انسان کی دیکھا دیکھی روزہ رکھنے والے ایک پرندے کی کہانی۔
EPAPER
Updated: March 01, 2025, 5:09 PM IST | Usaid Ashhar | Jalgaon
انسان کی دیکھا دیکھی روزہ رکھنے والے ایک پرندے کی کہانی۔
ایک ہرے بھرے جنگل میں ندی کے کنارے آم کا ایک گھنا درخت تھا، جس کی شاخوں پر کئی مختلف پرندوں کے آشیانے تھے۔ وہ سب مل جل کر رہتے تھے۔ درخت کی ایک شاخ پر ایک چڑے اور چڑیا کا گھونسلہ تھا جہاں وہ اپنے بیٹے چنچو کے ساتھ رہتے تھے۔ چنچو بہت شرارتی اور متجسس طبیعت کا مالک تھا۔ وہ ہمیشہ نت نئی چیزیں سیکھنے اور دوسروں کی نقالی کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
کچھ دنوں سے چنچو مشاہدہ کر رہا تھا کہ قریبی گاؤں کے لوگ صبح سویرے اٹھ کر کھانے پینے کے بعد پورا دن کچھ نہیں کھاتے اور شام کو سورج ڈھل جانے کے بعد سب مل بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ چنچو کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا۔ ’’یہ انسان پورا دن کچھ نہیں کھاتے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ چنچو نے اپنی ماں سے پوچھا۔
’’بیٹا! انسان ہر سال رمضان کے مبارک مہینہ میں روزہ رکھتے ہیں۔ روزہ کی حالت میں روزہ دار صبح سے شام تک کچھ نہیں کھاتے حتیٰ کہ پانی بھی نہیں پیتے اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘‘ چنچو کی ماں نے اسے نرمی سے سمجھایا۔ چنچو نے جوش سے کہا، ’’واہ! مَیں بھی روزہ رکھوں گا!‘‘
یہ سن کر چڑے نے مسکرا کر سر ہلایا، ’’بیٹا، پرندے روزہ نہیں رکھتے! ہمارا نظام انسانوں سے مختلف ہے۔ ہمیں دن میں کئی بار خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم انسانوں کی طرح بھوک پیاس برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘
مگر چنچو ضدی تھا۔ ’’نہیں ابّا! میں بھی انسانوں کی طرح روزہ رکھوں گا اور شام کو سورج ڈھلنے کے بعد ہی کچھ کھاؤں گا!‘‘ چنچو کی ضد کے سامنے چڑے اور چڑیا نے ہار مان لی۔ چنچو نے اسی وقت تہیہ کر لیا کہ وہ کل روزہ رکھے گا۔
اگلے دن چنچو علی الصباح اٹھ گیا۔ سورج کا اُجالا پھیلنے سے پہلے اس نے کچھ دانے کھائے، پانی پیا اور پھر اعلان کیا، ’’اب مَیں شام تک کچھ نہیں کھاؤں گا!‘‘
روزہ رکھنے کے بعد چنچو درخت کی شاخوں پر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے لگا۔ سورج کی ملائم دھوپ میں چند گھنٹے آسانی سے گزر گئے، مگر مارچ کا مہینہ تھا۔ جیسے ہی سورج بلند ہونے لگا، چنچو کو پیاس ستانے لگی۔ چنچو نے صبر کا مظاہرہ کیا اور پیاس کو برداشت کرتا رہا۔ جب وہ تھک گیا تو اپنے گھر کے باہر بیٹھ کر آرام کرنے لگا۔ اب دوپہر ہوچلی تھی۔ کڑی دھوپ اور تھکن کی وجہ سے چنچو کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔
’’چنچو! آؤ، تم بھی اس لذیذ آم کے مزے لو۔‘‘ اس کا دوست مونو طوطا بولا جو دوسری شاخ پر بیٹھا رسیلے آم کا مزہ لے رہا تھا۔
’’نہیں بھئی، مَیں آج روزہ سے ہوں! مَیں آج غروب آفتاب تک کچھ نہیں کھاؤں گا۔‘‘ چنچو نے کمزور آواز میں جواب دیا۔
’’لیکن تم بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو۔‘‘ مونو فکرمند ہوگیا، ’’کیا تمہیں بھوک نہیں لگی؟‘‘ ’’بھوک لگی ہے لیکن مَیں برداشت کر لوں گا!‘‘ چنچو نے اپنی چونچ مضبوطی سے بند کر لی گویا وہ باتوں میں نہ الجھ کر اپنی توانائی بچانا چاہتا ہو۔ مونو بھی خاموش ہوگیا۔
مگر سورج کی گرمی بڑھتی گئی۔ تھوڑے ہی فاصلے پر ندی میں تازہ اور صاف پانی کلکل کرتا بہہ رہا تھا۔ پانی کی طرف دھیان جانا تھا کہ چنچو کا دل مچلنے لگا۔ اس کا گلا خشک ہوچکا تھا۔ ایک پل کے لئے اسے خیال آیا کہ ندی پر جاکر بس ایک گھونٹ پانی پی لے اور اپنی چونچ کو تر کرلے، مگر اسے اپنا روزہ یاد آگیا۔
اسی وقت اُلو بابا، چنچو کے پاس آئے۔ انہیں جنگل کے سب سے بزرگ اور عقل مند پرندوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ جنگل کے بادشاہ شیر شاہ بھی ان سے مشورہ لیتے تھے۔
’’کیا ہوا چنچو؟ تم کمزور لگ رہے ہو۔‘‘ الو بابا نے پیار سے چنچو کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’بابا جی! آج مَیں نے روزہ رکھا ہے۔ اس لئے صبح سے کچھ نہیں کھایا اور نہ ہی پانی پیا۔‘‘ چنچو نے انہیں اپنے روزہ کے بارے میں بتایا۔ ’’کیا تمہیں بھوک نہیں لگی؟‘‘ الو بابا نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’جی ہاں۔ مجھے بھوک اور پیاس بہت ستا رہی ہے۔ اب برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔‘‘ چنچو کی نحیف آواز سے کمزوری جھلک رہی تھی۔
الو بابا نرمی سے بولے، ’’پیارے بچے! صرف کھانے پینے سے رک جانے کو روزہ نہیں کہتے۔ روزہ برے کاموں سے بچنے اور صبر و شکر سیکھنے کا نام ہے۔ لیکن تم روزہ کیوں رکھ رہے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کے لئے ایک الگ نظام بنایا ہے۔ اس نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن پرندوں کو ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے۔ ہمیں دن میں کئی بار خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ ہم بیمار پڑ سکتے ہیں۔ پرندوں کو تندرست و توانا رہنے کے لئے مناسب خوراک بہت ضروری ہے۔‘‘
چنچو نے حیرت سے پوچھا، ’’تو کیا میں روزہ نہیں رکھ سکتا؟‘‘
’’بیٹا! تم اللہ کی عبادت کر سکتے ہو، اچھے اور نیک کام کر سکتے ہو، دوسرے پرندوں کی مدد کر سکتے ہو اور گناہوں سے بچ سکتے ہو۔ یہی تمہارا روزہ ہوگا!‘‘ الّو بابا نے شفقت سے جواب دیا۔
چنچو کو احساس ہوا کہ وہ بے جا ضد اور انسانوں کی نقل کرکے اپنی صحت خراب کر رہا تھا۔ اس نے الو بابا کا شکریہ ادا کیا اور عزم کیا کہ وہ اچھے کام اور نیکی کرکے اپنے انداز میں روزہ رکھے گا۔
چنچو نے پھرُ سے اڑان بھری اور ندی پر جا کر سیر ہو کر پانی پیا۔ اور کچھ دانے کھا کر اپنی توانائی بحال کی۔ چنچو کی امی، جو گھونسلے کی اوٹ سے سارا ماجرا دیکھ رہی تھی، خوشی سے چہچہانے لگی۔