گیبرئیل گارسیا مارکیز کی شہرہ آفاق کہانی ’’اے ویری اولڈ مین وِد انورمس ونگز‘‘ A Very Old Man with Enormous Wings کا اُردو ترجمہ۔
EPAPER
Updated: December 22, 2023, 2:24 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
گیبرئیل گارسیا مارکیز کی شہرہ آفاق کہانی ’’اے ویری اولڈ مین وِد انورمس ونگز‘‘ A Very Old Man with Enormous Wings کا اُردو ترجمہ۔
بارش کے تیسرے دن انہوں نے گھر کے اندر اتنے کیکڑے مارے کہ پیلائیو کو ان کی لاشیں پانی میں ڈوبے صحن کو عبور کرکے سمندر میں پھینکنی پڑیں ۔ انہیں لگتا تھا کہ نوزائیدہ کو بخار اس بدبو کی وجہ سے ہوا ہے۔
منگل سے دنیا اداس تھی۔ سمندر اور آسمان کا رنگ سرمئی ہوگیا تھا۔ ساحل کی ریت رات میں چمکتی محسوس ہوتی مگر مچھلیوں کے مرنے کی وجہ سے وہاں ناگوار بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ دوپہر کے وقت روشنی اتنی کم تھی کہ جب پیلائیو کیکڑوں کو پھینک کر گھر واپس آ رہا تھا تو اس کیلئے یہ دیکھنا مشکل ہورہا تھا کہ صحن کے قریب کون سی چیز حرکت کررہی ہے اور کراہ رہی ہے۔ اسے دیکھنے کیلئے وہ کافی قریب گیا۔ یہ ایک بوڑھا آدمی تھا جو منہ کے بل کیچڑ میں گرا تھا۔ اس کی پیٹھ پر انتہائی بڑے اور خوبصورت پَر تھے۔ بے پناہ کوششوں کے باوجود وہ اٹھ نہیں پارہا تھا۔
تاہم، اس عجیب و غریب مخلوق کو دیکھ کر پیلائیو خوفزدہ ہوگیا۔ وہ فوراً اپنی بیوی ایلی سینڈا کو بلانے کیلئے دوڑا، جو بیمار بچے کی تیمار داری میں مصروف تھی۔ دونوں خاموشی سے اس بوڑھے شخص کو دیکھنے لگے۔ اس کا لباس قدیم یونانی طرز کا تھا۔ سر پر برائے نام بال تھے۔ منہ میں دانت بھی چند ہی تھے۔ بھیگے ہوئے پروں سے خوبصورتی کم ہوگئی تھی۔ بارش نے اس کی شان و شوکت چھین لی تھی۔اس کے بڑے بڑے پَر بدبودار کیچڑ میں پھنسے ہوئے تھے۔ کافی دیر تک اسے دیکھتے رہنے کے بعد ان میں اس سے بات کرنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ مگر اس کی زبان انہیں سمجھ میں نہیں آئی۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ کسی اور ملک کا باشندہ ہے جو کسی بحری جہاز سے گرنے کے بعد یہاں آ پھنسا ہے۔ پھر انہوں نے اپنی پڑوسن کو بلایا جو ایک ساحرہ تھی اور پورے گاؤں کو زندگی اور موت سے جڑے سوالوں کے جواب دیتی تھی۔
’’یہ ایک فرشتہ ہے۔‘‘ پڑوسن نے انہیں بتایا۔ ’’وہ تمہارے بیمار بچے کیلئے آیا ہوگا لیکن وہ اتنا بوڑھا ہے کہ تیز بارش کا سامنا نہیں کرسکا اور کیچڑ میں گر پڑا۔‘‘
اگلے دن پورے گاؤں کو معلوم پڑ گیا کہ پیلائیو کے گھر ایک فرشتہ قید ہے۔ پڑوسن کا کہنا تھا کہ فرشتے زمین پر اسی وقت گرائے جاتے ہیں جب وہ آسمان پر خدا کے خلاف سازش کرتے ہیں ، اس لئے انہیں اسے قتل کردینا چاہئے مگر پیلائیو فرشتے کو قتل کرنے کیلئے تیار نہیں ہوا اور اسے اپنی نگرانی میں رکھا۔ پیلائیو کے پاس مرغیوں کا بڑا ڈربہ تھا۔ اس نے فرشتے کو ڈربے میں قید کردیا۔ آدھی رات کو بارش رک گئی تو پیلائیو اور ایلی سینڈا پھر سے کیکڑوں کو مارنے میں لگ گئے۔ تھوڑی دیر بعد جب بچہ بھوک کے احساس کے ساتھ بیدار ہوا تو اس کا بخار اتر چکا تھا۔ انہیں خوشگوار حیرت ہوئی لہٰذا انہوں نے فرشتے کو تین دن کا سامان اور کشتی دے کر سمندر کی بلند لہروں پر چھوڑ نے کا فیصلہ کیا۔
علی الصباح جب وہ بیدار ہوئے تو دیکھا کہ صحن میں پورا محلہ جمع ہے اور سبھی ڈربے میں قید فرشتے کو دیکھ رہے ہیں ۔ لوگوں کے دلوں میں اس کیلئے کوئی رحم یا تعظیم نہیں تھی۔ وہ جالی سے کھانے پینے کی اشیاء فرشتے کی طرف اس طرح اچھال رہے تھے جیسے وہ کسی سرکس کا جانور ہو۔ فادر گونزاگا ۷؍ بجے سے پہلے وہاں پہنچ گئے۔ اس وقت کے تماشائی، صبح والے تماشائیوں کی طرح نہیں تھے۔ وہ اس مافوق الفطرت شخص کے مستقبل کے متعلق طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔ سادہ لوح افراد کا خیال تھا کہ اسے دنیا کا میئر بنادیا جائے۔ سخت مزاج لوگوں کا کہنا تھا کہ جنگیں جیتنے کیلئے اسے جنرل کے عہدے پر ترقی دی جانی چاہئے۔ خواب دیکھنے والوں نے امید ظاہر کی کہ اسے زمین پر رہنے کی جگہ دی جائے تاکہ زمین پر انسانوں کے ساتھ فرشتے بھی رہ سکیں ۔ فادر، جالی کے پاس کھڑے ہو کر فرشتے کو دیکھنے لگے اور پھر ڈربے کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔
فرشتہ مرغیوں کے درمیان کسی بڑی خستہ حال مرغی کی طرح نظر آتا تھا۔ وہ کونے میں پڑا اپنے کھلے پنکھوں کو سورج کی روشنی میں خشک کر رہا تھا۔ جب فادر ڈربے میں گئے اور لاطینی زبان میں اسے گڈ مارننگ کہا تو وہ ان کی طرف دیکھ کر اپنی زبان میں کچھ بڑبڑایا۔ فادر کو لگا کہ یہ کوئی دھوکے باز شخص ہے جو خدا کی زبان نہیں سمجھتا اور اس کے وزیروں یعنی پادریوں کو سلام کرنا نہیں جانتا۔ پھر فادر نے اسے مزید قریب سے دیکھا۔ وہ کسی انسان ہی کی طرح تھا۔ اس کے قریب سے بو آرہی تھی۔ اس کے پروں کے پچھلے حصے پر کیڑے لگ گئے تھے۔ اس مخلوق میں فادر کو فرشتوں جیسی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ وہ ڈربے سے باہر آئے، اور انہوں نے ایک مختصر خطبہ میں شوقین افراد کو اس مخلوق سے ہوشیار رہنے اور آنے والے خطرات سے خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ شیطان کی یہ بری عادت ہے کہ لوگوں کو الجھانے کیلئے وہ اس طرح کے حربوں کا استعمال کرتا ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ وہ اس مخلوق کے تعلق سے روم میں پوپ کو خط لکھیں گے، اس کے بعد ہی اس کے متعلق کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔
فرشتے کی خبر اس تیزی سے پھیلی کہ چند گھنٹوں کے بعد پیلائیو کے صحن میں بازار جیسی ہلچل مچ گئی اور انہیں ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے پولیس کو بلانا بڑا۔ ایلی سینڈا صحن کی صفائی کر کر کے تھک گئی۔ تبھی اسے داخلہ فیس کا خیال آیا۔ پھر انہوں نے فرشتے کو دیکھنے کیلئے پانچ سینٹ داخلہ فیس مقرر کردی۔ متجسس دور دور سے آئے۔ روئے زمین کے بیمار لوگ صحت کی تلاش میں آئے۔ عجیب عجیب بیماری والے افراد یہاں آنے لگے کہ فرشتہ ان کی مدد کرے گا۔ پیلائیو اور ایلی سینڈا بہت خوش تھے کہ ان کی تجوری سکوں سے بھرتی جارہی تھی۔ مگر زائرین کی قطار میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا ترجمہ: بغیر راز کا ابوالہول (آسکر وائلڈ)
فرشتہ ان سب سے بے خبر اپنی ہی دنیا میں مگن تھا۔ وہ اپنا سارا وقت ڈربے میں آرام کرنے میں گزارتا۔ لیمپ اور مقدس موم بتیوں نے ڈربے کی جالی گرما دی تھی۔ لوگ اس کی طرف عجیب عجیب چیزیں اچھالتے مگر وہ کچھ بھی کھانے کی کوشش نہیں کرتا۔ آخر میں اس بوڑھے آدمی نے بینگن کے سوا کچھ نہیں کھایا۔ اس کی واحد مافوق الفطرت خوبی ’’صبر‘‘ ہی تھی۔
ابتداء میں مرغیاں اس کے پروں پر لگے کیڑوں پر چونچیں مارتی تھیں مگر پھر انہوں نے بھی اس کے قریب جانا چھوڑ دیا۔ لوگ اس پر پتھر مارتے تھے تاکہ وہ کھڑا ہو تو اس کی شان و شوکت دیکھی جاسکے لیکن وہ صرف ایک بار کھڑا ہوا، وہ بھی اس وجہ سے کہ لوگوں نے اسے لوہے کی سلاخ سے صرف اس لئے جلایا تھا کہ وہ کافی دیر سے بے حس و حرکت پڑا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ فرشتہ مر گیا ہے۔ وہ اپنی زبان میں چیختے ہوئے بیدار ہوا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے اپنے پر پھڑپھڑائے اور ایسا لگا جیسے ڈربے میں دھوئیں کا طوفان آگیا ہو۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اس کا ردعمل غصے کا نہیں بلکہ اس درد کا تھا جو لوگوں نے اسے دیا تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے اسے چھیڑنا بند کردیا ۔
فادر گونزاگا اس مخلوق کے مستقبل کے متعلق پوپ کے فیصلے کا انتظا رکررہے تھے۔ مگر روم کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں معلوم ہورہی تھی۔ وہ ہر مرتبہ اس مخلوق کے بارے میں کوئی ایک بات جاننے کی کوشش کرتے تھے کہ کیا اس کی ناف ہے؟ کیا وہ آرامی زبان بولتا ہے؟ کیا اس کے پر حقیقی ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ۔
انہی دنوں میں گاؤں میں خانہ بدوشوں کا ایک ایسا گروہ آیا جس میں ایک لڑکی اپنے والدین کی نافرمانی کے سبب مکڑی میں تبدیل ہوگئی تھی۔ اسے دیکھنے کی داخلہ فیس فرشتے کی داخلہ فیس سے کم تھی۔ علاوہ ازیں ، لوگوں کو اس سے کسی بھی قسم کے سوالات پوچھنے کی آزادی تھی۔ لوگ اسے چھو بھی سکتے تھے۔ اس کا قد مینڈھے جتنا تھا۔ سر ایک اداس لڑکی کا تھا، اور نیچے کا دھڑ مکڑی کا۔ تاہم، سب سے زیادہ دل دہلا دینے والی چیز اس کی کہانی تھی۔ کہتے ہیں کہ وہ بچپن میں اپنے والدین کی مرضی کے خلاف رقص کیلئے کسی تقریب میں گئی تھی۔ جب وہ رات میں گھر لوٹ رہی تھی تو ایک خوفناک کڑک نے آسمان کو دو ٹکڑے کر دیا اور شگاف سے ایک خوفناک طوفان آیا۔ بجلی زور سے چمکی اور لڑکی مکڑی میں تبدیل ہوگئی۔ وہ اب صرف گوشت کے ٹکڑے کھاتی تھی۔
انسان ہو یا فرشتہ، دونوں ہی قسمت کے مارے تھے، اور اب انسانوں کا تماشا بنے ہوئے تھے۔ انسان کسی کی کہانی سن کر لطف اندوز ہورہا تھا اور کسی کے متعلق زیادہ سے زیادہ جاننے کا شائق تھا۔
فادر گونزاگا کئی دنوں سے سوئے نہیں تھے۔ مکڑی بن جانے والی لڑکی کے آنے کے بعد وہ چین کی نیند سوئے اور پیلائیو کا صحن بھی خالی ہوگیا۔
پیلائیو کے پاس اتنی رقم جمع ہوگئی تھی کہ اس نے اپنے پرانے مکان کو دو منزلہ حویلی میں تبدیل کرلیا تھا جس میں گیلریاں تھیں ، باغات تھے اور جالیاں تھیں تاکہ کیکڑے مکان میں داخل نہ ہوسکیں ۔ انہوں نے کھڑکیوں پر سلاخیں بھی لگا لی تھیں کہ کوئی فرشتہ ان کے گھر میں داخل نہ ہو۔ پیلائیو اور ایلی سینڈا کے انداز ہی بدل گئے تھے۔ وہ قیمتی لباس اور اونچی ایڑیوں والے جوتے پہننے لگے تھے۔ پورے مکان میں مرغیوں کا ڈربہ وہ واحد جگہ تھی جسے بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی البتہ وہ اسے خوشبو دار چیزوں سے اکثر دھوتے تھے لیکن فرشتے کی تعظیم میں نہیں بلکہ گوبر کی بو کو ختم کرنے کیلئے جو اَب بھی انہیں اپنے پرانے گھر کا احساس دلاتی تھی۔ جب بچے نے چلنا سیکھا تو وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ وہ ڈربے کے زیادہ قریب نہ جائے لیکن پھر ان کا خوف زائل ہونے لگا اور وہ اس کے عادی ہو گئے۔ ایک مرتبہ بچہ اس حصے سے ڈربے میں چلا گیا جہاں سے تاریں ٹوٹ رہی تھیں مگر فرشتے نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ کچھ دنوں بعد دونوں ہی چیچک کا شکار ہوگئے۔ بچے کی دیکھ بھال کرنے والا ڈاکٹر، فرشتے کے دل کی بات سننے کی اپنی خواہش پر قابو نہیں پاسکا۔ جب اس نے فرشتے کا معائنہ کیا تو اس کے دل کی دھڑکنیں سن کر حیران ہوگیا کیونکہ اس حالت میں اس کا زیادہ دنوں تک زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔ جس چیز نے اسے سب سے زیادہ حیران کیا وہ اس کے پروں کی منطق تھی۔ وہ اس کے انسانی جسم پر بالکل قدرتی تھے اور وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ دوسرے انسانوں کے پاس ایسے پر کیوں نہیں ہیں۔
جب بچے نے اسکول جانا شروع کیا تو دھوپ اور بارش کی وجہ سے ڈربے کی چھت گرگئی۔ اس دوران فرشتہ اپنی جان بچانے کیلئے کسی انسان ہی کی طرح یہاں وہاں بھاگ رہا تھا۔ پیلائیو اور ایلی سینڈا اسے جھاڑو لے کر بیڈ روم سے نکالتے تو وہ کچن میں نظر آتا، کچن میں جاتے تو برآمدے میں پہنچ جاتا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ ایک ہی وقت میں بہت سی جگہوں پر ہے۔ غصے بھرے اور بے ہنگم لہجے میں ایلی سینڈا نے چیخ کر کہا کہ فرشتوں سے بھرے اس جہنم میں رہنا خوفناک ہے۔
فرشتے کی خوراک بہت کم تھی۔ اس کی بصارت بھی کمزور ہوگئی تھی۔ وہ کم کھاتا تھا۔ یہاں وہاں بھاگتے ہوئے وہ اکثر ستونوں سے ٹکرا جاتا۔ اس کے پر بھی کئی طرف سے جھڑ چکے تھے۔ اب ڈربہ نہیں تھا۔ بوڑھا فرشتہ رہتا کہاں؟
پیلائیو نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے گھر سے باہر ایک چھجے کے نیچے رہنے کا موقع دیا اور اس کی طرف ایک پرانا کمبل اچھال دیا۔ تبھی پیلائیو اور ایلی سینڈا نے محسوس کیا کہ اسے تیز بخار ہے۔ انہیں یہ احساس بھی ہوا کہ شاید یہ فرشتہ مرنے والا ہے۔ مگر انہوں نے اسے بچانے کیلئے کچھ نہیں کیا۔
اس کے باوجود وہ زندہ رہا۔ قلفی جما دینے والی سردی میں بھی وہ زندہ رہا۔ تاہم، دھوپ والے دنوں میں اس کی صحت بہتر ہونے لگی۔ وہ دو منزلہ حویلی نما مکان کے باہر صحن کے سب سے دور کونے میں کئی دنوں تک بے حس و حرکت پڑا رہا، جہاں اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ پیلائیو اور ایلی سینڈا نے بھی اسے دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ نہ وہ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھتے تھے اور نہ ہی انہیں اس بات کی فکر تھی کہ اس کا بخار اترا ہے یا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ فرشتہ مرگیا یا زندہ ہے۔
دسمبر کے شروع میں اس کے پروں پر کچھ بڑے، اکڑے ہوئے پنکھ اُگنے لگے۔ یہ ڈراؤنے لگتے تھے۔ لیکن اسے ان تبدیلیوں کی وجہ معلوم تھی، تبھی وہ اس بات کا خیال رکھتا تھا کہ کوئی ان پروں پر توجہ نہ دے۔ وہ ستاروں بھرے آسمان کے نیچے اکثر ایسے گیت گاتا جو کسی کے سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ وہ گھنٹوں آسمان کو دیکھا کرتا تھا، جیسے کچھ تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہو۔
ایک صبح ایلی سینڈا دوپہر کے کھانے کیلئے پیاز کاٹ رہی تھی کہ سمندر کی جانب سے تیز ہوا باورچی خانے میں داخل ہوئی۔ وہ فوراً کھڑکی کے پاس گئی اور فرشتے کو پرواز کی کوشش کرتے دیکھا۔ وہ بے دھیانی میں اپنے پَر پھڑپھڑا رہا تھا۔ ہوا پر اس کی گرفت نہیں تھی۔ لیکن وہ زمین سے تھوڑا اوپر اٹھ گیا تھا۔ ایلی سینڈا نے راحت کا سانس لیا۔ پھر اس نے فرشتے کو ہوا میں بلند ہوتے دیکھا۔ چند لمحوں بعد وہ اپنے بڑے بڑے خوبصورت پروں کے ساتھ ہوا میں معلق تھا۔ اس کے پروں سے تیز ہوائیں نکل رہی تھیں۔ اس کی شان ہی نرالی تھی۔ ایلی سینڈا اس کی وجاہت کو دیکھتی رہ گئی۔ اس کے ہاتھ پیاز کاٹ رہے تھے مگر نگاہیں فرشتے پر جمی تھیں۔ پھر اس نے فرشتے کو آخری مکانات کے اوپر سے گزرتے دیکھا۔ وہ کسی بوڑھے گدھ کی طرح ہوا میں انتہائی شان و شوکت سے اُڑ رہا تھا۔ وہ فرشتے کو اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک وہ دور سمندر پر صرف ایک نقطے کی شکل میں نہیں رہ گیا، اور پھر آسمان شفاف ہوگیا۔ نقطہ غائب ہوگیا۔ سورج کی کرنوں نے اسے نگل لیا اور سمندر کی لہریں ساحل سے ٹکراتی رہیں۔