• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ضد تھی کہ روزہ رکھیں گے

Updated: March 16, 2024, 11:13 AM IST | Ahmad Hasan | Mumbai

مَیں میز کے ایک کونے پر حساب کے سوالات حل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور جی مَیں سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ اچھا ہے الارم بجنے دو، مَیں بھی اُٹھ بیٹھوں گا، سحری کے وقت پھر دیکھا جائے گا.... نہ رکھنے دیں ابّا روزہ۔‘‘

Photo: INN
تصویر : آئی این این

امّاں سے، ابّا سے، بجیا سے اور نانی امّاں سے، سب سے کہہ رکھا تھا کہ روزہ ضرور رکھیں گے۔ پہلا، مگر سب یہی کہتے تھے کہ ابھی چھوٹے ہو۔ بیماری سے اُٹھے ہو، ضد مت کرو، مگر رضیہ جو روزہ رکھتی تھی۔ عمر میں مجھ سے بڑی تھی تو کیا، میرے کندھے تک تو آتی تھی بس اور پڑھنے لکھنے کا یہ حال کہ بی بی کو یہ بھی معلوم نہیں کون سا مہینہ کس کے بعد آتا ہے۔ ایک دن کہنے لگیں کہ بس اب اکتوبر کے بعد رمضان شریف آجائیں گے۔
 امّاں نے کہا، ’’پگلی، رمضان تو چاند کے مہینے سے آتے ہیں۔ اب شب برأت ہے۔ اس کے بعد رمضان، پھر عید، خالی، بقر عید، محرم.....‘‘ اور مَیں نے باقی کے مہینوں کے نام فر فر سنا دیئے۔ ’’اماں، اماں مجھے بھی روزے رکھ لینے دیجئے۔‘‘ ’’نہیں بیٹے تم ابھی چھوٹے ہو۔ بیماری سے اُٹھے ہو۔ طبیعت نہ کہیں خدانخواستہ خراب ہوجائے۔‘‘
 ’’نہیں امّاں بس ایک، اور امّاں رضیہ جو....‘‘
 ’’بس رضیہ کی ریس کئے جاؤ۔‘‘ امّاں کو غصہ آگیا۔ انہوں نے کہا، ’’اگر رضیہ اندھے کنویں میں جا کودے، تو پھر تم بھی اندھے کنویں میں جا کودنا۔‘‘
 اور ہم چپ ہوگئے....
 مگر روزے رکھنے کا شوق، ہم کسی سے کم ہیں کیا؟ نماز تو آتی ہے۔ تو پھر روزے کیوں نہیں رکھ سکتے؟ ابّا کہتے ہیں صحت نہیں ٹھیک ہے۔ دبلا پتلا بچہ ہے ابھی.... اور اس روز شب برأت کے دن کلّو کو پٹخ دیا تھا۔ اتنا بڑا تھا وہ۔
 پھر چاند نکل آیا.... سحری کیلئے چیزیں پہلے ہی منگا کر رکھ لی گئی تھیں۔ نان پاؤ، دودھ جلیبیاں۔
 بجیا جلیبیاں دودھ میں بھگو رہی تھیں کچھ کھاتی بھی جاتیں۔ امّاں پاس سے گزریں اور کہا، ’’اُف رے ندیدی۔‘‘ پھر ہم چپکے سے بجیا کے پاس گئے، ’’بجیا بجیا! کتنی اچھی ہیں آپ۔ دیکھیں دودھ میں بھیگ کر جلیبیاں کیسی ہوجاتی ہیں۔‘‘
 ’’بس اب باتیں نہ بناؤ، بد نیت کہیں کے۔ مَیں تو ذرا چکھ رہی تھی۔‘‘
 پھر بجیا نے نانی امّاں کے لئے نرم نرم پراٹھے پکا کر روٹیوں میں دبا کر رکھ دیئے۔ کتنا کام کرتی تھیں بجیا، آنکھوں میں دھواں گھس رہا ہے۔ آنسو پونچھتی جاتی ہیں اور پراٹھے پکائے جا رہی ہیں۔ منہ سرخ ہو رہا ہے۔ مگر نانی امّاں کے کام سے ذرا جو ہاتھ روکیں اور نانی امّاں بھی تو اتنی محبت کرتی تھیں اُن سے۔
 ابّا نے گھڑی میں تین بجے کا الارم لگا دیا۔ امّاں نے کہا، ’’جو تین بجے نہ بجا الارم تو پھر؟‘‘ تو پھر ابّا نے ۹؍ بجے الارم لگا کر دیکھا، ۹؍ بجے تو گھڑی میں کھن کھن کھن الارم بجنے لگا تو پھر یقین ہوگیا کہ تین بجے بھی الارم بج جائے گا۔
 نانی امّاں نے کہا، ’’گھڑی میں گھنٹی کیوں لگاتے ہو، بنّن دولہا، آخر یہ گھنٹی والی گھڑی نہ تھی تو لوگ اٹھا ہی کرتے تھے اور پھر عیدوٗ فقیر آتا ہے نعت گاتا ہوا۔ ہر روزے دار کو اٹھاتا چلا جاتا ہے۔‘‘
 بجیا نے کہا، ’’نہیں نانی امّاں بھلا الارم لگانے میں کیا ہرج ہے۔ اگر آنکھ نہ کھلی کسی کی تب۔ پہلا روزہ ہے رہ جائے گا۔‘‘
 ’’بغیر سحری کے رکھ لیں گے، تمہارے نانا سب روزے بغیر سحری کے رکھتے تھے۔‘‘
 ’’بھیّا مجھ سے تو بغیر سحری کے روزہ نہ رکھا جائے گا۔‘‘
 مَیں میز کے ایک کونے پر حساب کے سوالات حل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور جی مَیں سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ اچھا ہے الارم بجنے دو، مَیں بھی اُٹھ بیٹھوں گا، سحری کے وقت پھر دیکھا جائے گا.... نہ رکھنے دیں ابّا روزہ۔‘‘
 پھر نیند آگئی۔
 اور جب آنکھ کھلی تو امّاں، ابّا، بجیا اور رضیہ سب لوگ انگیٹھی کے چاروں طرف بیٹھے سحری کر رہے تھے۔ ایک طرف لال ٹین جل رہی تھی، اور ان سب کے بڑے بڑے سائے دیواروں پر پڑرہے تھے۔
 مَیں نے جلدی سے لحاف اُتار پھینکا اور امّاں نے کہا، ’’لو وہ اُٹھ بیٹھا۔ ارے کچھ اوڑھ لے لڑکے، اتنی تو سردی ہو رہی ہے۔‘‘
 ابّا نے سحری تو کھلا دی ہماری ضد پر، مگر جب صبح پھر اُٹھے تو ابّا نے کہا، ’’بیٹے کچھ کھا پی لو۔ ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ تم روزے مت رکھو۔‘‘
 ’’ڈاکٹر کو کیا معلوم روزوں کا ثواب۔‘‘
 امّاں نے کہا، ’’چنو بیٹے دیکھو تو بھلا ابھی تو تم میعادی بخار سے اُٹھے ہو۔‘‘
 پھر بھی ہم رہے ارادے کے اٹل۔
 اور امّاں نے کہا، ’’توبہ ہے بچّے.... کبھی تو کہنا مان لیا کر....‘‘
 کوئی بارہ ساڑھے بجے باہر باغیچے میں رضیہ اور کلّو کے ساتھ کھیلتے گزر گئی، پھر دوپہر کو نانی امّاں نے بلایا اور اپنے پاس لحاف میں سلا لیا۔ آنکھ کھلی تو خوب بھوک لگ رہی تھی۔ جی میں آیا کچھ کھا لوں۔ مگر روزے کا خیال ایک دم سے آیا۔ زبان ہونٹوں پر پھیر لی۔
 عصر کی نماز کے وقت وضو کیا تو جی میں آیا کہ کلی کرتے کرتے پانی پی جاؤں۔
 مغرب کے وقت تک پڑے رہے، اُٹھا ہی نہ جاتا تھا۔ امّاں نے سر پر ہاتھ پھیرا، ابّا نے پاس بٹھا لیا۔ بجیا تو منہ ڈھکے پڑی تھیں اُن کے سر میں درد تھا۔ چائے جو نہیں ملی دو وقت سے۔ رضیہ باورچی خانے رحیمن کے پاس بیٹھی افطاری بنوانے میں مدد کر رہی تھی۔ اس نے بجیا کو آواز دی، ’’بجیا آؤ، منگورے (بیسن کی پھلکیاں) بنوا لو۔‘‘
 شام کو ابّا کے ایک دوست آئے انہوں نے ہمیں بلا کر دیکھا اور ہماری ہمت کی بڑی تعریف کی۔ ابّا کہنے لگے کہ ہم نے اور ان کی ماں نے اتنا اتنا منع کیا، سمجھایا مگر یہ نہیں مانا۔ ’’بڑا بلند ہمت بچہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا اور یہاں ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
 پھر ہم نے باورچی خانے کا چکّر لگایا۔ بجیا تو الگ بیٹھی تھیں۔ سر پر رنگین رومال باندھے بڑی اچھی لگ رہی تھیں اور ان پر ترس آرہا تھا۔ مَیں نے کہا، ’’لاؤ بجیا تمہارا سر دبا دوں۔ کیسا منہ اُتر آیا ہے تمہارا....‘‘
 ’’بس چل ہٹ بھی لڑکے۔ اپنا منہ تو دیکھو جا کر پہلے آئینے میں پھر کسی سے ہمدردی کرنا۔‘‘ اور انہوں نے اپنا سر رومال سے اور کس لیا۔
 امّاں میٹھی پھلکیاں تل رہی تھیں۔ سیو رکھے تھے۔ منگورے رکھے تھے۔ دال موٹھ تھی۔ دہی بڑے تھے۔ منہ میں پانی آیا اور ہم وہاں سے پھر ہوئے رفو چکّر۔
 اب افطار کے وقت کا انتظار تھا۔ آسمان پر بادل گلابی ہوگئے۔ پھر کالے ہونے شروع ہوئے۔ اور ابّا نے کہا، ’’بس روزہ کھول لو وقت ہوگیا۔‘‘ ہم لوگوں نے نانی امّاں والے حلوے سے روزہ کھولا۔ ابّا کہتے جاتے ’’اللھم انی لک صمت....‘‘ اور ہم دہراتے جاتے۔
 ’’رحیمن روزہ کھول لو۔‘‘ امّاں نے رحیمن سے چلّا کر کہا اور اس نے نمک کی کنکری سے روزہ کھولا، پانی پیا اور نماز کو اٹھ کھڑی ہوئی۔ بجیا چائے پی رہی تھیں۔ اور ہم اور رضیہ جلدی  جلدی میٹھی پھلکیاں کھا رہے تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK