Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

روشنی کی طرف

Updated: March 15, 2025, 12:51 PM IST | Qazi Sabiha | Ahmednagar

طلبہ پڑھائی میں دلچسپی لیں اس کیلئے استاد منفرد طریقہ آزماتے ہیں اور....

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ہادی سر ایک چھوٹے سے گاؤں سے شہر کے اسکول میں استاد بن کر آئے تھے۔ انہیں نہم جماعت کی کلاس کا ذمہ دیا گیا، مگر جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ یہ کوئی عام کلاس نہیں۔ لڑکے پڑھائی میں بالکل دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ زیادہ تر وقت غفلت میں گزارتے، کتابیں کھولے بغیر بیٹھے رہتے اور اساتذہ کے سوالات پر توجہ دینے کے بجائے کھڑکی سے باہر دیکھتے رہتے۔
 ہادی سر نے کئی طریقے آزمائے، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کبھی وہ سختی سے سمجھاتے، کبھی نرمی سے، مگر بچوں کی دلچسپی بڑھانے میں ناکام رہے۔ وہ دن بہ دن پریشان ہوتے جا رہے تھے۔
 ایک دن فجر کی نماز کے بعد وہ سورہ کہف کی تلاوت کر رہے تھے کہ اچانک ان کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس دن وہ اسکول گئے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ آج وہ کوئی سبق نہیں پڑھائیں گے، بلکہ بچوں کو ایک خاص کہانی سنائیں گے۔ جیسے ہی انہوں نے اعلان کیا، سبھی لڑکے چونک گئے۔ کچھ نے خوشی کا اظہار کیا، تو کچھ نے حیرانی سے دیکھا، جیسے سوچ رہے ہوں کہ آج ہادی سر کو کیا ہو گیا ہے۔ ہادی سر نے کہنا شروع کیا:
 بچو! بہت پہلے ایک شہر میں ایک ظالم بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ لوگوں کو زبردستی بتوں کی عبادت کرواتا اور جو اللہ کو مانتے، انہیں سخت سزائیں دیتا۔ مگر اس شہر میں کچھ نوجوان ایسے تھے جو صرف ایک اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔ وہ نیک اور سچے تھے۔ جب بادشاہ کو معلوم ہوا کہ یہ نوجوان اس کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں تو اس نے ان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ مگر وہ نوجوان بہادر تھے، انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں تاکہ اپنے ایمان کو بچا سکیں۔
 یہ نوجوان ایک پہاڑ کے قریب پہنچے، جہاں انہیں ایک غار نظر آیا۔ ان کے ساتھ ایک کتا بھی تھا، جو ان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ جیسے ہی وہ غار میں داخل ہوئے، وہ کتا بھی دروازے پر پہرہ دینے کے لئے بیٹھ گیا، جیسے ان کی حفاظت کر رہا ہو۔
 انہوں نے اللہ سے دعا کی، ’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی رحمت عطا فرما اور ہمارے لیے بھلائی کا راستہ آسان کر دے۔‘‘
 اللہ نے ان کی دعا قبول کی، اور ایسا معجزہ ہوا کہ وہ سب وہاں سو گئے۔ لیکن یہ عام نیند نہ تھی۔ وہ ۳۰۹؍ سال تک غار میں سوتے رہے!
 یہ سن کر کلاس میں سے ایک لڑکے نے ہاتھ کھڑا کیا، ’’سر! کیا واقعی کوئی تین سو سال تک سو سکتا ہے؟‘‘
 ہادی سر مسکرائے اور بولے، ’’یہ سوال بہت دلچسپ ہے! سائنسی لحاظ سے دیکھا جائے، تو کچھ جانور سردیوں میں Hibernation (لمبی نیند) میں چلے جاتے ہیں، جس میں ان کے جسم کے افعال بہت سست ہو جاتے ہیں۔ کچھ طبی طریقوں میں بھی جسم کو مخصوص درجہ حرارت پر لا کر وقت کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اگر اللہ چاہے تو وہ انسان کو بھی ایسی حالت میں ڈال سکتا ہے، جہاں اس کا جسم وقت کے اثرات سے محفوظ رہے۔‘‘
 ہادی سر نے بلیک بورڈ پر ایک غار کی تصویر بنائی، اور اس پر روشنی اور سائے کا زاویہ دکھایا۔
 ’’اللہ نے قرآن میں ذکر کیا ہے کہ وہ غار کچھ ایسے زاویے پر تھا کہ جب سورج طلوع ہوتا تو اس کی روشنی غار میں براہِ راست داخل نہیں ہوتی بلکہ پہلو سے گزرتی۔ اور جب سورج ڈھلتا، تب بھی روشنی اندر نہیں آتی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جگہ زیادہ گرم یا زیادہ سرد نہیں تھی بلکہ ایک معتدل درجہ حرارت پر رہی، جو ان کے جسموں کو محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوئی۔‘‘
 کلاس میں گہری خاموشی چھا گئی۔ بچے غور سے سن رہے تھے۔
 تب ایک اور لڑکے نے ہاتھ کھڑا کیا، ’’سر! ان کے ساتھ ایک کتا کیوں تھا؟‘‘
 ہادی سر نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے! اس کہانی میں کتے کا ذکر بار بار آیا ہے۔ وہ ان نوجوانوں کے ساتھ غار کے دہانے پر بیٹھا رہا، جیسے ان کی حفاظت کر رہا ہو۔ قرآن کہتا ہے کہ اس کا حال ایسا تھا جیسے وہ اپنے پنجے پھیلائے پہرہ دے رہا ہو۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جانور، خاص طور پر کتے، وفاداری میں انسانوں سے کم نہیں ہوتے۔ وہ اپنے مالک کے ساتھ ہر حال میں رہتے ہیں۔‘‘
 کچھ بچوں نے حیرت سے سر ہلایا، جیسے انہیں یہ پہلو پہلے سمجھ میں نہ آیا ہو۔
 پھر ایک لڑکے نے سوال کیا، ’’سر! جب وہ جاگے تو انہیں کیسے پتا چلا کہ وہ تین سو سال تک سوئے تھے؟‘‘
 ہادی سر نے جواب دیا، ’’بہت اچھا سوال! جب وہ جاگے تو انہیں ایسا لگا جیسے وہ بس ایک دن یا چند گھنٹے سوئے ہوں۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’ہمیں کھانا منگوانے کیلئے کسی کو بھیجنا چاہئے، مگر ہوشیار رہنا چاہئے، کہیں لوگ ہمیں پہچان کر بادشاہ کو خبر نہ دے دیں!‘‘
 جب وہ بازار پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ہر چیز بدل چکی تھی۔ لوگوں کے زبان، لباس، سکے (پیسے)، سب نیا تھا۔ انہوں نے جو سکے دیئے، وہ بہت پرانے نکلے، جس پر دکاندار حیران ہوگیا۔ تب انہیں احساس ہوا کہ وہ حقیقت میں صدیوں بعد جاگے ہیں!‘‘
 ’’بچو! سوچو اگر تم سو کر جاگو اور دنیا بالکل بدل چکی ہو تو تمہیں کیسے پتا چلے گا کہ کتنا وقت گزرا ہے؟‘‘
 کچھ بچے سوچ میں پڑ گئے۔ ایک بولا، ’’سر! ہم چیزوں کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں، جیسے پرانے نوٹ یا عمارتیں!‘‘ ہادی سر مسکرا دیئے، ’’بالکل! اور یہی ان نوجوانوں نے کیا تھا!‘‘
 جب اللہ کے حکم سے وہ جاگے تو ان پر اللہ کی قدرت واضح ہو چکی تھی۔ نیا بادشاہ نیک اور ایماندار تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ یہ نوجوان تین سو سال پرانے ہیں، تو وہ حیرت زدہ رہ گیا۔
 ہادی سر نے کلاس کی طرف دیکھا، ’’اچھا، اب بتاؤ! ان نوجوانوں نے ایسا کیا کیا کہ اللہ نے انہیں اپنی رحمت میں لے لیا؟‘‘
 کلاس میں ایک خاموشی چھا گئی۔ پھر ایک لڑکے نے دھیرے سے کہا، ’’سر، انہوں نے سچائی کو نہیں چھوڑا۔‘‘
 ’’بالکل صحیح!‘‘ ہادی سر نے کہا، ’’اور اس کہانی سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟‘‘
 اب کئی ہاتھ کھڑے ہوگئے۔ ایک لڑکا بولا، ’’سر! اگر ہم بھی سچ پر قائم رہیں تو اللہ ہماری مدد کرے گا۔‘‘
 ’’بالکل! اور کیا سیکھا؟‘‘
 ایک اور لڑکے نے کہا، ’’ہمیں اچھے دوست بنانے چاہئیں جو ہمیں برے راستے سے بچائیں، جیسے ان نوجوانوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا!‘‘
 ہادی سر مسکرا دیئے، ’’بہت خوب! اور سب سے بڑی بات، علم حاصل کرو کیونکہ علم سے تمہیں صحیح اور غلط میں فرق کرنا آتا ہے۔‘‘
 چند دنوں میں کلاس بدلنے لگی۔ جہاں پہلے توجہ کا فقدان تھا، اب سوالات اور جستجو نظر آنے لگی۔ اور یوں، ہادی سر نے بچوں کو روشنی کی طرف موڑ دیا!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK