انسان چاہ لے تو وہ ضرور کامیاب ہوتا ہے، یہ کہانی یہی پیغام دیتی ہے۔
EPAPER
Updated: February 08, 2025, 4:08 PM IST | Muhammad Rafi Ansari | Bhiwandi
انسان چاہ لے تو وہ ضرور کامیاب ہوتا ہے، یہ کہانی یہی پیغام دیتی ہے۔
اسکول کے سالانہ تقریری مقابلہ میں ابھی صرف تین دن باقی رہ گئے تھے۔ یہ تین دن جہاں امیدواروں کے لئے فکر و تردّد کا باعث تھے وہیں تقریری مقابلوں کے شائقین بھی اس دن کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔ منتظمین اپنی تیاریاں مکمل کرنے میں لگے تھے۔ جلسہ گاہ کی آرائش کا سلسلہ بھی شروع کیا جاچکا تھا۔ پرنسپل صاحب مہمانوں کی آمد کے منتظر تھے۔ اساتذہ اپنے ذمہ دئیے گئے کاموں کو خوب سے خوب تر کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ سب اپنی اپنی جگہ تیار تھے۔ لیکن ابھی تک ہمارے اسکول کے مقرر کو تقریر یاد نہیں ہوئی تھی۔
نویں جماعت کے اس طالب علم کا نام عمر تھا۔ نٹ کھٹ عمر کی صحت اپنے ہم جماعتوں سے بہتر تھی۔ وہ ہنس مکھ تھا اور ملنسار بھی۔ مگر جب شرارت پر اتارو ہو جاتا تو بڑے بڑوں کے بھی قابو میں نہیں آتا۔ اسے دس دن کے بعد بھی تقریر یاد نہ ہوسکی تھی۔ یہ بات سب سے زیادہ تشویش کا باعث اس کے استاد کے لئے ہوئی۔ انہوں نے بڑی محنت سے ایک مشکل عنوان پر ایک آسان تقریر تحریر کی تھی۔
تقریر تیار کرنے میں انہیں کئی دن لگ گئے تھے۔ جب تقریر مکمل ہوگئی تو مقرر کے انتخاب کا مرحلہ آیا۔ اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ سیکڑوں لڑکوں میں سے دس بچے چنے گئے۔ دس میں سے ایک کو نکالنے کے لئے پھر ان کا امتحان ہوا۔ بہ دقت تمام جس طالب علم پر نظر ٹھہری وہ نویں کا طالب علم عمر تھا۔
عمر کے تلفظات کو سدھارنے میں انہوں نے کئی دن صرف کئے۔ شعر پڑھنے کے انداز کوپرکشش بنانے کے کے لئے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ سب سے زیادہ محنت انہیں نون غنہ کے مناسب استعمال پر کرنی پڑی۔
استاد کو باقی امیدوار بچوں سے تو بہرحال ہمدردی تھی مگر وہ عمر کو منتخب کرکے مطمئن تھے۔ اب وہ یہ سوچ رہے تھے کہ کاش عمر کی جگہ ہم نے ابوبکر کو چنا ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔
پھر یوں کہ دو دن پہلے استاد نے عمر کو اپنے گھر بلایااور اس سے تقریر یاد نہ کرنے کا سبب پوچھا۔ عمر اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ استاد جن کا کوئی بھی شاگرد ابھی تک کڑے سے کڑے مقابلے میں بھی کبھی ناکام نہیں ہوا تھا۔ آج پہلی بار پریشان نظر آئے۔ اس رات ان کی نیند اُڑ گئی۔ ان کی بے چینی سے گھر والے بھی فکر مند ہوگئے۔ رات کے آخری پہر ان کی آنکھ لگ گئی۔ پھر اچانک اٹھ بیٹھے جیسے انہیں کچھ یاد آگیا۔ اب ان کی آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوگئی تھی۔
اگلے دن اسکول پہنچ کر انہوں نے عمر کی خبر لیتے ہوئے پوچھا، ’’عمر تمہیں یاد ہے تمہاری کلاس میں ایک لڑکا ساجد ہوا کرتا تھا؟ وہ اب کس حال میں ہے؟‘‘
یہ سن کر عمر کچھ سوچنے لگا۔ کچھ دیر بعد بولا، ’’سر یہ وہی ساجد تو نہیں جو اسکول سے اکثر بھاگ جایا کرتا تھا۔ اس کے گھر والے کتنے پریشان رہتے تھے۔ وہ اسکول نہ جانے کے سو بہانے کرتا تھا مگر اس کے والد اسے اسکول بھیجنے کے سو جتن کرتے رہے.... افسوس وہ اپنی مہم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پھر اس کے بعد کیا ہوا یہ مجھے معلوم نہیں۔‘‘ عمر نے استاد سے پوچھا، ’’سر! ساجد ان دنوں کیا کررہا ہے؟‘‘
وہ بولے، ’’یہ جاننے کیلئے آج تم میرے گھر آؤ وہاں ساجد سے تمہاری ملاقات ہوگی۔‘‘
عمر کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے.... بجائے اس کے کہ استاد اس سے تقریر کی بابت دریافت کرتے وہ ساجد کا معاملہ لے بیٹھے تھے۔ وہ اس بات پر بہت فکر مند ہوگیا کہ سر آخر ساجد کو اس سے کیوں ملانا چاہتے ہیں! ایسے کئی سوالات کے جوابات جاننے کے لئے وہ بے چین ہوگیا۔
پرسوں تقریری مقابلہ تھا اور آج اپنے استاد کے گھر عمر اور ساجد آمنے سامنے تھے۔ استاد نے عمر سے کہا، ’’دیکھو ساجد تمھارے سامنے ہے۔ اس سے جو کچھ پوچھنا ہے پوچھ لو؟‘‘ عمر ساجد کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس سے پوچھا کہ، ’’وہ اب کیا کر رہا ہے؟‘‘
ساجد بولا، ’’دو سال قبل ابو نے مجھے ایک مدرسہ میں داخل کروا دیا تھا.... وہاں میں نے قرآن حفظ کرنا شروع کیا۔ گزشتہ دنوں مَیں نے حفظ مکمل کرلیا ہے.... اب سب مجھ سے بہت خوش ہیں.... مجھے یہ سن کر بہت اچھا لگا کہ تم پرسوں ہونے والے تقریری مقابلہ میں حصہ لے رہے ہو.... مَیں تمہاری تقریر سننا چاہتا ہوں.... مَیں اس مقابلہ میں صرف تم کو سننے کے لئے آؤں گا۔‘‘ ساجد کی باتیں سن کر عمر کی عجیب حالت ہوگئی۔
اس نے اپنے دل میں کہا، ’’ارے واہ یہ وہی ساجد ہے جسے آسان سے آسان سوال کا کبھی جواب یاد نہ ہوتا تھا، جو پھسڈی کہلاتا تھا.... آج وہ قرآن کے تیس پارے یاد کرچکا ہے.... اور میں ابھی تک اپنی تقریر بھی یاد کرنے سے قاصر ہوں.... وہ پرسوں مجھے سننے آرہا ہے.... مَیں چاہتا ہوں وہ مجھے سن کر خوش ہو.... مَیں اسے ہرگز مایوس نہیں کروں گا....‘‘
استاد، ساجد اور عمر کو بغور دیکھ رہے تھے۔ انہیں اپنی حکمت کامیاب ہوتی نظر آنے لگی تھی۔
تقریری مقابلہ بہت شاندار رہا۔ چالیس مقرروں نے اپنے فن کا بہت عمدہ مظاہرہ کیا۔ عمر کی تقریر سب سے اچھی رہی۔ اسے مقابلہ کا اوّل انعام ملا۔ استاد نے دیکھا نتیجے کے اعلان کے بعد ساجد اور عمر گلے مل رہے تھے.... یہ منظر دیکھ کر وہ اپنی استادی پر مسکرانے لگے۔