EPAPER
Updated: May 21, 2024, 4:36 PM IST | Dr Humayun Ahmad | Mumbai
پیچیدہ سماجی تانا بانا والے اس ملک میں مسلمانوں کا سیاسی انحطاط بڑا مسئلہ ہے۔ ان کے باعث زوال اُمور کی شناخت اور انکے تدارک کا موثر اقدام ایک اعلیٰ درجہ کی فہم رکھنے والے کے لئے بھی کسی امتحان سے کم نہیں۔
پیچیدہ سماجی تانا بانا والے اس ملک میں مسلمانوں کا سیاسی انحطاط بڑا مسئلہ ہے۔ ان کے باعث زوال اُمور کی شناخت اور انکے تدارک کا موثر اقدام ایک اعلیٰ درجہ کی فہم رکھنے والے کے لئے بھی کسی امتحان سے کم نہیں۔ مکمل شعور اور اس معاملے میں مستقل مزاجی کے ساتھ کڑی اور منظم محنت ہی اس کا واحد حل ہے۔ اس بار کے انتخاب میں کسے ووٹ دینا ہے اس کا فیصلہ کوئی مشکل کام نہیں۔ لوگ بخوبی سب کچھ سمجھ رہے ہیں۔ پورا زور اس وقت انتخابی عمل میں مستعدی سے حصہ لینے پر ہونا چا ہئے۔ کافی کچھ ہوتے ہوئے بھی مسلمانانِ ہند سیاسی تنزّل کی طرف رواں ہیں۔ آزادی کے بعد سے ہی کبھی آہستہ تو کبھی تیز رفتار سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے اکابرین نے اس پر غورو فکر کیا ہے پھر بھی سیاسی اعتبار سے مسلمان مسلسل ڈھلان میں لڑھکتے جارہے ہیں۔
یہ دیکھنا ہمارا فرض ہے کہ ہم خود سے کیا کرسکتے ہیں جو نہیں کررہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چا ہئے کہ ہماری لاچاری اتنی نہیں ہے جتنی ہماری لاپروائی ہے۔ حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر ذہن میں زور ڈالنے پر نظر یہی آتا ہے کہ بہت ساری قابل غور باتیں معقول توجہ سے محروم ہیں۔ ان میں سے صرف دس منتخب نِکات کو سنجیدہ تو جہ کی غرض سے پیش کیاجارہا ہے۔ حکمرانی کسی کی بھی ہو یہ باتیں کام آئیں گی۔
(۱) دنیا کی تاریخ کو دیکھیں۔ کسی بھی نازک موڑ پر مسلمان کا تصادم دو طرح کے محاذ پر ہوتا ہے۔ پہلا غیر مسلم دشمنانِ اسلام کے ساتھ براہ راست دست و گریبان ہونے کا محاذ جیسے اس وقت فلسطین اور اسرائیل کی جنگ۔ دوسرا اندرون معاشرہ پنپنے والی برائیاں جب جڑ پکڑ لیتی ہیں تو ابھرنے والے مسائل سے نظام ہلنے لگتا ہے۔ اس دوسرے طرح کے محاذ پر آج پاکستان الجھ رہا ہے۔ اپنے وطن کے اندر مثبت اور نتیجہ خیز تدابیر کی امید ہم تب ہی کرسکتے ہیں جب ان دونوں طرح کے محاذوں پر کام کرنے کی اہمیت کو سمجھیں۔
(۲) سیاسی طور پر پچھڑجانے والے ہمیشہ ٹھیک سے یہ طے نہیں کرپاتے ہیں کہ کب کس موضوع کو اٹھایاجانا چا ہئے مثلاً مخالف قوتیں مسلمان اور اسلام کو عورتوں کے حقوق کے تعلق سے تنقید کا نشانہ بناتی ہیں اور ہم ان کا جواب دینے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس موضوع پر ہمیں دفاعی رخ اختیار کرنے کے بجائے یہ کہنا چاہئےکہ آج کی حکومت میں ملک کی ماں بہنوں کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ ہمارے ماہر مقرر بڑے جلسوں میں پُر زور طریقے سے ایک سانس میں چھ واقعات کو تھوڑی ہندی کے الفاظ کے ساتھ گنوادیں۔ پہلوان بناکے بھی دیکھ لیا مگر دیش کی ناری کو اپنی مریادہ کی رکھشا کے لئے آنسو بہانے پڑرہے ہیں۔ منی پور کی دردناک گھٹنا سے پوری دنیا میں دیش کا سرشرم سے جھک گیا۔ مدھیہ پردیش میں بھاری تعداد میں لڑکیاں بال گرہ سے غائب ہوجاتی ہیں اور ایسے ہی واقعات۔ اس لیے ہمیں اس وقت اُن موضوعات پر زیادہ زور دینا ہے جو دوسروں کیلئے بھی باعث دلچسپی ہوں۔
(۳) برائے نام ہی سہی مگر کبھی کبھی ہماری ناپسندیدہ پارٹی کے اندر بھی کسی فرد کی جانب سے اچھا کام کیاجاتا ہے۔ ہمیں اس کا بھی نوٹس لینا چا ہئے۔ اس سے یہ ثابت ہوگا کہ ہم کسی پارٹی کے غلام نہیں ہیں۔ کوئی بھی ہمارے لئے کچھ اچھا کرے گاتو خوبیوں کی بنیاد پر ہم انہیں خاطر میں لائیں گے۔ دوسری طرف فرقہ پرست پارٹیوں میں بھی کچھ لوگ مثبت سوچ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ۲۰۰۰ء میں عید کے دن رانچی میں فرقہ وارانہ فساد میں کئی مسلم نوجوان جاں بحق ہوگئے تھے۔ جھارکھنڈ میں بی جے پی کے آدیواسی وزیر اعلیٰ بابو لال مرانڈی کے وقت پانچ دن کے اندر رانچی کے ڈی سی نے گھر گھر جاکر تین لواحقین کو دو۔ دو لاکھ کا چیک دیا تھا۔ اسی طرح ۲۰۱۷ء میں جب رام گڑھ ضلع کے گوشت تاجر علیم الدین انصاری کوہجومی تشدد میں قتل کردیاگیا تھا۔ اس کیس میں بی جے پی کے او بی سی وزیر اعلیٰ رگھوورداس نے مستعدی سے ایمان دارانہ کوشش کرکے ۱۱ملزمین کو نچلی عدالت سے سخت ترین سزا دلوائی تھی جو بعد میں پارٹی کی اعلیٰ ذات کی سیاست کی نذر ہوگئی۔ موجودہ صورت حال میں صرف ہم ہی پریشان نہیں اس سرکار سے تنگ دوسرے بھی ہیں۔ یہ لوگ اوروں کے لیے بھی وبالِ جان ہیں۔ اروند کیجریوال کو دیکھئے۔ ہم ان کے ساتھ ہیں، ان کی حمایت میں ووٹ ضرور دیں گے مگر بڑے احترام کے ساتھ کیجریوال صاحب کو یہ یاد دلادینا چاہئے کہ ۳۷۰ ؍ہٹائے جانے کے وقت تالی آپ نے بھی بجائی تھے۔ غرض اس سرکار کو ہٹانے کی ضرورت سبھی کو ہے۔
(۴) ایک خطرناک قسم کی سازش زمانے سے ہوتی چلی آرہی ہے۔ قوم و ملت کے اندر مثبت کام کرنے والی کسی بھی قابل شخصیت کو مسلمانوں ہی کے اندر ناپسندیدہ بنادیا جاتا ہے۔ اسد الدین اویسی کے خلاف بی جے پی والے کیوں کارروائی نہیں کرتے ہیں۔ لہٰذا اندر اندر ضرورکوئی ملی بھگت ہے۔ اپنی اس عجیب وغریب عادت کی وجہ سے مسلمان ہی ایسی مہمل باتوں کو دہرانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اس کے ذکر سے پہلے یہ پوچھنا چا ہئے کہ دوسروں کے خلاف اتنی کارروائیاں ہورہی ہیں مگر رابرٹ وڈرا کو کیوں نہیں بند کیاجاتا۔ ہماراسخت اصولی موقف یہ ہونا چا ہئے۔ کسی بھی قابلِ لحاظ مسلمان کے متعلق کوئی منفی بات صرف اورصرف اسی صورت میں کرنی چا ہئے جب ایسا لگے کہ اس بات کو نہیں بولنے سے کوئی بہت بڑا نقصان ہوجائے گا۔ وہ بھی پوری احتیاط کے ساتھ اور بالکل برائے ضرورت۔
(۵) حق بجانب ہوتے ہوئے بھی حق کی لڑائی میں ہم ناکام کیوں ہوجاتے ہیں ؟ اس کے لئے صرف ہماری چھوٹی موٹی کوتاہیاں پوری طرح ذمہ دار نہیں ہیں، بالکل صحیح طریقے پر کوشش کرنے کے باوجود بھی ایسا ہوتا ہے۔ یہاں انصاف ملتا تو ہے مگر تاخیر سے ملتا ہے اور کبھی کبھی ہی ملتا ہے۔ علاوہ ازیں سب کو ایک طرح سے نہیں ملتا ہے۔ اس لئے ہر کام کیلئے عدالتوں تک دوڑ لگانا مسئلے کا حل نہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ سماجی طور پر کئی اور کمزور طبقات کے ساتھ بھی نا انصافیاں ہورہی ہیں۔ اگر سب مل کر آگے آئیں تو ان کے مسائل کا حل عوامی سطح پر لڑی گئی لڑائی کی بدولت ہی ہو پائے گا۔ یوٹیوب میں شمبھو کمار سنگھ کی باتیں کافی حد تک صحیح معلوم ہو تی ہیں۔ دوہرے طرز عمل والے نظام کے خلاف مشترکہ لڑائی کے علاوہ کوئی اور متبادل نظر نہیں آتا۔
(۶) پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ہماری نمائندگی کم ہو تی جارہی ہے۔ سوچنا یہ ہے اگر یہ کمی دور ہو گئی تو کیا حالات بدل جائیں گے۔ ۲۰۱۲ء کے یوپی الیکشن میں ۵۵؍، ۵۶؍مسلم اراکین اسمبلی منتخب ہو ئے تھے مگر مظفر نگر کی سخت سرد ی میں بھیانک فساد ہوا اور کوئی کچھ نہیں کرسکا۔ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو بھی کچھ خاص نہیں کر پائے ۔ یہاں اصل بنیاد کی جانب ہماری توجہ شاید نہیں جارہی ہے ۔ غور کریں کہ کافی دنوں سے اقتدار اور اختیار کا مرکز جمہوری اصولوں کے برخلاف عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ سے نکل کر کہیں اور منتقل ہوتاجارہا ہے۔ گالی گلوج اور ماردھاڑ جیسے غیر مہذب عنصر کی سیاست میں شمولیت ایک نیا اضافہ ہے۔ سرکاری وزیر وں کا معتمد یا مددگارِ اعلیٰ ،تگڑم باز ذرائع ابلاغ اور قانونی اداروں کے میل سے پوری طرح ایک مربوط گروہ قائم ہوچکا ہے جو پورے نظام پر بری طرح حاوی ہے۔ اس گٹھ جوڑ پر اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کا مکمل قبضہ ہے۔ جعل سازی کا یہی خبیث جال بشمول مسلمان سبھی مظلوموں کے لئے اصل جنجال ہے۔ مسلمان،د لت ، پسماندہ ، آدی واسی ، سِکھ ، عیسائی جیسے سبھی طبقات کو اس معاملے میں مشترکہ جو جہد کرنی ہو گی۔
(۷) ہم لوگ سماجی طور پر اپنے سے کم حیثیت والوں کے ساتھ ملنے جلنے میں ہچکچاتے ہیں ۔ ہر چندکہ وہ لوگ فارورڈ ہندوئوں کے مقابلے میں آداب و تصنّع میں اتنے نفیس الطبع یا مہذب نہیں ہوتے ہیںمگر کچھ مشکلوں کے باوجود ان سے نزدیکی تعلقات قائم کرنے ہوںگے۔ عید کے موقع پر ہماری محفلوں میں مشراجی، جھاجی، پاٹھک صاحب، سنگھ صاحب، شریواستو صاحب، سنہا صاحب، مکھرجی صاحب، ریڈی صاحب، نائیڈو صاحب وغیرہ موجود رہتے ہیں مگر بیٹھا جی ، رام صاحب، پاسوان صاحب، لکڑا صاحب، منڈا جی، ٹرکی صاحب، یادو صاحب، مہتو جی، وشو کرما جی، منڈل اورلوہرا جیسے کتنے ہوتے ہیں ؟ ہم اخلاق سے مل جل کر اپنے اچھے خیالات اور حقائق کو ان تک ٹرانسفر کرسکتے ہیں اور ان کی سوچ کو مثبت سمت میں ٹرانسفورم کرسکتے ہیں۔
(۸) ملک میں ہم ۱۵؍فیصدکے قریب ہیں۔ وقعت و منزلت کے اعتبار سے یہ تعداد اچھی خاصی غیر معمولی ہے۔ مگر ہم اپنی سرگرمیوں کو اپنے ہی طریقے سے انجام دیتے ہوئے اپنی ذات کے خول میں محدود رہتے ہیں۔ دیگر کمزور اور پسماندہ طبقات کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف بھی ہم کو زور شور سے آوازیں بلند کرنی چا ہئے۔ فتنہ پر ور ظالموں پر ہمارا یہ اقدام ضرور گراں گزرے گا۔ ہمیں روکنے ڈرانے کی کوششیں ہو ں گی مگر بغیر ڈرے ہوئے ہمارے رہنمائوں کو برجستہ جواب دینا چا ہئے اور ویسے ہی اقدامات کرنے چاہئیں کیوں کہ جب بھی مسلمانوں پر ظلم ہوا ہے ہمارےغیر مسلم بھائیوں نے ہمارے حق میں ہمیشہ آواز بلند کی ہے۔ لہٰذا اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاکر ہم تو اپنے نیک غیر مسلم بھائیوں کے احسانوں کا قرض اتار رہے ہیں۔
(۹) اسلام مساوات سکھاتا ہے یہ ایک آفاقی سچائی ہے مگر واقعی میں ایسا ہے یہ بات مسلم معاشرہ میں صرف تقریروں میں دلکشی پیدا کرنے والی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ زمینی سطح پرتو حالت کچھ اور ہی نظر آتی ہے۔ کسی بھی منبر سے کبھی کسی خطیب کو یہ کہتے نہیں سنا جاتا ہے کہ اسلامی مزاج سے غیر ہم آہنگ ذات برادری کے نظام کی وجہ سے ہمار ی کتنی مشکلیں بڑھیں اور ہمیں اب تک کتنا نقصان ہواہے۔ غیرمسلم مظلوموں کے درمیان ہماری مساوات والی کشش اور طاقت اسی وجہ سے بے اثر ہو گئی۔
(۱۰) تقدیر پر ایمان لانے کا مطلب تدبیر سے چھوٹ ہر گز نہیں ہے۔ الغرض انتخابات کے موقع پر ضروری اقدام میں کوئی کسر باقی نہ رہے مگر نتیجوں کیلئے محتاط رہنا ضروری ہے۔ کوئی بھی منتخب ہو ہماری سرگرمیاں انتخاب کے بعد بھی بدستور جاری رہنی چا ہئیں۔ کسی بھی منتخب نمائندے سے ہمارے پڑھے لکھے باشعور لوگوں کو منصوبے کے ساتھ ملتے جلتے رہنا چا ہئے۔ وہ لوگ عموماً ملنے پر خوش ہوتے ہیں۔ عین ممکن ہے اچھے موضوعات زیر غور آتے رہیں اور مثبت نتیجے برآمد ہوں۔ ترقی کرنے والی زندہ قومیں حکمت عملی اور اس کے عمل درآمد پر مسلسل کام کرتی ہیں۔ مستقل مزاجی کے ساتھ کڑی محنت کا کوئی نعم البدل نہیں۔ راہِ حق کی تلاش تو کیجئے رہنمائی اللہ کرے گا۔