• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

اِن ۷؍ عادتوں کو بدل دیجئے، اس سے پہلے کہ یہ عادتیں آپ کو بدل دیں!

Updated: September 10, 2024, 5:06 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ان عادتوں سے چھٹکارا پانا مشکل ہے تو آپ غلط ہیں، فعالیت اور منصوبہ بندی سے دوران طالب علمی ہی آپ ان عادتوں کو ترک کرسکتے ہیں تاکہ بعد میں ان کی وجہ سے آپ کو کوئی مسئلہ نہ ہو۔

Habits can be changed. Experts say that it takes just 21 days to adopt or break any habit. Photo: INN
عادتیں بدلی جاسکتی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی عادت کو اپنانے یا ترک کرنے میں محض ۲۱؍ دن لگتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

اسکول ،طلبہ کی معاشرتی نشوو نما میں کلیدی حیثیت کا حامل ادارہ ہوتا ہے جہاں بچہ اپنے ہم جماعت ساتھیوں کی عادات و اطوار کو نہ صرف قبول کر تا ہے بلکہ یہاں مردم سازی کا کام بھی انجام دیا جا تا ہے۔ صحت مند عادات و طور طریقوں کی بنیادیں ۶؍ تا ۱۲؍ بر س کی عمر میں استوار کی جا تی ہیں۔ اسی لئے اس عمر میں بچوں کو صحت مند ماحول کی فراہمی اشد لازمی تصور کی جاتی ہے۔ اس عمر میں طلبہ میں اکثر کاہلی، خود غرضی، نافرمانی، خطرناک شرارتیں، حیلے و بہانے بازی جیسی عادات کے جڑ پکڑنے کے قوی امکانات پائے جا تے ہیں۔ یہی وہ عمر ہوتی ہے جس میں اکثر طلبہ اسکول ،جماعت اور محلے کے چند مخصوص ساتھیوں کا انتخاب کر لیتے ہیں اور ان کی صحبت میں طرح طرح کی شرارتیں کرتے ہیں، تعلیم کو بوجھ سمجھتے ہیں اور اس سے فرار کا راستہ تلاش کر تے ہیں اسی لئے ضروری ہے کہ طلبہ ان عادات کو ابھی سے بدلنے کی کوشش کریں،کہیں اتنی دیر نہ ہوجائے کہ منفی عادات آپ کی شخصیت اور مزاج کو بدل دے۔ پڑھئے ایسی عادات کے متعلق جنہیں بدلنا نہایت ضروری ہے:
بغیر ناشتہ کے اسکول جانا
 جن طلبہ کا اسکول صبح کے وقت ہوتا ہے ، ان میں یہ عادت خاص طور پر دیکھی گئی ہے کہ وہ صبح بغیر کچھ کھائے پیئے اسکول چلے جاتے ہیں۔اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے کہ صبح تاخیر سے اٹھنا اور ناشتہ کیلئے وقت نہ ملنا،یا صبح ناشتہ کر نے کا جی نہ کرنا وغیرہ ۔ایسی صورتحال میں یہ کیا جاسکتا ہے کہ گھر سے ٹفن لے کر اسکول جایا جائے اور وقفے میں ناشتہ کرلیا جائے۔ کچھ طلبہ ایسا بھی نہیں کرتے جو اچھی عادت نہیں ہے۔صبح ناشتے کے بغیر اسکول جانے اور وقفے میں باہر کی غیر صحت بخش غذا کھانے کی عادت آپ کی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اس لئے صبح کا ناشتہ کرکے ہی اسکول کیلئے روانہ ہوں یا گھر سے ٹفن لے جائیں۔ 
کام وقت پر نہ کرنا 
  طلبہ میں یہ عادت عام ہے۔ آج کا کام کل پر ٹالنے کی عادت کی وجہ سے انہیں اساتذہ اور ساتھی طلبہ کے سامنے شرمندگی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ طلبہ اس کام کو غیر اہم سمجھتے ہیں یا اس گمان میں رہتے ہیں کہ اسے بعد میں پورا کرلیا جائے گا مگر وہ کام بعد میں بھی یا وقت رہتے مکمل نہیں ہو پاتا۔ایسے طلبہ کو ہمیشہ اساتذہ کی سخت سرزنش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ عادت نہ صرف زمانہ طالب علمی میں نقصاندہ ہے بلکہ عملی زندگی میں بھی ایسے طلبہ کو ترقی کے مواقع کم میسر ہوتے ہیں۔پیشہ ورانہ زندگی میں ایسے ہی افراد کو ترجیح دی جاتی ہے جو کم وقت میں اپنا کام صحیح انداز میں مکمل کریں۔اگر اس عادت پر زمانہ طالب علمی ہی میں قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں یہ آپ کے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔
 سوال پوچھنے میں جھجھک محسوس کرنا
 جو طالب علم حصول علم کے دوران سوال پوچھنے میں جھجھک کا مظاہرہ کرتا ہے یا شرماتا ہے وہ کبھی بھی اختراعی سوچ کا حامل شخص نہیں بن سکتا۔اکثر طلبہ میںیہ عادت ہوتی ہے کہ وہ نصاب کے متعلق استاد سے سوال نہیں کرتے یا انہیں شرم اور جھجھک محسوس ہوتی ہے۔یا درہے کہ اگر آپ نے اس وقت سوال نہ پوچھا تو یہ منفی عادت آپ کی زندگی کا حصہ بن جائے گی۔ماہرین اور نامور سائنسدانوں کے کئی اقوال اس بات کی طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ طلبہ کو سوال پوچھنے کا عادی ہونا چاہئے اس سے ان کی سیکھنے کی صلاحیت بڑھتی ہے اور ذہن تخلیقی اور اختراعی ہوتا ہے۔کلاس میں سوال نہ پوچھنے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ سوال پوچھنے پر جماعت کے ساتھی ہنسنے لگتے ہیں۔اگر آپ ان کی ہنسی اور مذاق کی پروا کئے بغیر سوال پوچھتے ہیں تو یہ عادت آپ میں خود اعتمادی پیدا کرے گی جو کامیابی کی کلید ہے۔
 وقت کا ضیاع
 وقت کو ضائع کرنا ایسی عادت ہے جس کا احساس فوری طور پر نہیں ہوتا۔ اس کا احساس بہت بعد میں ہوتا ہے مگر تب تک سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہیں بچتا۔طالب علمی کا دور کئی لحاظ سے طلبہ کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وقت غیر ضروری کاموں میں برباد نہیں کرنا چاہئےمگر طلبہ اس جانب کم ہی توجہ دیتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ کئی اہم چیزوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔وقت کی قدر کرنے والے ہی سرخرو اور سرفراز ہوتے ہیں۔ ابتدا میں اس جانب طلبہ کی عدم توجہی آگے چل کر ان کی عادت میں شامل ہوجاتی ہے ۔اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ طلبہ غیر ضروری یا وقت ضائع کرنے والی چیزوں سے دور رہیں اور خود کوتخلیقی کاموں میں مصروف رکھیں۔
 اسکول کی لائبریری سے استفادہ نہ کرنا
 اہل علم یا کامیاب افراد کی عادات کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انہیں مطالعہ کا شوق بچپن ہی سے ہوتا ہے ۔اس کی شروعات کیلئے اسکول یا مدرسے کی لائبریری اہم مانی جاتی ہے۔آج کل تقریباً ہر اسکول میں لائبریری ہوتی ہے مگر طلبہ اس کی طرف کم ہی رخ کرتے ہیں۔یہ عادت طلبہ کو کتابوں کی دنیا سے بہت دور لے جاتی ہے۔ طلبہ کو چاہئے کہ وہ اپنے اسکول کی لائبریری سے بھی استفادہ کریں۔ لائبریری میں وہ اپنے پسندیدہ موضوعات جیسے مذہبی، جنرل نالج، ادبی، سائنسی اور حالات حاضرہ وغیرپر مبنی کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسکول کے وقت میں یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ جب بھی خالی یا فری پریڈ ہو، طلبہ لائبریری کا رخ کرسکتے ہیں، اس کام میںوہ اپنے کلاس ٹیچر کی بھی مدد لے سکتے ہیں۔ 
غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینا
 اسکول یا دیگر سطحوں پر غیر نصابی سرگرمیوں (نظم خوانی، اسپورٹس، بیت بازی،تقریری مقابلہ،کوئز مقابلہ وغیرہ) کے انعقاد کا مقصد یہ ہوتا کہ طلبہ کئی اہم صلاحیتوں کے حامل ہوجائیں اوران میں خود اعتمادی اور اختراعی سوچ پیدا ہوجائے ۔ بعض طلبہ میں یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ اسے کم اہم سمجھتے ہیں اور وقت کی بربادی خیال کرتے ہیں۔طلبہ کا ایسا سوچنا غلط ہے۔انہیں ان سرگرمیوں اور مقابلوں میں بڑھ چڑھ کا حصہ لینا چاہئے۔ کچھ طلبہ میں صلاحیت ہوتی ہے مگر وہ لوگوں کے سامنے اس کا مظاہرہ کرنے میں خوف محسوس کرتے ہیں،اسکولی سطح پر ہونے والے مقابلے طلبہ میں اس خوف کو دور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اگر اس خوف پر زمانہ طالب علمی ہی میںقابو پالیا جائے تو عملی زندگی آسان ہوجائے گی۔اس لئے ڈر، شرم اور خوف کو پیچھے رکھتے ہوئے طلبہ کو غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ ضرور لینا چاہئے۔
ہنسی مذاق میں دوستوں کی دل آزاری کرنا
   اسکول میں دوستوں کے ساتھ گزرے لمحات یادگار ہوتے ہیں۔ اکثر طلبہ کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہنسی مذاق کرتے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ ان کی باتوں سے سامنے والے کے جذبات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ طلبہ کو ہنسی مذاق کرتے وقت اپنے دوستوں کی غزت نفس کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔دین اسلام نے ہنسی مذاق سے نہیں روکا ہے مگر ایک حد مقرر کی ہے کہ ہمارے مذاق سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے۔ دوستوں کی تضحیک والے مذاق سے بھی گریز کرنا چاہئے۔ اس سے آپ کا دوست احساس کمتری کا شکار ہوسکتا ہے یا ممکن ہے وہ آپ سے کنارہ کشی اختیار کرلے۔ یہ عادت، دوستوں کو آپ سے دور کرسکتی ہے۔اگر کوئی ہنسی مذاق میں اس تاکید کو ملحوظ نظر نہیں رکھتا تو اسے سمجھانا چاہئے کہ وہ اس عادت کو ترک کردے۔یہ عادت آپس میں دوریوں کا سبب بن سکتی ہے۔
 طلبہ کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ان میں کون سی ایسی عادتیں ہیں جو بعد کی زندگی میں ان کیلئے مسائل پیدا کرسکتی ہیں، ان کی تشخیص کریں اور انہیں ترک کرنے کی جانب توجہ دیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK