Updated: August 26, 2023, 9:52 AM IST
| Mumbai
عبدالرحمان بنکر تھا۔ وہ اور اس کی بیوی دن رات محنت کرتے تھے مگر ان کی گزر بسر مشکل سے ہو رہی تھی۔ ایک دن عبدالرحمان کی بیوی نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ پڑوسی کسان کی طرح ہم بھی کھیتی کریں۔ عبدالرحمان نے فوراً اس پر عمل کیا اور چاول کے بیج خریدنے کے لئے اپنی کھڈی فروخت کرنے کیلئے نکل پڑا۔ اور آگے کیا ہوتا ہے؟ جاننے کے لئے پڑھئے یہ کہانی:
ایک تھا بنکر۔ اس کا نام عبدالرحمان تھا۔ اس کے پاس ایک کھڈی تھی جس پر وہ دن بھر کپڑا بنتا رہتا تھا۔ اس کی بیوی اس کام میں اس کی مدد کرتی تھی۔ دن بھر کی مزدوری کے بعد بنکر کو اتنے تھوڑے سے پیسے ملتے کہ وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھی نہ بھر پاتا اور نہ اچھے کپڑے خرید پاتا۔
عبدالرحمان کے پڑوس میں ایک کسان رہتا تھا۔ اس کے گھر کھانے کی کوئی کمی نہ تھی۔ سال میں وہ اتنے چاول پیدا کر لیتا کہ بارہ مہینے کھانے کے بعد بھی اس کے پاس بہت سے چاول بچ جاتے۔ ان چاولوں کو بیچ کر وہ اپنے بچوں کو کپڑے لا دیتا اور ہفتے میں دو تین بار مچھلی بھی خرید لیتا۔
عبدالرحمان کی بیوی یہ دیکھتی تو دل میں کڑھتی۔ آخر ایک دن اس نے عبدالرحمان سے کہا، ’’ہم دن بھر پسینہ بہاتے ہیں اور کپڑا بنتے ہیں، مگر نہ ہمیں پیٹ بھر چاول مل جاتے ہیں اور نہ تن ڈھانپنے کو کپڑا نصیب ہوتا ہے۔‘‘
عبدالرحمان نے ٹھنڈی سانس لی اور بولا، ’’کہتی تو تم ٹھیک ہی ہو مگر کیا کیا جائے؟‘‘
بیوی نے کہا، ’’یہ کپڑا بننے کا دھندہ چھوڑو۔ پڑوسی کی طرح کھیتی باڑی شروع کر دو۔ آخر ہم بھی تو کچھ کم محنتی نہیں ہیں۔ ڈٹ کر کام کریں گے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے کانوں سے چاندی کی بالیاں اتار کر عبدالرحمان کے ہاتھ پر رکھ دیں۔ اور بولی، ’’جاؤ، انہیں بیچ کر چاول کے بیج خرید لاؤ۔‘‘
عبدالرحمان نے بیوی کی بالیاں واپس کر دیں اور ہنس کر بولا، ’’یہ تمہاری شادی کی بالیاں ہیں۔ ان کو پہن لو۔ مَیں کھڈی بیچ ڈالتا ہوں۔ جب کپڑا بننا ہی نہیں تو کھڈی رکھ کر کیا کروں گا۔‘‘
عبدالرحمان اپنی کھڈی بیچنے بازار گیا۔ وہاں اسے ایک دوسرا بنکر مل گیا۔ یہ بنکر اچھا آدمی نہیں تھا۔ دھوکا دینا اس کی عادت تھی۔ کھڈی بڑی اچھی تھی مگر مکار بنکر اسے دیکھ کر بولا، ’’اوں ہوں۔ یہ تو اب کسی کام کی نہیں رہی۔ نقد پیسے دے کر تو اسے کوئی بھی نہیں خریدے گا۔‘‘
عبدالرحمان نے کہا، ’’اچھا تو اس کھڈی کے بدلے میں مجھے چاول کے بیج دے دو۔‘‘
مکار بنکر کسان تو تھا نہیں۔ اس کے پاس بھلا چاول کے بیج کہاں سے آتے۔ مگر اس نے ایک داؤ کھیلا۔ اگر وہ چاول کے بیج خرید کر عبدالرحمان کو دیتا تو اسے زیادہ پیسے خرچ کرنا پڑتے۔ اس لئے اس نے چاول کے بجائے چری کے بیج بازار سے لاکر عبدالرحمان کو دے دیئے اور کھڈی لے کر چمپت ہوگیا۔
چری اس چارے کو کہتے ہیں جو گائے اور بھینسوں کے لئے کھیتوں میں اگایا جاتا ہے۔ اسے کھا کر وہ خوب دودھ دیتی ہیں۔ اس کے بیج بہت سستے مل جاتے ہیں۔
عبدالرحمان سیدھا سادہ انسان تھا۔ وہ آسانی سے دھوکا کھا گیا۔ چری کے بیجوں کو چاول کے بیج سمجھ کر گھر لے آیا۔ اور انہیں اپنی جھوپڑی کے سامنے والی زمین میں بو دیا۔
تھوڑے دن بعد کھیت لہلہا اٹھا۔ عبدالرحمان اور اس کی بیوی خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ ایک ایک گھڑی گن گن کر گزار رہے تھے کہ کب دھان اُگیں اور کب ان کے چولہے پر ایک بڑی سی ہانڈی میں کھد بد کھدبد چاول پکیں۔
پودے کافی بڑے ہوگئے تھے مگر ان میں دھان کی بالیاں نہیں اگیں۔ عبدالرحمان کو فکر ہوئی۔ اس نے سوچا، رات کو کوئی دھان توڑ کر تو نہیں لے جاتا؟
بس بھئی اب رات آئی۔ عبدالرحمان جاگتا رہا، مگر کوئی نہیں آیا۔ صبح کے وقت کھیت میں کچھ سراہٹ ہوئی۔ چونک کر جو اٹھا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک گائے ہپڑ ہپڑ کرکے کھیت کے ہرے ہرے پودے کھائے جا رہی ہے۔
یہ عجیب و غریب گائے تھی۔ ڈیل ڈول میں گینڈے کے برابر اور سینگ اتنے لمبے جیسے لیچی کا درخت۔ پیٹ ایسا پھولا ہوا جیسے بادشاہی عمارت کا گنبد۔ تھوتھی مارتی تو سیکڑوں پودے اکھاڑ ڈالتی۔
عبدالرحمان غصے سے لال پیلا ہوگیا۔ اس نے دھاتیں سے اپنا ڈنڈا گائے کی کمر پر رسید کیا۔ مگر گائے پر کیا اثر ہوتا۔ ڈنڈے کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ گائے نے گھوم کر پیچھے دیکھا اور پھر بدک کر بھاگ نکلی۔ عبدالرحمان کی سمجھ میں اور کچھ تو نہ آیا اس نے گائے کی دُم پکڑ لی۔
اور.... ارے.... ارے.... یہ کیا؟
گائے نے تو ہوا میں اڑنا شروع کر دیا۔ موٹی تازی گائے ہیلی کاپٹر کی طرح آسمان میں اڑی چلی جا رہی تھی۔
نہ معلوم کتنی دور نکل گئی۔ عبدالرحمان کا ڈر کے مارے برا حال تھا۔ شکر ہے گائے نے دم کو جھٹکا نہیں دیا ورنہ میاں عبدالرحمان زمین پر آگرتے اور ہڈی پسلی ایک ہو جاتی۔
گائے اڑتی رہی، اڑتی رہی۔ آخر وہ ایک چھوٹی سی کٹیا کے پیچھے جا کر اتری جس کے آگے بہت بڑا میدان تھا۔
کٹیا میں ایک فقیر رہتا تھا۔ یہ گائے اسی کی تھی۔ فقیر سیکڑوں سال سے اسی جنگل میں بیٹھا اللہ اللہ کر رہا تھا۔ گائے کو دیکھ کر وہ اس کا دودھ دوہنے کے لئے آگے بڑھا۔
عبدالرحمان کو گائے کی دُم میں لٹکا دیکھ کر پہلے تو فقیر کو ہنسی آئی۔ پھر وہ ہنسی روک کر بولا، ’’کون ہے تو؟ کیا چاہتا ہے؟ گائے کی دُم چھوڑ اور پوری بات بتا۔‘‘
عبدالرحمان نے ساری بات سچ سچ بتا دی۔ فقیر کو ترس آگیا۔ اُس نے ایک چھوٹی سی ہانڈی عبدالرحمان کو دی۔ اس ہانڈی میں دو تین سیر کے قریب چاول تھے۔
’’ہوں....‘‘ عبدالرحمان بڑبڑایا، ’’میرے آدھے کھیت کا بدل یہ مٹھی بھر چاول؟‘‘
فقیر مسکرایا اور بولا، ’’لالچ مت کر۔ نیت نیک رکھ۔ خدا برکت دے گا۔ زندگی بھر ہانڈی میں سے چاول نکلتے رہیں گے۔‘‘
عبدالرحمان کی بانچھیں کھل گئیں۔ فقیر نے اسے نصیحت کی کہ یہ راز سوائے اپنی بیوی کے اور کسی کو نہ بتانا ورنہ ہانڈی میں سے چاول نکلنا بند ہو جائیں گے۔ اس نے عبدالرحمان سے یہ بھی وعدہ لے لیا کہ وہ گائے کو کھیت میں چرنے سے نہیں روکے گا۔
دوسری رات جب گائے چارہ کھانے کے لئے کھیت کی طرف روانہ ہوئی تو عبدالرحمان اس کی دُم پکڑ کر لٹک گیا۔ گائے ہوا میں اڑتی، بادلوں سے گزرتی، چاند تاروں سے اٹکھیلیاں کرتی عبدالرحمان کے کھیت میں جا اتری۔ گھر پہنچ کر عبدالرحمان نے سارا واقعہ اپنی بیوی کو سنایا اور کہا کہ کسی دوسرے کو یہ راز نہ بتائے۔
اب تو دونوں میاں بیوی کی مزے سے گزر بسر ہونے لگی۔
تڑکے تڑکے اُٹھ کر عبدالرحمان کی بیوی اپنی ساڑی کے پلّو میں بھر کر چاول نکالتی۔ کچھ چاول بیچ کر عبدالرحمان بازار سے مچھلی لے آتا اور وہ لوگ مزے سے ’’بھات ماچھ‘‘ کھاتے۔
ان کے پڑوس میں ایک کسان رہتا تھا۔ اس کی بیوی کو بڑی حیرت ہوئی کہ آخر عبدالرحمان کی جھوپڑی میں کہاں سے دولت پھٹ پڑی کہ دن عید اور رات شب برات ہے۔ وہ عبدالرحمان کی بیوی سے بولی، ’’بہن، فصل تو ابھی کٹی نہیں۔ چاول تمہارے ہاں کہاں سے برس پڑے؟‘‘
عبدالرحمان کی بیوی سیدھی سادی تھی مگر کسان کی بیوی آفت کا پرکالہ تھی۔ اس نے باتوں باتوں میں ہانڈی کا راز اگلوالیا۔
راز کھلنے کی دیر تھی کہ ہانڈی کا اثر جاتا رہا۔ عبدالرحمان نے اپنا سر پیٹ لیا۔ مگر ہونی تو ہوچکی تھی۔
رات کو عبدالرحمان اور اس کی بیوی نے طے کیا کہ وہ دونوں گائے کی دُم میں لٹک کر فقیر کے پاس جائیں گے اور اپنی غلطی کی معافی مانگ کر دوسری ہانڈی لے آئیں گے۔ کسان کی بیوی کے بھی یہ باتیں چھپ کر سن لیں۔
دوسری رات گائے جب کھیت سے چارہ کھا کر واپس جانے لگی تو عبدالرحمان اس کی دُم پکڑ کر لٹک گیا۔ اس کی بیوی نے اس کے پیر پکڑ لئے اور وہ بھی لٹک گئی۔ کسان کی بیوی بھی موقع کی تاک میں تھی اس نے عبدالرحمان کی بیوی کے پیر پکڑ لئے اور وہ بھی لٹک گئی۔
گائے ہوا میں پتنگ کی طرح اڑ رہی تھی اور یہ تینوں ڈور کی طرح اس سے لٹکے ہوئے تھے۔
راستے میں عبدالرحمان کی بیوی بولی، ’’سنتے ہو؟ فقیر سے اس بار ذرا بڑی ہانڈی مانگنا۔ وہ ہانڈی بہت چھوٹی تھی۔‘‘
عبدالرحمان نے جواب دیا، ’’تو فکر مت کر۔ مَیں بڑی ہی ہانڈی مانگوں گا....‘‘ ’’کتنی بڑی بھلا؟‘‘ بیوی نے خوش ہو کر پوچھا۔
عبدالرحمان نے یہ بتانے کے لئے کہ وہ کتنی بڑی ہانڈی مانگے گا۔ گائے کی دُم چھوڑ دی اور دونوں ہاتھ پھیلا کر کہا، ’’ات.... نی۔‘‘ مگر ابھی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ.... اڑا.... ڑا.... ڑا.... دھم۔
تینوں آسمان سے زمین پر آگرے۔ اور تینوں کی ہڈی پسلی ایک ہوگئی۔ چھوٹی ہانڈی تو گئی ہی تھی، بڑی ہانڈی کے لالچ میں جان بھی گئی۔n