شام کے کوئی ساڑھے چار بجے ہوں گے۔ ممی نے گھر کے باہر آم کے درخت سے لگے چبوترے پر کرسیاں ڈال دیں۔ احمد اور حلیمہ کرسیوں پر نیم دراز ہوگئے۔ کھلی فضا میں تازگی اور فرحت محسوس ہوئی۔ دونوں آسمان میں اڑتے بادلوں کو دیکھتے رہے۔ ’’احمد، دیکھو وہ بادل کا ٹکڑا.... بالکل ٹیڈی بیئر جیسا لگ رہا ہے، ہے نا؟‘‘
بجلی کے بغیر۔ تصویر : آئی این این
اتوار کا دن تھا۔ احمد اور حلیمہ دیوان خانے میں بیٹھے کارٹون چینل پر ’’ٹام اینڈ جیری‘‘ دیکھ رہے تھے۔ اچانک ٹی وی کا اسکرین تاریک ہوگیا۔
’’ممی.... یہ کیا ہوگیا؟‘‘ حلیمہ چلّائی۔
’’افوہ.... یہ بجلی کو بھی آج ہی جانا تھا۔‘‘ احمد بڑبڑایا۔
’’لگتا ہے، بجلی چلی گئی ہے۔‘‘ ممی باورچی خانے کے باہر آئیں ، ’’گھبراؤ نہیں ، تھوڑی دیر میں لوٹ آئے گی۔‘‘
وہ لوگ جس علاقے میں رہتے تھے، وہاں کبھی کبھار بجلی چلی جایا کرتی تھی۔
’’کتنی گرمی ہونے لگی ہے۔ اے سی کے بغیر تو بیٹھنا مشکل ہے۔‘‘ احمد نے کہا۔
’’کچھ ہی دیر کی بات ہے۔ پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ ممی نے سمجھایا۔
لیکن آدھا گھنٹہ گزر جانے کے بعد بھی جب بجلی کا سلسلہ بحال نہ ہوا تو ممی نے کہیں فون لگا کر معلوم کیا۔
’’کوئی تکنیکی خرابی آگئی ہے۔‘‘ وہ فون رکھتے ہوئے بولیں ، ’’اب شاید دن بھر اندھیرے میں بیٹھنا پڑے۔‘‘
’’یعنی، نہ کارٹون نہ ویڈیو گیم؟‘‘ احمد منمنایا، ’’نہ اے سی.... نہ کولڈ ڈرنک۔‘‘ ’’مجبوری ہے۔‘‘ ممی نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
’’اب ہم دن بھر کیا کریں ؟ چھٹی کا سارا مزہ کرکرا ہوگیا!‘‘
’’کیوں ؟ تمہارے پاس تو ڈھیر سارے کھلونے ہیں۔‘‘
’’ممی! اب ہم اتنے چھوٹے نہیں رہے۔‘‘ دونوں نے احتجاج بلند کیا۔
ممی بے چاری چپ ہو کر رہ گئیں۔
احمد اور حلیمہ بور ہوتے رہے۔ لائبریری سے جو کتاب جاری کروائی تھی وہ دونوں پڑھ چکے تھے۔ نئی کتاب بدلوا کر لانے کا موقع نہیں تھا۔
’’ہمارے بچپن میں تو یہ کمپیوٹر، ٹی وی، موبائل فون وغیرہ کچھ نہیں تھا۔ اور گاؤں میں بجلی بھی بار بار چلی جایا کرتی تھی۔ لیکن ہم لوگ تمہاری طرح کبھی بور نہیں ہوئے....‘‘ ممی دونوں کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔
’’پھر آپ لوگ اپنا وقت کیسے گزارتے تھے؟‘‘ احمد نے پوچھا، ’’خاص طور سے چھٹی والے دن!‘‘
’’ہم لوگ کھلے میں نکل جایا کرتے تھے۔ اور طرح طرح کے کھیل کھیلتے تھے۔‘‘ اپنا بچپن یاد کرکے ممی تو آنکھوں میں چمک آگئی، ’’ہم سب بھائی بہن اپنے ہم جولیوں کے ساتھ تالاب پر چلے جاتے، پیڑوں پر چڑھتے، کودتے پھاندے.... اور پھر کہیں بیٹھ کر گپ شپ لڑاتے، قصے، کہانیاں ، نظمیں ، لطیفے سناتے، بیت بازی ہوتی، نقلیں اتارتے.... اتنا مزہ آتا کہ پوچھو مت....!‘‘
’’لیکن ممی.... اب وہ سب تو ہم یہاں شہر میں کرنے سے رہے۔‘‘ حلیمہ نے کہا۔
’’کیوں نہیں .... مانا یہاں کھیت کھلیان نہیں ، لیکن برآمدے میں یا لان میں کرسیاں ڈال کر تو بیٹھا جاسکتا ہے۔‘‘
شام کے کوئی ساڑھے چار بجے ہوں گے۔ ممی نے گھر کے باہر آم کے درخت سے لگے چبوترے پر کرسیاں ڈال دیں ۔ احمد اور حلیمہ کرسیوں پر نیم دراز ہوگئے۔ کھلی فضا میں تازگی اور فرحت محسوس ہوئی۔ دونوں آسمان میں اڑتے بادلوں کو دیکھتے رہے۔
’’احمد، دیکھو وہ بادل کا ٹکڑا.... بالکل ٹیڈی بیئر جیسا لگ رہا ہے.... ہے نا؟‘‘
’’اور اُس طرف.... وہ تو بالکل وھیل مچھلی جیسا نظر آرہا ہے۔‘‘
پھر اُن کی توجہ بادلوں سے ہٹ کر آس پاس پھیلی ہوئی جھاڑیوں کی طرف چلی گئی۔
’’ان پتّوں کی بناوٹ کیسی عجیب ہے؟‘‘ احمد نے ایک پتّی کو توڑ کر مسلا، ’’ان میں کیسی بھینی بو بسی ہوئی ہے۔‘‘ ’’اس پودے کی بالیاں تو بالکل انگوٹھی کی شکل لئے ہوئے ہیں ۔‘‘ ’’وہ دیکھو وہ فالسائی تتلیوں کا جوڑا۔ کتنا خوبصورت ہے!‘‘
ابھی وہ حیرت اور مسرت سے ہر ایک چیز کو دیکھ ہی رہے تھے کہ حمزہ اور عائشہ بھی آپہنچے۔ پھر تو اور بھی مزہ آنے لگا۔
سب نے مل کر پودوں ، پتّوں ، بادلوں ، پرندوں اور جانوروں پر بحث شروع کر دی۔ اُن میں سے بعض کے بارے میں انہوں نے اپنی سائنس کی کتاب میں پڑھ رکھا تھا۔ پھر کہیں سے بھوت پریت کا ذکر نکل آیا۔
حمزہ نے تو ایسے دلچسپ قصے سنائے کہ ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑ گئے۔ ابھی وہ باتوں میں مگن تھے کہ بجلی لوٹ آئی۔
ممی نے دروازے سے پکارا.... دونوں گھر میں داخل ہوئے تو ممی نے پوچھا، ’’کیوں ؟ بہت بور ہوئے نا؟‘‘
’’نہیں !‘‘ دونوں نے بیک آواز کہا، ’’ہم نے، عائشہ اور حمزہ نے مل کر بہت اچھا وقت گزارا۔ پتہ ہی نہیں چلا کب شام ہوگئی۔ اور اب تو لگ رہی ہے بڑے زوروں کی....‘‘
’’بھوک....‘‘ ممی نے ہنس کر کہا.... اور سب کھانے کی میز کی طرف چل پڑے جہاں ناشتہ پہلے ہی سے ان کے انتظار میں تھا۔