انہوں نے اپنے انقلابی خیالات کے ذریعہ انیسویں صدی کے آخری عشرے میں قبائلی معاشرے کی حالت سمت کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
EPAPER
Updated: January 25, 2025, 4:57 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai
انہوں نے اپنے انقلابی خیالات کے ذریعہ انیسویں صدی کے آخری عشرے میں قبائلی معاشرے کی حالت سمت کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
برسا منڈا(Birsa Munda) ایک ہندوستانی قبائلی آزادی پسند، مذہبی رہنما اور عوامی قائدوہیرو تھے جن کا تعلق منڈا قبیلے سے تھا۔ انہوں نے ایک قبائلی مذہبی ہزار سالہ تحریک کی سربراہی کی جو ۱۹؍ ویںصدی کے آخر میں برطانوی راج کے دوران بنگال پریزیڈنسی (اب جھارکھنڈ ) میں پیدا ہوئی۔ اس طرح وہ تحریک آزادی کی تاریخ میں ایک اہم شخصیت بن گئے۔ برسا منڈا نے ۱۸۹۹ء تا۱۹۰۰ء تاریخی اُل گلان (عظیم بغاوت) کی قیادت کی جس میں قبائلی زمینوں پر دوبارہ دعویٰ کرنے اور برطانوی نوآبادیاتی جبر کے خلاف مزاحمت کی لڑائی میں ہزاروں افراد کو اکٹھا کیا۔ ’’منڈا راج‘‘کیلئے ان کی وکالت استحصال سے پاک ایک انصاف پسند اور خود مختار معاشرے کے ان کے خواب کی علامت تھی۔ اگرچہ وہ صرف ۲۵؍ سال کی عمر میں انتقال کر گئے لیکن ان کا حوصلہ اور پیغام ہندوستان بھر کی کمیونٹیز کو متاثر کرتا ہے۔
برسا منڈا ۱۵؍ نومبر۱۸۷۵ء کو بنگال پریزیڈنسی کے رانچی ضلع کے گاؤں اولیہاتو میں پیدا ہوئے تھے جواَب جھارکھنڈ کا حصہ ہے۔برسا کے ابتدائی سال اپنے والدین کے ساتھ چلکڈ میں گزرے۔ ان کی ابتدائی زندگی عام بچوں کی طرح ہی تھی۔جب وہ بڑے ہوئے توانہوں نے بانسری بجانے میں دلچسپی ظاہر کی، جس میں وہ جلد ہی ماہر بن گئے۔ ’ابواہ دشوم ابو راج، یعنی ’ہمارا ملک ہمارا راج‘، کا نعرہ دینے والے برسا منڈا کے والد سگنا منڈا اور والدہ کرمی منڈا کاشت کاری کرتے تھے۔ اس وقت منڈا چھوٹا قبائلی گروہ تھا جو چھوٹا ناگپور کے پٹھار پر واقع تھا۔ سالگا گاؤں میں اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے چائیباسا جی ای ایل چرچ اسکول سے تعلیم حاصل کی۔
اس وقت انگریزوں کا استحصال عروج پر تھا، برسا ہمیشہ قبائلیوں کی ترقی کے بارے میں سوچتے تھے۔ وہ قبائلیوں کی کھوئی ہوئی عزت کو بھی واپس لانا چاہتے تھے جس کے ساتھ انہوں نے انگریزوں کے نافذ زمینداری نظام اور محصولات کے نظام کے ساتھ اپنے حقوق کی جنگ بھی شروع کردی۔ قبائلی شناخت اور ثقافت کو بچانے کیلئے یہ ایک جدوجہد تھی۔اس وقت برسا منڈا نے پوری لگن کے ساتھ عوام کی خدمت کی۔ یہاں برطانوی راج قبائلیوںکیلئے ایک دور بنتا جارہا تھا۔ انگریز پہلے قرض دیتے تھے اور بدلے میں ان کی زمین پر قبضہ کرلیتے تھے۔ وقت کے ساتھ قبائلیوں پر انگریزوں کا ظلم بڑھتا جارہا تھا۔بھارتی جنگلات ایکٹ ۱۸۸۲ءنے اس کی شناخت چھین لی۔ وہ جو جنگل کے دعویدار تھے اب جنگلوں سے بے دخل ہوگئے تھے۔ یہ دیکھ کر برسا نے’ `اُل گلان گولان‘ کا اعلان کیا۔اس لڑائی میں سیکڑوںافراد کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا، لیکن برسا منڈا نے کبھی ہار نہیں مانی اور اپنی محنت اور معاشرے کیلئے خدمات کی وجہ سے وہ زمینی انسان کی حیثیت سے قبائلیوں میں مقبول ہوئے لیکن برسا کی یہ مقبولیت انگریزوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔
برسا منڈا کئی دنوں تک پولیس کی گرفت میں نہیں آئے تھے۔لیکن برطانوی حکومت نے انہیں پکڑنے میں مدد کرنے پر انعام کا لالچ دیا اور ان کے قریبی دوست نے برطانوی حکومت کی مدد کی جس کے بعد انہیں ۳؍ مارچ ۱۹۰۰ء کو گرفتار کیا گیا اور حکومت نے انہیں ۲؍ سال قید کی سزا سنادی۔وہ مسلسل جنگلوں میں بھوکا پیاسا بھٹکنے کی وجہ سے کمزور ہوچکے تھے۔ آخر کار۹؍ جون۱۹۰۰ء کو جیل میں ہی برسا کی موت ہوگئی لیکن برسا منڈا کا خیال آج بھی لوگوں کو جدوجہد کا راستہ دکھا رہا ہے۔