EPAPER
Updated: October 05, 2023, 7:24 PM IST | Md Shabbir Faruqi | Mumbai
مثبت تشہیر کسے اچھی نہیں لگتی، اور موجودہ دور تو پروپیگنڈہ کا دور ہے۔ عوام و خواص کے ذریعہ الکٹرونک و پرنٹ میڈیا کے سا تھ آج سوشل میڈیا میں بھی ہر اس کام اور عمل کی پرزور تشہیر ہورہی ہے، جسے کبھی نیکی کہا جاتا تھا یا جسے ماضی میں نمائش کے زمرے میں رکھا جاتا تھا۔
مثبت تشہیر کسے اچھی نہیں لگتی، اور موجودہ دور تو پروپیگنڈہ کا دور ہے۔ عوام و خواص کے ذریعہ الکٹرونک و پرنٹ میڈیا کے سا تھ آج سوشل میڈیا میں بھی ہر اس کام اور عمل کی پرزور تشہیر ہورہی ہے، جسے کبھی نیکی کہا جاتا تھا یا جسے ماضی میں نمائش کے زمرے میں رکھا جاتا تھا۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ ہم تعلیم و تدریس سے منسلک ہیں اوربحیثیت منتظم ہمیں ایسے معاملات سے روزانہ ہی سابقہ ہوتا رہتا ہے جن میں رازداری اور پوشیدگی نہایت ضروی ہوتی ہے۔ لیکن کہتے ہیں کہ دور بدل رہا ہے، وقت بدل رہا ہے، اس لئے قدریں بھی بدلتی جارہی ہیں اور طریقے بھی تبدیل ہورہے ہیں ۔ عجب حالات رونما ہورہے ہیں ۔ پہلے محکمۂ تعلیم میں کبھی کہا جاتا ہے کہ یوم ِ تعلیم منا کر تصاویر واٹس ایپ گروپ میں ڈالیں ، کبھی ہدایت ملتی ہے کہ یوم صفائی مناکر جھاڑو ہاتھ میں پکڑی ہوئی فوٹو شیئر کریں ۔ کبھی کہتے ہیں کہ ’’ہاتھ دُھوا دن ‘‘منائیں اور طلبہ کے ساتھ نل کے پانی سے ہاتھ دھوتے ہوئے تصاویر پوسٹ کریں ۔ ارے بھئی، حد تو یوم مطالعہ منانے کے معاملے میں ہوگئی جب حکمنامہ موصول ہوا کہ کتابیں پڑھتے ہوئے بچوں اور اساتذہ کی تصاویر بھیجیں ۔ ادھر حکمنامہ موصول ہوتا ہے، اِدھرافسروں اور پرنسپلس کے واٹس ایپ گروپوں میں اور فیس بک پر بھی مختلف زاویوں سے نکالی گئی بے شمار تصاویر دھڑا دھڑ پوسٹ ہونے لگتی ہیں ۔ یعنی اب ہم اور ہمار ے طلبہ نمائش کے لئے کتابیں پڑھیں گے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے ہاتھ پیر دھوئیں گے؟؟ ارے صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟صفائی ایک انفرادی عمل ہے، کوئی بچہ صاف ستھرا نہیں رہتا ہے، اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد ہاتھ صابن سے نہیں دھوتا ہے تو اسے یہ سکھایا جائے کہ صفائی کو اپنی عادت نہ بنانے کی صورت میں اسے حفظان ِصحت کے نْقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بچوں اور نوعمروں میں صاف صفائی کی عادتوں کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے نہ کہ صرف ٖہاتھ دھونے والی تصاویر شئیر کرنے کی۔ مطالعہ ذہن کی غذا ہے اور انسان اپنے شوق کی تسکین کے لئے پڑھتا ہے، اور اسے ایسا کرنا چاہئے۔ مگر ایسی ہوڑ لگی ہے کہ صرف فوٹو کے لئے دن منائے جارہے ہیں ۔ تشہیر کے لئے فوٹو نکالے جارہے ہیں ۔ پہلے اسکولوں میں تعلیمی افسران کی وزٹ باقاعدگی سے ہوا کرتی تھی اور محکمۂ تعلیم کی جانب سے تحریری ہدایات اور سرکیولرس خطوط کی شکل میں موصول ہوتے تھے مگر اَب ہارڈ کاپی کی شکل میں کوئی تحریری خط موصول نہین ہوتا بل کہ واٹس ایپ کے ذریعہ خطوط کی فوٹو کاپی روانہ کی جاتی ہیں اور اسکولوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ان پر فوری عمل کیا جائے۔ اب ہم ایسے تو نہیں کہ تصاویر کے لئے صفائی کرلیں یا فوٹو کے لئے اپنے طلبہ اور اساتذہ کے ہاتھوں میں کتابیں پکڑا دیں ، اسی لئے اَیسے حکمناموں اور ہدایات پرچاروناچار عمل کرتے وقت دل رنجیدہ بھی ہورہا ہے اور شرمندہ بھی۔ باوجود اس کے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی حالات کے دھارے میں بہتے چلے جاتے ہیں ۔
ہوسکتا ہے کہ ریاست وملک کے دیگر سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں بھی ایسا ہو رہا ہو۔ ہم اس کے متعلق پورے یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اگر ہم محکمۂ پولس کو ہی لے لیں تو بڑے افسران کی ہدایات پر چھوٹے اہلکاروں کی ڈیوٹی اور ذمہ داریاں انجام دینے کی تصویر کشی ایسے محکموں کی خودکشی ثابت ہوجائے گی اور یہ منظر بڑا مضحکہ خیز بھی ہوگا۔ ہم اگر اس فوٹو کلچر کے انفرادی نْقصانات کی بات کریں تو قانونی معلومات رکھنے والے افراد ’’تیسرے فریق Third Party‘ ‘کی تعریف بہت اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ اگر کوئی معلومات (یہاں تصاویر، ویڈیوز)پہلے فریق سے لے کر دوسرے فریق تک ہی رازداری اور پوشیدگی کی پابند سمجھی جاتی ہے۔ دوسرے فریق نے یہ معلومات اگر کسی تیسرے فریق تک منتقل کردی تو تیسرا فریق اس معاہدہ کا پابند بالکل نہیں ہوتا ہے۔ اس صورت میں لڑکوں اور مردوں کی کو کسی صورت استثناء مل بھی جائے تو تعلیمی اداروں سے افسروں کے سوشل میڈیا گروپوں میں منتقل ہونے والی ہماری بچیوں اور بہنوں کی تصاویر اور ویڈیوز کے ساتھ سوشل میڈیا کے یہ ’’ تیسرے فریق‘‘کیا کچھ کرسکتے ہیں ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے اسی فوٹو کلچر نے آج ہماری تنہائی پر کاری ضرب لگائی ہے۔ ہماری قوم نے ہر وقت اور ہر دور میں یہ ثابت کیا ہے کہ ہم بنیادی طور پر ’’فالوورس یا پیروکار‘‘ ہیں (ہم نے جان بوجھ کر لفظ ’’ بھکت ‘‘ نہیں لکھا وگرنہ بات کہیں اور چلی جاتی)، ہر بات پر عقل کی آنکھیں بند کرکے عمل کرلینا ہماری روایتوں میں شامل ہے۔ سرکاری اور نیم سرکاری شعبوں میں جو یہ نئی چیز وجود میں آگئی ہے، اس کے پیچھے ملک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد میں تیزی سے پنپ رہا فوٹو کلچر ہے۔ عوام یا متوسط درجہ کے افسران اور کارکنان جو کچھ کررہے ہیں ، وہ دراصل اپنے بڑوں کی تقلید ہی تو ہے۔ قارئین ایسے اعلیٰ افسران کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھ چکے ہوں گے جو اپنی ڈیوٹی کی ایمانداری اور فرض شناسی ظاہر کرنے کے لئے باقاعدہ فوٹو گرافر ساتھ میں لئے دورے کرتے رہتے ہیں ۔ ارے بھائی، زیادہ دور کیوں جائیں ، ملک کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان اَفراد کا ’’ فوٹو جینک رویہ‘‘ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ بات تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بروقت فوٹو نہ کھنچنے یا کسی دوسری طرف کیمرہ کردینے کے لئے ہمارے رہنما اپنے فوٹو گرافر کو سب کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ بھی کرسکتے ہیں ۔
انگریزی زبان کا ایک لفظ ’’ پروٹوکول‘‘ سرکاری شعبوں میں کس قدر اہمیت رکھتا ہے، یہ ہمارے ملک کے ہر سرکاری شعبہ، ہر وزارت اور ہر محکمہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ بر سبیل ِ تذکرہ بتادیں کہ میونسپل کاونسل یا کارپوریشن کے کارپوریٹرس بھی آج محلہ میں صاف صفائی کروانے، شہریوں کو بنیادی سہولیات بہم پہنچانے کے اپنے کاموں سے منہ موڑ کر آج اپنے ساتھ عوام کے برتاؤ میں پروٹوکول کی بات کرتے ہیں ، جب کہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ان میں سے بیشتر کو پروٹوکول کے اسپیلنگ بھی شائد نہ آتے ہوں ۔ اگر بلدیہ کے یہ نمائندے کچھ کام کربھی رہے ہیں تو ایک کام پورا کرنے کی بیس تصاویر اور دس ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا اپنی پہلی ڈیوٹی سمجھتے ہیں ۔ فوٹو کلچر کی بات ہورہی ہے تو ہمیں امریکہ کے مختلف صدور کی تصاویر والی ایک پوسٹ بہت پسند آئی تھی کہ اس میں تین سبکدوش صدور نے خود اپنے ہاتھوں میں چھاتہ پکڑا ہوا ہے جب کہ اس کے بازو میں پیسٹ کی گئی تصویر میں ایک ہندوستانی آئی اے ایس افسر بڑی شان بے نیازی سے چل رہی ہے اور ایک پولس اہلکار اس کے سر پر چھاتہ پکڑے ہوئے ہے، جب کہ دیگر دس اس کے اطراف میں حلقہ بنائے چل رہے ہیں ۔ دوملکوں میں اپنے رہنماؤں اور افسروں کے ساتھ رویوں کا یہ فرق بڑ اہمیت رکھتا ہے۔ کسی نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے کہ اچھے رہنما ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں جب کہ برے رہنما قوم و ملک سے اپنی خدمت کروالیتے ہیں ۔ ویسے ہمیں یوکرین کے ایک سیاست داں کا ویڈیو بھی یاد آرہا ہے، جس میں وہاں کی عوام نے ملک کے اعلیٰ عہدہ پر موجود اس سیاست داں کو حقیقتاً زبردستی اس کے دفتر سے اٹھاکر کچرے کے ڈبے میں ڈال دیا تھا۔ یہ ویڈیو یوٹیوب پر بھی موجود ہے۔ کاش ہمارے رہنما اور افسران عوام سے ایسا کرنے اور اس قسم کے ویڈیوز شئیر کرنے کے لئے بھی عوام سے اپیل کریں ۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسی کوئی اپیل ہمارے ملک میں نہیں کی جائے گی۔ ہم غیر ممالک کی ایسی مثالوں سے سبق سیکھے کی بجائے اپنی ضد پر قائم ہیں اورحد تو یہ ہے کہ ہمارے رہنما اپنے پیر بھی سیلابی پانی میں رکھتے نہیں بل کہ اعلیٰ سطحی افسر انہیں گود میں اٹھا کر ان کی منزل پر پہنچا تے ہیں ۔ یہ سب واقعات سوشل میڈیا پر روزانہ تیزی سے وائرل بھی ہو رہے ہیں مگر ہم ہیں کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ جھوٹ کا سہارا لے کر ہم دنیا میں بہت آگے تو بڑھ سکتے ہیں مگر ہم جھوٹ کے ساتھ کبھی واپس نہیں آسکتے۔ قومی صفائی مہم کے بڑے بڑے رہنما اور مشہور اداکاران جس طرح پہلے سے صاف جگہ، اے گریڈ کے حکومتی دفاتر اور پاش کالونیوں میں جھاڑو پکڑے ہوئے نمائشی انداز میں تصویریں کھنچوارہے ہیں ، اس رجحان سے صرف نمائش کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ اگر نیت صاف ہے تو یہ بڑی سماجی شخصیات، افسران اور رہنماء گندی بستیوں اور گلیوں میں اپنے فوٹو گرافرس کی فوج کے ساتھ کیوں نہیں پہنچتے، یہ سوال ہر سنجیدہ و حقیقت پسند شہری کے ذہن میں ابھررہا ہے۔
ہمارے ملک کی تعمیر نوکے لئے آج یہ زیادہ بہتر ہے کہ لفظوں اور تصویروں کے بجائے عمل نظر آئے اور زندگی بولے۔ آ ج فرض اُس چیز کا نام ہوگیا ہے جس کی لوگ دوسروں سے توقع کررہے ہیں ۔ چونکہ ہر سکہ کے دو رخ ہوتے ہیں اسی لئے جب جھوٹ کا تصویری کلچر فروغ پاتا ہے تو اسی کلچر سے سچ کی ایسی کڑوی تصویریں بھی سامنے آجاتی ہیں ، جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ملک کی غریب ریاست جھارکھنڈ میں غریبی کی سطح سے بہت نیچے زندگی گزارنے والے خاندان کی چھوٹی سی معصوم بچی صرف اس لئے بھوک سے تڑپ تڑپ کر اپنی جان گنوادیتی ہے کیوں کہ اس کی غریب ماں اپنے خاندان کا راشن کارڈ لاعلمی کی وجہ سے اپنے آدھار کارڈ سے ’’لنک‘‘ نہیں کرپائی تھی یا پھراڑیسہ میں کہیں کوئی غریب مزدور ٹی بی میں فوت ہو چکی اپنی بیوی کی لاش کو کندھے پر بیس کلو میٹر تک ڈھوتا ہے، اور لوگ اس کی تصویریں اور ویڈیو بناکر صرف ملک میں نہیں پوری دنیا میں اسے ’’وائرل ‘‘ کردیتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ ہم تصویروں کے کلچر سے نکل کرمثبت تبدیلی لانے کے عمل کا عملی حصہ بن جائیں ، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے سامنے آئیں ۔ سماجی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے متحد ہوں اورسماجی انقلاب کے نقیب بنیں ۔ یاد رکھیں جب مشہور نظریات اور طریقے، اقدار اور انصاف اور رازداری سے زیادہ اہمیت حاصل کرلیں تو ملک و قوم کو بہر حال نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔