• Sun, 02 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

جاں باز

Updated: February 02, 2025, 5:14 PM IST | Masroor Alam Sohail | Mumbai

جس آدمی کو ہم اور آپ بہادر سمجھتے ہیں، وہ واقعی بہادر ہوتا ہے؟

Picture: INN
تصویر: آئی این این

رات بڑی زور دار بحث چل رہی تھی۔ بے چارہ حامد اکیلا تھا اور ہم تینوں نے مل کر اس پر بُری طرح سے دھاوا بول رکھا تھا۔ مَیں کہتا تھا کہ، ’’جس آدمی کو ہم اور آپ بہادر سمجھتے ہیں، وہ واقعی بہادر ہوتا ہے۔ کوئی بزدل آدمی کبھی بہادر نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر تمہیں کبھی بہادر نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ تم بزدل ہو۔‘‘ اس پر ایک زور دار قہقہہ پڑا اور حامد میاں کچھ شرمندہ سے نظر آنے لگے۔ پھر مَیں نے فوراً اس کا دل رکھنے کے لئے کہا کہ، ’’مَیں خود بھی کبھی بہادر مشہور نہیں ہوسکتا کیونکہ مَیں ہمیشہ سے بودا ہوں۔‘‘
 لیکن ہم تینوں کی اتنی کوشش کے باوجود حامد میاں اپنا وہی راگ الاپتے رہے کہ کبھی کبھی بزدل اور بے وقوف آدمی بھی دوسروں کی نظروں میں بہادر ہوجاتا ہے۔
 گیارہ بجے تک بحث کی خوب گرما گرمی رہی۔ ہم لوگ باتیں کرتے کرتے نیچے آئے۔ دوستوں کے رخصت ہونے پر جب میں ساتویں منزل پر اپنے کمرے میں پہنچا تو مجھے بُری طرح نیند آرہی تھی۔ فوراً ہی مَیں نے بستر سنبھال لیا اور تھوڑی ہی دیر میں نیند کی دیوی نے اپنی آغوش میں لے لیا۔
 یکایک میں گھبرا کر اُٹھ بیٹھا۔ کمرے میں مکمل اندھیرا تھا، حالانکہ مَیں بتّی جلا کر سویا تھا۔ شاید فیوز اڑ گیا تھا۔ مَیں نے پھر سونا چاہا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ کمرے میں بے تحاشا گھٹن ہے۔ پورا کمرہ دھویں سے بھرا ہوا تھا۔ لیکن یہاں دھویں کا کیا کام؟ میرا دماغ ابھی تک سویا ہوا تھا۔ اور پھر مَیں چونک پڑا۔ باہر سے لوگوں کے چیخنے چلّانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ یقیناً عمارت میں آگ لگ گئی تھی۔ دروازہ کھول کر مَیں بے تحاشا سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ لیکن مَیں نے تھوڑی ہی دیر بعد محسوس کر لیا کہ مَیں اوپر سے نیچے جانے کے بجائے اور اوپر چڑھ رہا ہوں۔ اس سے مَیں اور بھی بدحواس ہوگیا۔ اور بدحواسی میں سیڑھیاں چھوڑ کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگا۔
 یقیناً مجھے اپنے دماغ پر قابو نہیں تھا۔ کچھ دیر کے بعد مَیں نے محسوس کیا کہ مَیں بُری طرح آگ میں گھر چکا ہوں۔ نیچے کی منزلوں کے زینے تو پہلے ہی آگ کی لپیٹ میں آچکے تھے۔ اب تو بہت کمرے بھی دھڑا دھڑ جل رہے تھے۔ مَیں گھبرایا ہوا اِدھر اُدھر بھاگ رہا تھا۔ موت کا خوف میرے دماغ پر بُری طرح چھا گیا تھا۔ کہیں سے بھی کوئی نجات کا راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔
 کچھ دیر یونہی دیوانوں کی طرح چکّر لگانے کے بعد مَیں نے سوچ لیا کہ میری قسمت میں جل کر ہی مرنا لکھا ہے۔ آگ ہر لمحہ بڑھ کر میرے قریب سے قریب تر ہورہی تھی۔ دھواں تو اس قدر تھا کہ بس خدا کی پناہ۔ میری ہمت پست ہوچکی تھی۔ مَیں نے اپنے آپ کو خدا کے بھروسہ پر چھوڑ دیا۔ لیکن پھر بھی زندگی کا لالچ مجھے اِدھر سے اُدھر دوڑاتا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد مَیں نے ایک کھڑکی سے نیچے جھانکا۔ نیچے فائر بریگیڈ والے تند ہی سے اپنا کام انجام دے رہے تھے۔ اور پھر خوشی سے میری چیخ نکل گئی۔ نیچے ایک جال تانا جا رہا تھا تاکہ جو لوگ اوپر پھنس گئے ہیں، وہ نیچے کود جائیں۔ مَیں نے فوراً ہی اس کھڑکی سے نیچے کود جانا چاہا۔ لیکن دو تین بار سَر ٹکرانے کے بعد احساس ہوا کہ کھڑکی میں سلاخین لگی ہوئی ہیں۔ مَیں پھر بھاگا اور اِدھر اُدھر کوئی اور کھڑکی تلاش کرنے لگا۔
 آگ کی گرمی اب ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گئی تھی۔ مَیں سَر سے پاؤں تک پسینے میں ڈوبا ہوا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے مجھے جیتے جی دوزخ میں دھکیل دیا ہے۔ دھویں کی وجہ سے آنکھیں کھولنا دشوار تھا۔ آخر کچھ دیر اندھیرے میں ٹھوکر کھانے کے بعد ایک کھڑکی مل ہی گئی۔ مَیں بے تحاشا اس کی طرف دوڑا.... اور بُری طرح ایک کپڑے کی گٹھری سے ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ دوسرے ہی لمحہ میں پھر اُٹھ کر کھڑکی کی طرف بڑھا لیکن تھوڑی ہی دیر میں معلوم ہوگیا کہ اس سے کودنا آسان کام نہیں ہے۔ کھڑکی بُری طرح آگ میں گھری ہوئی تھی۔
 اب مجھے کسی ایسی چیز کی تلاش ہوئی جس کو جسم پر لپیٹ کر مَیں کچھ دیر کے واسطے آگ کی گرمی سے بچ جاؤں۔ مجھے فوراً اسی کپڑے کی گٹھری کا خیال آیا اور مَیں نے لپک کر اُسے اُٹھا لیا۔ اپنے چہرے پر اسے لپیٹ کر مَیں جیسے تیسے کھڑکی کے پاس پہنچا اور نیچے جھانکنے لگا۔
 نیچے سیکڑوں آدمیوں کا ہجوم تھا۔ لیکن ان سب میں ایک عورت صاف نظر آرہی تھی۔ اسے چار پانچ آدمیوں نے پکڑ رکھا تھا لیکن وہ برابر جلتی ہوئی عمارت میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی۔ عجیب پاگل عورت تھی۔
 آگ نے مجھے یہ نظارہ دیکھنے کا زیادہ موقع نہیں دیا۔ گرمی بہت بڑھ گئی تھی۔ خود میرے کپڑوں کو شعلے چاٹنے لگے تھے۔ مَیں نے مضبوطی سے گٹھری کو اپنے چہرے پر لپیٹا۔ آنکھیں بند کیں اور دل کڑا کرکے نیچے کود گیا۔
 سب سے پہلے وہ پاگل عورت ہی جھپٹ کر میرے پاس آئی اور مجھ سے گٹھری چھین کر اُسے دیوانوں کی طرح چومنے لگی۔ بہت سے آدمی میرے اِردگرد جمع ہوگئے تھے عجیب عجیب آوازیں میرے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ لیکن اب زیادہ دیر میرا ذہن ساتھ نہیں دے سکا۔ اور مَیں بے ہوش ہو کر نیچے گر پڑا۔
 اسپتال میں جب میری آنکھ کھلی تو سب مجھے عجیب تعریفی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
 ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’شاباش! بہادر لڑکے، تم اب بالکل ٹھیک ہو۔‘‘ مَیں بھی جواب میں مسکرا دیا۔
 کچھ دیر یوں ہی لیٹے لیٹے مَیں نے پاس پڑا ہوا ایک مقامی اخبار اُٹھا لیا، پہلے صفحہ پر نظر پڑتے ہی دماغ میں کوندا سا لپکا۔ سامنے میری ہی تصویر تھی اور نیچے موٹے موٹے حرفوں میں لکھا تھا:
 ’’بہادر لڑکا.... جس نے جان پر کھیل کر پڑوسن کے دودھ پیتے بچے کو جلتے ہوئے مکان میں سے نکالا۔‘‘
 شام کو جب کمار، اسلم اور حامد مجھے دیکھنے آئے تو مَیں نے چپکے سے حامد سے کہا، ’’یار شاید تم ہی ٹھیک کہہ رہے تھے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK