• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

۱۹۴۷ء تا ۲۰۲۴ء: مختلف شعبوں میں ہندوستان کی کامیابیاں قابلِ تحسین ہیں

Updated: August 09, 2024, 5:43 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai

زراعت سے لے کر خلائی سائنس تک، ہندوستان نے ہر شعبے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، آج ہمارا شمار دنیا کے تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے، جلد ہی ہم ترقی یافتہ ملک بن جائینگے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

پنج سالہ منصوبوں کا آغاز
 پانچ سالہ منصوبوں کا آغاز ہندوستان کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہوا ہے۔ پہلا پنج سالہ منصوبہ ۱۹۵۱ء میں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کی توجہ پرائمری سیکٹر کی ترقی پر تھی جس کا مقصد زراعت کے شعبے کی ترقی تھی۔ ہندوستان نے کل ۱۲؍ پانچ سالہ منصوبے نافذ کئے ہیں۔ تاہم، پانچ سالہ منصوبوں کو ۲۰۱۵ءمیں نیتی آیوگ سے تبدیل کر دیا گیا۔ ان منصوبوں نے ملک کو مضبوط معاشی بنیاد فراہم کی۔
سبز انقلاب
 ملک میں سبز انقلاب کی قیادت بنیادی طور پر ایم ایس سوامی ناتھن نے کی۔ ۱۹۶۷ءسے ۱۹۷۸ءکے درمیان، سبز انقلاب کی وجہ سے ہمارا ملک خوراک کی کمی والے ممالک کے زمرے سے نکل کر سرکردہ زرعی پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک بن گیا۔ سبز انقلاب کی وجہ سے ملک میں اناج کی پیداوار میں بے مثال اضافہ ہوا۔ آج، ہندوستان اس معاملے میں ضرورتمند ممالک کی مدد کرتا ہے۔
ہندوستان کا پہلا راکٹ لانچ
 ملک کا پہلا راکٹ ۲۱؍ نومبر۱۹۶۳ء کو تروننت پورم کے قریب تھوبن سے لانچ کیا گیا تھا جس سے ہندوستان کے خلائی پروگرام کا آغاز ہوا تھا۔ آج کی تاریخ میں ہندوستان خلائی تحقیقات کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شانہ بشانہ کھڑا نظر آتا ہے۔ خلائی میدان میں ہندوستان کی پیش رفت اور نمایاں کامیابی کا سہرا ڈاکٹر وکرم سارا بھائی جیسے عظیم سائنس داں کے سر بندھتا ہے۔ 

اسرو کی تشکیل
 اسروکی تشکیل ۱۹۶۹ء میں پہلے راکٹ کے کامیاب لانچ کے بعد ہوئی تھی۔ اسرو کی تشکیل کا مقصد خلائی ترقی کے میدان میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ سیاروں کی تلاش کو فروغ دینا بھی تھا۔ اسرو نے اس سے پہلے کی انڈین نیشنل کمیٹی برائے خلائی تحقیق کی جگہ لے لی جسے۱۹۶۲ء میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور وکرم سارا بھائی نے قائم کیا تھا۔ اب ہندوستان کا خلائی پروگرام چاند اور مریخ کے مشن پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
سفید انقلاب
سفید انقلاب کی شروعات ۱۳؍جنوری۱۹۷۰ء کو ہوئی تھی۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیری ڈیولپمنٹ پروگرام تھا جس نے دودھ کی پیداوار کے میدان میں ہندوستان کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔ اس پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے آغاز میں دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے۵۰؍ویں نمبر پر رہنے والا ہندوستان صرف دو دہائیوں میں سب سے اوپر پہنچ گیا۔ ڈاکٹر ورگیس کورین اس کے بانی تھے۔

آئی آئی ٹی اور آئی ایم ایم کا قیام
۱۹۵۱ء میں مغربی بنگال کے کھڑگ پور میں ہندوستان کے پہلے’ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ‘کا قیام عمل میں آیا۔ اس ادارے کا مقصد ملک میں انجینئرنگ کے تمام شعبوں میں اعلیٰ اور ترقی یافتہ تعلیم فراہم کرنا تھا۔اس طرح ملک میں ماہر منتظمین بنانے کیلئے مرکزی اور گجرات کی ریاستی حکومت نے ۱۹۶۱ء میں احمد آباد میں’ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ ‘کی بنیاد رکھی۔ اس کے قیام میں امریکہ کی ہارورڈ بزنس اسکول نے مدد کی تھی۔

پہلی ایٹمی جانچ 
 ہندوستان نے۱۸؍ مئی۱۹۷۴ء کو پوکھرن میں پہلا جوہری تجربہ کر کے دنیا کو اپنی صلاحیت سے متعارف کروایا تھا۔۱۹۹۸ء میں جب ڈی آر ڈی او اور اٹامک انرجی کمیشن نے پوکھرن میں یکے بعد دیگرے ۵؍جوہری تجربات کئے تو دنیا ہندوستان کی صلاحیت کو قبول کرنے پر مجبور ہوگئی۔ ان تجربات سے ملک ایٹمی طاقت کا حامل بن گیا۔ اس مشن کی قیادت میزائل مین ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اور ڈاکٹر آر چدمبرم جیسے سائنسدانوں نے کی تھی۔
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ 
 شعبۂ طب میں تحقیقات کیلئے ۱۹۴۹ء میں’ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ‘(آئی سی ایم آر) کا قیام عمل میں آیا۔ملک بھر میں مختلف بیماریوں پر تحقیقات کیلئے ۲۶؍ مراکز قائم کئے گئے۔اس شعبے میں ترقی یافتہ طبی تعلیم اور تحقیق کو رواج دینے کیلئے۱۹۵۶ء میں نئی دہلی میں ’آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘(ایمس) نامی ادارہ قائم کیا گیا۔ بعد ازاں حکومت نے ۱۹۵۸ء میں ’ میڈیکل کونسل آف انڈیا‘ کی دوبارہ تشکیل کی تھی۔
نئی معاشی پالیسی
 جدید ہندوستان کی تاریخ میں ۱۹۹۱ء کا سال اہمیت کا حامل ہے۔ دسویں لوک سبھا انتخابات کے بعد مرکز میں نرسمہا راؤ وزیر اعظم بنے۔ انہوں نے وزیر مالیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کی معاونت سے ہندوستان کی معیشت کو عالمی معیشت سے جوڑنے کی حکمت عملی اختیار کی۔اس کام کیلئے معاشی نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی گئیں۔ انہوں نے ہندوستانی معیشت کو عالمی رفتار سے ہم آہنگ کیا۔ اس کے علاوہ ہندستان نے ۱۹۹۵ء میں ڈبلیو ٹی او کی رکنیت حاصل کی۔
آئل اینڈ نیچرل گیس کمیشن
 معدنی تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر کی تلاش اور ان کی پیداوار بڑھانے کیلئے۱۹۵۶ء میں’آئل اینڈ نیچرل گیس کمیشن‘ نامی ادارہ قائم کیا گیا ۔اس کمیشن کی زیر نگرانی آسام اور انکلیشور میں معدنی تیل کا ذخیرہ دریافت کیا گیا۔ ۱۹۷۵ء میں او این جی سی نے روسی محققین کی مدد سے بامبے ہائے علاقے میں ۸۵۰۰؍ سے زیادہ تیل کے کنویں اور قدرتی گیس کے ۳۳؍ کنویں کھودے۔ یہ علاقہ ملک میں معدنی تیل کی کل ضرورت کا ۱۴؍ فیصد حصہ پورا کرتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK