شیر نے چوہے سے پوچھا ،’’ہے کیا کوئی دنیا میں مجھ سے طاقتور ؟‘‘ چوہے نے جواب دیا،’’ ہے۔‘‘
EPAPER
Updated: February 24, 2024, 12:08 PM IST | Hassan Askari Kazmi | Mumbai
شیر نے چوہے سے پوچھا ،’’ہے کیا کوئی دنیا میں مجھ سے طاقتور ؟‘‘ چوہے نے جواب دیا،’’ ہے۔‘‘
شیر نے چوہے سے پوچھا ،’’ہے کیا کوئی دنیا میں مجھ سے طاقتور ؟‘‘ چوہے نے جواب دیا،’’ ہے۔‘‘
شیر غرایا،’’ کون ہے؟‘‘
چوہے نے کہا،’’ کوئی اور نہیں سوائے آدم کے بیٹے کے بیٹے۔ ‘‘
تب شیر نے کہا،’’اسے مجھے دکھاؤ۔‘‘
دونوں چل دیئے، یہاں تک کہ وہ ایک چھوٹے سے گاؤں کے نزدیک پہنچ گئے۔ وہاں ایک کسان اپنا کھیت جوت رہا تھا۔ چوہے نے کہا،’’کیا تم اس ہل چلاتے ہوئے آدمی کو دیکھ رہے ہو؟ وہ تم سے زیادہ طاقتور ہے؟‘‘
شیر نے حیرت اور حقارت آمیز لہجے میں پوچھا ’’یہ؟‘‘
چوہے نے کہا،’’ جی ہاں۔‘‘
شیر آدمی کے پاس گیا، آدمی کے پیر کپکپانے لگے۔ شیر نے اس سے کہا ،’’کیاتم ہی آدمی کے بیٹے ہو ؟‘‘
آدمی نے جواب دیا، ’’ہاں‘‘
شیر نے پوچھا،’’کیا تم مجھ سے کشتی لڑو گے، یہ دیکھنے کیلئے کہ ہم میں کون زیادہ طاقتور ہے؟‘‘
آدمی نے جواب دیا،’’مگر میری طاقت میرے پاس نہیں ہے، میں اسے گھر چھوڑ آیا ہوں۔‘‘
شیر نے کہا،’’ جاؤ لے آؤ۔‘‘
آدمی نے کہا،’’میں یہ کیسے یقین کروں کہ تم بھاگ نہیں جاؤ گے؟‘‘
شیر نے کہا،’’ میں نہیں بھاگوں گا، میں تمہارا انتظار کروں گا۔‘‘
آدمی نے کہا،’’ اپنے اطمینان کی خاطر کہ تم بھاگ نہیں جاؤ گے، مجھے یہاں تم کو باندھ لینے دو۔ جب تک میں واپس آ نہ جاؤں۔‘‘
شیر نے لاپروائی سے کہا،’’ باندھ دو۔‘‘
کسان ایک مضبوط رسی لے آیا اور شیر کو کس کے باندھ دیا، وہ چابک بھی لے آیا جس سے وہ اپنے جانوروں کو ہنکایا کرتا تھا اور شیر سے بولا ،’’تم کو یہ کہاں سب سے زیادہ لگتا ہے؟‘‘
چٹاخ چٹاخ چٹاخ، اس نے شیر کو مارنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ شیر کی کھال اُترنے لگی۔ تب کسان نے اپنے جانور لئے اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
کچھ دیر کے بعد چوہا آیا اور بولا،’’ وہ دیکھو میں نے تم سے کیا کہا تھا؟‘‘ شیر نے کہا،’’ میرے اوپر ایک احسان کردو، مجھے کھول دو۔‘‘
چوہے نے رسی کو کاٹ دیا اور شیر کو آزاد کر دیا۔
شیر نے پھر بھی کہا،’’میں اس آدم کے بیٹے کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ اس لئے وہ گاؤں کی طرف چل دیا۔ کسان گھر کے باہر تھا اور اس نے شیر کو آتے دیکھ لیا، وہ اندر گھر کی طرف بھاگا، اس نے اندر سے دروازہ بند کر لیا اور اپنی بیوی سے بولا،’’ فاطمہ کچھ پانی گرم کرو۔ ‘‘
شیر آیا اور اپنے سر سے دروازے کو زور زور سے ٹکر مارنے لگا۔ یہاں تک کہ دروازہ ٹوٹنے کے قریب ہو گیا۔ اس درمیان پانی بھی اُبلنے لگا، اس لئے بیوی اس کو گھر کی چھت پر عین شیر کے اوپر لے گئی، شیر بس دروازہ توڑنے ہی والا تھا کہ شوہر چلایا ،’’انڈیل دو اسے فاطمہ! ‘‘
گرم پانی شیر کے اوپر گرا۔ اس نے شیر کی کھال کو دوبارہ چھیل دیا۔ ہمارا دوست شیر جتنا تیز بھاگ سکتا تھا بھاگا۔
شیر نے کسان کو اب بھی نہیں چھوڑا۔ کچھ دنوں بعد شیر پھر کھیت کی طرف گیا۔ اس بار اس کے ساتھ اس کے رشتہ دار بھی تھے تقریباً سو۔
کسان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ وہ ایک کھجور کے پیڑ کی طرف دوڑا اور اس پر چڑھ گیا۔ شیر ایک دوسرے کی پیٹھ پر کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ وہ اس کی اونچائی تک تقریباً پہنچ گئے۔
اتفاق سے سب سے نیچے وہی شیر تھا جس کی کھال پہلے اتر چکی تھی۔ کسان چلایا ،’’انڈیل دو ، فاطمہ !‘‘ہمارا دوست شیر جو سب سے نیچے تھا، اس نے اپنی دم دانتوں تلے دبائی اور بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ تمام شیر گر پڑے۔ افراتفری اور بھگدڑ مچ گئی۔ شیر نے بالآخر محسوس کر لیا کہ آدم کا بیٹا ہی سب سے زیادہ طاقتور ہے۔
حسن عسکری کاظمی کی کتاب ’عرب کی لوک کہانیاں ایک تہذیبی ورثہ سے ‘ماخوذ