مرزا صاحب نے اپنے دوست کو دلاسہ دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا مگر پھر کچھ سوچ کر خاموش ہوگئے اور اپنے سامنے میز پر رکھے ہوئے ٹیلی فون کو گھورنے لگے۔
EPAPER
Updated: July 13, 2024, 2:55 PM IST | Zameer Saharanpuri | Mumbai
مرزا صاحب نے اپنے دوست کو دلاسہ دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا مگر پھر کچھ سوچ کر خاموش ہوگئے اور اپنے سامنے میز پر رکھے ہوئے ٹیلی فون کو گھورنے لگے۔
’’کہئے ڈاکٹر صاحب! اب تک کتنے مریض آچکے ہیں آپ کی کلینک پر؟‘‘
’’بس پہلے مریض آپ ہی ہیں مرزا صاحب! آپ کے سوا مَیں نے قسم کھانے کو بھی کسی مریض کی صورت نہیں دیکھی۔‘‘ ’’ہائے ہائے خدا نہ کرے ڈاکٹر صاحب کہ مَیں کسی روز آپ کی کلینک پر مریض کی حیثیت سے آؤں، خدا بچائے ان ڈاکٹروں کے چکّر سے تو... اور ہاں یہ آپ نے کیا فرمایا؟ کیا واقعی اب تک ایک بھی مریض آپ کی کلینک پر نہیں آیا....؟‘‘
’’کم از کم آپ تو مذاق نہ کیجئے مرزا صاحب! یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ آج پہلے ہی روز مکھیاں مارنی پڑ رہی ہیں اور اب شام ہونے کو ہے کلینک بند کرنے کا وقت بھی قریب آگیا ہے۔ اگر آج یہی حالت رہی تو یقین کیجئے مرزا صاحب! مَیں یہ ڈاکٹری کا پیشہ چھوڑ کر فقیری کا پیشہ اختیار کر لوں گا۔ آپ کو کیا بتاؤں کہ کتنا روپیہ قرض لے کر دکان کی پبلسٹی پر خرچ کر چکا ہوں۔‘‘
’’اوہو! ڈاکٹر صاحب، آپ کی حالت تو واقعی قابل ِ رحم ہے۔ مجھے آپ سے دلی ہمدردی ہے مگر آپ مایوس نہ ہوں خدا پر بھروسہ رکھئے اُس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔‘‘ مرزا صاحب نے اپنے دوست کو دلاسہ دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا مگر پھر کچھ سوچ کر خاموش ہوگئے اور اپنے سامنے میز پر رکھے ہوئے ٹیلی فون کو گھورنے لگے۔ مرزا صاحب بھی کچھ نہیں بولے اور خاموشی سے اپنی عینک کی اوٹ سے کلینک سے باہر تارکول کی لمبی سیاہ بل کھاتی ہوئی سڑک پر راہ گیروں کے ہجوم پر نظریں دوڑانے لگے۔
تھوڑی دیر بعد اچانک وہ مسرت آمیز لہجہ میں چیخ پڑے، ’’ڈاکٹر صاحب خدا نے آپ کی سن لی.... تیار ہوجایئے آج کا پہلا مریض آرہا ہے....‘‘ یہ مژدۂ جاں فزا سُن کر ڈاکٹر صاحب کا چہرہ مسرت سے کھل اُٹھا، ’’کہاں ہے؟ کہاں ہے؟‘‘ وہ جوش و اضطراب میں اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور باہر فٹ پاتھ پر بے قراری سے نظریں دوڑانے لگے.... ’’وہ دیکھئے وہ رہا! نیشنل بینک کے قریب، کالی قمیص اور سفید پتلون میں ملبوس، وہ تیزی سے اسی طرف آرہا.... آپ اپنی جگہ بیٹھ جایئے جلدی!‘‘ ڈاکٹر صاحب فوراً اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔ معاً اُنہیں کچھ خیال آیا اور انہوں نے جھٹ اپنے قریب بیٹھے ہوئے مرزا صاحب کی کلائی تھام لی۔ مرزا صاحب نے گھبرا کر ان کی طرف دیکھا ڈاکٹر صاحب نے جلدی سے مسکرا کر اپنی بائیں آنکھ مار دی۔ مرزا صاحب اُن کا اشارہ سمجھ گئے اور وہ بھی کسی مریض کی طرح سَر جھکا کر بیٹھے رہے۔ اس کے ایک لمحہ بعد ہی ایک نوجوان ہانپتا ہوا کلینک کے قریب آیا اور جیسے ہی اس نے اپنا پہلا قدم دوا خانے کے اندر رکھا مرزا صاحب نے اپنی شاندار اداکاری کا مظاہرہ کیا وہ فوراً ہی نہایت نحیف و زار لہجہ میں کسی مریض کی طرح کھانستے ہوئے بولے.... ’’ڈاکٹر صاحب! کھانسی بھی ہے مجھے!‘‘ اور جواب میں ڈاکٹر صاحب کچھ کہنے ہی والے تھے کہ نوجوان جو اَب کلینک میں داخل ہوچکا تھا تیزی سے ان کی میز کے قریب آیا اور عجز آمیز لہجہ میں بولا، ’’پلیز! ڈاکٹر صاحب! وَن منٹ....‘‘ فوراً ہی ڈاکٹر صاحب نے چونکنے کی ایکٹنگ کی اور پھر مرزا صاحب کی کلائی چھوڑ کر اس کی طرف مخاطب ہوئے.... ’’فرمایئے! کیا کسی مریض کو دکھانا ہے؟ گھر پر دیکھنے کی فیس پانچ روپیہ ہوگی اگر منظور ہو تو کوئی سواری لے آیئے ورنہ....‘‘
’’معاف کیجئے ڈاکٹر صاحب!‘‘ نوجوان ڈاکٹر صاحب کی بات پوری ہونے سے قبل ہی جلدی سے معذرت آمیز لہجہ میں بول پڑا، ’’نہ ہی مَیں بیمار ہوں اور نہ مجھے کسی مریض کو ہی دکھانا ہے، مَیں آپ سے صرف ایک منٹ کیلئے فائر بریگیڈ والوں کو ٹیلی فون کرنے کی اجازت چاہتا ہوں دراصل ہمارے پڑوس میں آگ لگ گئی ہے۔‘‘ نوجوان کے یہ الفاظ سن کر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کو بھی ایسا محسوس ہوا جیسے انہیں کسی نے عرش سے اٹھا کر فرش پر پٹخ دیا ہو۔ ایک لمحہ تک کمرے میں ایک اذیت ناک سناٹا چھایا رہا کوئی کچھ نہ بولا اور نوجوان بھی حیرت سے منہ کھولے اور آنکھیں پھاڑے بے حس و حرکت کھڑا رہا دوسرے لمحہ ڈاکٹر صاحب کا شکست خوردہ لہجہ سنائی دیا، ’’ٹیلی فون کر لو بھائی۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک طویل سانس لے کر اپنا سَر کرسی کی پشت سے لگا کر آنکھیں موند لیں۔