معروف برطانوی ادیب رولڈ ڈاہل کی شہرۂ آفاق کہانی ’’مین فرام دی ساؤتھ‘‘ Man from the South کا اُردو ترجمہ۔
EPAPER
Updated: September 08, 2023, 4:08 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
معروف برطانوی ادیب رولڈ ڈاہل کی شہرۂ آفاق کہانی ’’مین فرام دی ساؤتھ‘‘ Man from the South کا اُردو ترجمہ۔
گھڑی کی سوئیاں ۶؍ بجانے والی تھیں ۔ مَیں نے سوچا اس شاندار ہوٹل کے سوئمنگ پول کے کنارے بچھی کرسی پر بیٹھ کر کیوں نہ غروب آفتاب کا نظارہ کیا جائے۔ اس خیال کے آتے ہیمَیں سافٹ ڈرنک خرید کر باغ میں ٹہلتا ہوا سوئمنگ پول کے قریب پہنچ گیا۔ باغ میں ہری گھاس کے بستر پر ناریل اور کھجوروں کے لمبے لمبے درخت ایستادہ تھا۔ شام کے سائے میں یہ درخت کسی عفریت کی طرح جھولتے محسوس ہورہے تھے۔ تیز ہواؤں کے سبب درختوں سے عجیب سی آوازیں آرہی تھیں ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آگ میں جل رہے ہوں۔
سوئمنگ پول کے اردگرد بہت سی کرسیاں بچھی ہوئی تھیں جن پر رنگ برنگی چھتریاں تھیں ۔ کچھ افراد سوئمنگ پول کے ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ پول میں چند نوجوان کافی شور کررہے تھے۔ مَیں زرد رنگ کی چھتری تلے بیٹھ گیا جہاں اور بھی کرسیاں تھیں اور مشروب کی ہلکی ہلکی چسکیاں لینے لگا۔
تبھی مَیں نے دیکھا کہ ایک چھوٹے قد کا بوڑھا تیزی سے پول کی طرف آرہا ہے۔ وہ پاؤں کی انگلیوں کے بل چلتا محسوس ہورہا تھا۔ سفید سوٹ میں ملبوس وہ شخص میرے سامنے رُکا اور مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا، ’’کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں ؟‘‘
’’یقیناً۔‘‘ مَیں نے خوشدلی سے کہا۔
وہ ٹانگیں پھیلا کر کرسی پر لیٹ گیا۔ اس کے جوتے بھی سفید تھے جن میں چھوٹے چھوٹے سوراخ تھے۔ ’’یہ ایک خوبصورت شام ہے۔ دراصل جمائیکا کی تمام شامیں ہی خوبصورت ہوتی ہیں ۔‘‘ اس کے لہجے سے مَیں اندازہ نہیں لگا سکا کہ وہ اطالوی ہے یا ہسپانوی لیکن اتنا یقین ہوگیا کہ اس کا تعلق جنوبی امریکہ سے ہے۔ اس کی عمر تقریباً ۷۰؍ سال تھی۔
’’ہاں ! شام خوبصورت ہے۔‘‘ مَیں نے کہا۔
’’مجھے نہیں لگتا کہ سوئمنگ پول میں نہانے والے افراد یہاں کے ہیں ۔‘‘
’’ہاں ! یہ امریکی ہیں ۔‘‘
’’یقیناً! دنیا میں اتنا شور امریکی ہی کرسکتے ہیں ۔‘‘
اچانک ایک امریکی نوجوان سامنے آگیا۔
’’کیا مَیں یہاں بیٹھ سکتا ہوں ؟‘‘
’’ہاں ،‘‘ مَیں نے جواب دیا۔
’’شکریہ!‘‘ اس نے کہا۔ اس کے ہاتھ میں ایک تولیہ تھا جسے وہ کرسی پر بچھا کر بیٹھ گیا۔ چھوٹے قد والے بوڑھے نے سگار نکال لیا۔ امریکی لڑکا شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لائٹر لے کر آگے بڑھا لیکن بوڑھے نے کہا کہ اس لائٹر سے سگار نہیں جلے گا۔
’’یہ مشہور لائٹر ہے جس سے ہمیشہ آگ نکلتی ہے۔ یہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔‘‘ امریکی لڑکے نے فخریہ کہا۔
’’واقعی!‘‘ بوڑھے کو یقین نہیں آیا۔
’’بالکل!‘‘ لڑکے نے کہا۔وہ تقریباً بیس سال کا نوجوان تھا جس کی ستواں ناک اسے حسین بناتی تھی۔
’’ایک منٹ، پلیز۔‘‘ بوڑھے آدمی نے کہا۔ ’’ہمیں اس بات پر شرط لگانی چاہئے۔‘‘
’’ضرور!‘‘ لڑکے نے کہا۔ ’’کیوں نہیں ؟‘‘
بوڑھے آدمی نے اپنے سگار کا جائزہ لیا۔
مجھے اس کا برتاؤ پسند نہیں آیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ لڑکے کو جان بوجھ کر شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پھر وہ کہنے لگا، ’’ہمیں کوئی بڑی شرط لگانی چاہئے۔‘‘
’’مَیں ایک ڈالر کی شرط لگانے کیلئے تیار ہوں ۔‘‘ لڑکے نے جوشیلے انداز میں کہا۔
بوڑھےنے کہا، ’’ہم سب میرے کمرے میں چلتے ہیں جہاں ہوا نہیں ہوگی۔ تمہیں مسلسل دس بار اس لائٹر کو جلانا اور بجھانا ہے۔ ‘‘
’’مَیں تیار ہوں ۔‘‘ لڑکے نے کہا۔
’’لیکن شرط ایک ڈالر کی نہیں ہوگی۔ میں ایک امیر آدمی ہوں ۔ ہوٹل کے باہر میری عمدہ کیڈی لاک (ایک کار کا نام) کھڑی ہے۔ مسلسل دس بار اس لائٹر سے آگ نکالو اور کیڈی لاک لے جاؤ۔‘‘
’’اور بدلے میں مجھے کیا داؤ پر لگانا ہوگا۔‘‘ لڑکے نے پوچھا۔’’مَیں ایسی کوئی چیز نہیں مانگوں گا جو تم دے نہ سکو۔‘‘ بوڑھے نے لڑکے کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جیسے کیا؟‘‘ لڑکا تذبذب کا شکار تھا۔
’’تمہارے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی۔‘‘
’’کیا!‘‘ لڑکے کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ ’’ہاں ! اگر تم جیت گئے تو کیڈی لاک تمہاری۔ ہار گئے تو تمہاری انگلی میری۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں ۔ تم میری انگلی پکڑ کر کیا کروگے؟‘‘
’’مَیں اسے پکڑوں گا نہیں ، کاٹ لوں گا۔‘‘ بوڑھے کے لہجے میں سفاکیت تھی۔ ’’یہ ایک بیہودہ شرط ہے۔ میرے خیال میں ایک ڈالر والی شرط ٹھیک رہے گی۔‘‘
بوڑھا خاموشی سے اپنی کرسی پر لیٹ گیا۔ امریکی لڑکا تذبذب کے عالم میں لائٹر جلانے بجھانے لگا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ ’’کیا تم ٹھیک ہو؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔
’’جی ہاں !‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
ہم تینوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی اور مَیں دیکھ سکتا تھا کہ بوڑھا آدمی اپنی بیہودہ تجویز سے لڑکے کو پریشان کرنے میں کامیاب رہا تھا۔ وہ آرام سے بیٹھا تھا مگر لڑکا اپنی کنپٹیاں مسل رہا تھا۔ پھر اس نے آنکھیں بند کیں اور چند سیکنڈ کے بعد کھول دیں ۔ وہ مضطرب تھا۔
’’ایک منٹ! تم نے کہا کہ اگر ہم تمہارے کمرے میں جاتے ہیں جہاں ہوا نہیں ہوگی اور میں مسلسل ۱۰؍ مرتبہ لائٹر جلاتا اور بجھاتا ہوں تو مَیں کیڈی لاک جیت جاؤں گا اور اگر ہار جاتا ہوں تو تم میرے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کاٹ لوگے۔ ہے نا؟‘‘ لڑکے نے کہا۔
’’بالکل۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ تم خوفزدہ ہو۔‘‘
’’۱۰؍ بار کوشش کے بعد تم میری انگلی کاٹوگے؟‘‘
’’اوہ، نہیں ! مَیں تمہارا ایک ہاتھ میز سے باندھ دوں گا۔ اور ۱۰؍ کی گنتی کی دوران جیسے ہی تمہارے لائٹر سے ننھا شعلہ نکلنا بند ہوگا، مَیں تمہاری انگلی کاٹ کر اپنے پاس رکھ لوں گا۔‘‘ ’’کیڈی لاک کون سے سال کی ہے؟‘‘ لڑکے نے پوچھا۔’’پچھلے سال کا ماڈل ہے۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔لڑکا ایک لمحے کیلئے رُکا۔ اس نے میری طرف دیکھا، پھر کہا ’’مَیں تیار ہوں ۔‘‘ بوڑھے نے خوشی سے تالی بجائے۔ پھر میری طرف متوجہ ہوا، ’’تم ایک اچھے ریفری ثابت ہوگے۔‘‘ مَیں نے کہا، ’’مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک بیوقوفانہ شرط ہے۔ مجھے اس سے دور رکھو۔کیا تم اس لڑکے کی انگلی کاٹنے کے بارے میں سنجیدہ ہو؟ اگر وہ ہار گیا تو؟‘‘ ’’مَیں بالکل سنجیدہ ہوں ۔ یہ بھی سوچو کہ اگر وہ جیت گیا تو کیڈی لاک اس کی ہوگی۔‘‘
’’اگر تم ساتھ آتے تو اچھا ہوتا۔‘‘ لڑکے نے کہا۔
’’ٹھیک ہے،‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’میں ساتھ آؤں گا لیکن مجھے یہ شرط پسند نہیں ہے۔‘‘
پھر ہم بوڑھے آدمی کے کمرے کی طرف بڑھنے لگے۔ وہ بہت خوش تھا۔ وہ ہمیں ڈرائیو وے کی طرف سے لے گیا جہاں ایک گہرے سبز رنگ کی خوبصورت کیڈی لاک کھڑی تھی۔ ’’یہ بہت خوبصورت ہے۔‘‘ لڑکے نے حیرت سے کہا۔
یہ بھی پڑھئے: تجربہ کار سپاہی (اسٹیفن کرین)
’’ہے نا؟ آئندہ چند لمحوں بعد یہ تمہاری ہوگی۔‘‘ بوڑھے نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
پھر ہم سب اس ہوٹل کے سب سے خوبصورت کمرے میں داخل ہوئے۔ بوڑھے نے فون کرکے ویٹر سے تمام لوازمات منگوا لئے تھے۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ ستواں ناک والا یہ خوبصورت نوجوان اگر شرط جیت گیا تو ایک شاندار کیڈی لاک جیت جائے گا لیکن اگر ہار گیا تو پھر اسے اسی کیڈی لاک میں اسپتال لے جانا پڑے گا۔ ’’کیا تمہیں نہیں لگتا کہ یہ ایک احمقانہ شرط ہے؟‘‘ میں نے نوجوان سے پوچھا۔
’’یہ ایک اچھی شرط ہے۔ اگر میں جیت گیا تو کیڈی لاک، اور اگر ہار گیاتو بائیں ہاتھ کی ایک چھوٹی انگلی گنوا دوں گا جس کی ضرورت مجھے آج تک محسوس نہیں ہوئی۔‘‘
’’شرط شروع کرنے سے پہلے مَیں اپنی کار کی چابی ریفری کو پیش کرنا چاہوں گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بوڑھے نے چابی میری طرف بڑھا دی۔ پھر اس نے گاڑی کے کاغذات بھی میرے حوالے کردیئے۔ کچھ دیر بعد ہم سب ایک میز کے کنارے کھڑے ہوگئے۔ بوڑھے کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ یہ کام پہلے بھی کرچکا ہے۔ بوڑھے نے نوجوان امریکی کو میز کے کنارے بٹھایا اور اس کا بایاں ہاتھ میز کے ایک سرے سے اس طرح باندھ دیا کہ شرط ہارنے پر وہ مزاحمت نہ کرسکے۔
’’لاجواب! اب ہم تیار ہیں ۔ تم دائیں ہاتھ سے لائٹر جلاسکتے ہو۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔
’’بالکل!‘‘ لڑکے کا جواب اثبات میں تھا۔
بوڑھا شکاری چاقو کے ساتھ لڑکے کے قریب کھڑا ہوگیا، اور کہنے لگا ’’ریفری، تمہیں ہری جھنڈی دکھا دینی چاہئے۔‘‘ لڑکا بالکل ساکت بیٹھا تھا۔ اس کی پوری توجہ اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑے لائٹر کی طرف تھی۔ بوڑھا میری طرف دیکھ رہا تھا۔
’’کیا تم تیار ہو؟‘‘ مَیں نے لڑکے سے پوچھا۔
’’مَیں تیار ہوں ۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
’’اور تم؟‘‘ مَیں نے بوڑھے سے پوچھا۔
’’بالکل تیار!‘‘ اس نے چاقو کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔
’’شروع کرتے ہیں !‘‘ مَیں نے کہا۔
لڑکے نے کہا، ’’کیا تم بلند آواز میں شمار کروگے کہ مَیں نے لائٹر کتنی مرتبہ روشن کیا؟‘‘
’’ضرور۔‘‘ مَیں نے جواب دیا۔
اس نے اپنے دائیں ہاتھ میں لائٹر اچھی طری پکڑ لیا اور پھر اپنے انگوٹھے سے اس کی چھوٹی سی چکری گھمائی۔ زرد رنگ کا ایک ننھا سا شعلہ چھوٹے سے سوراخ سے نکل آیا۔ ’’ایک!‘‘ مَیں نے بآواز بلند کہا۔
لڑکے نے شعلہ بجھا دیا۔ اسے دوبارہ جلانے کیلئے کچھ پانچ سیکنڈ تک انتظار کیا۔اس نے چھوٹی چکری پھر گھمائی۔ ننھا زرد شعلہ پھر سوراخ سے نکل آیا۔
’’دو!‘‘ مَیں نے بآواز بلند کہا۔
لڑکے کی نظریں لائٹر پر تھیں جبکہ بوڑھے کی نظریں ایک مرتبہ لائٹر پر جاتی پھر چھوٹی انگلی پر۔
’’تین!‘‘’’چار!‘‘’’پانچ!‘‘’’چھ!‘‘’’سات!‘‘ ظاہر ہے یہ ایک اچھا لائٹر تھا اور نوجوان کا ساتھ نبھا رہا تھا۔ لڑکا چکری گھماتا۔ شعلہ بھڑک اٹھتا، وہ اسے بجھا دیتا۔ پانچ سیکنڈ تک انتظار کرتا اور پھر چکری گھماتا۔
’’آٹھ!‘‘ مَیں نے جیسے ہی کہا، اچانک کمرے کا دروازہ کھلا۔ ہم سب نے پلٹ کر دیکھا تو ایک خاتون اندر داخل ہورہی تھی۔ چھوٹے قد اور سیاہ بالوں والی ایک معمر خاتون، کچھ لمحات کیلئے وہ ٹھہر گئی، پھر تقریباً چیختے ہوئے آگے بڑھی، ’’کارلوس!‘‘ اس نے بوڑھے کی کلائی پکڑلی اور اس کے ہاتھ سے شکاری چاقو چھین لیا۔ وہ بوڑھے کا گریبان پکڑ کر زور زور سے جھٹکے دینے لگی اور ساتھ ہی ہسپانوی زبان میں کچھ کہتی جارہی تھی۔
شاید کارلوس کو نیند سے جگانے کی کوشش کررہی تھی۔ وہ اتنی تیزی سے اسے ہلا رہی تھی کہ اس شخص کا جسم محض ہیولہ سا نظر آنے لگا تھا۔ پھر خاتون کی رفتار دھیمی پڑگئی۔ اس نے بوڑھے کو کمرے کے بیڈ پر دھکیل دیا۔ وہ آنکھیں جھپکتا ہوا بیڈ پر پڑا رہا۔’’مَیں معذرت خواہ ہوں،‘‘ خاتون نے کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔‘‘ وہ روانی سے انگریزی بول رہی تھی۔ ’’یہ میری غلطی ہے۔ دس منٹ کیلئے مَیں اسے اکیلا چھوڑ کر کیا گئی، یہ وہی حرکتیں دوبارہ کرنے لگا۔‘‘ وہ افسردہ اور فکرمند نظر آرہی تھی۔امریکی لڑکا میز سے اپنا ہاتھ کھولنے لگا۔
’’یہ ایک خطرناک آدمی ہے۔‘‘ خاتون نے کہا۔ ’’ہم جہاں رہتے ہیں، وہاں اس نے تقریباً سینتالیس لوگوں کے ساتھ ایسی شرط لگائی تھی، یعنی ۴۷؍ انگلیاں کاٹی ہیں۔ پڑوسیوں نے شکایت درج کروائی تو مَیں اسے لے کر یہاں آگئی تاکہ کوئی مسئلہ نہ ہو۔‘‘
’’ہم نے بس ایک چھوٹی سی شرط لگائی تھی۔‘‘ بستر سے بوڑھا آدمی بڑبڑایا۔’’میرا خیال ہے کہ اس نے کار پر شرط لگائی ہے!‘‘ خاتون نے کہا۔
’’ہاں،‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔ ’’ایک کیڈی لاک۔‘‘
’’اس کے پاس کوئی کار نہیں ہے۔ وہ کار میری ہے۔ مجھے اس معاملے پر افسوس ہے اور مَیں بہت شرمندہ ہوں۔‘‘ وہ ایک سلجھی ہوئی سنجیدہ خاتون لگ رہی تھی۔ ’’ٹھیک ہے،‘‘ مَیں نے کہا، ’’یہ رہی آپ کی گاڑی کی چابی۔‘‘ مَیں نے اسے میز پر رکھ دیا۔’’ہم نے بس ایک چھوٹی سی شرط لگائی تھی،‘‘ بستر سے بوڑھا آدمی پھر بڑبڑایا۔
’’اس کے پاس شرط لگانے کیلئے کچھ نہیں بچا ہے،‘‘ خاتون نے کہا۔ ’’اس کے پاس دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر وہ شرط لگائے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل مَیں نے اس سے یہ سب کچھ جیتا ہے۔ اس میں بہت وقت لگا، بہت وقت۔ سخت محنت کے بعد مَیں یہ سب جیت سکی ہوں۔ ‘‘ وہ لڑکے کی طرف دیکھ کر اداسی سے مسکرائی۔ ہلکی سی اُداس مسکراہٹ۔ پھر اس نے میز پر پڑی چابی اٹھانے کیلئے اپنا بایاں ہاتھ بڑھایا، اور مَیں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ پر صرف ایک انگلی اور ایک انگوٹھا ہے۔