EPAPER
Updated: November 04, 2023, 12:47 PM IST | Khalida Fodkar | Mumbai
ظالم و جابر طاغوتی طاقت کی جانب سے مسلط کی گئی جنگ اور بارودی اسلحہ کی ہولناک تباہ کاریوں کے نتیجے میں خطّہ فلسطین خاک و خون میں نہایا ہواہے۔ہر پل ،ہر آن ایک نئی قیامت کاسامنا کر رہےبے قصور نہتے عوام ،لہو لہان معصوم بچےساری دنیا کی نگاہوں کا مرکزتو ہیں مگربدقسمتی سے توجہ کا مرکز نہیں ۔ دنیا کے ساتھ ساتھ سارے اسلامی ممالک بھی اس سفاکانہ نسل کشی کو ہر آن دیکھ رہے ہیں مگر اس قیامت کو روک پانے سے معذور ،کمزور اوربے تاثیر احتجاج کے ساتھ دورکھڑے ہیں ۔ مدد کے نام پر بیان بازی کا سلسلہ ہے ، سوشل میڈیا تک محدود چیخ پُکارہے یا پھرمنافقانہ خاموشی جو خود ظلم کی پشت پناہی کے مترادف ہے۔ مظلوموں کو جس نوعیت کاانسانی و اخلاقی تعاون اور امداد اپنے ہم قوم حُکمرانوں اور مملکتوں سےدرکارہے ،ہماری بے حسی اور بے و زنی وہ بھی اُن تک پہنچا نہیں پا رہی ہے۔کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ایک نو زائیدہ چھوٹی سی طاقت کی رعونت کے آگے بڑی بڑی امیر وکبیراسلامی حکومتیں بھی پست ہو گئی ہیں ۔ حتّیٰ کہ جنگ بندی کی قرارداد منظور کروانے کیلئے عالمی مجلس اورعدالت میں ہمارے پاس ایک فیصلہ کن ووٹ تک کا اختیار نہیں ،نہ صرف ہماری قسمتوں کےفیصلے اغیار کی مرضی کے تابع ہیں بلکہ ہماری حفاظت بھی اغیار کے اسلحہ اور افواج کی محتاج ہے۔ ہماری ایمانی حمیت اب اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ مستقبل میں کوئی بھی چنگیزی طاقت ہمارے کسی اور پہلو پر وار کر دیگی اور ہم بس دہائیاں دیتے ہی رہ جائیں گے۔ دنیا عالمِ اسباب ہےاور ہرمسئلہ اپنے حل کے لئے اسباب کا محتاج ہے، شر یر دشمن کا سامنا ہو یا نا مساعد حالات کا، ٹھوس اقدامات، تدبیراورمستحکم لائحۂ عمل ہی اوّل و آخر چارۂ کار ہے۔ آج کے حالات کے آئینے میں فلسطینی عوام کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر سوچیں توخدا نخواستہ ہمارا اور ہماری دیگر مملکتوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ کیااب بھی خوابِ غفلت سےجاگنے اور نوشتۂ دیوار پڑھ لینے کا وقت نہیں آیا؟ بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی نسل ، اپنا دین اورشناخت، اپنا مذہبی ورثہ محفوظ رکھنا ہے تو ہر صورت میں اقوام عالم کی برابری کی سطح پر کھڑےہونا ہوگا، اپنی نئی نسل کو آگاہی و خود بینی کے اوصاف سے آراستہ کر کےسائنسی تعلیم و ہنر،معاشی ،سیاسی ، دفاعی ہر میدانِ عمل میں خود کفیل بنانا ہوگا۔