بچوں میں تجسس ہوتا ہے لہٰذا ارقم کے ذہن میں بھی الگ الگ سوال آتے ہیں۔
EPAPER
Updated: January 18, 2025, 3:29 PM IST | Mushtaq Karimi | Jalgaon
بچوں میں تجسس ہوتا ہے لہٰذا ارقم کے ذہن میں بھی الگ الگ سوال آتے ہیں۔
پرویز صاحب کو ارقم سے بڑی محبت تھی۔ ہوتی بھی کیوں نہیں، وہ تھا ہی بلا کا خوبصورت، ذہین اور باتونی، پھر ارحم سے چھوٹا بھی تھا۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ چھوٹے بچے سے والدین کی محبت کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ ارقم کو الگ الگ قسم کے پھل کھانے کا بہت شوق تھا۔ جبکہ ارحم کو بریانی بہت پسند تھی۔ ارقم اور ارحم دونوں بھائی ایک ہی اسکول میں پڑھتے اور ایک ہی آٹو رکشا میں اسکول جاتے۔
ارحم اب ساتویں جماعت میں پہنچ چکا تھا۔ عمر کے ساتھ اس کی سمجھداری بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے اب ضد بھی کم کردی تھی۔ اسکول تو وہ روزانہ جاتا ہی تھا۔ اس کے علاوہ دوپہر کو گھر لوٹنے کے بعد وہ کھانا کھاتا، ظہر کی نماز ادا کرتا، پھر تھوڑا سا آرام کر لیتا۔ اس طرح لوٹ پوٹ میں عصر کی نماز کا وقت آجاتا۔ عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ مسجد میں ہی سبق لینے بیٹھ جاتا۔ ارقم کبھی نماز کیلئے جاتا کبھی بہانہ بھی کرلیتا، گہری نیند سو جاتا مگر شام کے وقت دونوں بھائی اپنی اپنی سائیکلیں نکال لیتے اور کالونی کی چکنی سڑکوں پر دوڑاتے پھرتے۔ ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں کبھی ٹکرا بھی جاتے۔ کبھی چھوٹے موٹے زخم بھی آجاتے۔ آنسو بھی چھلک پڑتے۔ غلطی کسی کی بھی ہوتی تو ڈانٹ بیچارے ارحم کو ہی پڑتی کہ وہ عمر میں ارقم سے دو سال بڑا تھا۔ وہ یہ سمجھنے بھی لگا تھا کہ اسے ڈانٹ پڑتی دیکھ ارقم جلد نارمل ہو جاتا ہے۔ اس لئے وہ کبھی ڈانٹ سے ناراض نہیں ہوتا۔
دونوں کے والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ پرویز صاحب پونے کی ایک آئی ٹی کمپنی میں اونچے عہدہ پر تھے۔ جبکہ والدہ آفرین صدف نے گریجویشن کے بعد بی ایڈ کیا تھا۔ انہیں نوکری کا بہترین آفر بھی ملا تھا مگر پرویز صاحب نے منع کردیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی بیوی گھریلو ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائیں اور بچوں کی تربیت پر دھیان دیں۔ تا کہ ان کے بچوں کی ہر اعتبار سے تربیت ہو۔ وہ اچھائی اور برائی کے فرق کو پہچانیں۔ وہ صرف پیسہ کمانے کی مشین بن کر نہ رہ جائیں بلکہ اچھا، سچا، پکا اور نیک انسان بھی بنیں تاکہ وہ ملک کی ترقی اور انسانیت کی بھلائی میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ پرویز صاحب کا فیصلہ درست ہی تھا۔ آفرین صدف نے بچوں کی تربیت کو ہی اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھ جاتیں اور کاموں میں ایسے مصروف ہو جاتیں کہ انہیں اپنی صحت کی فکر بھی نہ رہتی۔ والدین کی قربانیوں کے بہترین نتائج برآمد ہونے لگے تھے۔ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آنے لگے تھے۔ دونوں بھائیوں کی شخصیت عمدہ سانچے میں ڈھلنے لگی تھی۔
’’ارقم مَیں نے آج تمہارے لئے دعا کی تھی۔‘‘ ارحم نے اپنا اسکول بیگ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’ارحم بھائی جان آپ نے میرے لئے کیا دعا کی تھی؟‘‘ ارقم نے جوتے اتارتے ہوئے سوال کیا۔
’’یہی کہ اسکول میں تمہیں آج سزا نہ ملے۔ تم آج موزے پہننا بھول گئے تھے نا۔‘‘
’’ارے ہاں! بہت شکریہ بھائی جان شاید آپ کی دعا کا ہی اثر تھا کہ میڈم کی نظر میرے پیروں پر نہیں پڑی۔‘‘
ہال میں یہ گفتگو سن کر سبھی ہنس پڑے۔ امی نے ارقم کو سینے سے لگا لیا اور دادی جان نے ارحم کا ماتھا چوم لیا۔
آج ارقم کا رویہ کچھ بدلا ہوا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ غصہ کی حالت میں ہے۔
’’امی جان! آج سے میں تمام مضامین نہیں پڑھوں گا۔‘‘ اس نے کھانا کھاتے کھاتے اچانک یہ بات کہہ دی۔
’’وہ کیوں بھئی! آخر ایسا کیا ہوگیا؟‘‘ امی نے بڑی حیرت سے پوچھا۔
’’جب اسکول میں ایک ٹیچر ایک ہی مضمون پڑھاتا ہے تو پھر ایک بچہ تمام مضامین کیسے پڑھ سکتا ہے امی؟ یہ تو سخت نا انصافی ہے نا۔‘‘
اس عجیب سے سوال پر امی مسکرا کر رہ گئیں۔
’’تمہارے ارحم بھیا بھی تو سبھی مضامین پڑھتے ہیں اور اب تک تو تمہیں بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ پھر آج ایسا کیا ہوگیا؟‘‘
’’میرے دوست ریحان نے مجھے یہ بتایا کہ اس کے ابو ایک ویڈیو دیکھ رہے تھے۔ جس میں ایک بچہ اپنے والدین سے یہی سوال کرتا ہے اور اس کے والدین ہنس پڑتے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ ویڈیو میں بچے کا اعتراض صحیح تھا۔ تبھی تو اس کے سوال پر سب ہنس پڑے۔‘‘
’’اچھا ارقو بیٹے ابھی اطمینان سے کھانا کھا لو، ہم تمہارا یہ سوال ابو کے سامنے ضرور رکھیں گے اور تمہیں انصاف دلانے کی پوری کوشش کرینگے۔‘‘
ارقم امی کی بات سن کر بہت خوش ہوا۔ اس کی خوشی کی دوسری وجہ کل کا اتوار بھی تھا۔ یعنی چھٹی کا دن جس کا اسے بڑی بے چینی سے انتظار رہتا تھا۔
رات کو جب پرویز صاحب گھر پہنچے تو موقع پاتے ہی آفرین صدف نے ارقم کا عجیب سوال انہیں سنا دیا۔
اتوار کی صبح بڑی خوشگوار تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ گھر کے سبھی افراد نے ایک ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا اور کچھ ساز و سامان لے کر کالونی کے باغیچے میں جا بیٹھے۔
ارقم کے ذہن میں وہی سوال گردش کر رہا تھا۔ اس نے اپنے ابو سے بھی پوچھ لیا، ’’ابو جان جب ایک ٹیچر ایک ہی مضمون پڑھاتا ہے تو پھر بچے کو بھی ایک ہی سبجیکٹ پڑھنا چاہئے نا؟‘‘
پر ویز صاحب مسکرا دئیے۔ انہوں نے بڑے پیار سے ارقم کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ پھر باسکٹ سے الگ الگ قسم کے پھل نکال کر دسترخوان پر سلیقہ سے سجا دئیے۔ درمیان میں سرخ رنگ کا سیب رکھ دیا۔ اس کے ارد گرد سبز امرود، تازہ سنترہ، انگوروں کا گچھا، پکا ہوا سیتا پھل، پیلا آم،کچھ ہرے کچھ لال بیر اور لیچی سے لدی ٹہنی رکھ دی۔ ان تمام تازہ رنگ برنگے اور خوشبو دار پھلوں کو دیکھ کر ارقم کے منہ میں پانی بھر آیا۔ کچھ دیر کے لئے وہ اپنا سوال بھول گیا۔
’’بولو بیٹے ارقم کیا کھانا پسند کروگے؟‘‘ ابو نے پھلوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ابو مَیں پہلے کچھ انگور کھاؤں گا۔ اس کے بعد سیتا پھل اور پھر کھٹا میٹھا سنترہ اور پھر سب سے آخر میں سیب۔‘‘
’’تم صرف ایک پھل کیوں نہیں کھاؤ گے؟ تمہاری نظر تو سبھی پھلوں پر ہے۔‘‘
’’ابو جان! آپ اتنا بھی نہیں سمجھتے، انگور کی مٹھاس، سیتا پھل کا گودا، سنترے کا کھٹا میٹھا رس، سیب کا سفید ٹیسٹی گودا کتنے مزیدار ہوتے ہیں۔ ہر پھل کا اپنا الگ مزہ ہوتا ہے۔‘‘
’’ہاں تو میرے پیارے ارقو! جس طرح ہر پھل کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر مضمون کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ اُردو میں مٹھاس ہے، انگریزی پوری دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہندی دیش کی بھاشا ہے، سائنس سے نئی سوچ پیدا ہوتی ہے، ریاضی حساب کتاب کا ماسٹر کہلاتا ہے، تاریخ سے پرکھوں کی معلومات ملتی ہے اور جغرافیہ سے دنیا کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے پیارے ارقو! بچے کو سبھی مضامین پڑھنے پڑتے ہیں اور آپ کے ٹیچرز نے بھی یہ سبھی مضامین پڑھے ہیں۔ بات سمجھ میں آئی؟‘‘
’’ہاں ابو بات کچھ تو سمجھ میں آئی ہے۔‘‘ ارقم نے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا، ’’مَیں بھی سبھی مضامین دل لگا کر پڑھوں گا۔ اب مَیں کھانا شروع کروں؟‘‘ ارقم نے پھلوں کی جانب بڑھتے ہوئے کہا۔ ابو نے مسکراتے ہوئے اشارہ کیا اور ارقم پھلوں پر ٹوٹ پڑا۔