• Sun, 16 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

آدم خور بھول بھلیاں

Updated: February 15, 2025, 5:12 PM IST | Raees Siddiqui | Mumbai

مشکل وقت میں سمجھداری سے کام لینا چاہئے، یہ بات اس کہانی سے سکھئے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

آدم خوربھول بھلیاں!
 جی ہاں بھول بھلیاں!
 مَیں لکھنؤ کی بھول بھلیاں کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ اُس بھول بھلیاں کے بارے میں بتانے جارہا ہوں جو آج سے لگ بھگ تین ہزار سال قبل، جزیرہ کوپٹ کے نزدیک بنی ہوئی تھی۔
 اس بھول بھلیاں میں ایک آدم خور جانور ’مینو ٹور‘‘ رہتا تھا۔ اس کے سر پر جنگلی بھینس کی طرح نکیلی، لمبی اور مضبوط دھار دار سینگیں تھیں، جسم دریائی گھوڑے کی طرح بھاری اور دانت شیر کی طرح تیزتھے۔
 ’’مینو ٹور‘‘ سے ایک قدیم یونانی لوک کہانی جڑی ہوئی ہے، جو اس طرح ہے:
 ایک بار کا ذکر ہے کہ جزیرہ کوپٹ کے ظالم حاکم ’’منپوس‘‘ کے بیٹے کا یونان جانا ہوا اور وہ کسی وجہ سے وہیں قتل کردیا گیا۔
 اُس وقت یونان کا بادشاہ بہت کمزور تھا۔ اس لئے منپوس نے اس کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اس شرط پر معاف کیا کہ وہ ہر سال، بارہ نوجوان لڑکے لڑکیاں مینو ٹور آدم خور جانور پر بھینٹ چڑھانے کے لئے بھیجا کرے گا۔
 مرتا کیا نہ کرتا۔ اُس نے یہ شرط منظور کرلی اور شرط کے مطابق، وہ ہر سال بارہ معصوم لڑکے لڑکیوں کو موت کے حوالے کرتا رہا۔
 یونان کے بادشاہ کا ایک بیٹا بھی تھا۔ جب وہ جوان ہوا تو اس کو اس بے جا اور ظالمانہ شرط کا علم ہوا اور اسے اس بات سے بہت دکھ ہوا۔ لہٰذا بہادر شہزادہ نے اسی وقت آدم خور مینو ٹور کو قتل کرنے کا عزم کیا اور اپنے والد بادشاہ سے آئندہ کھیپ میں جانے کا اصرار کیا۔
 پہلے تو بادشاہ اپنے شہزادہ کی اس ضد پر راضی نہ ہوا لیکن آخرکار اسے اپنے اکلوتے بیٹے کی ضد ماننی پڑی۔
 مقررہ وقت پر، شہزادہ اپنے گیارہ ساتھیوں کے ساتھ، جزیرہ کوپٹ کے حاکم کے سامنے حاضر ہوا۔
 اس وقت دربار میں حاکم کی بیٹی بھی ایک عالی شان کرسی پر رونق افروز تھی۔
 شہزادی بھی یہ ظلم دیکھ کر اُکتا چکی تھی اور اس نے اس باہمت اور نڈر شہزادہ کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔
 چونکہ شہزادہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ لوگ آدم خور کے پاس ایک ایک کرکے بھیجے جائیں گے، اس لئے اس نے حاکم سے گزارش کی کہ سب سے پہلے اسے آدم خور کے حوالے کیا جائے۔
 اس کی درخواست منظور کرلی گئی اور وہ قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔
 جب شہزادے کا آدم خور پر بھینٹ چرھنے کا وقت قریب آیا تو شہزادی نے اسے رسّی کا ایک گولا دیا اور ہدایت کی کہ جب وہ بھول بھلیاں میں ڈھکیلا جائے تو وہ اس کا ایک سِرا دروازہ سے باندھ دے اور پھر دھیرے دھیرے رسی کو چھوڑتا ہوا اندر جائے اور جب وہ آدم خور جانور کو قتل کردے، تو اسی رسی کے سہارے باہر نکل آئے۔ اندر بہت بدبو ہوگی۔ اس بدبو سے لوگ بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ تمہیں اپنی ناک پر کپڑا باندھنا ہوگا۔ آدم خور کے نتھنوں سے بہت ڈراؤنی آواز نکلتی ہے جسے سن کر اکثر دل کی دھڑکن بند ہوجاتی ہے اور اس کا شکار خود بخود مر جاتا ہے۔ اس طرح آدم خور کو آسانی سے شکار مل جاتا ہے۔ تمہیں ان سب باتوں کا خیال رکھنا ہوگا اور موقع ملتے ہی بڑی ہمت اور بہادری سے اس کی گردن پر پہ در پہ وار کرنا ہوگا۔
 شہزادی کہتے کہتے رکی اور پھر ہاتھ بڑھا کر بولی کہ، ’’یہ چمکیلی نگ جڑی انگوٹھی پہن لو۔ اس کی چمک سے تم اسے اچھی طرح دیکھ سکو گے۔‘‘
 جب شہزادہ رات کے وقت آدم خور بھول بھلیاں کے اندر ڈھکیل دیا گیا تو اس نے شہزادی کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا شروع کیا۔
 ابھی وہ اندھیری بھول بھلیاں میں آہستہ آہستہ اپنے قدم بڑھا ہی رہا تھا کہ اسے آدم خور کے سانس لینے کی کرخت آواز سنائی دی۔
 اس نے اپنی تلوار میان سے نکالی اور اس کی گردن پر لگاتار کئی وار کرکے اسے قتل کردیا۔ پھراسی رسی کے سہارے وہ باہر آگیا۔
 اس طرح وہ بھول بھلیاں میں گم ہونے یا بے ہوش ہونے یا آدم خور کا نوالہ بننے سے بچ گیا۔
 اس کے بعد شہزادہ اپنے گیارہ ساتھیوں اور ساتھ ہی منپوس کی بیٹی سے شادی کرکے اپنے ملک یونان واپس آیا اور اپنے والد بادشاہ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا۔
 اس نے شہزادی کی مدد کا بھی تفصیل سے ذکر کیا۔
 بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اس نے شہزادی سے پوچھا، ’’بیٹی، تمہاری دانشمندی سے نہ صرف وہ آدم خور درندہ مارا گیا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کئی معصوموں کی جان بھی بچ گئی۔‘‘
 شہزادی نے بہت ادب لیکن اعتماد سے کہا، ’’ بزرگوں کا کہنا ہے کہ ہمیشہ مشکل حالات میں، تدبیر، سوجھ بوجھ، سمجھداری، ہمت اور حوصلہ کام آتا ہے، نہ کہ غصہ اور طاقت!‘‘
(کہانی کار مترجم، افسانہ نگار اور ادیب اطفال ہیں)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK