجوع کیا جائے۔ سول سوسائٹی ہی سے یہ اُمید بھی کی جاتی ہے کہ وہ ’’واچ ڈاگ‘‘ یعنی نگراں کے طو ر پر سرگرم رہے اور فرقہ وارانہ تشدد کے متاثرین کو راحت بہم پہنچانے کے مقصد سے حکام پر ضروری کارروائی کیلئے دباؤ ڈالے۔ حکام اُن کی فریاد سنیں گے اور قانون کے مطابق ضروری کارروائی کریں گے تو اس سے بہت فرق پڑے گا بالخصوص اعتماد بحالی کے نقطۂ نظر سے یہ بہت اہم ہوگا۔

ہماری سفارشات
جہاں تک ہماری سفارشات کا تعلق ہے، اس تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری کے دوران ہم نے کئی نکات کو ذہن میں رکھا اور ذیل میں اسی کی نشاندہی کی جارہی ہے:
(۱) قومی حقوق انسانی کمیشن، قومی اقلیتی کمیشن اور ریاستی اقلیتی کمیشن اگر خود بھی فرقہ وارانہ تشدد کی تحقیقات کرائیں تو اس کی وجہ سے پولیس کا کام آسان ہوگا، پولیس کو مدد ملے گی۔ اس طرح مذکورہ کمیشن یہ بھی طے کرسکیں گے کہ پولیس کی تفتیش میں کتنا دم ہے، وہ صحیح رُخ پر ہے یا نہیں ۔ (۲) اس رپورٹ کیلئے کی جانے والی تفتیش کے دوران ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ فرقہ وارانہ فساد یا تشدد کے متاثرین کو سول سوسائٹی کے رضاکاروں اور فلاحی تنظیموں کے کارکنان سے خاصا جذباتی سہارا ملتا ہے۔ اس سے اُن میں اعتماد میں کسی حد تک بحال ہوتا ہے۔ نا اُمیدی کے بادل چھٹتے ہیں اور اُمید کی کیفیت پیدا ہوتی نظر آتی ہے۔ سماجی تنظیمیں ، خواتین کی تنظیمیں اور ایسی ہی دیگر تنظیموں کیلئے ضروری ہے کہ وہ نفرتی جرائم کے متاثرین کی مدد کیلئے آگے آئیں ، جو بھی اُن پر گزری ہو اُس کے بعد اُن کے فوری طور پر آنسو پونچھے جائیں ، اُن کی فوری ضرورتوں کو پورا کرنے میں تاخیر نہ کی جائے اور اُن میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ کوئی ہے جو اُن کے ساتھ کھڑا ہے، اس آزمائش کی گھڑی میں وہ تنہا نہیں ہیں ۔ ایسے وقت میں جب قریبی لوگ بھی دور ہوجاتے ہیں اور قریب نہیں آنا چاہتے، کوئی تو ہونا چاہئے جو اُنہیں دلاسہ دے۔ (۳) اُن مسائل کے حل کیلئے جن کا سامنا مسلمانوں کو کرنا پڑتا ہے، انتظامیہ، عدلیہ، میڈیا اور سماج کے ذمہ داران کی جانب سے مشترکہ اور جامع کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ ایک ایسا قانون وضع کرایا جاسکے جس کے ذریعہ ظلم و جبر کی مختلف شکلوں کی نشاندہی ہو، نفرتی جرائم کی مختلف شکلوں کی نشاندہی ہو اور اس کے ازالہ کو یقینی بنایا جاسکے۔ اگر امتیازات مخالف قانون (اینٹی ڈسکریمنیشن لاء) بنایا گیا تو اس سے یقینی طور پر کافی فرق پڑے گا۔ (۴) چونکہ فرقہ واریت بڑھ رہی ہے اور اس کے متاثرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے اس لئے بعض اوقات متاثرین کی ذہنی صحت بھی قابل رحم ہوجاتی ہے اس لئے نفسیاتی اندمال کے مراکز کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مقامی اور ضلعی سطح پر ’’ٹراما کیئر سینٹر‘‘ اور کاؤنسلنگ سروسیز کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ (۵) متاثرین کو علاج معالجہ کی سہولت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ نفسیاتی مشورہ کی۔ ہیلتھ کیئر ورکرس کو اس بات کی تربیت دی جانی چاہئے کہ وہ فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کے متاثرین کو کس طرح راحت بہم پہنچائیں ، اُن کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں کس طرحمدد کریں ۔ (۶) ہیلتھ کیئر ورکرس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ متاثرین کے مذہب، طبقہ اور معاشی پس منظر کو خاص طور پر ملحوظ رکھیں تاکہ اُن کی خدمات زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوں ۔ (۷) متاثرین کے زخم الگ الگ طرح کے ہوتے ہیں ، کوئی تشدد کا شکار ہوا ہے، کوئی تشدد کی وجہ سے ہیبت زدہ ہے، کوئی سخت صدمے کی حالت میں ہے اور کسی پر ہونے والے تشدد کا سبب اُس کی شناخت ہے۔ ہر طرح کے زخم کے اندمال کی کوشش کو بہتر اور کارگر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہیلتھ کیئر ورکرس ’’مینٹل ہیلتھ کیئر ایکٹ ۲۰۱۸ء‘‘ کا مطالعہ کریں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صحت کے معاملے میں مذہب، صنف، ثقافت، کاسٹ، سماجی اور سیاسی نظریہ وغیرہ کی بنیاد پر تعصب یا بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK