میمنے میاں کی فطرت میں کھوج کا جذبہ بہت تھا جو اُسے مصیبت میں ڈالتا دیتا ہے۔
EPAPER
Updated: December 14, 2024, 5:49 PM IST | Muhammad Sabir Jabalpuri | Mumbai
میمنے میاں کی فطرت میں کھوج کا جذبہ بہت تھا جو اُسے مصیبت میں ڈالتا دیتا ہے۔
ایک تھا میمنا، ننھا سا، پیارا سا۔
اس کا مالک تھا ایک بوڑھا لکڑہارا۔ لکڑی کاٹنے کے لئے وہ روز جنگل میں جایا کرتا تھا۔ اپنے ساتھ وہ میمنے اور اس کی ماں بھوری کو بھی لے جایا کرتا تھا۔
میمنے کو جنگل میں خوب مزہ آتا تھا۔ خوب مستی سے گھومتا، کھاتا، پیتا۔
میمنے میاں کی فطرت میں کھوج کا جذبہ بہت تھا۔ تھے بھی چست، چالاک، بہادر اور نڈر۔ انہوں نے جنگل میں اپنے کئی دوست بنا لئے تھے۔ ان کا سب سے قریبی دوست تھا ہُدہُد (کٹھ پھوڑا)۔ میمنے میاں گھنٹوں اس کے ساتھ مزے مزے کی باتیں کیا کرتے۔ اس کے ساتھ اچھلتے، کھیلتے کودتے۔ لکڑہارا اور بھوری دونوں چنچل میمنے پر نظر رکھتے تھے۔
ایسے ہی ایک دن لکڑہارا جنگل میں اپنے کام میں مصروف تھا اور بھوری بیٹھی جگالی کر رہی تھی۔ میمنے میاں نے دیکھا کہ دونوں کا دھیان ان کی طرف نہیں ہے۔ بس وہ چپکے سے دونوں کی نظر بچا کر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ دراصل میمنے میاں کے دل میں بہت دنوں سے ایک تمنّا تھی، جب کبھی وہ نظر اٹھا کر دور بہت دور دیکھتے تھے تو انہیں وہاں زمین، آسمان ایک دوسرے سے ملتے نظر آتے تھے۔ بس وہ اسی خوبصورت اور دلکش جگہ پر جانا چاہتے تھے۔ تاکہ آسمان کو چھو کر دیکھ سکیں۔
جب میمنے میاں اپنے خیال میں گم لکڑہارے اور بھوری سے تھوڑی دور نکل آئے تو آرام سے ٹہلتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ انہیں اتنا بھی احساس نہیں ہوا کہ کب ان کا دوست ہُدہُد ان کے ساتھ ہوگیا۔
آزادی اور بے فکری کی فضا میں سانس لی تو میمنے میاں کے دل میں ترنگیں اٹھنے لگیں اور وہ اچھلتے کودتے، چوکڑیاں بھرتے اپنی ماں اور لکڑہارے سے کافی دور نکل آئے۔
اب گھنا جنگل شروع ہوگیا تھا۔ زمین اور آسمان کا سنگم اب بھی پہلے ہی کی طرح دور، بہت دور نظر آرہا تھا۔
سامنے گھنا اور خوفناک جنگل۔ آگے راستہ نہ پا کر میمنے میاں ٹھٹک کر کھڑے ہوگئے۔
ابھی میمنے میاں گم صم کھڑے ہی تھے کہ نہ جانے کب سے تاک میں بیٹھا ہوا ایک خونخوار بھیڑیا اچانک سامنے آگیا ابھی یہ سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے دو تین بھیڑیوں نے انہیں گھیر لیا۔ اب تو میمنے میاں کی گھگی بندھ گئی.... ڈر کی شدت سے تمام جسم پتے کی طرح تھرتھر کانپنے لگا۔ سوچا، بُرے پھنسے! ادھر بھیڑیئے اپنی خوفناک سُرخ سُرخ آنکھیں چمکاتے ہوئے اور خونخوار زبانیں لپلپاتے ہوئے اپنے شکار کی گھبراہٹ سے لطف اٹھاتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ میمنے میاں نے دل ہی دل میں دعا کی، ’’خدایا! اب تو ہی حفاظت کرنے والا ہے۔‘‘
اچانک اس خوفناک ماحول میں ’’کھٹ کھٹ کھٹ‘‘ کی آواز آنے لگی، جیسے کوئی لکڑہارا لکڑی کاٹ رہا ہو۔بھیڑیوں کے بڑھتے ہوئے قدم اس آواز کو سن کر ایک دم سے رک گئے۔ انہوں نے سوچا، ہو نہ ہو یہ لکڑہارا ہی اس میمنے کا مالک ہے۔
’’کھٹ کھٹ‘‘ کی آواز تیز ہوتی گئی اور بھیڑیئے چوکنے ہوتے گئے انہوں نے سوچا اگر لکڑہارا ان تک پہنچ گیا تو ان کی شامت آجائے گی اس لئے انہوں نے وہاں سے نو دو گیارہ ہونے میں ہی اپنی خیریت سمجھی اور دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
اب میمنے میاں کی ٹانگوں نے تھکن کی وجہ سے چلنے سے انکار کر دیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ٹھیک سے ہوش آنے پر انہوں نے سوچا، ’’یہ لکڑہارا یہاں کہاں سے آیا؟‘‘
اسی لمحہ کسی نے ان کی پیٹھ پر ٹہوکا مارا۔ میمنے میاں ایک دم سے چونک پڑے۔ ساتھ ہی انہیں اپنے دوست ہُدہُد کی جانی پہچانی ہنسی سنائی دی۔
’’کہو! کیسا حال ہے۔‘‘ ہُدہُد نے پوچھا۔
میمنے میاں ’’ہی ہی‘‘ کرکے اپنی جھینپ مٹائے ہوئے بولے، ’’تو یہ ’کھٹ کھٹ‘ کی آواز کرنے والے آپ ہی تھے؟ مگر آپ کو یہ کیسے پتہ چلا کہ مَیں یہاں ہوں؟‘‘
ہُدہُد نے بتایا کہ اس نے میمنے کو اپنے سرپرستوں کی نظر بچا کر بھاگتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
’’مگر آپ کو یہاں آنے کی کیسے سوجھی؟‘‘ ہُدہُد نے میمنے سے پوچھا۔
میمنے نے جب وجہ بیان کی تو ہُدہُد دیر تک ہنستا رہا۔
’’ارے بھائی، زمین اور آسمان بھی کبھی ملتے ہیں؟ یہ تو صرف نظر کا دھوکہ ہے اور پھر آسمان نام کی چیز بھلا ہے کیا؟‘‘
ہُدہُد نے محسوس کیا کہ اس سوال پر میمنے میاں بغلیں جھانکنے لگے ہیں۔ اس لئے اس نے میمنے کو سمجھایا، ’’دراصل زمین کے اوپر کئی میل تک ہوا کا ایک غلاف (کرۂ باد) ہے زمین کے قریب اس دائرے کی ہوا کافی گاڑھی ہے۔ رفتہ اس غلاف کی ہوا اوپر کی جانب لطیف سے لطیف تر ہوتی جاتی ہے۔ ہوا کے اس غلاف (کرۂ باد) کے ختم ہونے پر شروع ہوتا ہے خلا۔‘‘
’’اچھا!‘‘ میمنے میاں کے چہرے سے حیرت کا اظہار ہو رہا تھا۔
’’ہاں۔‘‘ ہُدہُد نے کہا، ’’ہوا کا غلاف زمین کے قریب بہت کثیف اور گھنیرا ہونے کی وجہ سے نیلا نظر آتا ہے، جیسے گہری جھیل یا سمندر کا پانی۔‘‘
اب وہ دونوں دوست واپس لوٹ رہے تھے۔ میمنےنے اگلا سوال کیا، ’’تو سمندر یا جھیل کا پانی نیلا ہوتا ہے؟‘‘
’’نہیں۔ بہت زیادہ مقدار میں اور بہت گہرا ہونے کی وجہ سے ہی یہ پانی نیلا نظر آتا ہے۔ ویسے پانی کا بھی کوئی رنگ نہیں ہوا کرتا۔ جس طرح ہوا کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔‘‘
’’اچھا، اب سمجھا!‘‘ میمنے میاں نے ٹھنڈی سانس لی، ’’نظر کے دھوکہ کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ہی مَیں آج مرتے مرتے بچا۔‘‘
’’بدھو کہیں کے! ارے، اپنی ماں سے یا مجھ سے پوچھ لیا ہوتا! کسی بھی طرح کی معلومات حاصل کرنے میں کبھی تکلّف نہیں کرنا چاہئے.... خاص طور پر اپنے دوستوں سے سمجھے۔‘‘ اور ہُدہُد پیار سے اپنے دوست کے کان سہلانے لگا۔n