اچانک لڑائی چھڑ جاتی ہے اور دو ننھے بہارد اپنی جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔
EPAPER
Updated: January 25, 2025, 4:12 PM IST | M. K. Mehtab | Mumbai
اچانک لڑائی چھڑ جاتی ہے اور دو ننھے بہارد اپنی جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔
م۔ک مہتاب
inquilab@mid-day.com
سارے گاؤں میں پنڈت کشن مشین والے اب پنڈت کشن چند سبیل والے کے نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اُن کی چکّی پر اب بارہ مہینے پانی کی سبیل لگی رہتی تھی اور چلتی سڑک ہونے کی وجہ سے ہر وقت کوئی نہ کوئی شخص وہاں پانی پینے کے لئے کھڑا دکھائی دیتا تھا۔ گرمیوں کے تپتے دنوں میں، جب جھلستی لُو کے جھکڑ چلتے تو پیپل کے سائے میں رکھے ہوئے کورے برتنوں کا پانی آبِ حیات بن جاتا۔ ہر راہ گیر وہاں ٹھہرتا، دم لیتا اور پیاس بجھاتا۔ پنڈت کشن چند کا عقیدہ تھا کہ دوسروں کی پیاس بجھانے والا خود دوسری دنیا میں کبھی پیاسا نہیں رہے گا۔ اسے وہ بڑا نیکی کا کام سمجھتے تھے۔ اسی لئے چکّی پر دو ملازم ہوتے ہوئے بھی وہ بڑے اہتمام سے خود سویرے اُٹھتے۔ اپنے ہاتھ سے مٹکے صاف کرتے۔ خود ہی نل چلاتے۔ مٹکے بھرتے اور ان پر سفید ململ کا کپڑا بھگو کر بچھا دیتے۔ اسی پر بس نہیں، جب بھی فرصت ملتی خود سبیل پر آبیٹھتے اور اپنے ہاتھوں بڑے پیار سے مسافروں کو پانی پلاتے۔
سنت چکّی والا تجارتی رقابت کے باعث کہتا تھا کہ پنڈت جی نے یہ سبیل بھلائی کے لئے نہیں، آٹا پسائی کی مشین کا کام چمکانے کے لئے لگا رکھی ہے۔ لیکن کسی کے کہنے پر نیکی کے کام تھوڑے ہی رُک جاتے ہیں۔ اگر نیت نیک نہ ہوتی تو پنڈت کشن چند پانی بھرنے اور پلانے کا کام کسی ملازم کو بھی سونپ سکتے تھے۔ لیکن اُن کا تو یہ عقیدہ تھا کہ نیکی وہی ہے جو انسان اپنے ہاتھوں سے کرتا ہے۔ جو بھلائی کسی اور کے ہاتھ سے ہوگی اُس کا ثواب تو اُسے ہی ملے گا۔ اس لئے پنڈت جی کی کوشش ہوتی کہ اُن کے بچے بھی کسی وقت سبیل پر آبیٹھا کریں۔ خاص طور سے گرمیوں کی دوپہروں میں جب سبیل پر ہر دم بھیڑ لگی رہتی تو سب کو پانی پلانا اکیلے آدمی کے بس کی بات نہ رہتی۔ پنڈت جی کے دو بچے تھے: بنسی اور راجو۔ ایک بارہ برس کا تھا، دوسرا نو برس کا۔ جب وہ اسکول سے لوٹتے تو پنڈت جی انہیں آواز دیتے، ’’آجاؤ بیٹا۔ پکڑو لوٹا۔‘‘ ’’باپو بھوک لگی ہے۔‘‘ بچے کبھی کبھی کہتے۔
’’کوئی بات نہیں ہے بیٹا۔ نیک کام کے لئے بھوکا بھی رہنا پڑتا ہے۔ تم پیاؤ پر آجاؤ۔ مَیں تمہارا کھانا منگواتا ہوں۔‘‘
اور یہ بچے اپنی بھوک سے بے خبر لوگوں کی پیاس بجھانے میں لگ جاتے۔ گرمیوں میں اکھنور سے برف بھی منگوائی جاتی، جس کا سب خرچ کشن چند اپنی گرہ سے دیتے ہوا بند ہو؟ اور آگ سی تپتی زمین پر برفیلا پانی ملے تو کون نہیں رک جائے گا۔ لوگوں کا تانتا بندھا رہتا اور یہ بچے ساری دوپہر وہیں پانی پلایا کرتے۔
ایک دن یہ سبیل اُجڑ گئی۔ گاؤں اچانک ویران ہوگیا۔ انسان تو انسان حیوان تک بھاگ نکلے۔ جب حیوان بگڑ جائے تو چند لوگ مل کر اُس پر قابو پا لیتے ہیں، لیکن جب انسان حیوان بن جائے تو اُسے خدا ہی قابو میں لاسکتا ہے۔
فوجیں پہلے بھی اِدھر اُدھر آتی جاتی رہتی تھیں۔ کبھی کبھار فوجی اس سڑک سے بھی گزرتے تھے اور سبیل سے پانی لیا کرتے تھے۔ لیکن ایک دن یکایک آسمان شرارے برسانے لگا، زمین آگ اُبلنے لگی اور گاؤں کے لوگ اس درندگی کی لپیٹ میں آگئے۔
جب گولے پھٹنے شروع ہوئے تو بنسی اور راجو گاؤں سے دو میل دور اسکول میں تھے۔ وہ کچھ دیر انتظار کرتے رہے لیکن جب شور کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگا تو وہ اپنے ماں باپ سے ملنے کے لئے مجبوراً اسکول سے گھر کو چل دیئے۔ راستے میں آسمان پر ہوائی جہازوں کی گونج گرج اور زمین پر لوگوں کی آواز سے کان پھٹے جاتے تھے۔
ڈرے ہوئے لوگ سامان اُٹھائے بھاگے جا رہے تھے۔ کسی کو دوسرے کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ اُن کے پتاجی کہاں ہیں؟ اُن کی ماتا کہاں گئیں؟ بہن کدھر ہیں؟ کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ بنسی اور راجو کی آنکھوں میں آنسو تھے، چہروں پر حیرانی اور وہ اس آگ کی تپش سے بے پروا اپنے گھر کی جانب چلے جا رہے تھے۔
’’راجو، لڑائی چھڑ گئی ہے؟‘‘ ایک گولا زور سے کہیں قریب ہی پھٹا اور بنسی نے راجو کو اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔
’’بنسی! ماسٹر جی تو کہتے تھے لڑائی بہت بُری چیز ہے۔ ہزاروں بے گناہ مارے جاتے ہیں۔ کسی کو لڑنا نہیں چاہئے کیا یہ لوگ جو لڑتے ہیں کبھی اسکول میں پڑھنے نہیں گئے؟‘‘ ننھا راجو بنسی سے الگ ہوتے ہوئے بولا۔ ’’راجو، پڑھتے تو سب ہیں۔ جو اچھے لڑکے ہوتے ہیں، سبق یاد رکھتے ہیں جو اچھے نہیں ہوتے بھول جاتے ہیں۔ بنسی نے سہمے ہوئے راجو کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’لیکن ہمارے پتاجی تو کسی سے نہیں لڑتے۔ اُن سے تو کوئی نہیں لڑیگا۔ وہ تو ضرور گھر پر ہی ہوں گے۔‘‘ ننھا راجو تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔
جب وہ ٹیڑھے میڑھے راستوں سے ہوتے ہوئے گھر پہنچے تو پھونچکے سے رہ گئے۔ چند آوارہ کتوں کے سوا محلے میں اور کوئی نہیں تھا۔ وہ کچھ دیر اسی طرح گم صم بیٹھے رہے جب کوئی گولا پھٹتا تو کانوں میں انگلیاں دے کر ایک کونے میں دُبک جاتے۔
جدھر لڑائی ہورہی تھی اُس طرف سے دھوئیں اور گرد و غبار کے بادل اُٹھ رہے تھے۔ آگ کے شعلے نظر آتے تھے۔ پھر یہ چمک اور نزدیک ہونے لگی۔ فوجیوں کا شور بڑھ گیا۔ باہر موٹر گاڑیوں کی آوازیں آنے لگیں دشمن آگے بڑھ رہا تھا۔
’’بنسی، چلو بھاگ چلیں۔‘‘ راجو نے بنسی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’بھاگ کر کہاں جائیں، راجو؟ کہیں کوئی راستہ نہیں۔ رات ہوگئی تو ہمیں جنگل ہی کھا جائے گا۔ نہ جانے گھر کے لوگ کدھر گئےہیں۔ تم گھبراؤ نہیں، مَیں تمہارے پاس ہوں۔ ہم اپنے گھر میں ہی رہیں گے۔‘‘
رات بھر لوہے سے لوہا ٹکراتا رہا۔ گاؤں کے در و دیوار سوکھے پتّوں کی طرح لرزتے رہے۔
صبح کو دونوں بچے مکان سے باہر کھیت میں آئے تو مارے ڈر کے اُن کی چیخ نکل گئی۔ گنّے کے کھیت کی منڈیر پر ایک زخمی فوجی پڑا کراہ رہا تھا۔ اُنہیں آتا دیکھ کر اُس نے اپنا ہاتھ اوک کی صورت میں منہ کو لگایا۔ وہ پیاس کی شدت سے بول نہیں سکتا تھا۔ ننھا راجو بے اختیار مڑا اور بجلی کی سی تیزی سے اپنی سبیل کی طرف بھاگا۔
’’رُک جاؤ راجو! تمہیں گولی....‘‘ لیکن بنسی اپنا فقرہ پورا نہ کرسکا۔ اُسے پنڈت کشن چند کے الفاظ یاد آگئے:
’’نیکی کیلئے تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے۔‘‘
راجو ایک بالٹی میں پانی لے کر آگیا۔ دونوں نے زخمی فوجی کو پانی پلایا۔ اُس نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ شاید اِدھر کچھ اور لوگ بھی ہوں۔
دونوں بھائی برستی گولیوں میں اِدھر اُدھر زخمیوں کی تلاش کرنے لگے۔ کھیتوں میں کچھ اور زخمی بھی تھے جن کے لئے پانی کی یہ چند بوندیں آبِ حیات سے سچ مچ کم نہ تھیں۔
دوپہر کو فوج کے کچھ لوگ ادھر آئے تو وہ موت کے دہانے پر ان دو پھولوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے جو موت سے لڑتے ہوئے لوگوں کے منہ میں شبنم ٹپکا رہے تھے۔
فوجی افسر نے ان بچوں کو فوراً وہاں سے نکال لے جانے کا حکم دیا، لیکن بنسی نے انکار میں سَر ہلا دیا۔ ’’کیوں لڑکے؟‘‘ فوجی افسر نے با رعب آواز میں پوچھا۔ ’’جناب! ہمارا گھر یہ ہے۔ ہم کہاں جائیں؟ ہم یہاں آپ کی خدمت کریں گے۔ آپ اپنا کام کیجئے۔ ہماری یہ سبیل ہے ہم یہاں اپنا کام کریں گے۔‘‘
دونوں بچے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے، بھاگتے ہوئے، رینگتے ہوئے، مورچوں میں سپاہیوں کو پانی پہنچاتے رہتے جہاں آگ کی تپش زمین کی ساری نمی چوس گئی تھی.... یہاں تک کہ ایک دن آگ کے شعلے نے خود انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
لڑائی بند ہوگئی۔ زمین کچھ ٹھنڈی ہوئی تو پرندے پھر اپنے ٹھکانوں پر آگئے۔
ایک دن ضلع کا بڑا افسر گاؤں میں آیا۔ لوگ جمع ہوئے۔ وہ راجو اور بنسی کی بہادری کے کارنامے بیان کرتے ہوئے کہنے لگا، ’’پنڈت کشن چند جی، حکومت اس کارنامے کے صلے میں آپ کو کچھ دینا چاہتی ہے۔‘‘
’’حضور!‘‘ سنت رام چکّی والا ہاتھ باندھے کھڑا ہوگیا، ’’حضور وہ سارے گاؤں کے بچے تھے اس لئے صلہ سارے گاؤں کو دیا جائے۔‘‘
’’ہاں سنت رام تم ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن بچوں میں خدمت اور نیکی کا بیج پنڈت جی نے ہی بویا تھا، اس لئے اس تعریف اور قوم کی طرف سے شکریہ کے صحیح حقدار وہی ہیں۔‘‘