Inquilab Logo Happiest Places to Work

بلی کا بچہ

Updated: April 04, 2025, 8:35 PM IST | Rajinder Singh Bedi | Mumbai

سامنے کسی حادثے کی وجہ سے ٹریفک رُک گئی تھی۔ جہاں سے ٹریفک رُکنا شروع ہوئی تھی وہاں کچھ دو منزلہ بسیں کھڑی تھیں۔ آخری بس کے پیچھے آٹو ایکسپریس لکھا تھا اور وہ سانتاکروز ڈپو جا رہی تھی۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

سامنے کسی حادثے کی وجہ سے ٹریفک رُک گئی تھی۔ جہاں سے ٹریفک رُکنا شروع ہوئی تھی وہاں کچھ دو منزلہ بسیں کھڑی تھیں۔ آخری بس کے پیچھے آٹو ایکسپریس لکھا تھا اور وہ سانتاکروز ڈپو جا رہی تھی۔ اُس کے پیچھے کاریں، وین اور ٹھیلے وغیرہ تھے جن میں سے لوگ لپک لپک کر موقع واردات پر پہنچ رہے تھے۔ کچھ لوگ گاڑیوں میں بیٹھے پاں پاں، ٹاں ٹاں کر رہے تھے اور کچھ اِدھر اُدھر ہو کر نکل جانا چاہتے تھے۔ لیکن سب ایک گھٹی ہوئی لائن میں پھنس چکے تھے۔ اگر کوئی نکلتا بھی تو مخالف سمت سے آتی ہوئی گاڑیاں اُسے جگہ نہ دیتیں۔
مَیں بھاگ کر بس لینڈنگ پر جا کھڑا ہوا۔ جہاں سے مَیں نے دیکھا وہ نظارہ جو میں زندگی بھر نہ بھولوں گا۔ ایک بلّی کا بچہ بائیں حصے پر تقریباً سڑک کے بیچ بیٹھا ہوا تھا اور بس کے ڈرائیور، کنڈکٹر اور دوسرے لوگ اُسے ہٹانے بھگانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہورہا تھا۔
وہ بے حد خوبصورت تھا۔ اُس کا رنگ سفید تھا جس پر کہیں کہیں شربتی چھینٹے دکھائی دیتے تھے۔ آنکھوں پر دو گہرے نارنجی سے داغ تھے۔ جن میں سے اُس کی پیلی چمکتی ہوئی آنکھیں اور بھی پیلی چمکیلی دکھائی دے رہی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کوئی عورت کچھ بنتی ہوئی اِدھر سے نکلی ہے اور اُس کے پرس یا ٹوکری میں سے اون کا گولہ سڑک پر گر گیا ہے۔
ایک طرف آٹو ایکسپریس تھی۔ قریباً بارہ فٹ اونچی اور دوسری طرف تھا وہ بلّی کا بچہ۔ بس کے بازو میں ایک ٹھیلے والا تھا جس کے ٹھیلے پر تیزاب کی بڑی بڑی بوتلیں پڑی تھیں۔ گویا ایک طرح کا بارود تھا جو ذرا سی ٹھوکر لگنے پر پھٹ سکتا تھا۔ وہ اپنی گھبراہٹ میں پسینہ پسینہ ہورہا تھا۔ بلّی کے بچّے کے پاس پہنچتے ہوئے ٹھیلے والے نے دونوں ہاتھ اُس کی طرف جوڑ دیئے اور بولا، ’’اب اُٹھ جا میرے باپ! بہت دیر ہوگئی۔‘‘
اُسے آگے بڑھتے دیکھ کر بلّی کا بچہ پھر تننے لگا۔ ٹھیلے والا ذرا ڈر کر پیچھے ہٹا تو بلّی کے بچّے نے اطمینان کے اظہار میں ایک نہایت ہی لطیف مترنم سی آواز نکالی، ’’مَیں آؤں؟‘‘
اس پر سب ہنس پڑے اور بس کا ڈرائیور بولا، ’’ہاں حضور! آپ آیئے۔‘‘
تب تک کچھ اور ٹریفک پیچھے رُک گئی تھی اور ڈرائیور ہارن بجا رہے تھے۔ ایک مرسیڈیز سے کوئی خوبرو نوجوان نکلا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا منظر پر چلا آیا۔ پہلے تو وہ بلّی کے بچّے کی طرف دیکھ کر ٹھٹکا۔ پھر اُس نے سب کو پیچھے ڈھکیل کر ایک وار سے قصہ ہی پاک کر دینا چاہا۔ جبھی لوگ لپکے، ’’ہے ہے.... ہے ہے....‘‘ کی آواز بلند ہوئی اور وہ خوش پوش نوجوان اپنے ارادے کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ ’’کیا بکواس ہے!‘‘ وہ بولا، ’’گیارہ بجے میرا جہاز پرواز کرے گا۔‘‘
لوگ اُس کی طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے اُس کی روح بھی پرواز کر جائے تو پروا نہیں۔ نوجوان نے غصے سے ہاتھ اپنی پتلون کی جیبوں میں ٹھونس لئے اور پسپا ہوگیا اور پھر مجبور و مقہور لوٹ گیا، بکتا جھکتا ہوا۔
’’یہ اِسی ملک میں ہوسکتا ہے۔ ایک بلّی کا بچہ اتنے بڑے شہر کی ٹریفک روک سکتا ہے۔‘‘ ایک نے مسخرگی کی، ’’پولیس کو بلوایئے صاحب!‘‘
نوجوان نے پیر زمین پر مارا اور بولا، ’’مَیں ابھی ٹیلی فون کرتا ہوں۔ فائر بریگیڈ والوں کو۔‘‘
اور سب ایک آواز میں ہنس دیئے۔ تبھی مجمع میں سے آواز آئی، ’’گیا.... گیا....‘‘
سب نے تالی بجائی اور ہنستے، کلکاریاں مارتے ہوئے اپنی اپنی گاڑی کی طرف لپکے۔ لیکن وہ بلّی کا بچہ بڑی تمکنت سے چلتا ہوا اب دائیں طرف تقریباً سڑک کے بیچ میں دھرنا مار کر بیٹھ گیا۔ اب مخالف سمت کی ٹریفک رُکنا شروع ہوئی۔ بائیں طرف سے نکل جانے کا کوئی راستہ نہ تھا۔
کوئی فضول سی زندگی کو روندتا ہوا نکلنا بھی چاہتا تو لوگ اُسے روک دیتے پھر وہی منظر دُہرایا جانے لگا۔ عجیب نادر شاہی تھی بلّی کے بچّے کی اور عجیب تخت ِ طاؤس تھا اُس کا! بیٹھنا ہی تھا تو کہیں اور بیٹھتا، اتنی جگہ تھی اُس کے لئے۔
شاید بلّی کے بچّے کا مطلب تھا، دھرتی کے اس حصے پر تمہارا حق ہے تو میرا بھی ہے۔ مَیں اس پر کھیلوں گا۔ اور وہ کھیلنے لگا۔ وہ تھوڑی سی جست بھرتا اور کچھ خیالی چوہے پکڑ کر پھر وہیں آبیٹھتا۔ اور سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا، ’’تم تو دن رات اس پر چلتے ہو۔ آج مَیں آبیٹھا ہوں تو آفت آگئی۔ تم تو بڑی بڑی مشینوں کے ساتھ دندناتے پھرتے ہو۔ مَیں چلتا ہوں تو آواز بھی نہیں ہوتی۔ شور روکنے کے لئے پیروں میں گدّے باندھ رکھے ہیں۔ اور یہ ناخن تو صرف بچاؤ کے لئے ہیں۔ ایک رول تمہارا ہے، ایک میرا۔‘‘
معاملہ مذاق کی حد سے بڑھا جا رہا تھا۔ تبھی بھیڑ کے بیچ سے کسی بچّی کی آواز آئی، ’’میرا سومو!‘‘ ایک جھٹکے کے ساتھ بچّے نے سَر اُٹھایا، ایک جست لی اور نیچے آرہا۔ اُسے کوئی بوٗ آگئی تھی۔ مُنّی، پڑوس کی ایک لڑکی مٹّی کی ٹھلیا میں دودھ لے آئی تھی جس میں منہ ڈال کر بلّی کا بچہ پُرپُر دودھ پی رہا تھا۔
جب ہم گاڑی میں بیٹھ کر درشن کے فلیٹ کی طرف چلے تو مُنّی بلّی کے بچے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتی ہوئی کہہ رہی تھی، ’’تم کتنے گندے ہو سومو!‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK