• Wed, 04 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سکندر احمد کا ادبی انقلاب

Updated: October 05, 2023, 7:00 PM IST | Dr Humayun Ahmad | Mumbai

دیکھتے دیکھتے ۵؍مئی ۲۰۲۳بھی گزر چکا ۔ اردو دنیا کی ممتاز شخصیت سکندر احمد کو گزرے دس سال ہو گئے۔ ادب کے عظیم نکتہ داں کی حیثیت سے سکندر احمد (۲۷؍نومبر ۱۹۵۸۔۵؍مئی ۲۰۱۳)کو صدیوں یاد کیاجائے گا۔

Sikandar Ahmed. Photo: INN
سکندر احمد۔ تصویر: آئی این این

دیکھتے دیکھتے ۵؍مئی ۲۰۲۳بھی گزر چکا ۔ اردو دنیا کی ممتاز شخصیت سکندر احمد کو گزرے دس سال ہو گئے۔ ادب کے عظیم نکتہ داں کی حیثیت سے سکندر احمد (۲۷؍نومبر ۱۹۵۸۔۵؍مئی ۲۰۱۳)کو صدیوں یاد کیاجائے گا۔ ان کے مضامین کو اردو زبان کے کلاسیک یا اَدبُ العالیہ کا مقام حاصل ہے ۔ انھوں نے رمز آمیز تحریر کو قابل فہم عبارت میں سرایت کرنے کا استثنائی کارنامہ سر انجام دیا ہے ۔ فکشن ، تنقید ، عروض ، لسانیات و صوتیات جیسے مشکل موضوعات پر ہلچل پیدا کردینے والے مثالی مضامین لکھ کر سکندر احمد اردو زبان کی شناختی علامت (Icon) بن چکے ہیں ۔ بین اللسانی حوالہ جات کا عظیم الشان ذخیرہ اور عین وقت ضرورت ان کا لائقِ ذکر استعمال سکندر احمد کی شانِ خط میں شامل ہے۔ مشقت طلب اور مہارت طلب ادق ادبی معاملات میں اپنی سالم اور کامل طبع زاد رائے کے لیے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ 
سکندر احمد اردو ادب کی دنیا میں ذرادیر سے آئے اورجلد رخصت بھی ہو گئے۔ ظاہر سی بات ہے ان کی ادبی خدمات کا وقت مختصر رہا۔ مگر کم وقت میں اردو داں حلقوں کے اندر جیسی حرارت اور جتنی توانائی انھوں نے تزریق (Infuse)کی ہے اسے ایک سخن شناس کی زبان میں ادبی انقلاب کہاجائے گا۔ سکندر احمد کی تحریروں میں علمی معرکہ آرائی کی درخشاں مثالیں بکثرت پائی جاتی ہیں ۔ گذشتہ صدی کی آخری اور موجودہ صدی کی پہلی دہائی کو ہم سکندر احمد کا عہد کہہ سکتے ہیں ۔ ان کی جداگانہ خصوصیات توجہ کو مائل کرتی ہیں ۔ ذرا غور کریں .............سائنس کا طالب علم، کیمسٹری آنرس میں بی ایس سی اور دلّی یونیورسٹی سے لاء گریجوٹ کی ڈگری، اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں ڈپٹی جنرل منیجر کا عہدہ اور گذر جانے کے بعد عالمِ ادب میں ماتم کی لہر! ان باتوں کا آپس میں میل نہ ہونا ان کی ادبی ذہانت کو مزید غیر معمولی بنا دیتا ہے۔ ادب کی جانب ان کی حدِ انتہا کی کشش کی خاص بڑی وجہ خاندانی وراثت تھی۔ سکندر احمد کے والد ڈاکٹر طاہر حسین دیالپوری ایک سرکاری ہسپتال میں معالج کے منصب پر فائز ہونے کے ساتھ ایک مشہور مصنف بھی تھے۔ ۵۲۔۱۹۵۱میں طاہر دیالپوری کے نام سے ان کے دو ناول ’’نیلام ‘‘ اور ’’کشمکش ‘‘ نسیم پریس لاٹوش روڈ لکھنؤ سے شائع ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں پچاس کی دہائی میں اس وقت کے مشہور رسالوں مثلاً ماہنامہ حریم لکھنؤ، ماہنامہ کرن گیا، فروغ اردو لکھنؤ، ماہنامہ اشارہ وغیرہ میں طاہر دیالپوری کے افسانے تواتر سے آتے رہتے تھے۔ 
عالم نقوی کا ’’اردو کے بے غرض مجاہد :سکندر احمد ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا (تفہیم کتابی سلسلہ ۱۴سکندر احمد نمبر راجوری جموکشمیر صفحہ ۱۵) ۔اسلام آباد پاکستان کے محمد حمیدشاہد رقم طراز ہیں _ ’’سکندر احمد نے خشونت سنگھ کے ایک مضمون کے جواب میں اردو زبان اور رسم الخط کا کامیاب دفاع کیا ہے جس میں خشونت سنگھ نے اردو والوں کو اپنا رسم الخط چھوڑ کر دیوناگری لپی اپنالینے کا مشورہ دیا تھا‘‘ (نئے تنقیدی زاویے صفحہ ۱۲)۔ محمد حمید شاہد کی فراہم کردہ معلومات سے ایسا لگا کوئی عالم نقوی والے عنوان کے حق میں گواہی دے رہا ہے۔ سکندر احمد کا یہ عالمانہ مضمون ’’اردو رسم الخط: مسائل اور امکانات ‘‘معاصر رسالہ اردو ادب ۔ نئی دہلی (جولائی ۔ اگست ۔ ستمبر ۲۰۰۷) میں موجود ہے جس میں انھوں نے پُر مغز طریقے سے سائنٹفک وجوہات کی بنا پربھی اردو رسم الخط کی آفادیت کا لوہا منوا یا ہے ۔ 
طلسمات عروض اردو ادب کی پونجی میں ایک قیمتی اضافہ ہے ۔ اسد ثنائی کے الانصار پبلی کیشنز حیدر آباد سے سکندر احمد کے تیرہ عروضی مضامین پر مشتمل یہ کتاب ۲۰۱۵ میں شائع ہوئی۔ بار بار پڑھنے کے لائق سکندر احمد کے قلم کا ایک ایک مضمون ناقابلِ یقین حد تک غیر معمولی ہے، مثلاً وقفہ اور عروضی وقفہ، قافیہ ، کچھ ردیف کے بارے میں ، رباعی کا وزن، اردو عروض : تواتر و تغیر وغیرہ۔ اردو کی تمام بڑی ہستیاں علم عروض کے معاملے میں بڑے انہماک سے سکندر احمد کو بالاترین تسلیم کرتی ہیں ۔ مزید کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں جب شمس الرحمن فاروقی صاحب کے قلم سے یہ بات نکل آئے__’’ ان جیسا ذی علم و ادراک ماہر عروض ہمارے یہاں اب شاید ہی پیدا ہو‘‘(طلسماتِ عروض صفحہ ۲۰)۔ ادب کے مشکل مسائل کے بنیادی نکات سے روگردانی کی روش کو سکندر احمد نے روکنے کاکام کیا ہے۔ ان کے مطبوعہ مضامین کی اولین اشاعت کے ادوار پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے ایک وقت عروض کی پیچیدہ باریکیوں تک عدم رسائی کی مجبوری میں انہیں غیر ضروری قرار دینے کا فیشن عام ہو گیا تھا۔ بے حسی کے خشک موسم میں سکندر احمد نے عروض کی تشنہ فریاد کو محسوس کیا ۔ یوں ان کی بروقت آبیاری سے علم عروض میں نئی جان آئی۔ 
لسانیات کی طرف رخ موڑیں تو مذکر مؤنث کے تعین کا قضیہ ادب کی دنیا میں پانی پت کامیدان رہا ہے ۔ ’’ الفاظ کی تذکیرو تانیث‘‘ کے عنوان سے اٹھائیس صفحوں پر مشتمل نئے تنقیدی زاویے میں ان کا وسیع اور جامع مضمون موزوں اور حتمی نتیجے کے اعتبار سے اردو والوں کے لیے روشنی کا مینار ہے ۔ اردو میں ہمزہ (ء ) ایک ایسا حرف تہجی ہے جس کے لکھنے بولنے اور استعمال کے طریقے پر الجھن اور اختلاف رہے ہیں ۔ اس علمی تنازعہ پر سکندر احمد کا ایک اعلیٰ معیار تفصیلی مضمون ’’ہمزہ اپنے اصل کے تناظر میں ‘‘ شب خوں دسمبر۱۹۹۹ میں پہلے شائع ہوا جواب نئے تنقیدی زاویے میں بھی شامل ہے۔ از روئے لسانیات تحقیق و دلائل کی بنیاد پر مستند نتیجوں تک پہنچنے کی یہ ایک کامیاب کوشش ہے ۔ لسانیاتی گہرائی کی تہہ میں جاکر سکندر احمد کا یہ گرہ کھولنا ’’..........غالب کو صوتی اور نحوی معاملات میں مستند نہیں کہہ سکتے‘‘ (نئے تنقیدی زاویے صفحہ ۸۴)ذہن کو متحرک کرتا ہے۔ سکندر احمد کے اخذ کردہ ایسے فیصلہ کن نتائج نہ صرف لائق فکر ہیں بلکہ دعوت فکر کے ماخذ بھی ہیں ۔ علم اصوات یا صوتیات (Phonetics) کے موضوع پر اردو میں لکھنے والوں کی بڑی قلت ہے۔ کسی خاص زبان کی گفتاری آوازوں کا نظام والے اس میدان میں بھی سکندر احمد نے حیرت انگیز معلومات سے ذہنوں کو منور کیا ہے۔ سکندر احمد کا مضمون ’’ اردو صوتیات: اصل کا تناظر‘‘(جامعہ ۲۰۰۴جنوری ۔ فروری ۔ مارچ اور ساتھ میں نئے تنقیدی زاویے صفحہ ۱۹) کو آواز کی جنبش اور تلفظ کی ادائیگی پر کڑی نظررکھنے والے ذرا غور سے پڑھیں اور پڑھ کر غور کریں ۔ ہوش اڑا دینے والی ان کی علمی ذہانت کو دیکھ کر ذہن حیران ہوجاتا ہے۔ 
سلطان اختر کے زیر نگرانی ہیون پرائڈ ، ۲۶۰شنی وار پیٹھ شولا پور ۔۴۱۳۰۰۲سے سکندر احمد پر شائع ہونے والی دو مختصر سی کتابیں قیمتی معلومات کی مخزن ہیں ۔ ۲۰۱۵کی سکندر فہمی میں اردو کے بڑے بڑوں نے سکندر احمد کی بڑائی میں جو کچھ بھی لکھا ہے انہیں بڑے خوبصورت انداز میں سمیٹا گیا ہے۔ دوسری کتاب ۲۰۱۷میں ’’عصری ادبی تنقید کا ایک اور سکندر : سکندر احمد‘‘ کے نام سے بھارتیہ اردو وکاس فائوندیشن ، شولاپور کی معاونت سے شائع ہوئی۔ اس کے حرفِ آغاز سے قبل سکندر احمد کی تقریباً تمام تصنیفات کا رکارڈ اور ان کے سالِ اولیں کی جانکاری موجود ہے۔ اس لحاظ سے یہ کتاب سکندر احمدکے علمی خزانے کے لاکر کی کنجی ہے۔ 
افسانے کے قواعد تاریخ رقم کرنے والی سکندر احمد کی ایک شاہ کار تصنیف ہے۔ شب خون شمارہ ۲۸۸۔جنوری ۲۰۰۵میں پہلی اشاعت کے بعد ۲۰۱۲میں اشعر نجمی نے بھی اثبات پبلی کیشنز ممبئی سے افسانے کے قواعد کو ایک چھوٹی کتاب کی شکل میں شائع کیا۔ فکشن یا افسانے کے بنیادی اصول و شرائط کیا ہوں اس تعلق سے سکندر احمد کا عالمی معیار کی بلندی تک پہنچا یہ وسیع مضمون ایک اہم ترین سوال کے ہر نکتے کو طبق در طبق کھولتا ہے__ آخر کار افسانہ کو افسانہ کب اور کیوں کہاجائے ؟ کیا قُقنُس کی داستان کی طرح محض حقیقت سے پرے د ل ربا لفّاظی میں افسانویت چہکتی اور مچلتی ہے۔ نئی نسل کی ہونہار ذہانتیں افسانے کے قواعد کے اندر اپنے ادراک میں یقینا ایک اجالامحسوس کریں گی۔ قرۃالعین حیدر کا مشہور ناول ’’آگ کا دریا ‘‘ کی گہرائی میں ڈوب کر سکندر احمد نے قیام ممبئی کے دوران سن ۲۰۰۹میں ذہن جدید کے شمارہ ۵۳میں ’’قرۃ العینیت ‘‘ کے عنوان سے ایک نہایت ہی عرق ریزی والامضمون لکھا۔ شمس الضحیٰ اسرائیل کے بقول سکندر احمد کا مضمون ’’ قرۃ العینیت‘‘ قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا ‘‘ کی شعریات ہے (سکندر فہمی ص۔ ۹۴)۔
سکندر احمد پر سب سے پہلی کتاب مضامین سکندر احمد عرشیہ پبلی کیشنز دہلی ۹۵ سے شائع ہوئی جس کی رسم اجرا ۲۷نومبر ۲۰۱۳کو غالب اکیڈمی حضرت نظام الدین دہلی میں ہوئی تھی جب کہ ۲۰۱۸میں تفہیم پبلی کیشنز راجوری جموں کشمیر کے زیر اہتمام مطبوعہ نئے تنقیدی زاویے ان پر آنے والی سب سے تازہ کتاب ہے۔ ان دونوں کتابوں کی مرتبہ غزالہ سکندر ہیں ۔ کتابوں کی شکل میں ادب کی میراث جو ہمیں حاصل ہے اس کے لیے سکندر احمد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ غزالہ سکندر کو بھی خراج تحسین پیش کرنا ہوگا۔ نئے تنقیدی زاویے کا نام ہی سکندر احمد کے عمیق نقاد ہونے کا عکاس ہے۔ افسانے کے قواعد (ص۔ ۴۳)سے منقول صرف ایک اقتباس ہی ان کے معیار تنقید کو اِفشاکرتا ہے__ ’ ’ترقی پسندوں کے افسانوں میں نظریہ اور ترجیحات تو تھے، خلوص بھی شاید تھا، مگر غیر و ابستہ اور بے لاگ شعور کا فقدان تھا ۔ بعض افسانوں میں بعض جگہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ واقعات افسانوں کی رو کے مطابق نہیں ، بلکہ افسانہ نگارکی ذاتی نظریات یا قارئین کی متوقع پسند ناپسند کے مطابق ظہور پذیر ہورہے ہیں ۔‘‘ ایسا ہی ٹولہ مابعد جدیدیت کی پذیرائی میں ہاتھ پائوں مارتے ہوئے ’’مابعد جدیدیت : مضمرات اور امکانات ‘‘ جیسے کئی اور مضامین بھی شائع کروانے کاکام کیا۔ فن اور ادب کا چولااوڑھ کر باطل کو فروغ دینے کا کھیل کوئی نیا تو نہیں مگر ’’مابعد جدیدیت ‘‘ کا مجرّد خیال (Theory) حق کے خلاف بڑی دور سے وار کرنے والاایسا حملہ ہے جسے عام قارئین کو سمجھ پانا مشکل تھا۔ سکندر احمد نے فوراً اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اس موذی موضوع پر متعدد برجستہ مضامین لکھ کر اس زہر کا موثر تِریاق (Antidote) حاضر کردیا۔ اس کا ذکر سکندر احمد پر لکھنے والے بے شمار لوگوں نے نمایاں طور پر کیا ہے۔ سیدھے لفظوں میں کہیں تو سکندر احمد نے بیچ چورا ہے میں مابعد جدیدیت کے سر سے پگڑی اتاردی۔ 
آخرمیں یہ کہنا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے زبان و ادب پر تحقیق کرنے والے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ سکندر احمد کے مضامین کو نصاب میں شامل کریں ۔ اردو ادب کی تاریخ میں سنگ میل کی طرح ان کے مضامین معیار برائے موازنہ کا درجہ رکھتے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK