• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بچوں سے مثبت باتیں کہیں اور محبت کا سلوک اپنائیں

Updated: December 28, 2023, 10:24 AM IST | Farzana Shahid | Mumbai

اگر ہم غور کریں اور لوگوں کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ اکثریت ہمارے یہاں ان لوگوں کی ہے جو نہ صرف منفی سوچ رکھتے ہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمارے نوجوان بچے جو اس وقت حالات کے گھیرے میں پس رہے ہیں، ضرورت اس کی بات کی ہےکہ ان بچوں کے ساتھ محبت کا سلوک کیاجائے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اللہ رب العزت نے انسان کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے۔ ماں، باپ، بھائی، بہن، چاچا، چاچی، ماموں، ممانی، نانا، نانی، دادا، دادی یہ تمام رشتوں کو محبت کے دھاگے میں پرو کر اتحاد کی ایک مالا بنی ہے جو ہمیشہ ایک ساتھ رہتی ہے۔ یہ سارے رشتے ایک دوسرے کی محبت، فکر، دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں۔ لیکن اس مالا کا ایک بھی موتی ٹوٹ گیا یا دھاگہ کمزور پڑ گیا تو سارے موتی ایک پل میں بکھر جاتے ہیں۔ اور پھر ان موتیوں کو دوبارہ اکٹھا کرنا اور پھر سے پرونا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی مالا کی طرح گھریلو رشتے ہوتے ہیں۔ آج کل خاص کر اس لاک ڈائون میں کئی گھر ٹوٹتے ہوئے بکھرتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے۔ 
 ’’ورک فرام ہوم‘‘ یعنی گھر بیٹھ کر کام کرنا۔ اس کام نے کئی لوگوں کو کسی کام کا نہ رکھا۔ کل ہی کی بات ہے، مَیں ایک پرائیویٹ کار میں سفر کر رہی تھی سفر کے دوران ڈرائیور سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس شخص نے بتایا کہ میڈم اس لاک ڈائون کی وجہ سے میرا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ مَیں نے پوچھا، کیا؟ اس نے بتایا کہ لاک ڈائون کی وجہ سے میں گھر پر ہی ہوں پہلے میں صبح کام پر جاتا تھا اور جب رات میں واپس آتا تھا۔ میری ایک بیٹی جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھی، لفظ ’’تھی ‘‘سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے بات جاری رکھی اور کہا اس لاک ڈائون کی وجہ سے اب میں پورا دن گھر پرہی رہتا ہوں اور اپنی بچی کی غلطی پر میں اسے ٹوکتاہوں، چھوٹی چھوٹی باتوں سے میری بیٹی مجھ سے دور ہوگئی اسے میرا ٹوکنا اچھا نہیں لگتا، اور مجھ سے، غلطی دیکھ کر آنکھ بند نہیں کی جاتی۔ یہ بات سن کر کچھ دیر کیلئے میرا دماغ چکرا گیا۔ اور مَیں نے اپنے آس پاس نظر دوڑائی۔ اور مَیں نے دیکھا کہ وہ شخص بالکل درست کہہ رہا تھا۔ آج کی اولاد کو ’نا‘ سننا، کسی بات پر ٹوکنا، یا کسی بات سے روکنا یعنی ان کی زبان اور بدتمیزی کو دعوت دینا ہے۔ 
 ہم نے اپنے بچپن میں سنا تھا کہ زمانہ بدل رہا ہے، دراصل زمانہ نہیں بدلا لوگ بدل گئے ہیں۔ رہنے سہنے کا ڈھنگ، گھروں کے آداب بدل گئے ہیں۔ ادب، شرم لحاظ کو لوگوں نے قدامت پسندی کا نام دے کر مغربیت کو اپنانے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔ وقت کا رونا رو کر اپنے وقت کو خود ہی خراب کر لیا ہے۔ منفی سوچ سے اپنے اطراف میں ایک ہالہ بنا لیا ہے۔ ایسا ہالہ جو آپ کو خوشی نہیں دیتا بلکہ وہ آپ کے اندر ناسور بنا دیتا ہے۔ 
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی سوچ تبدیل کریں۔ اس سے ملک نہیں بدلے گا لیکن ہماری زندگی میں زبردست مثبت تبدیلی آ ئے گی۔ ضروری ہے کہ اس لاک ڈائون میں جو غلطیاں ہم سے سرزد ہوئی ہیں ان پر نظر ڈالیں۔ بہت سے گھر جو ٹوٹ گئے ہیں اپنا محاسبہ کریں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں جو تقریباً ہر گھر میں بار بار دہرائی جاتی ہے۔ خاص کر بیٹو ں کو، یہ جملے بار ہا سننے ملتے ہیں :
’ ’ کہ یہ تو کسی کام کا نہیں ہے۔ ‘‘
’’اس کو کچھ نہیں آتا ہے۔ ‘‘
’’یہ تو بالکل بے کار ہے۔ ‘‘
’’اس کے دوست خراب ہے۔ ‘‘
’’ اس کا دھیان پڑھائی میں نہیں، آوارہ گردی میں ہے۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ نتیجہ آپ کو کچھ دنوں میں ہی نظر آنے لگتا ہے۔ وہ بچہ جو بچپن سے ذہین تھا وہ اس قسم کے جملے سن سن کر اپنے آپ کو اسی سانچے میں ڈھال لیتا ہے، سو میں سے صرف کوئی ایک ایسا ہوتا ہے جو ان باتوں کا مثبت اثر لیتا ہے۔ 
اگر ہم غور کریں اور لوگوں کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ اکثریت ہمارے یہاں ان لوگوں کی ہے جو نہ صرف منفی سوچ رکھتے ہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمارے نوجوان بچے جو اس وقت حالات کے گھیرے میں پس رہے ہیں ہمیں ضرورت ہے ان بچوں کے ساتھ محبت کا سلوک کریں ان کے چھوٹے سے چھوٹے کام کو سراہیں۔ ان کی باتوں کو غور سے سنیں۔ ان سے جس انداز میں آپ بات کریں گے وہ بالکل اسی انداز میں آپ کو جواب دیں گے۔ ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا آپ خیال رکھیں گے تب ہی آپ کے گھر میں بڑی خوشیاں قدم رکھیں گی۔ 
دراصل جس گھر میں مسکراہٹ نہ ہو۔ جس گھر میں امید اور خوشی کا بسیرا نہ ہو، جس گھر میں مثبت الفاظ مثبت جملوں کی باز گشت نہ ہو وہاں سے خوش قسمتی اور خوشیاں باہر چلی جاتی ہے اور بد قسمتی اپنا ڈیرہ جما لیتی ہے۔ ہمارے یہاں آج کل ایک اور چلن عام ہوگیا ہے۔ ہم اپنی سستی، کاہلی اور ناکامی کا الزام قسمت کو دیتے ہیں، دراصل جہاں سے سوچ بدلنی شروع ہوتی ہے وہی سے قسمت شروع ہوتی ہے۔ اپنے گھروں میں مثبت باتیں شروع کیجئے۔ اپنے بچوں کو حوصلہ دیجئے، ایسے حالات میں صرف آپ کی حوصلہ افزائی کے چند جملوں سے ان کے حوصلوں کو اونچی اڑان بھرنے کی ہمت ملے گی اور قدرت بھی ان کو مواقع فراہم کریں گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK