مَیں اپنے ٹوٹے ہوئے جوتے کو اُتار رہا تھا کہ اس نے اور دانت نکال دئیے اور مَیں ایسا جھنجھلایا کہ نوچ کر پھینک دیا۔
EPAPER
Updated: April 19, 2025, 1:58 PM IST | Maulana Abdul Halim Sharar | Mumbai
مَیں اپنے ٹوٹے ہوئے جوتے کو اُتار رہا تھا کہ اس نے اور دانت نکال دئیے اور مَیں ایسا جھنجھلایا کہ نوچ کر پھینک دیا۔
مَیں اپنے ٹوٹے ہوئے جوتے کو اُتار رہا تھا کہ اس نے اور دانت نکال دئیے اور مَیں ایسا جھنجھلایا کہ نوچ کر پھینک دیا۔ میری یہ برہمی اسے ناگوار گزری اور وہ زبانِ حال سے بولا، ’’آپ کو میری ضرورت نہیں رہی ہے تو نکال دیجئے۔ مگر یوں ذلیل کرکے تو نہ نکالئے۔‘‘ اُس کے اس غرور پر مجھے ہنسی آگئی اور کہا، ’’کیا دنیا میں تجھ سے بھی زیادہ کوئی ذلیل چیز ہے؟ ہر وقت پاؤں سے کچلا اور روندا جاتا ہے اور ہمیشہ راستے کی نجاستوں میں آلودہ رہتا ہے۔ صفائی کی محفلوں میں گھسنے نہیں پاتا۔ ہم جب کبھی کہتے ہیں کہ ہماری جوتیوں کا صدقہ ہے اس وقت تجھے انتہا درجے کی نفرت سے دیکھتے ہیں۔ تو یہ بھی نہیں دیکھتا کہ جسے کمال درجہ ذلیل کرنا ہوتا ہے اُسے تیری مار ماری جاتی ہے۔ اس لئے کہ تو نہایت ہی حقیر اور حد سے زیادہ ذلیل ہے۔ لیکن باوجود ان سب باتوں کے تجھے اپنی عزت کا خیال ہے۔‘‘
مَیں سمجھتا تھا کہ یہ باتیں اس سرکش جوتے کو خاموش کر دیں گی۔ مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا اور بولا، ’’یوں تو آپ کو اختیار ہے کہ اپنے نزدیک جسے چاہیں معزز خیال کر لیں اور جسے چاہیں ذلیل کریں، لیکن خدائی فیصلہ آپ کی تجویز اور مرضی سے نہیں ہوسکتا۔ خدا نے ہر چیز اور ہر شخص کو اپنے مقام پر ایک فضیلت اور خصوصیت عطا کی ہے، جس پر وہ جس قدر ناز کر لے بجا ہے لیکن اس پر آپ کی طرح کسی کو اترانا نہ چاہئے۔ مجھ میں اگر کوئی ذلت کی بات ہے تو وہ آپ کی بدولت ہے۔ مجھے آپ اپنے گھر میں ذلیل سمجھا کریں لیکن مَیں اپنی جگہ پر غور کرتا ہوں تو اپنے میں کوئی ذلت و حقارت کی بات نہیں پاتا۔ مَیں جس سے بنا ہوں، اسی سے آپ کا جسم بنا ہے۔ یہی زندگی، یہی نرمی، یہی حسن، یہی خوبی جو آپ کی کھال میں ہے کبھی مجھ میں بھی تھی۔ یہی غذائیں جو روز آپ کا جزوِ بدن ہوا کرتی ہیں کبھی میرا جزو ہوا کرتی تھیں۔ مرنے کے بعد میری حالت آپ سے اچھی ہی رہی۔ مَیں تو گلنے سڑنے سے بچ کے آپ کے پاؤں کا لباس بن گیا۔ آپ کے مرنے کے بعد آپ کے جسم کے کسی حصے کو خلق اللہ کی خدمت کا کوئی موقع ملے، اس کی کوئی اُمید نہیں۔ ممکن تھا کہ مَیں آپ کی ٹوپی کا اَستر بن کر آپ کے سر پر جا پہنچتا۔ ممکن تھا کہ مَیں پوستین کی صورت میں نمودار ہو کے آپ کے جسم سے لپٹ جاتا۔ ممکن تھا کہ میں ایک پیٹی بنتا اور آپ کی کمر میں بندھا رہتا اور ممکن تھا کہ مَیں کوئی اور ایسی خوبصورت چیز بن جاتا ہے جسے آپ نہایت عزیز رکھتے۔‘‘
جوتے کی ان واعظانہ باتوں سے مَیں کانپ گیا۔ مگر یہ اچھا نہ معلوم ہوا کہ ایک ذلیل سی شے سے قائل ہوجاؤں۔ جواب دیا، ’’ان صورتوں میں سے تمہاری جو صورت ہوتی ویسی ہی تمہاری قدر بھی کی جاتی۔ مگر اب تو تم ایک جوتے ہو اور ٹوٹے ہوئے جوتے! ایسی حالت میں عزت کا نام لیتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی۔‘‘ مگر وہ جوتا بھی کچھ ایسا جھنجھلایا ہوا تھا کہ کسی طرح جان نہ چھوڑی اور کہا، ’’مَیں تو جوتا ہونے میں اپنی توہین و تذلیل کی وجہ نہیں پاتا۔ جوتا ہونے سے کیا کوئی ذلیل ہوجاتا ہے؟ اگر میں آپ کے بادشاہ یا کسی معمولی حاکم ہی کا جوتا ہوتا تو آپ زمین پر سر رکھ کر مجھے چومتے۔ اگر میں آپ کے استاد یا کسی دوسرے بزرگ کا جوتا ہوتا تو آپ اپنی سعادت مندی تصور کرکے مجھے سیدھا کرتے۔ اب آپ ہی فرمائیے کہ جوتا ہونے سے میری کیا آبرو گھٹ گئی۔ ہاں، البتہ اس بات کو مان لوں گا کہ آپ ایسے حق ناشناس انسان کی پاپوش بننے سے میری آبرو جاتی رہی اور مجھ میں ذلت و حقارت جو کچھ ہے آپ سے ملنے، آپ کے پاس آنے اور آپ کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے ہے۔‘‘
اب گفتگو نے ایسی صورت اختیار کر لی تھی کہ اپنی کمزوری کا ظاہر ہونا تو درکنار مجھے یہ نظر آرہا تھا کہ میرا ہی جوتا مجھے بیباکی سے ذلیل کر رہا ہے۔ برہمی کے ساتھ کہا، ’’تیری حقارت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ جب مقدس دربارِ الٰہی میں پہنچے تو حکم ہوا کہ اپنی جوتیاں اُتار ڈالو۔‘‘
جوتے نے کہا، ’’بے شک! اس مقام پر جناب موسیٰؑ کو جوتیاں اُتارنی پڑیں۔ مگر جس منزل تک وہ جوتیاں پہنے چلے گئے اور جہاں تک ان کا اور میرا ساتھ رہا وہاں تک آپ کیا، بڑے بڑے ائمہ دین کی بھی رسائی بھی نہیں ہوسکتی۔‘‘ آخر مَیں نے تنگ آکر پوچھا، ’’کیا تو سچ مچ اپنے آپ کو مجھ سے افضل اور اعلیٰ سمجھتا ہے؟‘‘
’’اپنے فرائض ادا کرنے کی دُھن میں کبھی مجھے اس مسئلے پر غور کرنے کی فرصت نہیں ملی۔ مَیں کیا جانوں کہ آپ افضل ہیں یا مَیں؟ ہاں ایک بات البتہ خیال میں آتی ہے مگر آپ اسے شاید نہ مانیں۔‘‘
مَیں نے گھبرا کر پوچھا، ’’وہ کون سی بات ہے؟‘‘
جواب ملا کہ، ’’اپنے فرائض ِ زندگی کو جو شخص جتنی زیادہ عمدگی اور مستعدی سے بجا لائے اسی قدر اسے افضل ہونا چاہئے۔ اپنے فرائض ادا کرنے میں کبھی میں نے کوتاہی نہیں کی۔ آپ نے جب اور جو کام لینا چاہا مَیں نے عذر نہیں کیا۔ آپ بُرے کاموں کے لئے گئے، ایذا رسانی اور مخلوق کو آزار پہنچانے کے لئے روانہ ہوئے اور ہمیشہ مجھے پہن کر گئے۔ میری طرف سے آپ کی فرمانبرداری میں ذرا بھی کمی ہوئی ہو، تو فرمائیے۔ آپ مجھے پہنچے ہوئے نجاستوں میں چلے گئے۔ کانٹوں اور پتھروں میں گھس گئے۔ مجھے ان باتوں سے تکلیف ہوئی مگر مَیں نے اطاعت سے منہ نہ موڑا۔ غرض میں نے ہر طرح کی مصیبتیں جھیلیں، مگر آپ کی نافرمانی نہیں کی۔ اب اس کے مقابلے میں آپ اس کا ثبوت دیں کہ آپ بھی اپنے فرائض ِ زندگی کو ادا کرتے رہے۔‘‘
اب مَیں بالکل لاجواب تھا۔ خصوصاً اس لئے کہ اس کے یاد دلانے سے زندگی بھر کے گناہ اور قصور میری آنکھوں کے سامنے پھر رہے تھے، مجھے بے اختیاری سے قبول کر لینا پڑا کہ مَیں ہارا اور تم جیتے....!