• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

یہی وہ کام ہے جو آدمی کے کام آتا ہے !

Updated: December 26, 2023, 9:00 AM IST | Md Shabbir Faruqi | Mumbai

بچوں اور نوجوانوں میں سماجی خدمت اور بھائی چارے کا جذبہ پیدا کیجئے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ہمارے ملک کے اولین وزیر قانون، دستور ِ ہند کے معمار اور مشہور سماجی مصلح ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے کہا تھا کہ، ’’جب تک سماجی جمہوریت کی بنیادیں مضبوط نہ ہوں، سیاسی جمہوریت زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہ سکتی۔ ‘‘ ڈاکٹر امبیڈکر کے مطابق سماجی جمہوریت سے مراد ہے کہ ہم زندگی گزارنے کے اصولوں کے طور پر آزادی، مساوات اور بھائی چارے کو اپنی زندگی کے بنیادی اصولوں کے طور پر اپنائیں۔ ہمارا ملک بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت کے لغوی معانیٰ سے ہم سبھی اچھی طرح سے واقف ہیں۔ عوام کے لئے، عوام کے ذریعے، عوام کی حکومت کی یہ تعریف ہمیں کسی بھی جمہوری ملک کے خد وخال کے بارے میں بہت کچھ سکھا دیتی ہے۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں عوام کی اکثریت جمہوریت کے اصل مطلب اور روزمرہ کی عوامی زندگی میں اس کی اہمیت سے لاعلم ہے۔ اس کی ایک عام وجہ تعلیم سے دوری اور سماجی حقوق و ذمے داریوں سے ناواقفیت ہے۔ دراصل، کسی بھی ایسے ملک میں جمہوریت بے معانیٰ ہوکر رہ جاتی ہے جہاں عوام غیر تعلیم یافتہ ہوں۔ ہمارے ملک میں سماجی تعلیم کا مطلب ہے کہ نوجوانوں اور بڑوں کو سماج کی ذمے داریوں اور ان کے سماجی حقوق و فرائض سے آگاہ کیا جائے۔ لیکن دنیا کے بہت سارے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں تعلیم ِ بالغاں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ویسے بھی حصول ِ تعلیم کی کوئی حدیں نہیں ہوتیں اور تعلیم زندگی بھرمسلسل جاری رہنے والا ایک عمل ہے۔ ایسے ممالک میں تو بڑوں سے لے کر بچوں تک اور غیر تعلیم یافتہ سے لے کر تعلیم یافتہ افراد تک سبھی کو سماجی تعلیم لازماً دی جاتی ہے۔ کسی بھی فرد کی مکمل نشوونماء کے لئے سماجی تعلیم و تربیت لازمی جز ہوتی ہے۔ 
سماجی تربیت کایہ کام صرف نوجوانوں اور بڑوں کے لئے ہی نہیں بلکہ بچوں کے لئے بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی تعلیم کا کام اس لئے بھی ضروری ہے کہ اسی کے بعد کوئی فرد سچا، فرض شناس اور ذمے دار شہری بن سکتا ہے۔ کوئی شہری، کسی ملک میں یا وہاں کے کسی علاقے یاد نیا کے کسی خطے میں اپنے آپ کو غیر موزوں نہ سمجھے نہ ہی دیگر لوگ اسے اس طرح کی نظروں سے دیکھیں۔ ہر شہری تعمیری ذہن رکھنے والا ہو اورملک و قوم کے لئے منفعت بخش کردار ادا کرنے کے قابل ہو۔ اسی لئے ہر فرد کو ایک ذمے دار شہری بنانے کی خاطرسماجی تربیت اور رہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ وہی اس معاملے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انسان ایک سماجی جانور ہے اور اپنے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ بچے جو کچھ چھوٹی عمر سے اپنے اطراف دیکھتے ہیں، وہی سیکھنے لگتے ہیں اور پختہ عمر کو پہنچ کر وہی سب اپنی زندگی میں اپنا لیتے ہیں اور اُسی کو اپنی روزمرہ کی زندگی کے معمولات میں شامل کرلیتے ہیں۔ جدید ہندوستان میں ماضی کے مقابلے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی جگہ کٹر فرقہ واریت نے لے لی ہے اور وطن پرستی کی بجائے قوم پرستی اور مذہب پرستی کے نعرے عام ہوچکے ہیں۔ ماضی میں صرف فسادات ہی کے بہانے اقلیتوں کے راستے مسدود کئے جاسکتے تھے لیکن یہ نیا بھارت ہے۔ اس نئے بھارت کے بہت سے تحفوں میں سے ایک ماب لنچنگ ہے، جس میں راستہ چلنے والے کسی بھی بے گناہ اور معصوم شخص کو اس کا مذہب پوچھ کر فوری طور پر بھیڑ کے ذریعے ختم کیا جانے لگا ہے۔ یعنی ایک ایسا دور ہے جہاں انسانیت اورانسانوں کے آپسی سماجی تعلق کی ایک مرتبہ پھر سے تشریح کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ 
 ملک کے اولین وزیر رتعلیم مولانا ابولکلام آزاد کے مطابق سماجی تعلیم کا مطلب مکمل انسان بنانے کے لئے لازمی تربیت سے ہے۔ انسان اپنے آپ میں اسی وقت مکمل ہوتا ہے جب وہ اخلاقی اعتبار سے پختہ ہو اور اپنی سماجی ذمے داریوں سے بخوبی واقف ہو۔ کسی سمجھدار اور بالغ شخص کو خواندگی کی حد تک پہنچانا تاکہ علوم عالم تک اس کی رسائی ممکن اور آسان ہوسکے۔ یہ تعلیم کسی بھی فرد کو اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہونا اوراسے اپنے لئے اور خود کو اس کے لئے بہترین طبعی حالت میں استعمال کے لئے تربیت فراہم کرتی ہے۔ اس میں بہتر سماجی زندگی جینے کے قابل ہونے کے لئے کسی فرد کو معاشی فوائد پہنچانا بھی مقصود ہوتا ہے۔ اس کا مقصد فردکوانفرادی اور اجتماعی دونوں قسم کے فوائد کے لئے حفظانَ صحت کے اصول سکھانابھی ہوتا ہے تاکہ اس کی گھریلو زندگی صحت مند اور خوشحال بن سکے۔ لیکن ان سب کے ہمراہ بہترین شہری کے طور پر کسی بھی شخص کو سماج میں پیش کرنا ہی اس تعلیم کا بنیادی مقصد ہے۔ ہم نے اس مضمون کے اولین حصے میں ملک کے جن ناگفتہ بہ سماجی حالات کا تذکرہ کیا ہے، ان کی روشنی میں بے حد ضروری ہوجاتا ہے کہ شہریوں میں بہترین سماجی شعور کی بیداری کے لئے کوششیں کی جائیں، ان میں انسانی ہمدردی کے جذبات و احساسات جگانے کا کام کیا جائے، انہیں انسانوں کے درد و تکالیف اور ان کے مسائل سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ ان کے موزوں حل بھی سکھائے جائیں ایک بہتر اور ایک دوسرے کے لئے فائدہ مند سماج وجود میں آسکے۔ جب ملک میں ایک بڑی تعداد میں نوجوانوں کوان کے بچپن سے ایک منظم منصوبے کے تحت خصوصی تربیت کرکے ان کے ذہنوں کو فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ کردیا گیا ہو اوران میں نفرت بھردی گئی ہو تو ایسی صورت میں حالات بدلنے کے لئے اس سے بہتر منصوبے کی ضرورت ہے۔ یقیناً وہ منصوبہ مستقبل کے شہریوں یعنی ملک کی اگلی نسل کی بچپن سے سماجی اور انسانی بنیادوں پر تربیت کے ذریعے عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ 
دورِ حاضر میں قومی سیاست میں سوچ و فکر اور قول و عمل کے اعتبار سے نہایت ابتری واقع ہوئی ہے۔ ماضی قریب میں بے شمار لوگوں کے سیاسی عروج کو دیکھتے ہوئے مذہب کو سیاست کی سیڑھی کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔ یہ گلی سے لے کر دلی تک کی سیاست کا حال ہے۔ جہاں بنیادی مسائل پر بات کی جانی چاہئے، اہم عوامی ضرورتوں کی عدم دستیابی پر سوال ہونے چاہئے، وہاں نہایت غیر متعلق باتیں اٹھائی جاتی ہیں۔ یہ عوام کی لاعلمی یا ان کی سمجھداری کی کمی اور ان میں سیاسی شعور کی عدم موجودگی کا نتیجہ ہے۔ اکثر و بیشتریہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ سیاسی جلسوں اورریلیوں میں سنجیدہ مزاج والے یا تعلیم یافتہ افراد موجود ہی نہیں ہوتے۔ صرف ایک بھیڑ ہوتی ہے جس کی موجودہ سیاست پر نہ کوئی نظر ہوتی ہے نہ ہی کوئی انفرادی نظریہ ہوتا ہے۔ انہیں صرف سننے اور نعرے بازی کے لئے بلایا جاتا ہے۔ یہاں غریبی اور بے روزگاری جیسے مسائل پر بحث ہی نہین ہوتی۔ ایسے لوگوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ملک اور قوم کی سا لمیت، امن واِتحاد، فرقہ وارانہ یک جہتی وبھائی چارہ، ترقی و خوشحالی اورروزگار
جیسے موضوعات پر اپنی آزادانہ رائے رکھ سکیں۔ انہیں یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کے مسائل کیا ہیں ؟ان کے ممکنہ حل کس کے پاس ہیں یا کس عوامی نمائندے یا سرکاری افسر سے مل کرانہیں حل کیا جاسکتا ہے؟بحیثیت ایک شہری ان کے بنیادی حقوق کیا ہیں ؟حکومتیں اُن کی اہم اور لازمی ضرورتیں پوری کرتی ہے یا نہیں ؟حفظانِ صحت اور تعلیم کے شعبے میں انہیں کیا سہولیات دستیاب ہیں ؟وہ ان سب بے حد اہم سوالات کے تسلی بخش جوابوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ سماج میں دیگر افراد کے ساتھ ان کا کس قسم کا رویہ ان کے لئے یا دیگر لوگوں کے لئے منفعت بخش ہوسکتا ہے، سماجی و قومی ترقی میں ان کا کردار کیا ہوگا، یہ سب باتیں انہیں سکھائی ہی نہیں جارہی ہیں۔ ان کی آنکھوں پر ایک خاص قسم کا چشمہ لگادیا گیاہے جس میں بیشتر لوگوں کو وہی دکھائی دیتا ہے جو انہیں دکھایا جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ احساس دلاناچاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوکر سکون پائیں گے۔ کورونا کی عالمی وباء کے سبب حال ہی میں جن حالات سے ساری دنیا گزری ہے، اس سے دنیا بھر کے لوگوں کو انسانی زندگی کی حقیقت سمجھ میں آگئی ہے۔ لوگوں کو یہ احساس ہواہے کہ دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوئے بغیر انسان سکون نہیں پاسکتا۔ لیکن ملک میں ماضی سے لے کر حال تک کا مشاہدہ ہے کہ سیاست کے دئے گئے پرانے زخموں ابھی مندمل نہیں ہوپاتے کہ پھر نئے نشتر لگا دئے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں نئے سماج اور معاشرے کو عوامی فلاح و بہبود کے لئے ایسے افراد کی اشد ضرورت ہے جو ان مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لیں اور نتیجتاً انسانیت کی تعمیر و ترقی کا باعث بنیں اس لئے کہ سماجی خدمت اور عوامی مفاد میں انسانیت کی فلاح و بقاء کے لئے جدوجہد کرنا بہرحال بہت بڑی نیکی ہے۔ 
 عالمی ادارے یونیسکو نے بھی شہریوں کی اس طرز پر لوگوں کی تربیت کو بڑی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا ہے اورسماجی تربیت کوشہریوں کی بنیادی تعلیم کہا ہے۔ 
یونیسکو کے مطابق یہ مخصوص تعلیم اور تربیت انسانیت کو جذباتی، فکری، اخلاقی اور مادی طور پر بلند کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اگرچہ کہ ہندوستان کے تعلیمی کمیشن نے جسے کوٹھاری کمیشن کے نام سے جانا جاتا ہے، ۱۹۶۶ ؁ء میں ہی سماجی تعلیم کے تین اہم اجزاء کی طرف نشاندہی کی تھی۔ اس کے مطابق یہ تعلیم کام پر مبنی ہوگی اور کام کرنے کے موثر طریقوں کے لئے معلومات، مختلف فنی مہارتوں کی تربیت اور ان کی دلچسپیاں اور رجحان پیدا کرنا اس تعلیم کا مقصد ہوگا۔ یہ تعلیم ملک کے غیر تعلیم یافتہ طبقے میں سماجی و سیاسی شعور پیدا کرنے اور اہم و نازک قومی مسائل میں لوگوں کو سرگرمی کے ساتھ ممکنہ حل میں شریک کروانے کے لئے دلچسپیاں پیدا کرے گی۔ ماضی میں اس کے مقاصدجو کچھ رہے ہوں، آج کے دور میں نئے بھارت کے نئے منظر نامے میں جہاں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے نوخیز ذہنوں اور نوجوانوں میں زہر بھردیا گیا ہے، انسانی جذبے کو فروغ دینے والے سماجی کاموں اور خدمات کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے، اسے کچھ اضافوں اور کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اپنی ترجیحات میں شامل کرنا موجودہ تعلیمی نظام کی ہی نہیں بلکہ دورِ حاضر کے معاشرے کی بھی ضرورت بن گیا ہے۔ جہاں سماجی تربیت کا بنیادی مقصد مستقبل کے ہرشہری کاارتقاء ہو، وہیں ایک مفید و موثر سماج کی تشکیل کے لئے اس میں سماجی کاموں کی مہارتیں پیدا کرنا، سماجی سمجھ بوجھ بڑھانا اور آپسی بھائی چارے کی اہمیت کو سمجھنا، فرقہ وارانہ ہم آہنگی بڑھانے کے لئے مختلف بین المذاہب منصوبوں اوور پروگراموں کا انعقاد کرنابھی بے حد اہم ہے۔ اس کے علاوہ اس کا ایک مقصد لوگوں میں اپنے بنیادی حقوق کی آگہی اور اپنے سماجی و قومی فرائض سے واقفیت پیدا کرنا بھی اس کا مقصد ہونا چاہئے۔ لیکن ان سب کے ساتھ سماجی ہم آہنگی اورقومی یکجہتی پیدا کرنا ہی اس کے بنیادی مقاصد ہوں۔ اگر کسی شخص کا سماجی شعور بیدار ہوتاہے تو وہ کسی بھی سیاسی فائدے کے لئے کسی کے ذریعے اپنی ذات کے جائز یا ناجائز استعمال سے محفوظ رہتا ہے۔ دور ِ حاجر میں سیاست ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے جب کہ انسان اگر صرف اپنے بارے میں سوچتا رہے تو ملک کی ترقی ناممکن ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوان صرف عملی سیاست میں نہ آئیں بلکہ حقیقی سماجی خدمت کریں توسماج میں پھیلی جہالت اور غریبی جیسے مسائل کو دور کیا جاسکتا ہے۔ سماجی کاموں کے تئیں ہماری بیداری کے نتیجے میں ہی ملک ترقی کرے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK