• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بنا کے اپنا راستہ جو بھیڑ سے نکل گیا

Updated: January 13, 2024, 5:55 PM IST | Md Shabbir Faruqi | Mumbai

بچوں اور نوجوانوں میں قائدانہ صلاحیتوں کی پرورش اور مستقبل کے لئے انہیں تیار کرنے کے لئے والدین و اساتذہ کی منظم و منصوبہ بند کوششیں ضروری ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اگر ہم میں سے کسی شخص کے کام اور عمل دیگر لوگوں کو زیادہ اور بڑے خواب دیکھنے،زیادہ سے زیادہ سیکھنے،بہت زیادہ کام کرنے اوراپنی صلاحیتوں میں اضافے حاصل کے لئے اکساتے ہیں تووہ شخص ایک حقیقی لیڈر ہے۔ کسی قائد یا رہنما کی بنیادی اور سب سے آسان تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی منزل کا راستہ جانتا بھی ہے،اسے پانے کی صلاحیت و حوصلہ برکھتا ہے اور دیگر لوگوں کو نئی منزلوں کاراستہ بھی دکھاتا ہے۔ مختصر یہ کہ قائدانہ صلاحیت ذہانت،انسانی سمجھ بوجھ و معاملہ فہمی اور بلند و بالا اخلاقی کردار کی ایسی صلاحیتوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو کسی فرد کو کئی افراد کے گروہ پر کامیابی سے قابوحاصل کرنے اور انہیں متاثر کرنے کے قابل بناتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ کوئی شخص اپنے کام اور ذمے داریوں میں کتنا ہی ماہر کیوں نہ دکھائی دے،اس کی راہ ہمیشہ چیلینجوں اور مشکلات سے بھری ہوتی ہے لیکن ایک کامیاب لیڈر جس طرح سے اپنی کامیابیوں کا کریڈٹ اکیلے نہیں لیتا بالکل اسی طرح مشکلات اور چیلینجوں کا مقابلہ بھی تن ِ تنہا نہیں کرتا۔ قیادت کے معانی و مفہوم ہی یہی ہیں کہ اس کے ساتھ ایک بڑا گروہ یا تنظیم موجود ہوتی ہے جو اپنی طئے شدہ منزلوں کو پانے اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہوکر کام کررہی ہوتی ہے۔اگرچہ کہ آج سیاسی قیادت کو خاص و عام کی ایک پسندیدہ خصوصیت سمجھا جاتا ہے مگر ہم اپنے آج کے مضمون کی ابتداء میں یہ بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہاں لیڈر سے مراد آپ صرف سیاسی لیڈر بالکل نہ لیں۔ بلاشبہ سیاست بھی زندگی کا جزوئے لازم ہے اور یہاں بیان کی جانے والی بہت سی قائدانہ صفات اور صلاحیتیں یقیناً آپ کسی سیاسی لیڈر میں بھی ضرور پاسکتے ہیں یا ان کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مگر ہم اپنے اس مضمون کوصرف سیاسی قائدوں کے ذکر تک محدود کرکے اس کی اہمیت و افادیت کو کم نہیں کرنا چاہتے بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں درکار بہترین قائدانہ اوصاف پر روشنی ڈالنا چاہیں گے۔ قائدانہ صلاحیت ایک ایسا وصف ہے جس کی مدد سے ہم دیگر لوگوں پر برتری حاصل کرسکتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں میں اچھا لیڈر بننے کی فطری صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔ جب کہ کچھ لوگ اپنی ذات میں پیدائش سے ہی قائدانہ اوصاف و خصوصیات سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔ یعنی کچھ لوگوں کو قیادت وراثت میں ملتی ہے جب کہ کچھ لوگوں میں یہ گزرتے وقت کے ساتھ پیدا ہوتی ہے اور پھر ان میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ ہمارے قائد یا رہنما جنھیں عام زبان میں لیڈر کہا جاتا ہے،عوامی زندگی جیتے ہیں اور عام لوگوں کو ان کی روزمرہ کی زندگی سے بھی رہنمائی و حوصلہ حاصل ہوتا رہتا ہے۔
آج ملت کا المیہ ہے کہ ہر شعبۂ حیات میں بے لوث اور مخلص قیادت کا فقدان ہے۔ ہمارے بچوں میں خود اعتمادی نہیں ہے نہ ہی آگے بڑھ کر قیادت قبول کرنے کا حوصلہ موجود ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو اپنی سوچ و فکر کے مطابق فیصلہ کرنا سکھانا آج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ عموماً والدین اور اساتذہ بچوں میں قوت سوچ و فکر پیدا کرنے کی خاص کوششیں نہیں کرتے۔ بچوں کی یہ سوچ بن جاتی ہے کہ راستے انہیں جہاں لے کر جارہے ہیں، وہی ان کی منزلیں ہیں۔ انہیں اپنے ذہن میں اپنی منزلیں طئے کرنے اور ان کے حصول کی کوششیں کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ انہیں صرف تقلید کار بناکر رکھ دیا جاتا ہے۔ ایک بھیڑ چال کا ماحول بنادیا جاتا ہے جس میں کسی کی کوئی آزادانہ رائے نہیں ہوتی۔جب کہ قیادت کا اصل مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ ابتریا خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کواس قابل بنادیا جائے کہ وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں،جو بہتر کام کررہے ہوں وہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہوجائیں،جو بہترین کرسکتے ہوں،وہ اعلیٰ ترین کارکردگی کی مثال پیش کرسکیں۔ کوئی بھی شخص اپنی اختراعی کوششوں اورانفرادی صلاحیتوں کی مدد سے کسی ہجوم میں بھی ممتاز و منفرد مقام حاصل کرسکتا ہے۔ جدت طرازی ہی واحد ایسی خوبی ہے جو کسی قائد اور اس کے پیروکاروں کے درمیان نشانِ امتیاز کھینچتی ہے۔حقیقی رہنما وہ ہوتے ہیں جن میں کسی معاشرے کے انفرادی افراد کی اجتماعی توقعات اور خواہشات کا پتہ لگانے کی قابل ِ تعریف ذہانت اور کامیاب دور اندیشی موجود ہوتی ہے۔ ایسا شخص ان انفرادی مفادات کی حصولیابی کی جدوجہد میں ایسے بے شمار لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرلیتا ہے اور ان کی حمایت سے ترقی کی راہ پر آگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔ ایک کامیاب قائد لوگوں کو مختلف گروہوں میں منقسم نہیں کرتا۔ آج ہمارے معاشرے کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ حوصلہ اور امنگ ہے۔ کتنے ہی لوگ سفر کی ابتدا تک نہیں کرپاتے اور ہار جاتے ہیں۔ بے شمار ایسے ہیں جو شروعات تو کرتے ہیں مگر تیز و تند حالات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور ترقی و کامیابی کے اپنے خوابوں کو ٹھکانے لگا کر خاموش ہوجاتے ہیں۔
اصلی قائد وہ ہوتا ہے جو اپنے لوگوں میں کامیابی کی امید جگاتا ہے اوران میں خود کی صلاحیتوں اور انہیں اوروں سے منوانے کے بارے میں یقین پیدا کرتا ہے۔ وہ اپنے لوگوں کو سکھانے سے نہیں چوکتا نہ ہی کسی نئی بات سے انہیں محروم رکھتا ہے۔ وہ قطعی ایسا نہیں سوچتا کہ میری تربیت سے کہیں میرے ہی شاگرد میرے مقابل نہ بن جائیں۔ یہ کسی شخص کی منفی سوچ ہوتی ہے اور منفی سوچ رکھنے والا عوام کا سچا قائد ہو ہی نہیں سکتا۔ مثبت فکررکھنے والا قائد اپنے لوگوں کو ان کی طئے شدہ منزلوں کی حصولیابی اور مقاصد کی تکمیل کے لئے بااختیار و مجازبناتا ہے۔ آج ہم اپنے اطراف مختلف افراد،متعدد انجمنوں اور جماعتوں کا مشاہدہ کریں تو ہر ایک اپنی ڈفلی اپنا راگ کے مصداق اپنی مختلف زبان رکھتا ہے۔ دور حاضر کی سیاست نے بے شمار ایسے خواب بھی نوجوانوں کو دکھادئے ہیں جن کے ذریعے وہ مستقبل کی سیاسی ترقی کواپنا مقصد حیات بنارہے ہیں اور تعلیمی و پیشہ وارانہ ترقی سے جان چرارہے ہیں۔ اس کے لئے وہ قائد کی بجائے پیرو کار بننے اور پھر ضمیر کش تدبیریں کرکے لیڈر بننا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ اصل قائد نہیں ہوسکتے۔ معروف مفکر تھیوڈور ہیس برگ کے مطابق،’’ قیادت کی انتہائی روح اس کی بصیرت میں پوشیدہ ہوتی ہے۔یہاں کوئی بھی اپنا غیر یقینی بگل نہیں بجا سکتا۔ ‘‘اصلی قائد کی بنیادی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ باتوں کا کھلاڑی نہیں بلکہ عمل کاسپاہی ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی کام کا صرف حکم نہیں دیتا بلکہ خود اسے کرکے دکھاتا ہے۔ وہ کسی دشوار گزار راستے پر اپنے پیروکاروں کو اکیلے نہیں بھیج دیتا بلکہ پہلے خود اس راستے پر چل کر دکھاتا ہے۔ سچا قائد صرف پیرو کار نہیں بناتا بلکہ اپنے پیروکاروں کو لیڈر بنانے کی عملی تدابیر اختیار کرتا ہے۔وہ ان کی تربیت کرتا ہے اور اپنے دائرۂ اختیار اور سربراہی کے اطراف ایسا ماحول تیار کرتا ہے جو صرف اس کے لئے بہترین اور موافق نہیں ہوتا بلکہ مستقبل کے قائدین اور رہنماؤں کے لئے بھی یکساں ساز گار ہوتا ہے۔ اچھا اور کامیاب رہنمااپنے پیروکاروں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ انہیں مستقبل کی قیادت کے لئے بھی تیار کرتا ہے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے لئے مستقبل کے نوجوان شہریوں میں وسیع النظری اور وسیع الذہنی کی پرورش کرنا ان کے والدین و اساتذہ کی اولین ذمے داری ہے۔تعلیم کا بنیادی مقصد انسان کے ذہن کے بند دریچوں کو کھولنا ہوتا ہے۔ ان کی سوچوں کو نئی توانائی و وسعت کرنا ہوتا ہے۔ بچوں کو تنگ نظر بناکر اور ان کی فکر کومحدود رکھ کر ہم قوم و ملت کو قائدانہ صلاحیتوں سے محروم کردیتے ہیں۔
معاشرے کی ترقی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ ہم اپنی اگلی نسل میں قائدانہ صلاحیتوں کی نشوونما پراپنی توجہ مرکوز کریں۔ بچوں اور نوجوانوں کی سوچ و فکرمیں مثبت تبدیلی کے لئے خصوصی محنت کریں۔گھر میں اور اسکول میں انہیں چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں، پروجیکٹس اور کاموں میں مشغول ہونے کا موقع دیں اور ان پروجیکٹس کی کامیاب انجام دہی پر ان کی حوصلہ افزائی کریں اساتذہ ہر کلاس میں چھوٹے گروپ بناکر ان میں ایک لیڈر بناکر انہیں کام کی تکمیل کی ذمے سونپیں۔
گھروں میں والدین اور اسکولون میں اساتذہ بچوں کو آسان مسائل کے حل تلاش کرنا سکھائیں۔بچوں میں رضاکارانہ طور پر خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ان میں فراخدلی و وسیع النظری پیدا کرنے کی کوشش کریں انہیں سکھائیں کہ شکست قبول کرنے میں کوئی برائی نہیں بشرط یہ کہ وہ شکست مستقبل میں شاندار جیت کا تازیانہ ہو۔بچوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ وہ زندگی میں بے ایما نی کرنے اور غلط طریقے اپنانے سے بچیں۔ اچھے، صاف ذہن،تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ لوگوں کے ذریعے نوعمروں اور نوجوانوں کی خصوصی تربیت کروائیں تاکہ سماج و معاشرے کو مستقبل میں مفید و ذمے دار شہری فراہم کئے جاسکیں۔ انہیں مشکل و نامساعد حالات کو تبدیل کرنا سکھائیں کہ ناامید لوگ حالات کا شکوہ کرتے ہیں،امید پسند لوگ حالات تبدیل ہونے کی توقع کرتے ہیں،جب کہ قائدین حالات بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ترقی کے اس دور کی تیز رفتار دوڑ میں بھیڑ میں آگے بڑھنے والے ہی ہمارے مستقبل کے قائد ہوں گے۔ آج ہماری قوم کو اپنی ترقی و خوشحالی کے لئے مخلص قائدین کی اشد ضرورت ہے اور یہی ہمارے کل کی اہم ضرورت بھی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK