یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں کمسنی کی دہلیز پار کرکے لڑکپن میں قدم رکھ چکا تھا۔
EPAPER
Updated: March 01, 2025, 2:02 PM IST | M Akram | Mumbai
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں کمسنی کی دہلیز پار کرکے لڑکپن میں قدم رکھ چکا تھا۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں کمسنی کی دہلیز پار کرکے لڑکپن میں قدم رکھ چکا تھا۔ ہمارا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا جس میں ہم سات افراد شامل تھےامی، ابا، ہم تین بھائی اور ہماری نابینا دادی۔ ہمارا گھر چھوٹا مگر محبت سے بھرا ہوا تھا اور ہماری زندگی بھی عام گھروں کی کہانی جیسی ہی تھی... سادہ، مگر یادگار لمحوں سے مزین۔
اُس روز بھی سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ سورج سروں پر چمک رہا تھا، دوپہر ڈھلنے کو تھی اور ہم تینوں بھائی دادی کے اردگرد بیٹھے گپ شپ میں مگن تھے۔ اچانک امی کی آواز سنائی دی:
’’بتاؤ، آج کھانے میں کیا بنایا جائے؟‘‘
یہ سوال روز کا معمول تھا اور ہمیشہ کی طرح ہم تینوں نے پہلے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر سوچنے لگے۔ اتنے میں میرا چھوٹا بھائی عمر جوش سے بولا، ’’امی، وہی دال بنا دو، جو اُس دن بنائی تھی!‘‘
امی نے پوچھا، ’’کون سی؟ مونگ کی دال؟‘‘
عمر نے جلدی سے سر ہلایا، ’’نہیں، وہ نہیں!‘‘ پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا، ’’دیوار گری دال!‘‘ یہ سنتے ہی میرے دونوں بڑے بھائی ہنس پڑے۔ ’’ایسی بھی کوئی دال ہوتی ہے بھلا؟‘‘ ایک نے چھیڑا۔
عمر ضد پکڑ چکا تھا: ’’ہاں بھائی، ہوتی ہے! امی، آپ بتائیں نا، دیوار گری دال ہوتی ہے نا؟‘‘
امی مسکرا دیں، کیونکہ وہ سمجھ چکی تھیں کہ عمر کس دال کی بات کر رہا ہے۔
یہ واقعہ کچھ عرصہ پہلے کا تھا۔ اُس دن بھی گھر میں ارہر کی دال بنی تھی.... کھڑی لال مرچ کے تڑکے کے ساتھ، جس کی خوشبو پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ باہر موسلا دھار بارش برس رہی تھی اور ہم سب مزے سے گرم گرم دال چاول کھا رہے تھے۔ ہر نوالہ جیسے خوشی کا ایک ذائقہ تھا۔
لیکن پھر، ایک دم....
’’دھڑام....!‘‘
ایک زور دار آواز آئی اور ہم سب کے ہاتھ رک گئے۔ نظر اٹھائی تو دیکھا کہ صحن کی وہ پرانی مٹی کی دیوار، جس پر ہمارے گھر کی چھت کا سہارا تھا، زمین بوس ہو چکی تھی! مٹی کا غبار فضا میں پھیل گیا، دلوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور چند لمحے سب کچھ تھم سا گیا۔
مگر اللہ کا شکر تھا، ہم سب محفوظ تھے۔
اس حادثے کی دہشت تو وقت کے ساتھ کم ہوگئی، مگر اُس دن کی دال ہمیشہ کے لئے عمر کے ذہن میں بس گئی۔ اب جب بھی ارہر کی دال بنتی، وہ بڑے اعتماد سے کہتا، ’’امی، دیوار گری دال بنا دو!‘‘
امی ہنستیں، ہم سب مسکراتے اور دال کے ہر نوالے میں اُس دن کی یاد تازہ ہو جاتی۔
یہ محض ایک کھانے کا نام نہیں رہا تھا بلکہ ایک یاد، ایک کہانی اور ایک جذباتی لمحہ بن چکا تھا....
دیوار گری دال!