یہ کہانی سکھاتی ہے کہ اللہ کی ہر نعمت کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
EPAPER
Updated: October 19, 2024, 1:36 PM IST | M. Laeeq Ahmed | Mumbai
یہ کہانی سکھاتی ہے کہ اللہ کی ہر نعمت کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
شاہد کی اماں چونک اٹھیں۔ گھڑیال نے ۱۰؍ بجنے کا اعلان کر دیا تھا۔ شاہد کے اسکول جانے کا وقت ہوگیا تھا۔ شاہد کی امّاں باورچی خانے سے نکل کر شاہد کے قریب آئیں اور بڑے پیار سے بولیں، ’’بیٹا شاہد! ابھی تک اسکول نہیں گئے دس بج گئے۔ جاؤ جلدی تیار ہو کر اسکول جاؤ۔ ورنہ اسکول میں ماسٹر جی سے مار کھاؤ گے۔‘‘
’’ماں، مَیں اسکول نہیں جاؤں گا۔‘‘ شاہد نے بے دلی سے کہا۔
’’کیوں بیٹا.... کیوں نہیں جاؤ گے؟‘‘ ماں نے ذرا سختی سے کہا۔
’’میرے اسکول کے کپڑے بالکل پھٹ گئے ہیں۔ اسکول کے دوسرے لڑکے مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں اور میرا مذاق اُڑاتے ہیں۔‘‘
’’اچھا ٹھہرو۔ مَیں ابھی تمہارے کپڑے سئے دیتی ہوں۔‘‘
’’ماں، تمہارے سینے سے کیا ہوگا؟ تم نے تو پرسوں بھی میری قمیص سی دی تھی۔ لیکن پھر پھٹ گئی۔ اب میں یہ قمیص اور پینٹ نہیں پہنوں گا۔‘‘ شاہد بضد تھا۔
’’بیٹا، کپڑے پھٹ جانے سے آدمی چھوٹا نہیں ہوجاتا۔ بس کپڑے صاف ستھرے ہونے چاہئیں۔ اس وقت تو جاؤ تمہارے ابّا دفتر سے آئیں گے تو اُن سے کہوں گی۔‘‘
’’مَیں نے تو ابّا سے کئی بار کہا، لیکن انہوں نے میرے لئے کپڑے بنوائے ہی نہیں۔‘‘
شاہد کے ابّا فریدالدین ایک معمولی سی کمپنی میں ملازم تھے۔ اُن کی تنخواہ بس اتنی تھی کہ مہینے میں لے دے کے برابر ہوجایا کرتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ کبھی کبھی انہیں بہت پریشانیاں پیش آتی تھیں۔ فرید الدین آٹھویں جماعت تک ہی پڑھے ہوئے تھے لیکن وہ چاہتے تھے کہ شاہد اچھی تعلیم حاصل کر لے، تاکہ اُن کا نام روشن ہو اور شاہد بھی دنیا میں اچھا انسان بن کر رہ سکے۔ ماں باپ شاہد کو بہت چاہتے تھے۔ شاہد کو بھی اپنے والدین کے سپنوں کا علم تھا۔ وہ ایک اچھا اور محنتی لڑکا تھا خوب دل لگا کر پڑھتا تھا، اور ہر سال امتحان میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوتا تھا، لیکن اس کے باوجود اس کے اندر ایک بہت بڑی کمی تھی۔ یا تو وہ یہ بات جانتا نہیں تھا اور اگر جانتا تھا تو اس پر عمل نہیں کرتا تھا کہ ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
صبر اور شکر شاہد سے دور ہی رہتے تھے۔ اگر اسے کھانے پر دال یا سبزی مل جاتی تو وہ ناک بھوں چڑھا لیتا اور کہتا، ’’مَیں یہ نہیں کھاؤں گا، مجھے گوشت چاہئے، انڈا چاہئے....‘‘ کبھی وہ اپنے ابّا سے قلم لانے کو کہتا اور اگر وہ سستا سا قلم خرید لاتے تو وہ کہتا، ’’مجھے یہ چھ آنے والا قلم نہیں چاہئے۔ یہ جلد خراب ہوجاتا ہے۔ مجھے دس روپے والا قلم لے دیجئے، جو ہمارے اسکول کے ایک لڑکے اکبر کے پاس ہے۔‘‘ کبھی اپنے ابّا کو اس طرح تنگ کرتا: ’’مجھے یہ چپل نہیں، نوکیلا اور چمکیلا جوتا چاہئے۔‘‘
غرض اس طرح کی اس کی مانگیں ہوتیں۔ ظاہر ہے ان کو پورا کرنا اس کے ماں باپ کے بس میں نہ تھا۔ ایک آدھ خواہش وہ بڑی مشکل سے پوری کرتے تھے اور ساتھ میں اسے سمجھاتے بھی تھے، ’’بیٹے، اس طرح کی اَن گنت خواہشیں تو کوئی بھی پورا نہیں کرسکتا۔ خیر ہم کوشش کریں گے۔‘‘
شاہد کی جتنی آرزوئیں تھیں، سب کی سب بے جا نہیں تھیں۔ پھر بھی آدمی کو چادر دیکھ کر پیر پھیلانا چاہئے۔ لیکن یہ خوبی شاہد میں نہ تھی۔ وہ بغیر سوچے سمجھے اپنی خواہش بیان کر جاتا تھا۔ وہ یہ ذرا بھی نہیں سوچتا تھا کہ اس کے ابّا جان جن کی آمدنی بہت کم ہے، اس کی خواہش کو پورا بھی کرسکیں گے یا نہیں....
شاہد کے پاس اسکول ڈریس کا ایک ہی جوڑا تھا، جو کئی جگہ سے پھٹ گیا تھا۔ ادھر دو ہفتے پہلے ایک دن اس نے اپنے ابّا سے کہا تھا، ’’ابّا میری اسکول ڈریس بنوا دیجئے، دیکھئے جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا بھی تھا، ’’اچھا بنوا دوں گا۔‘‘ لیکن آج دو ہفتے ہوگئے تھے، ابھی تک اس کی ڈریس کا پتہ نہیں تھا اور اسی لئے آج وہ اسکول جانے کو تیار نہیں ہو رہا تھا۔
آخر ماں کی ضد اور پیار بھری ممتا کے آگے اسے جھکنا ہی پڑا۔ اور وہ اپنے پھٹے پرانے بستے کو کاندھے پر لٹکا کر اسکول چلا گیا....
’’شاہد، تم اتنی دیر سے کیوں آئے؟‘‘
’’ماسٹر صاحب، مَیں.... مَیں....‘‘
’’کیا مَیں مَیں کرتے ہو، کیا کہیں کھیل رہے تھے؟‘‘ ماسٹر صاحب نے سختی سے پوچھا۔
’’نہیں ماسٹر صاحب۔‘‘
’’تو پھر دیر کیوں ہوئی؟‘‘
’’قمیص پھٹ گئی تھی۔ اس لئے اسے سینے میں دیر ہوگئی۔‘‘نظریں جھکا کر کہا۔
’’اچھا، جاؤ بیٹھو، آئندہ دیر نہیں ہونی چاہئے۔‘‘ ماسٹر صاحب نے نرمی سے کہا۔
حاضری لینے کے بعد ماسٹر صاحب اُردو کی کتاب کا ایک نیا سبق ’’خدا کی مہربانیاں‘‘ پڑھانے لگے۔ انہوں نے سبق کا مطلب بتاتے ہوئے لڑکوں کو سمجھایا، ’’خدا کی مہربانیاں انسان پر بے شمار اور لامحدود ہیں۔ دنیا کی ساری چیزیں خدا نے انسان کے لئے بنائی ہیں۔ اس لئے بچّو، تمہیں خدا جس حال میں رکھے خوش رہنا چاہئے۔ کبھی کبھی خدا خود انسان کو تکلیفیں اور مصیبتیں دے کر اس کا امتحان لیتا ہے۔ لیکن جو اللہ کا اچھا اور نیک بندہ ہوتا ہے وہ کبھی اپنے بُرے وقت میں نہیں گھبراتا، بلکہ خود جدوجہد کرتا ہے اور پھر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ وہ نمازیں پڑھتا ہے، اور دعائیں مانگتا ہے کہ یا اللہ تو نے مجھے جس حال میں رکھا ہے مَیں اسی میں خوش ہوں، اسی میں راضی ہوں.... اب سنو، جو انسان اس طرح کا کام کرتا ہے، اس سے خدا ہمیشہ خوش رہتا ہے اور اس کی مصیبتیں آسان کر دیتاہے۔‘‘
کلاس کے سب لڑکے ماسٹر صاحب کی باتیں غور سے سن رہے تھے۔ شاہد کے دل پر تو بہت ہی اثر ہوا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ ہمیشہ خوش رہے گا اور اسے جو کچھ بھی میسر آئے گا اس کو خوشی خوشی قبول کرلے گا اور اپنے ماں باپ کو بھی کبھی نہیں ستائے گا۔
گھر پہنچتے ہی شاہد نے ہاتھ منہ دھویا اور پھر ماں کے قریب آیا۔ ماں نے اُس کے لئے کھانا لگا دیا۔ کھانے میں سبزی اور روٹی تھی۔ سبزی کو دیکھ کر پہلے تو کچھ بھنا سا گیا۔ لیکن پھر اسے استاد کی بات یاد آئی اور اس نے خوشی خوشی کھانا کھا لیا۔ ماں بھی اسے کھاتے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور اسے دل ہی دل میں دعائیں دیں، پورا دن شاہد نے ہنسی خوشی گزارا۔
پانچ بج گئے تو شاہد کی ماں کو فکر ہونے لگی کہ شاہد کے ابّا اب تک کیوں نہیں آئے۔ روزانہ تو وہ چار بجے ہی آجاتے ہیں۔ پھر چھ بج گئے، پھر سات، اور اسی طرح آٹھ۔ اسی وقت شاہد کے ابّا گھر میں داخل ہوئے، وہ بہت تھکے تھکے نظر آرہے تھے۔ آتے ہی انہوں نے ہاتھ منہ دھویا اور بستر پر لیٹ گئے۔ ماں ان کے قریب چلی آئیں اور پوچھا، ’’طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’ہوں.... ذرا بخار سا لگ رہا ہے۔‘‘
ماں نے جب ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو چونک پڑی۔ پیشانی بالکل آگ کی طرح دہک رہی تھی۔ ’’اُف! آپ کو تو بہت تیز بخار ہے، لیکن اتنی دیر کیوں ہوئی؟‘‘
’’سوچا کچھ اوور ٹائم کام کر لوں، شاہد کی ڈریس پھٹ گئی ہے، اسے بہت تکلیف ہوتی ہے۔‘‘ شاہد پاس ہی کھڑا تھا، اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ وہ روتے ہوئے ابّا کے قدموں سے لپٹ پڑا اور کہنے لگا، ’’ابّا مجھے نیا ڈریس نہیں چاہئے، مَیں اسی طرح اسکول جاؤں گا، مَیں ہر حال میں خدا کا شکر ادا کروں گا۔‘‘
اس کی اس اچانک تبدیلی پر دونوں ماں باپ اس کو حیرت اور پیار سے دیکھنے لگے، اور سوچنے لگے کہ ہمارا شاہد کتنا اچھا، اور سمجھدار پیارا بچہ ہے۔n