معروف امریکی ادیب ایمبروس بیئرس کی شہرہ آفاق کہانی ’’بی یونڈ دی وال‘‘ Beyond The Wall کا اُردو ترجمہ۔
EPAPER
Updated: March 30, 2024, 3:44 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
معروف امریکی ادیب ایمبروس بیئرس کی شہرہ آفاق کہانی ’’بی یونڈ دی وال‘‘ Beyond The Wall کا اُردو ترجمہ۔
برسوں پہلے ہانگ کانگ سے نیویارک جاتے ہوئے، مَیں نے ایک ہفتہ سان فرانسسکو میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ مَیں ایک طویل عرصے سے ہانگ کانگ میں رہائش پذیر تھا۔ میرا تعلق امیر طبقہ سے تھا اور مَیں دنیا گھومنے کی استطاعت رکھتا تھا۔ مَیں امریکہ آتا تو اپنے اسکول اور کالج کے دوستوں سے ضرور ملتا۔ اسکول اور کالج میں ہمارا گروپ لیڈر موہون ڈیمپیئر تھا جس سے میری خط وکتابت برسوں سے جاری تھی۔ میلوں کے فاصلوں نے بھی ہماری دوستی میں حائل نہیں ہوئے تھے مگر اس سے ملے کافی عرصہ ہوگیا تھا۔ وہ علمی ذوق رکھنے والے ایک خوبصورت اور مضبوط شخص تھا۔ اسے کام کرنا نہیں پسند تھا۔ اسے وراثت میں اتنا کچھ ملا تھا کہ وہ سیکڑوں سال کام نہ کرکے بھی پرتعیش زندگی گزار سکتا تھا۔ اس کا خاندان ملک کے قدیم ترین خاندانوں میں سے ایک تھا۔ موہون جذباتی قسم کا انسان تھا اور اس میں توہم پرستی کا عنصر بھی تھا جس کی وجہ سے وہ ایسے مضامین کا بھی مطالعہ کرتا تھا جو توہم پرستی کے متعلق ہوں۔ وہ خود ایک مصنف تھا۔ تاہم، اس کا کوئی بھی ناول اب تک شاہکار ثابت نہیں ہوسکا تھا۔
کیلیفورنیا میں موسم سرد تھا۔ آج مَیں موہون سے ملاقات کرنے والا تھا۔ رات طوفانی تھی۔ ویران گلیوں میں مسلسل بارش برس رہی تھی اور ہوا کے آوارہ جھونکے کھڑکیوں پر سر پٹخ رہے تھے۔ میرا ڈرائیور مجھے ایک کم آبادی والے مضافاتی علاقے میں ساحل کی طرف لے گیا جہاں موہون کی رہائش گاہ تھی۔ اس کا مکان اپنی کشش کھوچکا تھا۔ ایک ویران میدان جو پھولوں اور گھاس سے محروم تھا، کے درمیان اندھیرے میں ڈوبا ہوا اس کا مکان عجیب و غریب لگ رہا تھا۔ تین یا چار درخت تھے جو طوفان کی شدت سے کراہتے محسوس ہورہے تھے۔ مکان دو منزلہ اینٹوں کا ڈھانچہ تھا جس کے ایک کونے میں ایک ٹاور تھا جو ایک منزل اونچا تھا۔ اس کی صرف ایک کھڑکی ہی میں روشنی نظر آرہی تھی۔ اس جگہ کی ظاہری شکل نے میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑا دی۔ مَیں دروازے کے قریب پہنچا تو وہاں ایک بورڈ نصب تھا جس پر درج تھا، ’’کھٹکھٹاؤ مت، دروازہ کھولو اور اوپر آجاؤ۔ ‘‘ مَیں نے ایسا ہی کیا۔ دروازہ کھولا تو مدھم روشنی میں سیڑھیاں اوپر جاتی نظر آئیں۔ میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا روشن کھڑکی والے کمرے میں پہنچ گیا۔
موہون گاؤن اور چپل میں میرے استقبال کیلئے آگے بڑھا۔ اس کی گرمجوشی نے میرے خوف کو قدرے کم کیا۔ وہ اب پہلے جیسا خوبصورت اور مضبوط نہیں نظر آرہا تھا۔ اپنی عمر سے کافی بڑا نظر آرہا تھا۔ اس کے بال سرمئی ہوچکے تھے، پیٹھ پر ہلکا سا خم آگیا تھا۔ شکل پتلی اور تکونی ہوگئی تھی۔ چہرے پر لکیریں واضح تھیں۔ رنگ بالکل سفید کسی لاش کی طرح تھا۔ اس کی آنکھیں، غیر فطری طور پر بڑی لگ رہی تھیں جن میں شعلوں جیسی چمک تھی۔
اس نے مجھے ایک کرسی پر بٹھایااور بڑی سنجیدگی اور خلوص سے یقین دلایا کہ اسے مجھ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ اس کے بعد کچھ غیر اہم گفتگو ہوئی لیکن ہر وقت مجھ پر اس کے اندر ہونے والی زبردست تبدیلی کے اداس احساس کا غلبہ قائم رہا۔ یہ اس نے محسوس کیا تبھی گہری مسکراہٹ کے ساتھ اچانک کہنے لگا ’’ `تم مجھ سے مل کر اداس ہو؟‘‘ اس نے لاطینی زبان میں پوچھا۔
میری لاطینی زبان اچھی نہیں تھی، مَیں نے بمشکل ’’نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے، ‘‘ کہا۔
وہ کہنے لگا، ’’لاطینی زبان آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے۔ لیکن صبر کریں۔ جہاں میں جا رہا ہوں وہاں شاید اس سے بہتر زبان ہو۔ کیا تم اس زبان میں کوئی پیغام دینا چاہوگے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی مسکراہٹ مدھم پڑ گئی۔ مَیں اس کی بات سن کر پریشان ہوگیا تھا۔ وہ مرنے کے بعد دوسری دنیا میں جانے کی بات کررہا تھا۔ میں خاموش رہا کیونکہ ہماری گفتگو نے ایک مایوس کن موڑ لے لیا تھا۔
اچانک، طوفان کی آواز تھم گئی، اور میں نے مکمل خاموشی میں اپنی کرسی کے عقب والی دیوار پر دستک سنی۔ مَیں نے فوراً موہون کی طرف دیکھا مگر وہ اپنے خیالوں میں گم تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ میری موجودگی کو بھول گیا ہے اور اپنی آنکھوں میں عجیب تاثر لئے میرے پیچھے والی دیوار کو گھور رہا تھا۔
مَیں رخصت لینے کیلئے اٹھا تو اس نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ ’’براہ کرم بیٹھ جاؤ؟‘‘ اس نے کہا۔ ’’کوئی نہیں ہے وہاں۔ ‘‘ لیکن تبھی دیوار پر ہلکی دستک پھر سنائی دی۔
’’کوئی بات نہیں۔ آج دیر ہوگئی ہے۔ کل فون کرکے آتا ہوں۔ ‘‘ میں نے کہا۔ مجھے لگا دیوار کے اس پار کوئی ہے جو موہون کا انتظار کررہا ہے۔
وہ میکانیکی انداز میں مسکرایا اور کہنے لگا، ’’یہ ٹاور کا واحد ایسا کمر ہ ہے جس کی دیوار کے پیچھے کچھ نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے جملہ ادھورا چھوڑا، اور اٹھ کر عقبی دیوار پر موجود کھڑکی کھول دی۔ دیکھو کچھ نہیں ہے۔ مَیں اس کے پیچھے کھڑکی تک گیا اور باہر دیکھا۔ کچھ فاصلے پر سڑک پر روشن ایک چراغ نظر آیا جو بارش میں کافی دھندلا ہوگیا تھا۔ ہلکی پھوار پھر سے موسلا دھار بارش میں تبدیل ہوگئی تھی۔ دیوار کے اس پار کچھ نہیں تھا۔ وہاں سے بیرونی منظر نظر آتا تھا۔ اس طرف کوئی کمرہ نہیں تھا۔ لیکن مجھے پورا یقین تھا کہ دستک اسی دیوار پر دی گئی تھی۔
موہون نے کھڑکی بند کر دی اور ہم دوبارہ اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ یہ واقعہ پراسرار تھا مگر میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ موہون نے مجھے اتنی وضاحتیں کیوں پیش کی ہیں۔ اس نے یہ تک ثابت کر دیا تھا کہ وہاں کوئی نہیں ہے۔ مجھے اس کی خاموشی پریشان کر رہی تھی۔
’’میرے اچھے دوست! مَیں نہیں چاہتا کہ تم میری وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہوجاؤ۔ تم آرام کرو۔ مَیں ہوٹل جاتا ہوں۔ تم سے کل بات کروں گا۔ ‘‘
مگر میری باتوں کا اس پر کوئی اثرا نہیں ہوا، کہنے لگا، ’’براہ کرم، یہاں رُکو میرے ساتھ۔ میں تمہاری موجودگی کاشکر گزار ہوں۔ ابھی تمہیں جو آواز سنائی دی ہے، مَیں اسے دو بار پہلے بھی سن چکا ہوں۔ تم بیٹھو۔ مَیں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ ‘‘
بارش کا زور اب کم ہوگیا تھا۔ اچانک کسی درخت کی کمزور شاخ تیز آواز کے ساتھ ٹوٹی۔ ہوا کبھی تیز ہوتی، کبھی دھیمی، اور کبھی بالکل تھم جاتی۔ رات گہری ہوتی جارہی تھی، لیکن ہمدردی اور تجسس دونوں نے مجھے اپنے دوست کی زبانی ایک کہانی سننے کیلئے روک لئے۔
`’’دس سال پہلے، ‘‘ اس نے کہنا شروع کیا:
`شہر کے دوسرے سرے پر بنائے گئے ایک جیسے نظر آنے والے ’’رو ہاؤسیز‘‘ میں سے مَیں نے ایک میں پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس علاقے کو رنکن ہل کہتے ہیں۔ یہ سان فرانسسکو کا بہترین حصہ تھا۔ میرا مکان گلی سے تھوڑا پیچھے تھا۔ ہر مکان کے سامنے ایک چھوٹا باغ تھا جسے لوہے کی باڑ کے ذریعے الگ کیا گیا تھا۔ ایک صبح جب میں اپنے مکان سے نکل رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی بائیں طرف سے ملحقہ باغ میں داخل ہو رہی ہے۔ یہ جون کا ایک گرم دن تھا، اور وہ ہلکے سفید لباس میں ملبوس تھی۔ اس کے کندھوں پر بھوسے کی چوڑی ٹوپی لٹکی ہوئی تھی جسے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ وہ انتہائی خوبصورت تھی۔ خدا نے اسے اس قدر حسین بنایا تھا کہ مَیں زیادہ دیر تک اسے دیکھ نہ سکا بلکہ میرا سر لاشعوری طور پر جھک گیا، ٹھیک اسی طرح جیسے عیسائی، مریم کو دیکھ کر عقیدت سے سر جھکا لیتے ہیں۔ اس پر لڑکی نے کوئی ناراضگی ظاہر نہیں کی۔ اس نے محض اپنی شاندار سیاہ آنکھوں سے مجھ پر ایک نظر ڈالی اور اپنے مکان میں داخل ہو گئی۔ ایک لمحے کیلئے مَیں بے حس و حرکت کھڑارہا۔ پھر باہر نکل گیا۔ وسط دوپہر میں مَیں دوبارہ باغ میں آیا تاکہ اس کی ایک جھلک دیکھ سکوں۔ لیکن وہ مجھے دوبارہ نظر نہیں آئی۔
میرا دل قدرے بےچین تھا۔ رات ناامیدی اور مایوسی میں بسر ہوئی۔ اگلے دن جب میں محلے میں بے مقصد گھوم رہا تھا تو وہ مجھے دوبارہ نظر آئی۔ اس مرتبہ مَیں نے کوئی حماقت نہیں کی۔ تبھی اس نے اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں سے مجھے دیکھا اور میرا دل زور زور سے دھڑنکنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں شناسائی تھی۔ اس کے بعد وہ مجھے کئی مرتبہ نظر آئی مگر ہم نے کبھی ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کی کوشش نہیں کی۔
تاہم، محلے کے دیگر لوگوں سے مجھے اس کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا، وہ یہ تھا کہ وہ ایک یتیم لڑکی تھی جو اپنی عمر رسیدہ خالہ کے ساتھ رہتی تھی۔ اس وقت میری آمدنی کم تھی۔ مَیں اپنے خاندان سے دور رہ رہا تھا مگر مَیں نے سوچا کہ اس لڑکی کو سہارا دینے کیلئے مجھے اس سے شادی کرلینی چاہئے۔ جب اس بارے میں مَیں نے اپنے والد کو بتایا تو وہ سخت ناراض ہوئے۔ انہوں نے مجھے احساس دلایا کہ مَیں کس قدر اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور مجھے ایک کم درجہ لڑکی سے شادی نہیں کرنی چاہئے۔ چونکہ اس وقت مَیں اپنےپیروں پر نہیں کھڑا ہوا تھا اس لئے مجھے اپنے والد کی بات ماننی پڑی۔ اس کے بعد سے مَیں نے اس لڑکی کو دیکھنے یا ملنے سے گریز کرنے لگا حتیٰ کہ باغ میں جانا بھی بند کردیا۔ لیکن اس کے خیالوں سے پیچھا نہیں چھڑا سکا۔
مَیں جس مکان میں رہتا تھا وہاں کی مالکن نے ایک مرتبہ باتوں میں باتوں میں بتایا کہ میرے اور اس لڑکی کے بیڈروم کی دیوار ایک ہی ہے۔ دیوار کی اس جانب اس کا بیڈروم ہے اور دوسری جانب میرا۔ چنانچہ ایک رات مَیں نے ایک احمقانہ حرکت کی۔ مَیں نے دیوار پر ہلکی دستک دی مگر اس جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔
ایک گھنٹہ بعد مجھے دیوار کی اس جانب سے دستک کی آواز آئی۔ یہ میری دستک کا جواب تھا۔ مَیں فوراً اپنے بستر سے نکلا اور دیوار کی طرف لپکا۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ مَیں نے تین بار دستک دی۔ دوسری جانب سے تین دستک آئیں۔ میرے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ اگلی شام، اور اس کے بعد کئی شاموں تک، میری یہ حماقت جاری رہی۔ ہمیشہ آخری دستک میری ہوتی۔ اس عرصے میں مَیں بہت خوش تھا مگر مَیں نے اس لڑکی سے ملنے یا بات کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ پھر ایک دن ایسا آیا جب دوسری جانب سے دستک کا جواب نہیں دیا گیا۔ مجھے لگا شاید وہ مجھ سے ناراض ہے کہ مَیں اس سے ملاقات کی کوشش کیوں نہیں کررہا ہوں۔
شاید وہ یہ سوچ رہی ہوکہ میں کس قدر بزدل ہوں جو اسے دیکھنے سے بھی پرہیز کررہا ہوں۔ اس دن مَیں نے عزم کیا کہ مَیں اس سے ملاقات کروں گا۔ پھر مَیں نے باغ میں نکلنا اور محلے میں بلا مقصد گھومنا شروع کردیا مگر تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ وہ مجھے کہیں نہیں ملی۔ دن بدن میری بے چینی بڑھنے لگی۔ اس نے دستک کا جواب دینا چھوڑ دیا تھا۔ میں انتہائی افسردہ ہوگیا۔ یہ مان کر کہ وہ غالباً اپنی خالہ کو چھوڑ کر کہیں چلی گئی ہے، مَیں نے مالکن سے اس کے متعلق دریافت نہیں کیا۔ ویسےبھی مالکن اسے زیادہ پسند نہیں کرتی تھی۔ پھر ایک بھیانک رات آئی۔ مَیں گزشتہ چند راتوں کی طرح آج بھی افسردگی کے عالم میں سوچکا تھا۔ آدھی رات گزر چکی تھی، تبھی کسی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ یہاں وہاں دیکھا تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ دفعتاً پھر وہی آواز آئی۔ اور مَیں اچھل پڑا۔ آواز اسی دیوار سے آرہی تھی جہاں میں کئی دنوں تک دستک دیتا اور وصول کرتا رہا تھا۔ یہ ہمارا مانوس سگنل تھا۔ تین بار دستک۔ کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ پھر سے دستک سنائی دی۔ شاید دوسری جانب والا اس کے جواب کیلئے بے قرار تھا۔ مَیں جواب دینے ہی والا تھا کہ میری انا آڑے گئی۔ اس لڑکی نے مجھے ہفتوں تک نظر انداز کیا تھا۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اسے نظر انداز کروں گا۔ ساری رات میں جاگتا رہا، وہاں سے دستک سنائی دیتی رہی لیکن میں اپنی انا اور ضد میں بستر پر لیٹا رہا۔ اس کی دستک کا کوئی جواب نہیں دیا۔
اگلی صبح دیر گئے جب میں گھر سے نکل رہا تھا تو مالکن دروازے پر ملی گئی۔ ’’صبح بخیر، مسٹر ڈیمپیئر، ‘‘اس نے کہا۔ ’’کیا آپ نے خبر سنی؟‘‘
صبح بخیر کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ مَیں نے کوئی خبر نہیں سنی ہے۔ انداز یہی تھا کہ مجھے خبر سننے میں دلچسپی بھی نہیں ہے۔
’’ہمارے پڑوس میں رہنے والی وہ لڑکی، ‘‘ مالکن بڑبڑانے لگی، ’’کیا! تمہیں معلوم نہیں کہ وہ ہفتوں سے بیمار ہے۔ اور اب...‘‘
مَیں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا، ’’اور اب... اور اب کیا؟‘‘
’’وہ مر گئی ہے۔ ‘‘
کہانی ابھی پوری نہیں ہوئی ہے۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ہفتوں شدید دماغی بخار میں مبتلا رہنے کے بعد جب گزشتہ رات اسے ہوش آیا تھا تو اس نے اپنی خالہ سے کہا تھا کہ اس کا بستر سامنے والی دیوار سے لگا دیا جائے، اس دیوار سے جس کی دوسری جانب مَیں تھا۔ یہ اس کا آخری جملہ تھا۔ اس کی خواہش پر بستر دیوار سے لگا دیا گیا تھا۔ اور دیوار کی دوسری جانب بسترمرگ پر پڑی بے چاری لڑکی نے دیوار سے جڑے ہمارے ٹوٹے تعلق کو جوڑنے کی کوشش کررہی تھی۔ وہ بہت معصوم تھی۔ اس کی وفاداری نے ہمارے درمیان جذبات کا ایک سنہری دھاگہ بُن دیا تھا۔
مَیں اس کی وفاداری کا کیا بدلہ دے سکتا تھا؟ کیا دنیا میں ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ مرنے کے بعد ان کی روحیں کبھی اوپر نہیں جاتیں بلکہ ایسے طوفانوں میں آوارہ ہواؤں کے ساتھ اڑتی پھرتی رہتی ہیں ؟ وہ اندھیرے کی ساتھی بن جاتی ہیں اور روشنی میں رہنے والے انسانوں کیلئے برا خواب بن جاتی ہیں۔
آج اس کا تیسرا دورہ ہے۔ اس کے انتقال کے بعد جب مَیں نے پہلی بار دیوار پر دستک سنی تھی تو مجھے لگا تھا کہ میرا وہم ہے اور مَیں نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔ دوسری مرتبہ، اس نے کئی بار دستک دی تھی مگر جب مَیں نے جواب دیا تو کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ آج تیسرا موقع ہے۔ اس کی دستک مجھے خوف میں مبتلا کررہی ہے۔
جب موہون ڈیمپیئر اپنی کہانی ختم کر چکا تو میرے پاس پوچھنے کیلئے کوئی سوال نہیں تھا۔ مَیں صرف اظہار ہمدردی ہی کرسکتا تھا۔ مَیں نے اپنی جگہ سے اٹھ کر اسے شب بخیر کہا۔ ہمدردی سے اس کا کندھا تھپتھپایا۔ اس نے میرے ہاتھ کی پشت پر ہلکا دباؤ ڈالا۔ پھر مَیں وہاں سے نکل آیا۔
اگلے دن مجھے خبر ملی کہ موہون ڈیمپیئر اسی رات اپنے تنہا پن، دکھ اور پچھتاوے کے ساتھ نامعلوم دنیا میں پرواز کرگیا ہے۔