• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

انسان مریخ اور چاند پر جا بسے....

Updated: December 14, 2024, 5:54 PM IST | Muhammad Zaid Muhammad Haleem | Mumbai

آج تاریخ تھی ۲۱؍ ستمبر ۲۱۲۴ء۔ ڈیوڈ اپنے دادا کے ساتھ آٹو واکنگ مشین (خود سے چلنے والی) پر کھڑا ہوا لندن کی سڑکوں پر ٹہل رہا تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

آج تاریخ تھی ۲۱؍ ستمبر ۲۱۲۴ء۔ ڈیوڈ اپنے دادا کے ساتھ آٹو واکنگ مشین (خود سے چلنے والی) پر کھڑا ہوا لندن کی سڑکوں پر ٹہل رہا تھا۔ لندن کی خالی سڑکیں، گھر اور عمارتیں دیکھ کر اس نے دادا سے یہ سوال پوچھا، ’’دادا ایسا لگتا ہے کہ یہاں پہلے بہت سے افراد رہتے تھے مگر آج یہ ویران ہوگیا ہے۔‘‘ دادا نے ایک آہ بھری اور کہا، ’’بیٹا! آج انسانوں نے زمین کو چھوڑ کر چاند اور مریخ پر اپنی الگ دنیا بسا چکے ہیں۔ پہلے لندن کو دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے لوگ آتے تھے۔‘‘ ’’ہاں دادا جی مَیں نے ابھی ابھی لندن کا پرانا منظر اپنی انکھوں میں لگی لینس سے دیکھا۔‘‘ ’’بیٹا پہلے اس لینس کی جگہ موبائل اور کمپیوٹرز ہوا کرتے تھے۔‘‘ جیسے جیسے دادا اس کو پرانی بات بتا رہے تھے ویسے ویسے ڈیوڈ کی انکھوں میں لگی لینس اس کو ساری چیزیں خود بخود بتا رہی تھیں۔ دادا نے سوال کیا، ’’آج سورج کی تپش کتنی ہے؟‘‘ ’’دادا ۹۰؍ درجہ!‘‘ دادا نے کہا، ’’بیٹا اگر ہم یہ کپڑا ایک سیکنڈ کے لئے بھی اتار دیں تو ہم جل کر راکھ ہو جائیں گے۔‘‘ دراصل انہوں نے ایک ایسا کپڑا پہنا ہوا تھا جس پر سورج کی تپش کا اثر نہیں ہوتا تھا اور اس سے پورا جسم ڈھکا ہوا تھا۔ ’’پہلے اگر تپش ۴۰؍ یا ۵۰؍ درجہ پہنچتی تھی تو تہلکہ مچ جاتا تھا۔ انسان گھر سے بہت ہی مجبوری میں نکلتا تھا۔‘‘
 دادا نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ’’پرانی دنیا کے بڑے بڑے شہر آج زیر آب آچکے ہیں جیسے میامی، جکارتا، ڈھاکہ، بینکاک اسکندریہ اور وینس۔ ان سارے شہروں کا آج نام و نشان مٹ چکا ہے۔ یہ سارے شہر اپنے سینے میں کروڑوں لوگوں کی خواہشات لئے ہوئے ڈوب گئے ہیں۔ اگلے کچھ برسوں میں پرانی دنیا کے بڑے بڑے ملک پوری طرح سے ڈوب جائیں گے۔‘‘ ڈیوڈ نے فورا سوال کیا، ’’یہ ملک کیا ہوتا ہے دادا جی؟‘‘ دادا جی نے دوبارہ ٹھنڈی آہ بھری اور کہا، ’’بیٹا پہلے زمین کے مخصوص حصے پر کچھ لوگوں کا قبضہ ہوتا تھا جسے وہ لوگ اپنا ملک یا وطن کہتے تھے۔ پوری زمین پر سرحدیں کھنچی ہوئی تھیں۔ جہاں کسی سرحد کا ایک بھی باشندہ بغیر اجازت دوسری سرحد میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ ان سرحدوں کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں لوگوں نے اپنی جانیں گنوا دیں۔ نہ جانے کتنی خوفناک خون ریز جنگیں ہوئیں۔ سب سے زیادہ خطرناک تیسری عالمی جنگ ہوئی جس میں کروڑوں لوگوں کا قتل عام ہوا۔‘‘ ڈیوڈ نے حیرت سے سوال پوچھا، ’’دادا جی آج سرحدیں کیوں نہیں ہیں؟‘‘
 دادا نے کہا، ’’تیسری عالمی جنگ میں روس اور امریکہ کے درمیان بہت ہی خونخوار جنگ ہوئی۔ اس میں روس نے امریکہ کو ہرا کر ساری دنیا پر قبضہ کر لیا جسے تم آج نیو ورلڈ سپر پاور کے نام سے جانتے ہو۔ روس نے ڈیڑھ سو سال پہلے ہی کہہ دیا تھا اگر دنیا میں روس نہیں بچے گا تو دنیا تباہ ہو جائے گی کیونکہ روس کے مٹتے ہی اس کا ’ڈیڈ ہینڈ آپریشن‘ چالو ہو جائے گا اور پھر پوری دنیا پر میزائل برسائے گا۔ اچھا ہوا امریکہ یہ جنگ ہار گیا ورنہ آج ہم زندہ نہ ہوتے بس وہی لوگ زندہ ہوتے جو اس سیارے کو چھوڑ کر مریخ اور چاند پر جا بسے ہیں۔ اب تو مریخ اور چاند بھی روس کے قبضے سے باہر نہیں، روس چاہے تو ان سیاروں کو بھی برباد کرسکتا ہے۔ ان دو سیاروں پر پرانی دنیا کے ایک ملک چین کا اثر زیادہ ہے۔‘‘
 اچانک ڈیوڈ کو ایک میسیج آیا، اس نے دادا سے کہا، ’’دادا جی میرے ماموں کی موت ہوگئی ہے۔ کسی نے ان کی انکھوں میں لگی لینس پر وائرس کے ذریعے حملہ کر دیا ہے۔ ہمیں جلد از جلد مریخ پر پہنچنا ہوگا۔‘‘ دادا نے کہا، ’’ہم ٹوکیو سے جلد راکٹ پر سوار ہوسکتے ہیں۔‘‘ اتنا کہنا تھا کہ آٹو واکنگ مشین اڑتی ہوئی کار میں تبدیل ہوئی اور وہ منٹوں میں لندن سے ٹوکیو پہنچ گئے اور وہاں سے مریخ کی راکٹ پر سوار ہوگئے۔
(قلمکار مہاراجہ سیاجی راؤ گائیکواڑ کالج، مالیگاؤں کا ایس وائے بی اے کا طالب علم ہے۔)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK