• Wed, 16 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

دوسری خواہش

Updated: September 28, 2024, 1:28 PM IST | Abrar Mohsin | Mumbai

راجہ بننے کی مچھیرے کی خواہش تو پوری ہوگئی مگر....

Photo: INN
تصویر : آئی این این

بڑی بھیانک، طوفانی رات تھی۔  ندی پر سے سارے مچھیرے طوفان آنے سے پہلے ہی اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ اب وہاں صرف رامو رہ گیا تھا۔ یوں تو اُسے بھی چلا ہی جانا چاہئے تھا مگر اس کے بچّے بھوکے تھے، گھر میں اناج کا آخری دانہ تک ختم ہوچکا تھا، چراغ جلانے کیلئے تیل کی ایک بوند بھی نہ بچی تھی۔ اُسے آج کافی مچھلیوں کی ضرورت تھی جنہیں اسی روز شہر جا کر بازار میں فروخت کرکے اناج اور تیل خرید کر لانا تھا۔ اسی لئے وہ اس طوفان میں بھی ندی پر موجود تھا اس اُمید پر کہ شاید کچھ اور مچھلیاں ہاتھ لگ جائیں۔
 بے چارہ سارے دن ندی کنارے بیٹھا رہا تھا اور صرف چار مچھلیاں ہاتھ لگ سکی تھی۔ وہ بھی بہت چھوٹی۔ تھوڑی دیر بعد ہوا کا زور کچھ کم ہوا اور موسلادھار بارش ہونے لگی۔ اتنی زبردست کہ رامو سر سے پیر تک پانی میں شرابور ہوگیا۔ بارش کے پانی کی بوندیں زناٹے دار ہوا کے زور سے ننھی ننھی کنکریوں کی طرح اس کے جسم سے ٹکڑانے لگیں۔ اوپر آسمان پر بادل بری طرح چنگھاڑ رہے تھے۔ ’’اب یہاں ٹھہرنا بے کار ہے۔‘‘ رامو بڑبڑایا اور ڈور پانی میں سے نکال کر وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ایسی طوفانی رات میں گھر پہنچنا بھی تو آسان کام نہ تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ راستے میں جگہ جگہ گڑھوں میں پانی بھر گیا تھا۔ ہوا کے جھکڑ کم ہونے کے باوجود اسے پیچھے کی طرف دھکیل رہے تھے۔ رامو سنبھال سنبھال کر قدم بڑھ رہا تھا۔ اچانک بجلی چمکی۔ اور اس کی روشنی میں سامنے ہی وہ کھنڈر نظر آیا جس کے متعلق بہت سی کہانیاں مشہور تھیں۔ رامو کا دادا کہا کرتا تھا کہ وہ کھنڈر کسی زمانے میں ایک بہت بڑے راجہ کا عالی شان محل تھا۔ مگر اب تو وہ صرف ایک کھنڈر تھا۔ ہاں ایک آدھ کمرہ ضرور باقی رہ گیا تھا، جس کی دیواریں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ چکی تھیں اور چھت بھی ذرا سی ہی باقی رہ گئی تھی۔ ’’کیوں نہ بارش کے تھمنے تک اس کھنڈر میں ٹھہر جاؤں۔‘‘ رامو نے سوچا اور کھنڈر کی طرف بڑھنے لگا۔
 وہاں پانی کی ’’رم جھم‘‘ کے علاوہ اور کسی قسم کا شور نہ تھا۔ رامو اس کمرے کی طرف چلا جس کی چھت اس قدر ٹوٹی ہوئی تھی کہ کمرے کے اندر اچھا خاصا تالاب سا بن گیا تھا۔ وہ ایک کونے میں ایک پتھر پر سکڑ کر بیٹھ گیا اور بارش کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ بارش بدستور ہورہی تھی۔ بجلی چمک رہی تھی۔ بادل بار بار گرج رہے تھے۔ ’’اُف! یہ بارش کب ختم ہوگی؟ بچے سب بھوکے ہوں گے۔ گھر میں اندھیرا ہوگا۔‘‘ وہ سوچ رہا تھا۔ پھر وہ اپنی حالت پر جھنجھلا گیا۔ ’’ہے بھگوان! تو نے مجھے ایک غریب مچھیرا کیوں بنایا۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ خود فاقے کروں، بیوی بچے دانے دانے کو ترسیں۔ تو بڑا ظالم ہے بھگوان۔ اگر مجھے غریب ہی بنانا تھا تو پیدا ہی کیوں کیا۔‘‘
 اس کے بعد رامو نے کھنڈروں میں دور تک نظر دوڑائی، ’’کتنا بڑا ہوگا وہ راجہ جس کا یہ محل ہوگا۔ کتنا دولت مند ہوگا! اس کے بیوی بچے تو کبھی بھوکے نہ رہے ہوں گے۔ کاش! مَیں وہ راجہ ہوتا اور آرام کی زندگی بسر کرتا!‘‘ ’’کھٹ، کھٹ، کھٹ۔‘‘ کسی کے قدموں کی آہٹ ہوئی۔ رامو چونک پڑا۔ آنے والا برف کی طرح سفید لمبی سی داڑھی والا ایک بوڑھا تھا۔ ایک بات عجیب تھی۔ بارش ہورہی تھی، پھر بھی بوڑھے کے کپڑے ذرا بھی بھیگے ہوئے نہ تھے۔ ’’میں بھوکا ہوں۔‘‘ بوڑھے نے آتے ہی رامو سے کہا، ’’کچھ کھانے کو دے۔‘‘
 رامو کے پاس مچھلیاں تھیں۔ اگر وہ انہیں بوڑھے کو دے دیتا تو اس کے بچے بھوکے رہ جاتے، گھر میں رات بھر اندھیرا رہتا مگر رامو تھا بڑا سخی، ’’لو بڑے میاں۔‘‘ اس نے بوڑھے کی طرف مچھلیاں بڑھاتے ہوئے کہا، ’’بس یہی ہیں میرے پاس۔‘‘
 بوڑھا ایک دم قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔ کتنا عجیب قہقہہ تھا وہ! بالکل ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی شیرپوری طاقت سے دھاڑ رہا ہو۔ کھنڈرات اسکے قہقہے سے گونج رہے تھے۔
 کافی دیر کے بعد بوڑھے کا قہقہہ ختم ہوا۔ اس نے رامو سے کہا، ’’بڑا قسمت والا ہے تو۔ اگر تو اس وقت کنجوسی کرتا تو یہ تیری زندگی کی آخری رات ہوتی۔ مَیں اپنے ہاتھوں سے تیرا پیٹ پھاڑ دیتا۔‘‘
 رامو نے بوڑھے کے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ اور بس وہ دہل ہی تو گیا۔ بوڑھے کے ہاتھ انسان کے ہاتھوں جیسے نہ تھے بلکہ بالکل شیر کے پنجوں کی طرح تھے جن میں لمبے اور نوکیلے ناخن تھے۔
 رامو کو تھرتھر کانپتے ہوئے دیکھ کر بوڑھا پھر ہنسا، ’’ڈرتا کیوں ہے۔ اب مَیں تجھے نہیں ماروں گا بلکہ تیری دو خواہشیں پوری کروں گا۔ جو جی چاہے مانگ لے۔‘‘
 رامو نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں غریب مچھیرا ہونے کے بجائے وہ راجہ ہوتا جس نے یہ محل بنوایا تھا۔‘‘ ’’آنکھیں بند کر جلدی سے۔‘‘ بوڑھے نے اس کی خواہش سننے کے بعد کہا۔ رامو نے آنکھیں بند کر لیں۔
 اچانک اس کے کانوں میں آواز آئی، ’’حضور! دن چڑھ آیا ہے۔ ابھی تک آپ اٹھے نہیں۔ کہیں طبیعت تو ناساز نہیں؟‘‘
 ’’رامو نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کے سامنے ایک بہت خوبصورت عورت رانی کا لباس پہنے کھڑی تھی۔ اس نے بوکھلا کر ادھر ادھر نظر ڈالی۔ انتہائی نفیس کمرہ تھا جس میں ایک چھپر کھٹ پر وہ لیٹا تھا۔
 ’’حضور! آپ کچھ پریشان نظر آرہے ہیں۔ کیا بات ہے مہاراج؟‘‘ وہی رانی کے لباس والی عورت بولی۔
 رامو کے دل میں آیا کہ اس سے کہہ دے کہ وہ تو ایک مچھیرا ہے مگر پھر فوراً ہی اُسے بوڑھے کا خیال آگیا۔ ’’اچھا تو میری پہلی خواہش پوری ہوگئی ہے۔‘‘ وہ بڑبڑایا اور عورت سے پوچھنے لگا، ’’کون ہو تم؟‘‘ عورت ہزار بل کھا کر بڑے انداز سے بولی، ’’اے ہٹئے بھی مہاراج۔ صبح ہی صبح مذاق کرنے لگے۔ اپنی بیوی تک کو نہیں پہچان سکتے۔‘‘ ’’تو یہ ہے ہماری رانی۔‘‘ رامو نے دل ہی دل میں کہا۔ وہ خوشی سے جھوم رہا تھا۔ ’’ہم آپ سے مذاق کر رہے تھے مہارانی۔‘‘ رامو نے رانی سے کہا۔
 وہ سوچ رہا تھا۔ کتنا خوش نصیب ہوں میں۔ یہ محل میرا ہے یہ راج میرا ہے۔ اور یہ خوبصورت رانی۔ آہا۔ ہا۔ کہاں وہ میلی کچیلی مچھیرن۔ کہاں یہ سندر رانی۔ راجہ بن کر تو زندگی کی ساری خوشیوں میرے قدموں میں آپڑیں۔ یہ زندگی کتنی اچھی ہے۔
 ’’مہاراج! رانی پھر بولی، ’’فوج آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ صرف آپ کے حکم کا انتظار ہے تاکہ حملہ آور دشمن کے مقابلے کیلئے روانہ ہوسکے۔‘‘ ’’ہاں۔ ہاں!‘‘ رامو نے گڑبڑا کر کہا، ’’فوج جاسکتی ہے۔ ہماری اجازت ہے۔‘‘ ’’عجیب بات ہے!‘‘ رانی نے حیرانی سے کہا، ’’کیا آپ خود نہیں جائیں گے؟ فوج کو اکیلا ہی بھیجیں گے؟ پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔‘‘ رامو ایک دم سنبھل گیا ’’نہیں نہیں‘‘ اس نے کہا، ’’ہمارا مطلب یہ تھا کہ ہم بھی تیار ہوتے ہیں۔ آخر فوج ہمارے بغیر کیسے جاسکتی ہے؟‘‘ رانی خوش ہوگئی۔ مگر رامو ڈر رہا تھا۔ لرز رہا تھا۔ اب اُسے جنگ میں جانا پڑ رہا تھا۔ رامو ہتھیاروں سے لیس ہو کر باہر آیا۔ ’’مہاراج کی جے ہو۔‘‘ فوج نے نعرے لگائے۔ مہاراج آگے آگے گھوڑے پر بیٹھے میدانِ جنگ کی طرف جا رہے تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے ان کی فوج تھی۔
 ’’بے موت مارے گئے۔‘‘ رامو دل ہی دل میں کہہ رہا تھا، ’’یہ کیا معلوم تھا کہ راجہ بننے کہلئے یہ بھی کرنا پڑے گا۔ ہائے اب بچوں گا بھی یا نہیں۔‘‘
 دشمن کی فوج بہت بڑی تھی۔ ہزاروں سپاہی تھے، جن کی تلواروں کی نوک اور تیروں کی انیاں دیکھ کر ہی رامو کا رنگ اور بھی اُڑ گیا۔ اس میں اتنی ہمت تو ہرگز نہ تھی کہ سب سے پہلے دشمن کی طرف اپنا گھوڑا دوڑا دیتا۔ مگر بے چارہ کیا کرتا۔ گھوڑا بدک گیا اور دشمن کی فوج کی طرف سرپٹ دوڑ پڑا۔ رامو کی فوج نے سمجھا کہ ان کا بہادر راجہ دشمن پر ٹوٹ پڑا۔ بس فوراً ہی اس کی فوج بھی دشمن کی فوج سے گتھ گئی۔
 ’’یہ کس مصیبت میں پھنس گیا مَیں۔‘‘ وہ خود ہی خود کہنے لگا، ’’بلا وجہ یہ جھنجھٹ مول لیا۔‘‘ اسی وقت اسے شاندار محل اور خوبصورت رانی کا خیال آیا اور اس نے سوچا، ’’ہوسکتا ہے اس لڑائی میں میری فوج جیت جائے۔ پھر تو مزے ہی مزے ہیں۔‘‘ یہ سوچ کر اس کے دل کو ڈھارس بندھ گئی۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ رامو کی فوج ہار گئی۔ رامو گرفتار کر لیا گیا۔ وہ کافی زخمی ہوگیا تھا۔ جسم سے بہت سا خون نکل گیا تھا۔ اگلے دن رامو کو دشمن بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ دشمن بادشاہ کے پاس ہی تخت پر رامو کی رانی بھی بیٹھی تھی۔ رامو کے گرفتار ہونے کے بعد رانی کے دشمن بادشاہ سے اپنی خوشی سے شادی کر لی تھی۔ ’’بے وفا۔‘‘ رامو نے دانت پیس کر کہا۔ دشمن بادشاہ نے حکم سنایا: رامو کیلئے موت کا حکم۔
 رامو بے اختیار چلّایا۔ آنکھیں بند کرکے چیخا، ’’مجھے راجہ بننے بالکل پسند نہیں۔ اور بوڑھے! مجھے پھر سےمچھیرا بنا دے۔ غریب مچھیرا۔ کاش! مَیں نے ایسی بیوقوفی کی خواہش نہ کی ہوتی۔‘‘
 ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے جسم سے ٹکرایا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ ارے! وہ اسی کھنڈر کے اسی بوسیدہ کمرے میں کھڑا تھا۔ بوڑھا وہاں موجود نہ تھا۔ اور بارش تھم چکی تھی۔ رامو کی دونوں خواہشیں پوری ہوچکی تھیں۔وہ کھنڈرات سے باہر آیا۔ وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
 ’’کتنی اچھی ہے میری یہ زندگی!‘‘ وہ سوچ رہا تھا، ’’سارے دن محنت کرتا ہوں اور رات کو آرام اور بے فکری سے پیر پھیلا کر سوتا ہوں۔ راجہ محل کے عمدہ کمرے میں چھپر کھٹ پر لیٹتا ضرور ہے مگر وہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہتا ہے، کیونکہ اسے اگلے دن لڑرائی کے میدان میں جانا ہوتا ہے۔ ایک غریب مچھیرا جھوپڑی کے کچے فرش پر بھی گھوڑے بیچ کر سوتا ہے، کیونکہ اسے کوئی فکر نہیں ہوتی، اسے کسی دشمن کا خوف نہیں ہوتا.... اور میری بیوی حالانکہ کتنی معمولی شکل کی ہے بیچاری، مگر پھر بھی اس بے وفا رانی سے بہتر ہے۔ کتنی محبت کرتی ہے مجھ سے!‘‘
 رامو جھوپڑی کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔ دور اسے اپنی جھوپڑی میں جلتا ہوا چراغ نظر آیا۔ مگر گھر میں تو تیل کی ایک بوند بھی نہ تھی پھر چراغ کیسے جل گیا؟
 وہ چراغ دراصل رامو کی بیوی نے اپنے آنسوؤں سے جلایا تھا۔ کیونکہ وہ رامو کی راہ دیکھ رہی تھی اور زار و قطار رو رہی تھی۔
 ’’ہے بھگوان! رات اندھیری ہے۔ میرے پتی کی حفاظت کرنا۔‘‘ اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔ اور اس کے پاس ہی معصوم بچے دونوں ہاتھ جوڑے باپ کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK