سخی عبد الرحیم خان خاناں کے چند قصے۔
EPAPER
Updated: September 21, 2024, 2:52 PM IST | Raees Siddiqui | Mumbai
سخی عبد الرحیم خان خاناں کے چند قصے۔
بہت کم ہندی اور اردو داں حضرات ایسے ہوں گے جو عبد الرحیم خان خاناں کے نام سے ناواقف ہوں۔ خصوصاً صوبہ مدھیہ پردیش کے شہر برہانپور کے باشندے تو ان کے نام اور تعمیراتی کام سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ شہنشاہ اکبر کے ایک انمول رتن، شہر برہانپورکے فن تعمیرکے با ذوق صوبہ دار، شری کرشن کے عقیدت مند اور ہندی کے مقبول عام صوفی دوہا گو شاعر تھے۔ وہ بہت سخی بھی تھے۔ ان کی سخاوت کے چند قصے بھی مشہور ہیں۔
عبد الرحیم خان خاناں کی پیدائش ۱۷؍ دسمبر ۱۵۵۶ء کو لاہور میں ہوئی تھی۔ عبد الرحیم خان خاناں کے والد بیرم خاں مغل بادشاہ ہمایوں کے استاد اور اکبر کے بچپن کے دوست تھے۔ لیکن عبد الرحیم خان خاناں کے والد کو مکہ معظمہ جاتے ہوئے راستے میں قتل کردیا گیا اور اس طرح عبد الرحیم خان خاناں چار برس کی عمر میں یتیم ہوگئے۔ یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ اکبر نے بیرم خاں کی خدمات کے پیش نظر، رحیم کی پرورش اور تعلیم و تربیت اپنے ذمہ لے لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہت جلد اپنے بہادر باپ کے نمایاں عکس نظر آنے لگے۔
رحیم نے جنگی تربیت کسی ملیٹری اسکول میں نہیں لی تھی لیکن اپنی ذاتی دلچسپی کے سبب وہ فن سپہ گری سے اپنی چھوٹی سی عمر میں ہی کافی ماہر ہوگئے تھے۔ جب اکبر نے گجرات پر چڑھائی کی تو ’’نشان ِ لشکر‘‘ یعنی فوجی پرچم اس چودہ برس کے لڑکے کے ہاتھ میں تھا۔ آگے چل کر، جب مغل بادشاہوں نے موجودہ مدھیہ پردیش کے تاریخی شہر برہانپور کو اہمیت دی تو انہیں برہانپور کا صوبہ دار مقرر کیا گیا۔ برہانپور کی سماجی اور تعمیراتی تاریخ پر عبد الرحیم خان خاناں کے اثرات آج بھی قائم ہیں۔ نہر عبد الرحیم خان خاناں، جہانگیری حمام، باغ عالم آرا زین آباد، آہو خانہ، شاہ نواز خان کا مقبرہ اور حضرت شاہ عیسیٰ کا آستانہ عالیہ ان کی زیر نگرانی تعمیرات کا بہترین نمونہ ہیں۔
رحیم ایک ماہر سپہ سالار اور صوبہ دار کے علاوہ، عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت، برج اور اودھی زبان کے زبردست عالم تھے۔ وہ فرانسیسی اور انگریزی زبان بھی جانتے تھے۔ وہ زبان ہندی کے مقبول عام صوفی شاعر تھے۔ وہ دوہے کہتے تھے۔ ان کو شری کرشن سے بہت عقیدت تھی۔ وہ رامائن، مہا بھارت، گیتا اور پُران سے اپنی من پسند باتوں کو آسان زبان میں شعری اظہار میں دھالتے تھے۔ ان کے دوہے انسانیت کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ اپنے دوہوں میں اکثر و بیشتر اپنا تخلص ’رحِمن‘ استعمال کرتے۔ وہ ہندی شاعروں کا بڑا احترام کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ گوسوامی تلسی داس سے ان کے بڑے اچھے مراسم تھے۔ ہندی میں ان کی شعری تخلیقات کا مکمل مجموعہ ’’رحیم رتناولی‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔
رحیم اپنی خوبیوں کے باعث نہ صرف عوام میں ہر دلعزیز تھے بلکہ وہ اکبر کے بھی نور نظر تھے۔ اکبر ان کو پدرانہ شفقت سے فرزند برادر اور بے تکلفی میں یار وفادار کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ اکبر ان کی شخصیت اور علم سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے رحیم کو اپنے بیٹے جہانگیر کا اتالیق مقرر کیا۔ اس کے علاوہ اکبر نے ان کو خان خاناں کے خطاب سے نوازتے ہوئے ’’پنچ ہزاری‘‘ منصب عطا کیا اور بعد میں سپہ سالار اعظم اور وزیر بنایا۔ رحیم کا ۱۶۲۷ ء میں انتقال ہوا اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں ان کی بیگم کے مقبرہ کے پاس دہلی میں دفن کیا گیا۔
یہ تھا اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک رتن، ہندی کے دوہا گو صوفی شاعر، فن تعمیرات کے باذوق برہانپور کے صوبہ دار، بہت سی زبانوں کے جانکار، سخاوت کے پیکر عبد الرحیم خان خاناں کا مختصر سا تعارف۔ اب ہم عبد الرحیم خان خاناں کی زندگی کے پانچ ایسے قصے پیش کریں گے جو ان کی دریا دلی، فیاضی اور سخاوت جیسی خوبیوں سے مالا مال ہیں اور جن کی وجہ سے وہ عوام میں سخی خان خاناں کہلائے۔
پھل دار درخت
ایک روز کی بات ہے کہ خان خاناں اپنی مخصوص سواری پر بیٹھے کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ایک شریر بچے نے ان کی سواری پر ایک پتھر مارا۔ سپاہی دوڑے اور اسے پکڑ کرلے آئے لیکن رحیم نے اسے سزا دینے کے بجائے کچھ چاندی کے سکے دینے کا حکم دیا۔
اس پر سب حیران ہوئے اور بولے کہ جو سزا کا مستحق تھا، اسے آپ نے انعام سے نوازا، اس میں کیا مصلحت ہے؟ یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ یہ سن کر رحیم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’لوگ پھل دار درخت پر ہی پتھر مارتے ہیں!‘‘
توا اور پارس
ایک دن کا واقعہ ہے کہ خان خاناں اپنی سواری سے اتر ہی رہے تھے کہ ایک غریب بڑھیا آئی اور اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے توے کو خان خاناں کے جسم سے رگڑنے لگی۔ سب سپاہی ارے ارے کرکے دوڑے لیکن رحیم نے ان سب کو روک دیا اور حکم دیا کہ اس بڑھیا کو توے کے برابر سونا تول کردے دو۔ سبھی مصاحب اس فیصلے پر حیرت زدہ ہوئے اور بولے، ’’یہ فیصلہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘
اس پر رحیم نے اپنے خاص انداز میں کہا، ’’یہ بڑھیا پرکھ رہی تھی کہ بزرگوں کی یہ بات کہاں تک سچ ہے کہ بادشاہ اور اس کے امیر ’’پارس‘‘ ہوتے ہیں اور کیا ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں!‘‘
ایک بوند آبرو
ایک روز کا ذکر ہے کہ خان خاناں کی سواری چلی جارہی تھی کہ راستے میں ایک پریشان حال شخص نظر آیا۔ اس نے ایک شیشی میں ایک بوند پانی ڈالتے ہوئے اس شیشی کو کچھ جھکایا۔ شیشی جھکانے پر جب وہ پانی کی بوند گرنے کو ہوئی تو اس نے شیشی کو سیدھا کرلیا۔
یہ دیکھ کر سخی رحیم اس کو اپنے ساتھ محل میں لے آئے اور پھر کچھ دنوں کے بعد انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کیا۔
مصاحبوں کے پوچھنے پر خان خاناں نے بتایا کہ ایک بوند پانی شیشی میں بھر کے شیشی کو جھٹکانے کا مطلب یہ تھا کہ:
’’صرف ایک بوند آبرو بچی ہے اور اب وہ بھی خطرے میں ہے!‘‘
خادم سے مصاحب
ایک دن کا واقعہ ہے کہ خان خاناں اپنے مصاحبوں کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ ایک خادم اچانک رونے لگا جو کہ اُسی روز ملازم ہوا تھا۔ خان خاناں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں ایک دولت مند باپ کا بیٹا ہوں۔ آج دسترخوان پر چنی ہوئی نعمتیں دیکھ کر مجھے اپنی امیری کا زمانہ یاد آگیا۔
اس پر خان خاناں نے امتحان لینے کے غرض سے اس سے پوچھا کہ بھنے ہوئے مرغ میں سب سے اچھی چیز کیا ہوتی ہے؟
خادم نے جواب دیا، ’’پوست۔‘‘
خان خاناں کو یقین ہوگیا کہ وہ کسی دولت مند کا بیٹا ہے۔ پس، اس کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے اپنے پاس بٹھایا اور اپنے مصاحبوں میں شامل کرلیا۔
بڑا آدمی
ایک دن کا واقعہ ہے کہ جہانگیر بادشاہ کسی منہ پھٹ بھاٹ کی کسی بات پر ناراض ہوگئے اور اسے ہاتھی کے پاؤں تلے کچلنے کا حکم دیا۔
اتفاق سے اس وقت وہاں خان خاناں بھی موجود تھے۔
بھاٹ پہلے تو ان کو تکتا رہا اور پھر برجستہ بولا، ’’حضور! نواب خان خاناں بڑا آدمی ہے۔ اسے ہاتھی کا پیر چاہئے۔ میں تو چیونٹی سے بھی کمتر ہوں۔ میرے لئے تو چوہے کا ایک پیر ہی کافی ہے!‘‘
اس پر جہانگیر اور زیادہ خفا ہوگئے۔ لیکن خان خاناں مسکرا دئیے اور اس کی جان بخشی کروائی۔
اس کے علاہ، سخی رحیم نے اسے یہ کہتے ہوئے سونے کے سکے بھی دیئے، ’’اس نے مجھے بڑا آدمی سمجھا، تو کہا۔ بڑا آدمی نہ سمجھتا تو وہ کیوں کہتا مجھے بڑا آدمی!‘‘
( قلمکار ادیب اطفال و شاعر ہیں۔)