EPAPER
Updated: November 22, 2023, 7:44 AM IST | Mumbai
مرحوم ایس ایم اے کاظمی کو سوچتا ہوں تو یقین نہیں آتا کہ وہ اب اس دُنیا میں نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابھی فون آجائیگا کہ کہاں ہو، کیا کررہے ہو، چلو فلاں جگہ جانا ہے، دیکھو کچھ لوگ آئے ہیں تمہیں یاد کررہے ہیں، وغیرہ۔
مرحوم ایس ایم اے کاظمی کو سوچتا ہوں تو یقین نہیں آتا کہ وہ اب اس دُنیا میں نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابھی فون آجائیگا کہ کہاں ہو، کیا کررہے ہو، چلو فلاں جگہ جانا ہے، دیکھو کچھ لوگ آئے ہیں تمہیں یاد کررہے ہیں ، وغیرہ۔ گھر کے قریب سے گزرتا ہوں تو عجب کیفیت طاری ہوجاتی ہے جیسے کہہ رہے ہوں فاطمی، دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ ہماری اور تمہاری جوڑی کلیان جی آنند جی کی جوڑی ہے جو مر کر ہی ٹوٹے گی!! جوڑیاں تو یقیناً ٹوٹتی ہیں لیکن کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہماری جوڑی اس طرح ٹوٹے گی، یک لخت، اچانک!
کاظمی الہ آباد کی پھولپور تحصیل کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے والد کانپور کے ایک کالج میں سنسکرت کے اُستاد تھے اور پنڈت جی کہلاتے تھے۔ شہر میں اُن کی بڑی عزت تھی اس لئے بھی کہ وہ مسلمان تھے اور سنسکرت پڑھاتے تھے اور اس لئے بھی کہ ملک تقسیم ہوا تو اُن کا پورا خاندان پاکستان چلا گیا لیکن سینئر کاظمی نہیں گئے، کہا یہ میرا وطن ہے میں یہی رہوں گا۔ ہمارے ایس ایم اے کاظمی اُن کے اکلوتے بیٹے تھے۔ اپریل ۱۹۵۷ء میں اُن کی پیدائش کانپور میں ، یا ہوسکتا ہے پھولپور میں ہوئی ہو اور وہ کمسنی ہی میں کانپور آگئے ہوں ، البتہ اُن کی مکمل تعلیم کانپور میں ہوئی۔ انگریزی سے ایم اے کیا، پھر قانون کی تعلیم حاصل کی۔ کانپور ہی میں لووَر کورٹ کے ایک اچھے وکیل، عبدالغفار صاحب کی سرپرستی اُنہیں حاصل ہوگئی۔ وکالت شروع کی۔ تقریرکا شوق اُنہیں طالب علمی کے دور ہی سے تھا۔ اُسی دور میں کانپور میں ایک بہت بڑے کامریڈ وکیل تھے سلطان نیازی۔ وکیل تو اعلیٰ پایہ کے تھے ہی، مقرر بھی بہت اچھے تھے۔ کاظمی صاحب نے اُن کا بڑا اثر قبول کیا۔
چونکہ اکلوتے بیٹے تھے اس لئے والد کی سبکدوشی کے بعد دو بہنوں سمیت پورے گھر کی کفالت کی ذمہ داری اُن کے کاندھوں پر آن پڑی۔ اسی دوران، خاندان ہی میں اُن کی شادی بھی ہوگئی۔ عبدالغفار صاحب اور سلطان نیازی نے کاظمی کی ابتدائی دو سالہ وکالت اور اُن کی ذہانت و صلاحیت کے جوہر دیکھے تو مشورہ دیا کہ خود کو کانپور کی نچلی عدالت تک محدود نہ رکھیں بلکہ الہ آباد جائیں جہاں ہائی کورٹ میں پریکٹس کے بڑے اچھے مواقع میسر آئینگے۔ اسی بزرگانہ مشورے کو قبول کرتے ہوئے وہ غالباً ۱۹۸۲ء میں کاظمی کانپور آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں آگرہ کے سینٹ جانس کالج میں پڑھا رہا تھا۔ یہ میری پہلی تقرری تھی۔ ۱۹۸۳ء میں جب میں الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ ہوا تو اُس دوران ہمارے یہاں ایک ادبی نشست کا اہتمام تھا۔ نشست میں شرکت کیلئے ہمارے تعلقات کے ایک صاحب محفوظ الاسلام اور اُن کی اہلیہ نوشابہ اسلام تشریف لائے۔ اُن کے ساتھ ایک نوجوان بھی تھا۔ ایک مقالے پر بحث کے دوران میں نے دیکھا کہ یہ نوجوان جس کی عمر بمشکل ۲۳۔ ۲۴؍ سال ہے، مقالے پر بڑھ چڑھ کر لیکن بڑے نپے تلے انداز میں تبصرہ کررہا ہے۔ تمام شرکائے نشست اس کی جانب متوجہ ہوئے جس کا ابھی کسی سے تعارف بھی نہیں تھا۔ شرکاء اُس کے تبصرہ سے کافی متاثر تھے۔ محفل کے اختتام پر اس سے باقاعدہ تعارف ہوا۔ یہی تھے ایس ایم اے کاظمی، جن کا تبصرہ، جن کے دلائل، جن کی گفتگو کا دلنشیں انداز، جن کا حافظہ، جن کی علمیت اور جن کا انداز پیشکش ایسا تھا کہ کمرۂ عدالت میں فاضل جج بھی اُنہیں نہ صرف سنتے بلکہ بغور سنتے، آنکھ پھاڑ کر دیکھتے اور اُن کے دلائل کی داد دیتے تھے۔ ابھی اُس روز جب اُن کی میت میں کئی جج بھی شریک ہوئے تھے، ایک سینئر جج نے کاظمی کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’وہ صر ف لائر (وکیل) نہیں تھے، وہ اسکالر بھی تھے۔ ‘‘ ایس ایم اے کاظمی سے میرا ۳۲۔ ۳۳؍ سال کا بے حد قریبی اور گہرا تعلق تھا۔ ادب کا نکھرا ستھرا ذوق، اُن کا انگریزی ادب کا مطالعہ، اُردو ادب کا مطالعہ، اُن کی خطابت، اُن کی ذہانت، اُن کی وکالت، اُن کی چومکھی معلومات، اُن کی زبان پر قدرت، اُن کی علمی و ادبی سرگرمیاں ، اُن کا مطالعے کا شوق، اُن کی ادب کی فہم، اُن کی فیاضی، اُن کی دعوتیں ، ان ۳۲۔ ۳۳؍ برسوں کا ایسا بہت کچھ ہے جسے قلمبند کروں تو ایک ضخیم کتاب وجود میں آجائے لیکن میں خود کو مجتمع کیسے کرپاؤں گا، اُن کے بغیر تو مجھے اپنی زندگی ہی ادھوری محسوس ہورہی ہے!!
کاظمی کی ایک اور خصوصیت اُن کی اعلیٰ ظرفی تھی۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ کسی جلسے میں مَیں بھی مدعو ہوں ، وہ بھی ہیں۔ اگر میں نے پہلے تقریر کردی تو اکثر یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنی بات مختصر کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ بنارس کے ایک جلسے میں میری تقریر کے بعد اُنہوں نے اپنے تیور نہیں دکھائے۔ میں نے پوچھا، کاظمی کیا ہوا، طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کہا: ’’تم نے تو للن ٹپ (مقامی بول چال کا لفظ بمعنی دھواں دھار، اعلیٰ) تقریر کردی، میں نے چاہا کہ میرے دوست کا تاثر قائم رہے!‘‘
ایس ایم اے کاظمی نے اپنی محنت، ذہانت، صلاحیت اور زبردست انہماک کے ذریعہ بہت کم وقت میں عظیم الشان کامیابی حاصل کی اور اپنا مقام بنایا۔ کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ ایک نووارد جو خود کہتا تھا کہ جب میں الہ آباد آیا تو میرے پاس ایک اٹیچی، چند جوڑی کپڑے اور چند سو روپے تھے، وہ ایسا شاندار کریئر بنالے گا کہ جس میں چار چاند لگے ہوں ! وہ بہت کم عرصے میں کامیاب وکیل بنے، پھر سرکاری وکیل بنے، پھر ایڈوکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہ ملک کی اتنی اہم ریاست کے اولین مسلم ایڈوکیٹ جنرل تھے۔ اپنے پیشے میں وہ عروج تک پہنچے۔ اُن کی جرح کا جواب نہیں ہوتا تھا۔ میں اُن سے اکثر کہتا تھا یار کاظمی، تمہارے اندر کا وکیل اور تمہارے اندر کا ادیب، جب دونوں مل جاتے ہیں کورٹ میں بھی غضب ڈھاتے ہیں اور عوامی محفلوں اور سمیناروں میں بھی۔ اُن کی خوبیاں بیان کرنا خود کو چیلنج سے دوچار کرنا ہے۔ وہ خوش مزاج و خوش اخلاق تو تھے ہی، وسیع القلب اور کہنا چاہئے کہ ’وسیع الدستر خوان‘ بھی تھے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب اُنہوں نے اکیلے کھانا کھایا ہو۔ لوگ باگ کہتے تھے کہ کاظمی صاحب تو مردے کے منہ میں بھی نوالہ ڈال دیں !!
کاظمی صاحب کبھی تھکتے نہیں تھے۔ الہ آباد سے لکھنؤ، لکھنؤ سے دہلی، دہلی سے ممبئی، ممبئی سے اور نہ جانے کہاں کہاں۔ جہاں جاتے خوب کتابیں خریدتے اور خوب پڑھتے۔ مسلسل مصروف اور سرگرم رہنا اُنہیں اچھا لگتا تھا۔ کہتے تھے آدمی کو اپنے پیشے سے عشق ہونا چاہئے۔ جب کبھی میں کہتا کہ اب اتنا بھی عشق نہ کرو کہ تمہارے حاسدوں میں اضافہ ہوجائے تو کہتے تھے حاسدوں کے حسد کا جواب ہے مزید کام، مزید سرگرمی۔ ایسے لوگ دُنیا میں کم پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کا ذہن کمپیوٹر کی طرح چلتا تھا۔ چوبیس گھنٹوں میں تین چار گھنٹے سولینا بھی اُن کے لئے کافی ہوجاتا تھا۔ پیشہ جاتی اعتبار سے کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں ، گھر یلو ذمہ داریوں کی جانب توجہ دینا، مطالعہ کرنا، جلسوں اور سمیناروں میں پہنچنا، ادبی محفلوں میں شرکت کرنا، خود محفلیں برپا کرنا، دوستوں کو دعوت پر بلانا، پروگراموں کا جزوی یا کلی خرچ اُٹھانا، کاظمی کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے!
ایک دن مجھ سے کہا: فاطمی، تمہیں کون سا دن اچھا لگتا ہے، میں نے جواب دیا، جمعہ۔ ہفتے بھر میں یہی سب سے زیادہ مقدس و مبارک دن ہے۔ کہنے لگے مجھے منگل اچھا لگتا ہے، اسی دن میرا مضمون چھپتا ہے نا! یہ بات تو خیر اُنہوں نے مذاقاً کہی تھی لیکن اب یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ گئے بھی منگل ہی کو۔ اور جاتے جاتے اُس دن چھپا ہوا اپنا مضمون دیکھنے کے بعد گھر سے نکلے تھے!
(فاطمی صاحب نے یہ ساری باتیں شاہد لطیف سے ملاقات اور طویل گفتگو کے دوران کہی ہیں )