• Sun, 16 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ڈاکٹر بندر اور مغرور سفید ہاتھی

Updated: February 15, 2025, 5:17 PM IST | Ifat Fatima | Pune

بہت زمانے پہلے کی بات ہے ایک جنگل میں ایک بندر ڈاکٹر تھا۔ رحمدل ڈاکٹر۔ پرانے برگد کے درخت کے نیچے اس کا مطب تھا، چونکہ یہ جنگل کی سرحد کے قریب تھا اس کے پاس کے جنگل کے جانور بھی علاج کے لئے اسی کے پاس آجائے تھے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

بہت زمانے پہلے کی بات ہے ایک جنگل میں ایک بندر ڈاکٹر تھا۔ رحمدل ڈاکٹر۔ پرانے برگد کے درخت کے نیچے اس کا مطب تھا، چونکہ یہ جنگل کی سرحد کے قریب تھا اس کے پاس کے جنگل کے جانور بھی علاج کے لئے اسی کے پاس آجائے تھے۔
 ایک بار کہیں سے ایک سفید ہاتھی وہاں اگیا۔ اسے دیکھ کر وہاں موجود جانور حیران ہوگئے کیونکہ سفید ہاتھی انہوں پہلی بار دیکھا تھا۔ سب نے اس سے بات کرنی چاہی لیکن وہ تھا نخریلا۔ اسے اپنے رنگ پر بہت ناز تھا۔ خرگوش نے جب اچھل اچھل کر بات کرنی چاہی تو اسے ڈانٹ کر کہا، ’’تم چپ بیٹھ جاو ورنہ سونڈ سے اٹھا کر پھینک دوں گا۔‘‘ خرگوش سہم کر بیٹھ گیا۔
 ڈاکٹر صاحب کا تو اس نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا، ’’تم بندر اور ڈاکٹر۔ اور اتنا چھوٹا سا تمہارا دواخانہ ہاہاہاہاہاہاہاہاہا....‘‘ پھر وہاں سے چلتا بنا۔
 وہ جنگل میں رہنے تو لگا لیکن زیادہ کسی سے بات نہیں کرتا۔ دوسرے ہاتھیوں سے بھی بس لیا دیا رہتا۔
 ایک سنڈے سارے ہاتھی ندی میں کھیل رہے تھے۔ انہوں نے وہاں خوب شرارت کی۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا، پانی پھینکا بہت دیر تک کھیلتے رہے۔ سفید ہاتھی دور سے یہ سب دیکھتا رہا لیکن وہاں گیا نہیں۔ جب سب وہاں سے چلے گئے تب وہ وہاں تنہا کھیلنے لگا۔ آس پاس کے پیڑوں پر بیٹھے پرندے اسے دیکھ کر ہنسنے لگے۔
 مینا نے تو کہہ بھی دیا، ’’کیوں جی سب کیساتھ کھیلنے میں کالے ہوجاؤ گے کیا؟‘‘ ہاتھی نے غصے سے کہا، ’’تم خاموش رہو ورنہ سونڈ میں پکڑ کر پانی میں ڈوبا دوں گا۔‘‘
 خیر بہت دیر کھیل کر وہ ایک درخت کے نیچے آکر لیٹ گیا۔ تھکن کی وجہ سے اسے جلد ہی نیند لگ گی۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی وہیں گہری نیند سوگیا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس پیڑ کے چھوٹے چھوٹے پھل ہاتھی کے کان میں گر گئے۔ جب وہ نیند سے جاگا تب اس کے کان میں بڑی تکلیف تھی اس نے زور زور سے کان جھٹکے مگر کچھ نہ ہوا۔ وہ بڑا پریشان ہوا وہاں سے خرگوش جا رہا تھا۔ اس نے خرگوش سے کہا کہ، ’’میرے کان میں کچھ چلا گیا ہے۔ کیا تم کچھ کرسکتے ہو؟‘‘
 خرگوش نے جواب دیا، ’’تم اپنی سونڈ سے نکال لو یا نہیں تو ڈاکٹر بندر کے پاس جاو۔ میں کچھ نہیں کرسکتا۔‘‘
 ہاتھی نے سوچا میں تو ڈاکٹر کا اتنا مذاق اڑا چکا ہوں اب وہاں کیسے جاوں۔ میں کسی اور سے پوچھتا ہوں۔ وہ جس سے بھی پوچھتا سب اسے ڈاکٹر بندر کا ہی پتا بتاتے۔ اب چونکہ تکلیف بڑھ رہی تھی تو اسے وہیں جانا پڑا۔ جب وہ وہاں پہنچا تب تک ڈاکٹر صاحب لنچ کے لئے جا چکے تھے۔ اب تو ہاتھى بہت پریشان ہوا۔ لیکن ادھر طوطے نے ڈاکٹر کو بتا دیا تھا۔ وہ تو ڈاکٹر تھا اس لئے مریض کو دیکھنے آہی گیا۔ ہاتھی اسے دیکھ کر تھوڑا ہچکچایا مگر تکلیف بھی بتا دی۔ بندر نے بڑے آرام سے وہ پھل نکال دیئے اور کان میں دوا بھی ڈال دی۔ ہاتھی کی تکلیف اچانک کم ہوگئی۔ اسے اپنے کئے پر شرمندگی بھی ہوئی۔ اس نے ڈاکٹر سے معافی بھی مانگی بلکہ سبھی سے معافی مانگی۔ پھر سب کے ساتھ مل جل کر رہنے لگا۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK