شاہین اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اسے بچپن ہی سے جانوروں سے بے حد لگاؤ تھا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ اکثر شکار پر جایا کرتی تھی۔ اس کے والد عاصم تعلیم یافتہ تاجر تھے۔ عاصم کو اُردو ادب سے بھی لگاؤ تھا۔ وہ شاعر مشرق اقبال کے مداح تھے۔
EPAPER
Updated: July 13, 2024, 2:49 PM IST | Raees Siddiqui | Mumbai
شاہین اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اسے بچپن ہی سے جانوروں سے بے حد لگاؤ تھا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ اکثر شکار پر جایا کرتی تھی۔ اس کے والد عاصم تعلیم یافتہ تاجر تھے۔ عاصم کو اُردو ادب سے بھی لگاؤ تھا۔ وہ شاعر مشرق اقبال کے مداح تھے۔
شاہین اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اسے بچپن ہی سے جانوروں سے بے حد لگاؤ تھا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ اکثر شکار پر جایا کرتی تھی۔ اس کے والد عاصم تعلیم یافتہ تاجر تھے۔ عاصم کو اُردو ادب سے بھی لگاؤ تھا۔ وہ شاعر مشرق اقبال کے مداح تھے۔ انہیں اقبال کے بے شمار اشعار یاد تھے۔ عاصم نے اپنی بیٹی کا نام اقبال کے تصورِ شاہین پر رکھا تھا۔ وہ اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ مارننگ واک پر لے جاتے۔ اس کو جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط بنانے کیلئے مارشل آرٹ کی تربیت بھی دلواتے۔ وہ ہر طرح سے اپنی اکلوتی اولاد کی شخصیت سازی میں لگے رہتے۔
سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی خوشحال زندگی کو کسی حاسد کی نظر لگ گئی۔ جب وہ ۱۸؍ سال کی ہوگئی تو اس کے والد ایک دن اچانک کار حادثہ میں اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ اب گھر میں وہ تھی اور اس کی ماں۔ سب کچھ اچانک ہوا تھا، اس لئے ان کے گزارے کا دوسرا کوئی معقول ذریعہ نہ تھا۔ بس زندگی کے دن جوں توں کٹ رہے تھے۔ سبھی رشتہ دار روپوش ہوگئے تھے۔ کوئی بھول کر بھی نظر نہیں آتا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے شاہین نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کوئی کام کرنے کا ارادہ کیا۔ ایک دن اس نے اخبار میں اپنے شہر میں ایک مشہور سرکس لگنے کا اشتہار دیکھا۔ اس نے سرکس میں کوئی کام حاصل کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ شاہین کو جانوروں سے بہت لگاؤ تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ وہاں ملازمت کرے اور سرکس کے جانوروں سے دوستی بھی ہو جائے۔
ایک دن شاہین سرکس کے مالک سے ملنے سرکس پہنچی۔ وہاںوہ سرکس کے باہر لگی جانوروں کی تصویریں دیکھ رہی تھی کہ اندر سے اسے ہاتھیوں کے چنگھاڑنے اور شیروں کے دہاڑنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ ہاتھیوں اور شیروں کی آوازیں سن کر بے تاب ہوگئی اور اس نے اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ آج وہ سرکس میں ملازمت حاصل کرکے ہی رہے گی۔ سب ہی چھوٹے بڑے ایک گیٹ سے سرکس کے پنڈال میں داخل ہورہے تھے۔ اسی قطار میں شاہین بھی لگ گئی۔ ٹکٹ کے بغیر ہی اس نے ایک ریلے کے ساتھ اندر گھسنے کی کوشش کی مگر ایک بھاری آواز نے اُسے روک دیا، ’’اے لڑکی تمہارا ٹکٹ؟‘‘ ’’میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے۔‘‘ شاہین نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔
یہ جواب سنتے ہی ٹکٹ چیکر نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا لیکن شاہین نے ایسا زور کا جھٹکا مارا کہ اس آدمی کا ہاتھ خود بخود ڈھیلا پڑگیا۔ اس وقت اسے اپنی مارشل آرٹ کی تربیت کام آئی۔
اِتنے میں ایک لحیم شحیم آدمی جو سب کچھ دُور سے کھڑا دیکھ رہا تھا، آکر بولا، ’’بے بی میرا نام دارا ہے۔ میں شیروں کا رنگ ماسٹر ہوں۔ کیا بات تھی جو اِس نے تمہارا ہاتھ پکڑا تھا؟‘‘
’’سر، مجھے جنگلی جانور بہت اچھے لگتے ہیں اور میں....‘‘ ’’لیکن تم نے ٹکٹ کے بغیر کیوں داخل ہونے کی کوشش کی؟‘‘
’’میں یہاں سرکس کے مالک یا منیجر سے کام مانگنے آئی ہوں لیکن کیا کروں جانوروں کی آوازیں سن کر میرا دل بے قابو ہوگیا۔ میرے شوق نے مجھے بیقرار کر دیا۔ میں معذرت چاہتی ہوں۔ مجھے معاف کر دیجئے۔‘‘ وہ معافی مانگ کر ٹکٹ خریدنے کیلئے پیچھے مڑی تھی کہ دارا نے اسکے شانے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور بڑی نرمی سے بولا، ’’بے بی رکو۔ میں تمہارے شوق سے بہت خوش ہوا۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ تمہیں بھی میری طرح جانوروں سے بہت لگاؤ ہے۔ بچپن میں مجھے بھی جانوروں سے بہت پیار تھا۔ بالکل تمہاری طرح اور آج بھی ہے۔ میں اس سرکس کا مالک بھی ہوں۔ آؤ میں تمہیں اپنے دوستوں سے ملوا دوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے دار ا شیروں کے پنجرے کی طرف چل دیا۔
دارا شاہین کو شیروں کے پنجرے کے پاس لے گیا اور ہر شیر سے بڑے پیار سے مخاطب ہوا۔ شیروں نے بھی اپنے اپنے انداز میں جواب دیا۔
شاہین شیروں کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی کہ دارا نے اس کے شوق و ذوق کو دیکھتے ہوئے کہا، ’’تم ان شیروں کی رنگ ماسٹر بن سکتی ہو، اگر تم چاہو تو۔‘‘
’’میں....؟‘‘ اُس پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ’’ہاں ہاں.... تم۔‘‘ دارا نے اُسے یقین دلاتے ہوئے کہا، ’’اِن شیروں کے لئے جتنی محبت، ہمت اور اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے، وہ تم میں موجود ہے۔ بولو سیکھوگی یہ کام؟‘‘
یہ سُن کر شاہین پھولی نہ سمائی اور بولی، ’’سر، آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی۔ میں بالکل تیار ہوں۔‘‘ دارا اس کے دلیرانہ عزم سے بہت خوش ہوا اور اُس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولا، ’’اچھا تو آج تم سرکس دیکھو، کل گیارہ بجے اپنے کسی سرپرست کو لے کر میرے پاس آجانا۔‘‘
دوسرے دن شاہین اپنی ماں کو لے کر دارا کے پاس آئی۔ دارا نے اس کی ماں سے ایک فارم پر دستخط کرائے اور شاہین کو شیروں کے پنجروں کے پاس لے گیا اور پوچھا، ’’روزانہ کی طرح آج بھی ریہرسل ہونے والی ہے۔ کیا تم تیار ہو؟‘‘
’’جی ہاں، میں بالکل تیار ہوں۔‘‘ شاہین نے جواب دیا۔ دارا اس کو ڈریسنگ روم لے گیا اور اپنی اسسٹنٹ سے بولا، ’’شاہین کو سرکس کی ڈریس پہنا کر جلدی سے باہرلے آؤ۔‘‘
شاہین نے جلدی سے ڈریس پہنی اور باہر آگئی۔ دارا نے اسے ایک ہنٹر تھماتے ہوئے چند ضروری رہنما باتیں بتائیں، ’’شاہین، شیروں کے درمیان جانے سے پہلے چند باتیں یاد کرلو۔ ہر شیر تم سے نظر ملائے گا۔ اگر وہ ذرا سا بھی بھانپ گیا کہ تم ڈر رہی ہو یا تم باتیں اس سے کر رہی ہو، لیکن دیکھ کسی اور کی طرف رہی ہو، تو وہ تم پر ٹوٹ پڑے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ تم کو اس بات کا بھی اندازہ لگا لینا ہوگا کہ وہ تم سے خوش ہے یا نہیں۔‘‘
دارا نے یہ ہدایات دینے کے بعد لوہے کی چھڑوں سے بنے ہوئے پنجرے کا دروازہ کھلوایا اور شاہین کے ساتھ اُس کے اندر داخل ہوا۔ دروازہ کھلتے ہی چاروں شیر اور شیرنی اپنی اپنی لال چوکیوں پر چھلانگ لگا لگا کر جا بیٹھے۔ دارا سب سے پہلے راجہ سے مخاطب ہوا۔ اس نے غرا کر ظاہر کیا کہ وہ خوش ہے۔ دارا نے شاہین کو سمجھاتے ہوئے کہا، ’’شاہین، اس کے ماتھے پر اپنا ہاتھ رکھو، لیکن دھیان رکھنا کہ یہ کہیں پنجہ تو نہیں اُٹھا رہا ہے۔ اگر ایسا محسوس کرو تو فوراً اپنے ہنٹر کی موٹھ اس کی ناک پر جما دینا کیونکہ شیر کی ناک بہت نازک ہوتی ہے اور اس عمل سے وہ جلد قابو میں آجاتا ہے۔‘‘
اِس کے بعد ہیرا اور پننا سے شاہین کو ملوایا گیا۔ ان سب نے اُس کی دوستی قبول کر لی لیکن چوتھی شیرنی نے، جس کی طرف شاہین نے ذرا کم توجہ دی تھی، اپنی جگہ سے چھلانگ لگائی اور دھول اُڑاتی ہوئی شاہین کی طرف جھپٹی۔ مگر دارا نے گرج کر کہا، ’’رانی رُک جا۔‘‘
اِس آواز کو سن کر رانی وہیں رُک گئی۔ اس کا پنجہ جو اُس نے اُٹھایا تھا، مارے غصے کے کانپ رہا تھا۔ دارا نے آہستہ سے شاہین سے کہا، ’’رانی گھبرا گئی۔ خطرہ ٹل گیا۔‘‘ دارا نے یہ کہتے ہوئے شاہین کے چہرے کا جائزہ لیا لیکن اس کے چہرے پر خوف کے ذرہ برابر بھی آثار نہ تھے۔ اس نے رانی سے اپنا دفاع کرنے کے لئے اپنے داہنے ہاتھ میں ہنٹر سنبھال لیا تھا۔ دارا اس کی ہمت اور بہادری دیکھ کو بولا، ’’اگر خدا نے چاہا تو تم اگلے ہی مہینے اِن سب کی رنگ ماسٹر بن جاؤگی اور ان کے درمیان آکر تماشا دکھانے لگوگی۔‘‘
دارا کی یہ بات صد فیصد صحیح ثابت ہوئی۔ اگلے ہی مہینے سے وہ شیروں کے درمیان آکر تماشا دکھانے لگی اور سب سے حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ حملہ آور رانی اب اس کی گہری دوست بن گئی تھی۔ ایک بار راجہ اُس پر جھپٹا تو رانی نے اپنی نئی دوست شاہین کی حفاظت کرتے ہوئے جواباً اچھل کر اُس کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسید کر دیا۔
مہینے کی پہلی تاریخ کو سو سو کے نوٹوں کی ایک گڈی شاہین کو دیتے ہوئے دارا بولا، ’’تمہیں روزانہ زندگی کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔ اِس کے عوض میں یہ پیسے بہت کم ہیں لیکن جلد ہی تمہاری تنخواہ بڑھا دی جائے گی۔ تمہارے کام سے سب ہی لوگ بہت خوش ہیں۔‘‘
شاہین اس دن بہت خوش تھی۔ وہ اپنی ماں کے لئے ان کی پسند کی مٹھائی اور ایک شال لے کر گھر پہنچی اور ماں سے لپٹ کر اپنی پہلی تنخواۃ ان کے ہاتھوں کی ہتھیلی پر رکھ دی۔ یہ دیکھ کر ماں کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا آئیں اور وہ بولیں، ’’بیٹی! تم نے یہ جو خطرناک کام شروع کیا ہے، اس سے میں رات دن خوف میں جیتی ہوں اور ہر وقت دعا کرتی رہتی ہوں کہ تم ہمیشہ صحیح سلامت رہو.....‘‘
شاہین نے بات کاٹتے ہوئے ماں کو تسلی دی، ’’ماں، تم گھبرایا مت کرو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مجھے روزانہ کچھ گھنٹے موت کے سائے میں گزارنے پڑتے ہیں۔ لیکن یہ موت کے سائے، انسانی منافقت کے مقابلے، خطرناک نہیں ہیں۔ یہ جنگلی اور خونخوار جانور، انسانوں کی بہ نسبت، کہیں زیادہ قابل بھروسہ اور وفادار ہوتے ہیں۔ یہ للکارتے ضرور ہیں، مگر چھپ کر کسی پر وار نہیں کرتے۔ یہ غرا کر ڈراتے ضرور ہیں، لیکن اپنے فائدے کے لئے کسی کی زندگی سے نہیں کھیلتے!
(مصنف شاعر و ادیب اطفال ہیں۔)