EPAPER
Updated: September 21, 2023, 9:20 PM IST | Farzana Shahid | Mumbai
ہر بچے کی اپنی استطاعت ہوتی ہے۔ اسے اپنی بساط کے مطابق کام کرنے دیں۔ ان سے یہ کہیں کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ آپ اب بھی محنت کریں گے تو ضرور کامیاب ہوں گے۔ جب جاگو تب سویرا.... شاید آپ کے یہ الفاظ ان بچوں کو مثبت رویے کی طرف موڑ دیں اور وہ کچھ نہیں سے کچھ بہتر کرکے دکھائیں
اللہ رب العالمین کا بے شمار احسان ہے کہ اس نے ہمیں قوتِ حس عطا کی۔ یہ وہ قوت ہے جس انسان میں زیادہ موجود ہوتی ہے اسے حسّاس اور ذمہ دار کہا جاتا ہے۔ جس میں کم ہو اسے بے حس کہتے ہیں اور بے حس انسان سے ہر کوئی اپنا دامن بچاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص کو چاہے وہ مرد ہو یا عورت، بچے ہو یا بوڑھے، جب ان کو کسی اچھائی یا برائی کا احساس ہی نہیں ہے تو اکثر لوگ ان سے اپنا دامن بچا کر رکھتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اب امتحانات کا دور تقریباً شروع ہوچکا ہے کہیں زباندانی امتحان چل رہے ہیں، کہیں مشقی امتحان لیا جا رہا ہے، کہیں پہلا پریلیم، تو کہیں دوسرا، تو کہیں تیسرا پریلیم چل رہا ہے۔ غرض یہ کہ ہر کوئی اس ہوڑ میں لگا ہے کہ ہم امتحان میں بہترین نمبرات سے کامیاب ہوجائیں۔ لیکن طلبہ کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اپنی پڑھائی سے نالاں، اپنے اساتذہ سے پریشان، اپنے گھر کے ماحول سے یا مالی حالات کا شکار، اپنی ہی خیالی دنیا میں مقیم ہیں اور دن رات صرف طعنے، ڈانٹ اورذہنی تنائو سے نبرد آزما ہے۔ ان طلبہ سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پڑھنے والے طلبہ سے تو ہر کوئی خوش اور مطمئن ہوتا ہے لیکن ہمیں ضرورت ہے ایسے طلبہ پر توجہ دینے کی جو جانے انجانے میں اندھیری راہ کا مسافر بننے جا رہا ہے، ہمیں ضرورت ہے ان طلبہ کی رہنمائی کی جنہوں نے منزل کی طرف قدم بڑھانے سے پہلے ہی اپنے آپ کو معذور سمجھ کر بیچ راہ کا پتھر بن کر بیٹھ گیا ہے جو یقیناً مستقبل میں دوسروں کی راہ کا کانٹا بن سکتا ہے۔ جو سماج کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں لکھنے پڑھنے میں آسان لگتی ہے لیکن جن پر یہ مشکل وقت گزر تا ہے اس تکلیف کو صرف وہی سمجھ سکتا ہے۔ دوسروں کو نصیحت کرنا بہت آسان کام ہے لیکن اس نصیحت پر عمل کرنا ایک مشکل کام۔ ویسے بھی کہتے ہیں کہ کسی کو نصیحت کرنے سے پہلے دیکھ لیں کہ اگر آپ اس کی جگہ پر ہوتے تو آپ کیا کرتے؟ پھر اس وقت جب آپ اپنے آپ کو اس طالب علم کی جگہ رکھتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ہم بہت مظلوم ہیں۔ دراصل ہم مظلوم نہیں ہیں۔ ہم لوگوں کو اپنے نظریے کے مطابق دیکھتے ہیں۔ ہم اپنی نظر سے وہی دیکھتے ہیں جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ دراصل ایسے طلبہ نہیں جانتے کہ کیا کھونے جارہے ہیں، ہم سب کو مل کر ان کی اس وقت مدد کرنی ہے۔
جیسے جیسے امتحان کے دن قریب آتے ہیں ویسے ویسے سال بھر پڑھائی کرنے والے بچوں کا اعتماد بڑھتا ہے اورجنہوں نے پڑھائی نہیں کی ہے چاہے وہ جو بھی وجہ ہو، وہ ذہنی تنائو کا شکار ہوتے ہیں اور اسی تنائو میں ایسا قدم اٹھاتے ہیں جس کی وجہ سے والدین، رشتہ دار، دوست و احباب صرف ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں کہ اگر ہمیں ذرا پتہ ہوتا تو ہم یوں کرتے توں کرتے!
بہتر یہی ہے کہ بعد میں افسوس کرنے کے بجائے ابھی اپنے اطراف میں، اپنے رشتہ داروں میں، اپنے دوست و احباب میں جو بچے امسال دسویں اور بارہویں جماعت کا امتحان دینے والے ہیں ان طلبہ کی حوصلہ افزائی کریں۔ انہیں یہ کہنے کے بجائے:
- کہ تم سے کچھ نہیں ہوگا۔
- تمہاری تو کوئی تیاری نہیں ہے۔
- تم امتحان نہ دو تو بہتر ہے۔
- تم تو کسی لائق نہیں ہو۔
برائے کرم ان بچوںپر رحم کریں۔ ہر بچے کی اپنی استطاعت ہوتی ہے۔ اسے اپنی بساط کے مطابق کام کرنے دیں۔ ان سے یہ کہیں کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ آپ اب بھی محنت کریں گے تو ضرور کامیاب ہوں گے۔ جب جاگو تب سویرا.... شاید آپ کے یہ الفاظ ان بچوں کو مثبت رویے کی طرف موڑ دیں اور وہ کچھ نہیں سے کچھ بہتر کرکے دکھائیں۔ مشاہدات اور تجربات نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کبھی کبھی ہمارا ایک مثبت جملہ انسان کی زندگی بدل دیتا ہے اور ہمارا ایک منفی جملہ سامنے والے کی زندگی برباد کر دیتا ہے۔ تو کیوں نہ ہم ان لوگوں میں شامل ہوجائیں جو زندگی میں کسی کے لئے خوشی و ترقی کا باعث بنتے ہیں نہ کہ ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو دیکھ کر ہی لوگ کہنے لگے ’’کہ دیکھو آگیا! اب کوئی برا جملہ ہی اس کے منہ سے نکلے گا۔‘‘ اگر آپ اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں تو آپ کو ایسے کئی لوگ نظر آئیں گے اور وہ فرشتے بھی ملیں گے جن کی وجہ سے لوگ اپنی زندگی میں بہت آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اور زندگی بھر وہ دعائیں لیتے رہتے ہیں۔ تو آئیے کیوں نہ ہم ان لوگوں میں اپنے آپ کو شمار کروائیں جو قوم کے لئے فیض کا باعث بنتے ہیں۔ طلبہ سے حوصلہ افزا باتیں کریں۔ ان کی پڑھائی میں مدد کریں۔ اگر بچہ دباؤ میں ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے کھانے پینے کے علاوہ مناسب آرام کا خیال رکھیں۔ امتحان دینے کیلئے گھر سے نکلتے وقت پُرجوش مسکراہٹ کے ساتھ انہیں الوداع کہیں۔