EPAPER
Updated: September 02, 2023, 2:08 PM IST | Mohammad Aslam Parvaiz | Mumbai
ستیہ جیت رے کی فلم ’’تین کنیا‘‘ کے حوالے سے
نرمل ورما نے ایک جگہ کہیں لکھا تھا کہ ایک بار وجود میں آنے کے بعد تخلیق کی کیا تقدیر ہے اس کے اسرار کو کوئی نہیں جانتا۔ٹیگور نے جو نظمیں،ناولِ،کہانیاں لکھی تھیں تب انہیں کہاں اندازہ تھا کہ آنے والا وقت انہیں کسی اور میڈیم کے وسیلے سے یوں دریافت کرے گا۔گو کہ خود ان کی زندگی میں ان کے افسانوں،ناولوں اور نظموں کو سنیما اور ڈراموں کے وسیلے سے سمجھنے کی متعدد کوششیں کی گئی تھیں۔چونکہ ٹیگور بذات خود ایک versitileفنکار تھے اور ان کی قوت ِتخلیق اور طبعیت کی جولانی نے انہیں کسی ایک صنف سے بندھے نہیں رہنے دیاچنانچہ شاعری،افسانہ، ناول ڈرامہ کے علاوہ موسیقی اور مصوری میں بھی ان کی فنکارانہ رفعت اور بلند پروازی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مصوری کے لیے برش توکہتے ہیں انہوں نے چھیسٹھ سال کی عمر میں پکڑا لیکن یہ سب جانتے تھے کہ ایک مصور تو ان کی ادبی و فنی زندگی کے بالکل ابتدائی دنوں سے ان کے ساتھ موجود تھاجو لفظوں کے ذریعے تصویریں خلق کر رہا تھا۔اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ برش اور رنگوں سے پینٹنگ انہوں نے بہت بعد میں شروع کی لیکن افسانوں، ناول، نظموں،سوانح یہاں تک کہ خطوط میں واقعات،احساسات،جذبات اور باطنی کشمکش بہت پہلے سے ان کے یہاں بصری پیکر میں اپنی جزئیات کے ساتھ ڈھل رہی تھی۔ مختلف فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کو ان کی تحریروں کے ذریعہ اپنے اپنے میڈیم سے دریافت کرنے کا جوازان کی اس لفظی پینٹنگ میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ براہ راست سنیما سے بہت کم رشتہ ہونے کے باوجود ہندوستانی سنیما کو ٹیگور نے اتنا سیراب اور شرابور کیا ہے کہ اسے آسانی سے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ادب پاروں کے سنیمائی interpretationsکے علاوہ رابندرو سنگیت نے ہندوستانی فلمی موسیقی کو کئی طرح سے مالا مال کیا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیکسپیر کے بعد رابندر ناتھ ٹیگور دوسرے فنکار ہیں جنہوں نے سنیما سے براہ راست رابطہ نہ ہونے کے باوجود ہندوستانی سنیما پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مختلف زبان کے لگ بھگ سو سے زیادہ ہدایت کاروں نے گرو دیو کی کہانیوں، نظموں،خطوط اور گیتوں و دیگر تحریروں کو فلم کے پردے پر re-writeاور re-creatکرنے کی کوشش کی لیکن ان میں سے بہت سی فلمیں آرکیوز میں بھی موجود نہیں۔جبکہ کچھ اس قدر خستہ ہیں کہ ان کا documentationممکن نہیں۔گو کہ NFDCان یادگار فلموں کی تجدید کے لیے انہیں digital formatمیں محفوظ کرنے کے لیے کوشان ہے۔چونکہ ٹیگور کے فکشن پر بنی تمام تر فلموں اور فلم کاروں پر تبصرہ و تجزیہ یہاں ممکن نہیں اس لیے زیرِ نظر مضمون میں اپنی گفتگو کو ٹیگور کے تین افسانوں پر مبنی ستیہ جیت رے کی فلم ’’تین کنیا‘‘ تک محدود ہیں۔لیکن اس سے پہلے کچھ باتیں ادب اور سنیما کے رشتے سے متعلق۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ادبی فن پارے کو فلم کے میڈیم میں منتقل کرنا بڑی حد تک ممکن نہیں تاوقتیکہ فلم کا پورا crew اپنی تخلیقی مہارت سے اس کو فنّی وحدت میں تبدیل نہ کردے۔ مشہور ہدایت کارالفریڈ ہچکاک نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ناول یا کہانی پڑھتے ہوئے ہمیں جو تجربہ ہوتا ہے اس کو پردے پر منتقل کرکے حاصل ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لئے چند ایک استثنائی مثالوں سے قطع نظر بیشتر فلمیں ادبی متن کو برقرار نہیں رکھ پائی ہیں۔ظاہر ہے فلم ادبی اور تخلیقی text کی نہ توفوٹوکاپی ہوتی ہے نہ ہی اس کا عکسِ محض۔دونوں کی اپنی ایک خود مختارکل دنیا ہے، اپنی زبان،محاورے اور اپنی شعریات و اپنا ڈسپلن ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ستیہ جیت رے کی فلم ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ کو پریم چند کے افسانے ’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ سے خود مختار تخلیق قرار دے سکتے ہیں ؟اگر اس کا جواب ہاں ہے تو پھر اس سے جڑا ہوا دوسرا سوال یہ ہے کہ فلم کار کو ادبی متن میں مداخلت کرنے کی اجازت کہاں تک ہے؟ غلام عباس کے افسانے ’’آنندی‘‘ پرمبنی فلم ’’منڈی‘‘ میں شیام بینگل کے کئے گئے اضافے کوجس میں افسانے کی روح ہی کا ’’سوہا‘‘ ہو گیا اسے کیا کہیں گے۔ کیا یہ اوریجنل افسانے کے فریم ورک سے ٹریس پاس نہیں ہے؟ سنیما ایک ٹکنالوجیکل پرفارمنس ہے جو ادب کے ہیتئی تقاضوں سے قطعی مختلف چیز ہے چنانچہ چھپے ہوئے ادبی متن کو فلم کے پردے پر پرچھائیوں کی شکل میں دیکھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے سنیما اور ادب کے رشتے کی بنیادی نوعیت کوذہن میں رکھنا ضروری ہوگا۔
ٹیگور کے ادبی متن کو سلو لائیڈ میں منتقل کرنے کے لیے فلم کاروں نے عموماً دو طریقے اپنائے ہیں ایک تو متن کے تئیں وفادار رہتے ہوئے اس کو فلم کے پردے پر جوں کا توں اتار دیا گیا۔لکھے ہوئے لفظ اور ان لفظوں میں پنہاں دنیا، کرداراور واقعات فلم کے میڈیم میں منتقل ہوتے ہی عموماًfakeاور چپٹے دکھائی دینے لگتے ہیں اور خون و حرارت سے بھرا ہوا متن یک بیک frozen meatمیں تبدیل ہوجاتا ہے۔جبکہ دوسری طرف لکھے ہوئے لفظوں کو سنیما کے محاورے میں ڈھالنے کے لیے بنیادی متن میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ٹیگور کے متن کو جن دو ہدایت کاروں نے بخوبی فلم کے لباس پہنایا ہے ان میں دوسرا نام تپن سنہا کا ہے جبکہ سبھی جانتے ہیں کے ستیہ جیت رے اس فہرست میں سب سے اوپر ہیں جنہوں نے ٹیگور کے ادبی متن کو سمجھنے کے لیے ناظرین کو نئے سوتر عطا کیے۔ تپن سنہا رابندرناتھ ٹیگور کے گہرے عقیدت مندوں میں ہیں لیکن اکثراوقات انہوں نے ٹیگور کی تحریر کو سنیمائی محاورے میں تبدیل کرتے ہوئے اس میں معنی خیز تبدیلیاں کیں۔’’خودیتو پاشن‘‘ایک کلاسک فلم ہے اس فلم میں تپن سنہا نے اپنے انفرادی اسٹائل کو جس طرح نبھایا ہے اس نے ٹیگور کے افسانے کو نئے ڈائمنشن دیے۔ اس فلم سے متاثر ہوکر ہی بمل رائے نے ’’مدھو متی‘‘تخلیق کی تھی۔بمل راے نے ٹیگور کے افسانے پر بنی ایک اور بنگلہ فلم سے متاثر ہو کر ’’کابلی والا ‘‘بنائی تھی۔ابھی حال ہی میں شمس الحق عثمانی نے اس فلم کی close readingکرتے ہوئے اس کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ کمار شہانی نے ٹیگور کے ایک طویل افسانے یا ناولہ کو بنیاد بنا کر ’’چار ادھائے ‘‘ جیسی تجرباتی فلم بنائی۔لیکن ٹیگور کی تحریروں کو ستیہ جیت رے نے جس طرح نئے افق دیے اس میں کوئی بھی ان کا ہمسر نہیں۔’’تین کنیا‘‘ کے علاوہ ’’گھرے باہرے ‘‘اور ٹیگور پر بنی ایک دستاویزی فلم رے کاایسا کام ہے جس کے حوالے کے بنا absolute ٹیگور کو سمجھنا ممکن نہیں۔
ٹیگورکو ستیہ جیت رے کی کمزوری بھی کہا گیا ہے۔ 1961میں بننے والی فلم ’’تین کنیا‘‘ ٹیگور صدی کے موقع پر اپنے آئیڈیل ادیب کو اس کی شایانِ شان ایک بڑے فلم کار کی جانب سے دی جانے والی خراجِ عقیدت ہے۔ رے نے ٹیگور کے تین افسانوں کو تین episodeکی صورت فلم میں پیش کیا ہے۔’’پوسٹ ماسٹر‘‘،’’ملی ہار‘‘اور ’’سماپتی‘‘ ان تینوں افسانوں میں نسوانی کردار ہی قدر مشترک کا درجہ رکھتے ہیں۔ نسوانی کردار ان کی زندگی اور ان کے جذبات و احساس ِنظام کو جس خوبصورتی سے ٹیگور نے اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے، ان حساس ترین لرزشوں کوفنکارانہ مہارت کے ساتھ رے نے فلم کے پردے پر منتقل کر دیا ہے۔یہ فلم ایک کلاسک ادیب اور ایک کلاسک فلم کار کے باہمی اشتراک کا نتیجہ کہی جا سکتی ہے۔
’’پوسٹ ماسٹر‘‘ ایک ایسی غریب اور یتیم نوعمر لڑکی رتن کی زندگی کو پیش کرنے والا افسانہ ہے جوگائوں میں پوسٹ ماسٹر کے گھریلو کام کرنے کے لیے مامور ہے۔ جب ایک نئے پوسٹ ماسٹر نند لال کا تبادلہ ہوتا ہے تو رتن اس کے گھر یلو کام کرنے لگتی ہے۔چونکہ نندلال مہانگر سے اپنا گھر پری وار چھوڑ کرآیاہے لہذا گائوں کی سست رفتار زندگی سے بہت جلد اکتا جاتا ہے۔ اپنی بوریت اور تنہائی کو کم کرنے کی خاطر نند لال رتن کو پڑھانا شروع کرتا ہے۔رتن میں وہ اپنی چھوٹی بہن کی پرچھائیں دیکھتاہے۔ رتن بھی گھریلو کام کے علاوہ کبھی کبھار نند لال کے لیے کھانا بنا لیا کرتی ہے۔ اس دوران جب نندلال پر ملیریا کا حملہ ہوتا ہے تو رتن اس کی بے لوث خدمت کرتی ہے اور رات بھر اس کے سرہانے بیٹھ کر تیمار داری کرتی ہے۔صحت یاب ہونے کے بعد نند لال گائوں اور نوکری دونوں چھوڑ دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔یہ بات رتن کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں۔جانے سے پہلے وہ رتن کو کچھ پیسے دینا چاہتا ہے جسے لینے سے وہ انکار کر دیتی ہے۔ اور نندلال سے کہتی ہے چلے جائو۔ کچھ نہیں چاہئے مجھے تم سے۔
نندلال چلا جاتا ہے اور نند لال کی جگہ نیا پوسٹ ماسٹرآجاتا ہے لیکن رتن پھر بھی اکیلی رہ جاتی ہے۔
جیسے ابھی بیان کیا گیاہے وہ محض افسانے کی plot summeryہے۔لیکن ٹیگور نے رتن اور نند لال ان دو کرداروں کے ذریعے ان کی داخلی و جذباتی زندگی کوe explorکرتے ہوئے اس افسانے کو پرت در پرت ثروت مند بنایا ہے، اہم بات یہ ہے کہ رے نے between the linesکوbetween the frames بہت خوبی کے ساتھ دریافت کیا ہے۔ افسانوی بیانیہ میں درج نندلال کی بوریت کو رئے نے ماں کو لکھے خط اور ایک پاگل فقیر کے ذریعے سے بہت موثر ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ کچھ اور باتیں جو افسانوی بیانیہ میں پس منظر میں چلی گئی ہیں اس کو رے نے ماجرائی پرتوں میں اس طرح جذب کر دیا ہے کہ افسانے کا تجربہ فلم میں مبدل ہو گیا ہے۔ یہاں ایک بات کا ذکر میں ضرور کرنا چاہوں گا کہ افسانے میں نندلال کا پوسٹ ماسٹر ہونا افسانوی فریم ورک میں اس طرح نہیں ابھرتا جس طرح فلم میں ابھرتا ہے۔پوسٹ ماسٹر جو ایک کا پیغام دوسرے تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ایک deviceیا vehicleہے جبکہ اس فلم اور افسانے میں وہ خود ہی اس معصوم لڑکی کے جذبات کو پڑھنے سے محروم ہے۔ ironyیہ ہے کہ مہانگر میں رہنے والا نندلال اس دردکو سمجھ نہیں پاتا، جو رتن اپنے باطن میں محسوس کر رہی ہے۔ pathosاور درد کی جو زیر یں لہر افسانوی اسلوب میں پنہاں ہے اسے رے نے بخوبی منظر، کیمرے کی movements،اداکاروں کے تاثرات سے ابھارنے کی کوشش کی ہے۔افسانے کا غائب راوی کا رول کیمرے نے بخوبی ادا کیا ہے۔افسانے میں رتن اور نندلال کے رشتوں کے مابین پرورش پانے والے انجان اور ان کہے علاقوں کو رے نے آدھے ادھورے اور مکالموں کے بیچ آنے والی بامعنی خامشیوں سے جس طرح ابھارا ہے اس سے لگتا ہے کہ ہم ٹیگور کے افسانے کو دیکھ بھی رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں۔
’’مونی ہار‘‘یعنی گمشدہ زیور ذایقے کے اعتبار سے ایک نفسیاتی تھرلر ہے۔اس میں ایک منفی عورت کے کردار کو پیش کیا گیا ہے۔ایسے وقت میں جب عورت رشتوں کے تقدس اور محبتوں کی صداقت اور زندگی کے مثبت پہلوئوں کا استعارہ کے طور پیش کی جاتی تھی یا پھر بے بس مجبور اور ابلا عورت کی علامت کے طور پر، ٹیگور نے اسی عورت کو ’’مونی ہار‘‘ میں ایک خودغرض اور self centeredعورت کے طور پر بیان کیا ہے۔ منی مالیکہ جو ایک امیر اور شریف النفس انسان سے بیاہی گئی ہے لیکن اپنی پچھلی محبت کو وہ بھول نہیں پائی ہے لہذا زندگی کی تمام تر آسائشوں کے باوجود وہ اس بڑی حویلی میں خود کو تنہا اور اکیلا محسوس کرتی ہے۔ وہ نہ تو گائوں کے دوسرے لوگوں سے ملتی ہے نہ کسی سے بات کرتی ہے۔اس زمین اور آسمان کے بیچ اس کی دلچسپی ان قیمتی زیورات میں ہے جو پھنی بھوشن نے اسے دئے ہیں۔ اپنی بیوی کی اس کمزوری کو جاننے کے بعد وہ اکثر اپنے دوروں سے لوٹتے ہوئے اس کے لیے کوئی نہ کوئی قیمتی زیور ضرور لے آتا۔ایک دن جب منی مالیکہ اکیلی تھی تب اس کا پرانا عاشق گھر پر آ دھمکتا ہے۔وہ اس کے شوہر پھنی بھوشن سے مدد اور نوکری کا طلب گار ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ منی مالیکہ اپنے پرانے عشق کو ابھی تک بھول نہیں پائی ہے لیکن اپنے عاشق کے لیے اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں۔وہ اس کی مدد کرنے کے لیے صرف اس لیے تیار ہوتی ہے کہ پھر وہ کبھی اس کو اپنا منہ نہیں دکھائے گا۔اپنے شوہر کو اپنے دور کا رشتہ دار بتا کر اس کا مسئلہ حل کر تو دیتی ہے مگر اس کے تئیں اس کے دل میں کہیں کوئی جذبہ نہیں۔کسی کے لیے نہیں۔ قیمتی زیورات ہی اس کی بے آب و گیاہ زندگی میں کوئی ٹھنڈی چھائوں ہیں۔لیکن ایک دن پھنی بھوشن کی دوکان میں آگ لگ جانے کے سبب وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔مالیکہ کو اب ڈر ہے کہ اس کا پتی ان زیورات کا تقاضہ نہ کرے۔چنانچہ اس کے طلب کرنے سے پہلے ہی وہ اپنے زیورات دینے سے اسے منع کر دیتی ہے۔شوہر پیسوں کا بندوبست کرنے کے لیے کولکتہ چلا جاتا ہے۔لیکن منی مالیکہ کو اب بھی اندیشہ ہے کہ پیسوں کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں اسے اپنے زیوروں کو کھونا پڑے گا چنانچہ وہ زیورات سمیت اپنے مائیکے بھاگنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس سلسلے میں اپنے پرانے عاشق سے مدد مانگتی ہے۔قیمتی زیورات کو دیکھ کر عاشق کی نیت بھی ڈاناڈول ہو جاتی ہے گھر سے نکلنے کے بعد منی مالیکہ کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس بارے میں نہ ہمیں افسانہ کچھ بتا تا ہے اور نہ ہی فلم۔ ہمیں تو صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ بہت دنوں بعد جب پھنی بھوشن کولکتہ سے پیسوں کا انتظام کر کے لوٹتا ہے تو حسبِ عادت اپنی چہیتی بیوی کے لیے ایک قیمتی ہار بھی لے آتا ہے۔لیکن اسے اپنی بیوی کہیں نہیں ملتی صرف ملتا ہے زیوروں کا خالی ڈبہ۔۔وہ پریشان ہے تب ہی رات کے اندھیرے میں اسے بار بار منی مالیکہ کے ہنسنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔اور پھر اچانک منی مالیکہ ایک سائے کی مانند اس کے سامنے آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔خوشی سے وہ اس کا نام پکارتا ہے لیکن تب ہی وہ سایہ جھپٹا مار کر پھنی بھوشن کے ہاتھ سے اس کا لایا ہوا ہار چھین لیتا ہے۔ اور یہ دیکھ کرپھنی بھوشن کی گھٹی گھٹی چیخ نکل جاتی ہے کہ زیورات میں لدی پھندی وہ عورت منی مالیکہ نہیں بلکہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ ہے۔
اس فلم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ٹیگور نے جس دانشمندی سے افسانے کا تانا بانا تیار کیا ہے،رے نے اسی ہوش مندی سے فلمی اسکرپٹ کی stretegyتیار کی ہے۔ چونکہ رے کی اپنی بیشتر کہانیوں میں تھرلر اور اسرار کا عنصر جا بجا نظر آتا ہے چنانچہ اس افسانے کو فلماتے ہوئے بھی اس میں انہوں نے متن کونئے افق عطا کیے ہیں۔ ایک اور بات جو اس فلم میں بھی بہت واضح طور پر نظر آتی ہے وہ ہے افسانے کے بیانیاتی عمل کو ماجرااوروقوعہ میں رے نے جس طرح تبدیل کیا اس سے ان کی ماسٹری کا اندازہ ہوتا ہے۔
’’سماپتی‘‘اس فلم کی تیسری اور آخری کہانی ہے۔میری مونی ایک ایسی لڑکی ہے جو بقول اس کی ماں کے کوئی بھی ایسا کام کرنا نہیں جانتی یا چاہتی جو ایک سوشیل اور شادی کی عمر میں پہنچ جانے والی لڑکی کو کرنا چاہئے۔ سارا سارا دن محلے کے لڑکوں کے ساتھ کھیلنا، پیڑ پر چڑھنا،ادھم مچانا،گلہری کے ساتھ کھیلنا اور شرارتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔گائوں کی پڑھائی ختم کر کے گائوں لوٹ کر آنے والے املیہ کی نظر اس پر پڑتی ہے۔وہ اسے اچھی لگتی ہے۔املیہ کی ماں گائوں کی ایک سوشیل لڑکی سے اپنے بیٹے کی شادی کرانا چاہتی ہے لیکن املیہ اس لڑکی کے بجائے مینو سے شادی کا خواہشمند ہے۔یہ پتہ چلنے پر ماں ہنگامہ کرتی ہے اپنے بیٹے کو سمجھاتی ہے کہ مینو کو نہ گھر کا کام آتا ہے اور نہ گانا بجانا یا پڑھنا لکھنا۔ لیکن اپنے بیٹے کی ضد کی خاطر وہ تیار ہو جاتی ہے۔ادھر مینو بھی شادی کے بکھیڑے میں پڑنا بالکل نہیں چاہتی۔کیونکہ شادی سے اس کے کھیل کود اور شرارتوں پر پابندی لگ جانے کے امکانات تھے۔لیکن پھر بھی املیہ اور مینو کی شادی ہو جاتی ہے۔شادی کی رات کو ہی بند کمرے میں اس کا دم گھٹنے لگتا ہے چنانچہ چپکے سے گھر سے نکل کر وہ ندی کنارے چلی جاتی ہے اور رات بھر اپنی سہیلی گلہری کے ساتھ کھیلتی ہے۔مینو کی اس حرکت پر گھر والے بہت پریشان ہو تے ہیں اور اسے گھر میں قید کر کے رکھا جاتا ہے۔لیکن املیہ چونکہ ایک سمجھدار اور understanding لڑکا ہے اس لیے وہ اپنی بیوی مینو سے یہ کہہ کر ’’جب تمہیں میری ضرورت محسوس ہو مجھے خط لکھ کر بلا لینا ‘‘ واپس شہر لوٹ جاتا ہے۔املیہ کے جانے کے بعد اس کھلنڈری اور tom-boyishلڑکی میں ایک بیوی جاگنے لگتی ہے۔اور یوں ایک الڑھ اور معصوم لڑکی میں سے ایک بھری پری سالم عورت نمودار ہوتی ہے جو زندگی اور رشتوں کا راز جان گئی ہے۔ٹیگو رنے غیر معمولی نفسیاتی خلل کو کمال نگاہی سے گلہری کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔اپنی سہیلی گلہری کی موت پر مینو چونکتی نہیں ہے بلکہ اپنے ساتھی سے کہتی ہے کہ جائو اسے ندی کنارے مٹی میں دبا دو۔ اور پھر اس کے بعد وہ دھیمے سے مسکراتی ہے۔اس طرح گلہری اس الہڑ بچپن کی علامت بن کر ابھرتی ہے جو اب مٹی میں دفن ہو چکی ہے۔اس طرح ’’سماپتی‘‘ ایک شوخ و چنچل لڑکی سے ایک محبت کرنے والی عورت میں تبدیل ہوجانے والے ٹیگور کے افسانے کو رے سلیقہ مندانہ شعور کے ساتھ فلم کے میڈیم میں منتقل کیا ہے یہ کہانی پہلی دو کہانیوں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں ٹیگور اور ستیہ جیت رے نے ظرافت کا بامعنی استعمال کیا ہے جو فطرت ِانسانی کے مضمرات کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔کہنے کی ضروت نہیں ہے کہ اسی کہانی کوبنیاد بنا کر سروپ دت نے جیا بہادری کے ساتھ ’’اپہار‘‘نام سے ایک خوبصورت فلم ہندی میں بنائی تھی۔
بے شک ٹیگور نے یہ تینوں افسانے الگ الگ وقت میں لکھے تھے لیکن رے نے انہیں ’’تین کنیا‘‘ کے عنوان سے انہیں ایک دھاگے میں پرو کر انہیں ایک معنویت دینے کی کوشش کی ہے۔’’پوسٹ ماسٹر ‘‘کی رتن ایک کم عمر بچی ہے تو ’’سماپتی ‘‘ کی مینو ایک ایسی لڑکی ہے جو لڑکی اور عورت کے دہلیز پر کھڑی ہے جبکہ ’’منی ہار‘‘ ایک عورت ایک مکمل عورت کا افسانہ بن کر سامنے آتا ہے۔ مضمون کے آغاز میں نرمل ورما کے حوالے سے کہاگیا ہے کہ ایک بار وجود میں آنے کے بعد تخلیق کی کیا تقدیر ہے اس کے اسرار کو کوئی نہیں جانتالیکن ’’سماپتی ‘‘،منی ہار‘‘اور ’’پوسٹ ماسٹر ‘‘کو ستیہ جیت رئے جیسا جنئیس پوسٹ ماسٹر ملا جس نے ان کہانیوں کو بالکل صحیح پتہ پر پہنچایا۔