قدیم زمانے میں کسی عرب ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ بہت سخی اور فیاض تھا۔ رِعایا کے فلاح و بہبودی کے لئے ہمیشہ سوچ میں ڈوبا رہتا۔
EPAPER
Updated: January 06, 2025, 3:59 PM IST | Wali Muhammad Qazi | Mumbra/Thane
قدیم زمانے میں کسی عرب ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ بہت سخی اور فیاض تھا۔ رِعایا کے فلاح و بہبودی کے لئے ہمیشہ سوچ میں ڈوبا رہتا۔
قدیم زمانے میں کسی عرب ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ بہت سخی اور فیاض تھا۔ رِعایا کے فلاح و بہبودی کے لئے ہمیشہ سوچ میں ڈوبا رہتا۔ اور جیسے ہی اس کے دماغ میں کوئی بہتر تدبیر سوجھتی، فورًا اُسے عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑتا۔ سلطنت میں بادشاہ کے عدل و انصاف کی وجہ سے کسی فرد کو جرم کا ارتکاب کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ غرض کہ حکو مت میں ایک بہترین نظام قائم تھا۔ رعایا خوشحال ہونے کی وجہ سے سکون اور اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی۔
بادشاہ انفرادی زندگی میں اپنی حسین اور عقلمند رانی سے بے حد خوش تھا۔ اور وہ کیوں نہ ہوتا؟ رانی کو بہترین تدابیر کے ساتھ حکومت چلانے کا خاص ملکہ حاصل تھا۔ ایک دن باد شاہ کو را نی کے پاس خلوت میں باتیں کرتے ہوئے یہ خیال پیدا ہو گیا کہ کبھی یہ ہوسکتا ہے کہ دربار سے میری غیر حاضری کے دوران کوئی انہونی ہوجائے اور کوئی میرا ہم شکل انسان بادشاہی ملبوسات میں خود کو اصلی بادشاہ تسلیم کرنے پر رانی، وزیروں اور مصاحبوں کو مجبور کریں۔ غرض بادشاہ نے اپنے دل میں پنپتی ہوئی اس بات کو رانی کو سامنے ظاہر کیا اور دونوں نے ایک خفیہ تجویز کو پسند کرنے کے بعد رانی کے لئے ایک پوشیدہ دوسرا نام ’’گو ہر جہاں‘‘ مقرر کیا گیا۔ جس کا پتہ صرف بادشاہ اور رانی تک ہی محدود تھا۔ دریں اثناء یہ بات طے ہوگئی کہ یہ نام کسی کتاب یا مخفی جگہ پر لکھ کر رکھا جائے۔ تاکہ کبھی بھولنے کی نو بت نہ آئے۔ اور امتحان کی گھڑی میں بادشاہ کے روپ میں آنے والے بہروپیا کو رانی اپنا خفیہ نام پوچھ لیں۔ اور اُس نام کے صحیح یا غلط ہونے پر اصلی بادشاہ کا پتہ لگائیں۔
آخر جو ہونا تھا وہی ہوگیا۔ خفیہ نام کی تجو یز کے چھ ماہ بعد بادشاہ ایک دن اپنے خدمت گاروں اور محافظوں کے ساتھ گھنے جنگل میں شکار کے لئے روانہ ہوگیا۔ مگر دن بھر کی تگ و دو کے بعد انہیں کوئی جانور ہاتھ نہیں لگا۔ اور دوپہر ہوتے ہوتے بادشاہ بھی شکار کی کوشش میں آگے نکلتے ہوئے اپنے محافظوں سے بچھڑ گیا۔ اب اُسے ساتھیوں سے دوبارہ ملنا محال ہوگیا۔ اس شش و پنج میں وہ مارا مارا بھٹکتا رہا۔ مگر دربان اور ساتھی مل نہ سکے۔ آخر گھوڑے پر سوار اُسے راستہ تلاش کرتے ہوئے صاف شفاف بہتے پانی کی ایک ندی مل گئی۔ سورج پچھم کی جانب ڈھل چکا تھا۔ لیکن موسم گرم ہونے کی وجہ سے سورج کی تمازت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ جس کی وجہ سے اُس کا سارا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ وہ گھوڑے سے نیچے اُتر گیا اور خود ٹھنڈا پانی پی کر گھو ڑے کو بھی پلایا۔ اور اسے ایک درخت سے باندھ کر جھٹ اپنے بادشاہی کپڑے اُتار کر ندی میں تیرنے کے لئے چھلانگ لگائی۔ اس طرح وہ اپنی تھکان کو بھول گیا اور راحت کی سانس لی۔
جب بادشاہ تیرتے تیرتے دور دوسرے کنارے پر چلا گیا تب ایک دوسرا شخص جو بالکل بادشاہ کا ہم شکل تھا۔ اور جس کا حلیہ اور طور طریقے بادشاہ کے مانند تھے، بادشاہ کے کپڑے اُٹھا کر زیب تن کئے۔ اور گھوڑے پر سوار ہو کر دوسرے دن بادشاہ کے محل میں پہنچ گیا۔ محل میں کسی کو بھی شبہ نہیں ہوا کہ یہ اپنا اصلی راجہ نہیں ہے۔ اب محل میں خوشیوں کا ماحول تھا۔ مگر اچانک رانی بادشاہ کے پاس آکر اپنے دوسرے خفیہ نام سے پکارنے کے لئے کہا۔ یہ سنتے ہی بہروپیا بادشاہ کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نمودار ہوگئے۔ اور وہ بے بس ہو کر رانی کو دیکھنے لگا۔ رانی نے فورًا اپنے وزیر اور لشکر کے کمانڈر کو حکم دیا کہ اس بہروپیا کو گرفتار کرکے جیل کے اندر ڈالا جائے۔ اور علی الصباح سورج طلوع ہونے سے پہلے اُسے پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے۔
پیارے بچو! اب تمہیں بتلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ چند دنوں کے بعد اصلی بادشاہ اپنی سلطنت میں واپس آگیا۔ اور ہر طرف شادمانی کے نغمے بجنے لگے۔